بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Jalalain - Nooh : 1
اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
اِنَّآ : بیشک ہم نے اَرْسَلْنَا : بھیجا ہم نے نُوْحًا : نوح کو اِلٰى قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم کی طرف اَنْ اَنْذِرْ : کہ ڈراؤ قَوْمَكَ : اپنی قوم کو مِنْ : سے قَبْلِ : اس سے پہلے اَنْ يَّاْتِيَهُمْ : کہ آئے ان کے پاس عَذَابٌ اَلِيْمٌ : عذاب دردناک
ہم نے نوح کو ان کی قوم کر طرف بھیجا کہ پیشتر اسکے کہ ان پر درد دینے والا عذاب واقع ہو اپنی قوم کو ہدایت کردو
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، یقینا ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا کہ اپنی قوم کو ڈرائو قبل اس کے کہ ان پر دنیا و آخرت میں دردناک عذاب آئے اگر وہ ایمان نہ لائے، نوح (علیہ السلام) نے فرمایا اے میری قوم ! میں تمہیں صاف صاف ڈرانے والا ہوں بایں طور کہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اللہ کی بندگی کرو اور اسی سے ڈرو اور میری بات مانو وہ تمہارے گناہوں کو معاف کر دے گا من زائدہ ہے بلاشبہ اسلام کے ذریعہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں یا من تبعیضیہ ہے حقوق العباد کو خارج کرنے کے لئے اور تم کو بلا عذاب مہلت دے گا موت کے مقررہ وقت تک یقینا تم پر اللہ کے عذاب کا وعدہ جب آجائے گا اگر تم ایمان نہ لائے تو مؤخر نہ ہوگا اگر تم اس بات کو جان لیتے تو ایمان لے آتے نوح علیہ الصلوٰۃ السلام نے کہا اے میرے پروردگار ! میں نے اپنی قوم کو رات دن ہمیشہ مسلسل تیری طرف بلایا مگر میرے بلانے سے یہ لوگ ایمان سے اور زیادہ بھاگنے لگے، میں نے انہیں جب کبھی تیری بخشش کے لئے بلایا تو انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیں تاکہ میری بات نہ سنیں اور انہوں نے اپنے کپڑے اوڑھ لئے یعنی کپڑوں سے انہوں نے اپنے سروں کو چھپالیا تاکہ مجھے نہ دیکھیں، اور وہ اپنے کفر پر ڈٹے رہے اور ایمان کے مقابلہ میں بڑا تکبر کیا پھر میں نے انہیں بآواز بلند بلایا اور پھر میں نے ان کو اعلانیہ بھی سمجھایا اور چپکے سے بھی سمجھایا اور میں نے ان سے کہا تم اپنے رب سے شرک سے معافی طلب کرو وہ یقینا بڑا بخشنے والا ہے کثرت سے تمہارے لئے زوردار بارش بھیجے گا اور وہ لوگ بارش سے محروم کردیئے گئے تھے اور تمہارے مال و اولاد میں اضافہ کرے گا اور تمہارے لئے باغات لگا دے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری کر دے گا تمہیں کیا ہوگیا کہ تم اللہ کی عظمت کے معتقد نہیں ہو، یعنی اللہ سے اپنے وقار کی امید نہیں رکھتے کہ ایمان لے آئو، حالانکہ اس نے تمہیں طرح طرح سے بنایا اطوار، طور کی جمع ہے، اس کے معنی حال کے ہیں چناچہ ایک حالت نطفے کی ہے، اور ایک حالت دم بستہ کی ہے انسان کی تخلیق کے مکمل ہونے تک اور انسان کی تخلیق میں غور کرنا اس کے خالق پر ایمان کو واجب کرتا ہے، کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے کس طرح تہ بہ تہ سات آسمان پیدا کئے، یعنی بعض کو بعض کے اوپر رکھا اور چاند کو ان میں یعنی ان کے مجموعہ میں جو سماء دنیا پر بھی صادق ہے نور بنایا اور سورج کو روشن چراغ بنایا اور وہ چاند کے نور سے قوی تر ہے اور تم کو زمین سے ایک خاص طریقہ سے پیدا کیا پھر وہ تم کو اسی میں لے جائے گا حال یہ کہ تم قبر میں مدفون ہو گے اور وہ تم کو بعث کے لئے نکالے گا اور اللہ نے زمین کو تمہارے لئے فرش بنایا تاکہ تم اس کے کشادہ راستوں میں چلو۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : ثمان او تسع و عشرون آیۃ، ثمان، ثاء کے ضمہ اور کسرہ کے ساتھ آخر سے یا حذف ہوگئی قاض کے قاعدہ سے یا یدو دم کے قاعدہ سے اصل میں ثمانی تھا۔ قولہ : بانذار اس سے اشارہ کردیا کہ ان انذر میں ان مصدریہ ہے اور تفسیر یہ بھی ہوسکتا ہے اس لئے کہ ارسال میں قول کے معنی ہیں۔ (صاوی) قولہ : بان اقول لکم کہ ان اعبدوا اللہ میں ان تفسیر یہ ہے اور مصدر یہ ہونا بھی صحیح ہے، کما سبق۔ قولہ : یغفرلکم یہ ما قبل میں مذکور تینوں امروں کا جواب ہے اور اسی وجہ سے مجزوم ہے۔ قولہ : بلا عذاب اس کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : اللہ تعالیٰ نے ویوخر کم الی اجل مسمی فرمایا حالانکہ دوسری آیت میں ” ولن یوخر اللہ نفسا اذا جاء اجلھا “ فرمایا گیا ہے دونوں میں تعارض ہے ؟ جواب : یوخر کم سے مراددنیا میں عذاب کی تاخیر ہے موت تک نہ کہ موت کے مقررہ وقت میں تاخیر ہے۔ (جمل، صاوی) قولہ : بعذابکم ان لم تومنوا اس عبارت کے اضافہ کا مقصد بھی سابقہ تعارض کو دفع کرنا ہے۔ (حاشیہ، جلالین) قولہ : لامنتم اس میں اشارہ ہے کہ لو شرطیہ ہے اور لامنتم اس کی جزاء ہے۔ تفسیر و تشریح نام : اس سورت کا نام سورة نوح ہے، اس میں اول سے آخر تک حضرت نوح (علیہ السلام) کا واقعہ تفصیل سے بیان ہوا ہے جس طرح کہ سورة یوسف میں حضرت یوسف کا قصہ بالتفصیل بیان ہوا ہے مگر دونوں میں فرق یہ ہے کہ سورة یوسف قصہ یوسف (علیہ السلام) کے لئے خاص ہے حضرت یوسف (علیہ السلام) کا قصہ قرآن میں اور کہیں نہیں آیا دیگر مقامات پر صرف نام آیا ہے برخلاف حضرت نوح (علیہ السلام) کے کہ یہ سورت مخصوص قصہ نوح کے لئے ہے مگر قصہ نوح (علیہ السلام) اس سورت کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ قرآن کریم میں دیگر 43 مقامات پر بھی مفصلاً و مجملاً حضرت نوح (علیہ السلام) کا ذکر ہے۔ (قصص القرآن، خلاصہ التفاسیر) حضرت نوح (علیہ السلام) پہلے رسول ہیں : حضرت نوح (علیہ السلام) ، حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد پہلے نبی ہیں کہ جن کو رسالت سے نوازا گیا صحیح مسلم میں باب شفاعت میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے ایک طویل روایت ہے اس میں اول رسول ہونے کی صراحت ہے۔ یا نوح انت اول الرسل الی الارض اے نوح ! تم کو زمین پر پہلا رسول بنایا گیا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کا واقعہ اجمالاً : تو رات کے بیان کے مطابق حضرت نوح (علیہ السلام) کا نسب حضرت آدم (علیہ السلام) سے آٹھ واسطوں سے ملتا ہے : نو بن لامک بن متو شالخ بن اخنوخ بن یارد بن مہلئیل بن فینان بن انوش بن شیث بن آدم (قصص القرآن) مگر یہ ظن وتخمین پر مبنی ہے یہی وجہ ہے کہ اس مسئلہ میں تورات کے مختلف نسخوں میں بھی کافی اختلاف ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بعثت سے پہلے پوری قوم خدا کی توحید اور صحیح مذہبی روشنی سے یکسر ناآشنا ہوچکی تھی اور حقیقی خدا کی جگہ خود ساختہ معبودوں نے لے لی تھی، اس قوم کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک ہادی اور اپنے سچے رسول حضرت نوح علیہ الصلوٰۃ السلام کو مبعوث کیا، حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی بدبخت قوم کو سمجھانے میں انتہائی کوشش کی اور بہت چاہا کہ رحمت الٰہی کی آغوش میں آجائے مگر قوم نے ایک نہ سنی اور جس قدر اس جانب سے تبلیغی جدوجہد ہوئی اسی قدر قوم کی جانب سے بغض وعناد میں سرگرمی کا اظہار ہوا اور ایذاء رسانی اور تکلیف دہی کے تمام ذرائع استعمال کئے گئے اور قوم کے بڑوں نے عوام الناس سے صاف صاف کہہ دیا کہ ود، سواع، یغوث، یعوق، اور نسر جیسے بتوں کی پرستش کو نہ چھوڑنا، حضرت نوح علیہ الصلوٰ ۃ والسلام ساڑھے نو سو سال کی انتھک کوشش کے نتیجے میں ایک روایت کے اعتبار سے اسی افراد سے زیادہ ایمان نہ لائے۔
Top