Tafseer-e-Jalalain - As-Saff : 6
وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُ١ؕ فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ : عیسیٰ ابن مریم نے يٰبَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : اے بنی اسرائیل اِنِّىْ رَسُوْلُ : بیشک میں رسول ہوں اللّٰهِ : اللہ کا اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف مُّصَدِّقًا لِّمَا : تصدیق کرنے والا ہوں واسطے اس کے جو بَيْنَ يَدَيَّ : میرے آگے ہے مِنَ التَّوْرٰىةِ : تورات میں سے وَمُبَشِّرًۢا : اور خوش خبری دینے والا ہوں بِرَسُوْلٍ : ایک رسول کی يَّاْتِيْ : آئے گا مِنْۢ بَعْدِي : میرے بعد اسْمُهٗٓ اَحْمَدُ : اس کا نام احمد ہوگا فَلَمَّا جَآءَهُمْ : پھر جب وہ آیا ان کے پاس بِالْبَيِّنٰتِ : ساتھ روشن دلائل کے قَالُوْا هٰذَا : انہوں نے کہا یہ سِحْرٌ مُّبِيْنٌ : جادو ہے کھلا
اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب مریم کے بیٹے عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ اے بنی اسرائیل میں تمہارے پاس خدا کا بھیجا ہوا آیا ہوں (اور) جو (کتاب) مجھ سے پہلے آچکی ہے (یعنی) تورات اس کی تصدیق کرتا ہوں اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہو (پھر) جب وہ ان لوگوں کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تو کہنے لگے کہ یہ تو صریح جادو ہے
واذ قال عیسیٰ ابن مریم یا بنی اسرائیل انی رسول اللہ الیکم حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ اس لئے بیان فرمایا کہ بنی اسرائیل نے جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کی نافرمانی کی اسی طرح انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا بھی انکار کیا، اس میں نبی کریم ﷺ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ یہ یہود آپ ﷺ ہی کے ساتھ ایسا نہیں کر رہے ہیں، بلکہ ان کی تو ساری تاریخ ہی انبیاء (علیہم السلام) کی تکذیب سے بھری پڑی ہے، تو رات کی تصدیق کا مطلب یہ ہے کہ میں جو دعوت دے رہا ہوں یہ وہی ہے جو تورات کی بھی دعوت ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ جو پیغمبر مجھ سے پہلے تو رات لے کر آئے اور اب میں انجیل لے کر آیا ہوں، ہم دونوں کا اصل ماخذ ایک ہی ہے، اس لئے جس طرح تم موسیٰ و ہارون دائود و سلیمان (علیہ السلام) پر ایمان لائے مجھ پر بھی ایمان لائو، اس لئے کہ میں تو رات کی تصدیق کرتا ہوں نہ کہ اس کی تردید و تکذیب۔ ومبشراً برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے بعد آنے والے آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ کی خوشخبری سنائی، چناچہ نبی ﷺ نے فرمایا انا دعوۃ ابراہیم و بشارۃ عیسیٰ (ایسر التفاسیر) میں اپنے باپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعاء اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت کا مصداق ہوں، عیسیٰ (علیہ السلام) نے آپ ﷺ کا صاف صاف نام لے کر خوشخبری دی ہے، آپ ﷺ کے دو مشہور نام ہیں احمد اور محمد یہاں احمد نام لیا گیا ہے، احمد اگر یہ فاعل سے مبالغہ کا صیغہ ہوت تو معنی ہوں گے، دوسرے تمام لوگوں سے اللہ کی زیادہ حمد بیان کرنے والا اور اگر یہ مفعول سے ہو تو معنی ہوں گے آپ ﷺ کی خوبیوں اور کمالات کی وجہ سے جتنی تعریف آپ ﷺ کی کی گئی اتنی کسی کی بھی نہیں کی گئی۔ (فتح القدیر) آپ ﷺ کے اسماء گرامی میں احمد بھی صحابہ کرام ؓ میں مشہور و معروف تھا، آپ ﷺ کے دادا عبدالمطلب نے آپ ﷺ کا نام محمد اور والدہ نے احمد رکھا تھا، ابو موسیٰ اشعری ؓ کی روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ” انا محمد وانا احمد والحاشر “ ” محمد “ نام رکھنے کی وجہ : ولادت کے ساتویں دن عبدالمطلب نے آپ ﷺ کا عقیقہ کیا اور اس تقریب میں تمام قریش کو دعوت دی اور محمد ﷺ آپ کا نام تجویز کیا، قریش نے کہا اے ابوالحارث ! (ابوالحارث عبدالمطلب کی کنیت ہے) آپ نے ایسا نام کیوں تجویز کیا ؟ جو آپ کے آباء و اجداد اور آپ کی قوم میں اب تک کسی نے نہیں رکھا ؟ عبدالمطلب نے کہا میں نے یہ نام اس لئے رکھا ہے کہ اللہ آسمان میں اور اللہ کی مخلوق دنیا میں اس مولود کی حمد وثناء کرے اور آپ ﷺ کی والدہ نے آپ ﷺ کا نام احمد رکھا۔ (سیرۃ المصطفی ملخصاً ) آپ ﷺ کے دادا عبدالمطلب نے آپ ﷺ کی ولادت باسعادت سے پہلے ایک خواب دیکھا تھا جو اس نام کے رکھنے کا باعث ہوا، وہ یوں ہے کہ عبدالمطلب کی پشت سے ایک زنجیر ظاہر ہوئی کہ جس کی ایک جانب آسمان میں ہے اور دوسری جانب زمین میں اور ایک جانب مشرق میں اور دوسری جانب مغرب میں کچھ دیر کے بعد وہ زنجیر درخت بن گئی جس کے ہر پتہ پر ایسا نور ہے کہ جو آسمان کے نور سے ستر درجہ زائد ہے مشرق و مغرب کے لوگ اس کی شاخوں سے لپٹے ہوئے ہیں، قریش میں سے بھی کچھ لوگ اس کی شاخوں کو پکڑے ہوئے ہیں اور قریش میں سے کچھ لوگ اس کو کاٹنے کا ارادہ کرتے ہیں، یہ لوگ جب اس ارادے سے اس درخت کے قریب آنا چاہتے ہیں تو ایک نہایت حسین و جمیل نوجوان ان کو آ کر ہٹا دیتا ہے۔ (سیرۃ المصطفی) عبدالمطلب کے خواب کی تعبیر : معبرین نے عبدالمطلب کے اس خواب کی یہ تعبیر دی کہ تمہاری نسل سے ایک ایسا لڑکا پیدا ہوگا کہ مشرق سے لیکر مغرب تک، لوگ اس کی اتباع کریں گے اور آسمان و زمین والے اس کی حمد وثناء کریں گے، اس وجہ سے عبدالمطلب نے آپ ﷺ کا نام محمد رکھا ادھر آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ کو رویائے صالحہ کے ذریعہ سے یہ بتلایا گیا کہ تم برگزیدہ خلائق سید الامم سے حاملہ ہو اس کا نام محمد رکھنا اور ایک روایت میں ہے احمد رکھنا، حضرت بریدہ ؓ اور ابن عباس ؓ کی روایت میں یہ ہے کہ محمد اور احمد نام رکھنا۔ (خصائص الکبریٰ ، سیرۃ المصطفی) انجیل میں محمد کی بجائے احمد نام سے بشارت کی مصلحت : مبشراً برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے آنے والے رسول کا نام احمد بتایا ہے، آپ ﷺ کا نام بھی احمد تھا اور محمد بھی اور دیگر نام بھی، مگر انجیل میں احمد کے نام سے بشارت دی گئی ہے اور یہ دونوں ہی نام ایسے تھے کہ اس سے پہلے کسی کے نہیں رکھے گئے، حافظ ابن سید الناس عیون الاثر میں فرماتے ہیں کہ حق جل شانہ نے عرب اور عجم کے دلوں اور زبانوں پر ایسی مہر لگائی کہ کسی کو محمد اور احمد نام رکھنے کا خایل ہی نہ آیا، اسی وجہ سے قریش نے متعجب ہو کر عبدالمطلب سے یہ سوال کیا کہ آپ نے یہ نیا نام کیوں تجویز کیا ؟ جو آپ کی قوم میں کسی نے نہیں رکھا، لیکن ولادت سے کچھ عرصہ پہلے لوگوں نے جب علماء بنی اسرائیل کی زبانی یہ سنا کہ عنقریب محمد اور احمد نام سے ایک نبی سے ایک نبی پیدا ہونے والا ہے تو چند لوگوں نے اسی امید پر اپنی اولاد کا نام محمد رکھا مگر خدا کی مشیت کہ ان میں سے کسی نے بھی نبوت کا دعویٰ نہیں کیا۔ (سیرۃ المصطفی) انجیل میں محمد رسول اللہ ﷺ کی بشارت : انجیل برناباس جس کے متعلق ہم مضمون کے آخر میں تفصیلی گفتگو کریں گے، اس کے باب 17 میں آپ ﷺ کی آمد کی خوشخبری دی گئی ہے، ہم ان میں سے چار بشارتیں نقل کرتے ہیں۔ پہلی بشارت : تمام انبیاء جن کو خدا نے دنیا میں بھیجا جن کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی انہوں نے ابہام کے ساتھ بات کی مگر میرے بعد تمام انبیاء اور مقدس ہستیوں کا نور آئے گا جو انبیاء کی کہی ہوئی باتوں کے اندھیرے پر روشنی ڈال دے گا کیوں کہ وہ خدا کا رسول ہے۔ فریسیوں اور لاویوں نے کہا اگر نہ تو مسیح ہے اور نہ الیاس اور نہ کوئی اور نبی، تو کیوں تو نئی تعلیم دیتا ہے ؟ اور اپنے آپ کو مسیح سے بھی زیادہ بنا کر پیش کرتا ہے ؟ یسوع نے جواب دیا، جو معجزے خدا میرے ہاتھ سے دکھاتا ہے وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ میں وہی کچھ کہتا ہوں جو خدا چاہتا ہے ورنہ درحقیقت میں اپنے آپ کو اس (مسیح) سے بڑا شمار کئے جانے کے قابل نہیں قرار دیتا جس کا تم ذکر کر رہے ہو، میں تو خدا کے اس رسول کے موزے کے بند، یا اس کے جوتی کے تسمے کھولنے کے لائق بھی نہیں ہوں جس کو تم مسیح کہتے ہو، جو مجھ سے پہلے بنایا گیا تھا اور میرے بعد آئیگا اور صداقت کی باتیں لیکر آئے گا، تاکہ اس کے دین کی کوئی انتہا نہ ہو۔ (باب 73) دوسری بشارت : بالیقین میں تم سے کہتا ہوں کہ ہر نبی جو آیا ہے وہ صرف ایک قوم کے لئے خدا کی رحمت کا نشان بن کر پیدا ہوا ہے، اسی وجہ سے ان انبیاء کی باتیں ان لوگوں کے سوا اور کہیں نہیں پھیلیں جن کے لئے وہ بھیجے گئے تھے، مگر خدا کا رسول جب آئے گا خدا کو یا اس کو اپنے ہاتھ میں مہر دے دیگا یہاں تک کہ وہ دنیا کی تمام قوموں کو جو اس کی تعلیم پائیں گی، نجات اور رحمت پہنچا دے گا، وہ بے خدا لوگوں پر اقتدار لے کر آئے گا، اور بت پرستی کا ایساقلع قمع کرے گا کہ شیطان پریشان ہوجائے گا، اس کے آگے ایک طویل مکالمہ میں شاگردوں کے ساتھ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تصریح کرتے ہیں کہ وہ بنی اسماعیل میں سے ہوگا۔ (باب 73) میرے جانے سے تمہارا دل پریشان نہ ہو، نہ تم خوف کرو، کیونکہ میں نے تم کو پیدا نہیں کیا ہے، بلکہ خدا ہمارا خالق ہے، جس نے تمہیں پیدا کیا ہے، وہی تمہاری حفاظت کرے گا، رہا میں ! تو اس وقت میں دنیا میں اس رسول خدا کے لئے راستہ تیار کرنے آیا ہوں جو دنیا کے لئے نجات لے کر آئے گا، اندر یاس نے کہا، اساتذ ہمیں اس کی نشانی بتادے، تاکہ ہم اسے پہچان لیں، یسوع نے جواب دیا، وہ تمہارے زمانہ میں نہیں آئے گا، بلکہ تمہارے کچھ سال بعد آئے گا جب کہ میری انجیل ایسی مسخ ہوچکی ہوگی کہ مشکل سے کوئی 30 آدمی مومن باقی رہ جائیں گے، اس وقت اللہ دنیا پر رحم فرمائے گا، اور اپنے رسول کو بھیجے گا، جس کے سر پر بادل کا سایہ ہوگا، جس سے وہ خدا کا برگزیدہ جانا جائے گا اور اس کی تقدیس ہوگی اور میری صداقت دنیا کو معلوم ہوگی اور وہ ان لوگوں سے اتنقام لے گا جو مجھے انسان سے بڑھ کر کچھ قرار دیں گے، وہ ایک ایسی صداقت کے ساتھ آئے گا جو تمام انبیاء کی لائی ہوئی صداقت سے زیادہ واضح ہوگی۔ (باب 82) تیسری بشارت : خدا کا عہد یروشلم میں معہد سلیمان کے اندر کیا گیا تھا نہ کہ کہیں اور، مگر میری بات کا یقین کرو کہ ایک وقت آئے گا جب خدا اپنی رحمت ایک اور شہر میں نازل فرمائے گا، پھر ہر جگہ اس کی صحیح عبادت ہو سکے گی اور اللہ اپنی رحمت سے ہر جگہ سچی نماز قبول فرمائے گا، میں دراصل اسرائیل کے گھرانے کی طرف نجات کا نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں، مگر میرے بعد مسیح آئے گا خدا کا بھیجا ہوا تمام دنیا کی طرف، جس کے لئے خدا نے یہ ساری دنیا بنائی ہے اس وقت ساری دنیا میں اللہ کی عبادت ہوگی اور اس کی رحمت نازل ہوگی۔ (باب 83) چوتھی بشارت : (یسوع نے سردار کاہن سے کہا) زندہ خدا کی قسم جس کے حضور میری جان حاضر ہے، میں وہ مسیح نہیں ہوں جس کی آمد کا دنیا کی تمام قومیں انتظار کر رہی ہیں، جس کا وعدہ خدا نے ہمارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) سے یہ کہہ کر کیا تھا کہ تیری نسل کے وسیلے سے زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی، (پیدائش 18:22) مگر خدا جب مجھ دنیا سے لے جائیگا تو شیطان پھر یہ بغاوت برپا کرے گا کہ ناپرہیز گار لوگ مجھے خدا اور خدا کا بیٹا مانیں، اس کی وجہ سے میری باتوں اور میری تعلیمات کو مسخ کردیا جائے گا، یہاں تک کہ بمشکل 30 موجب ایمانی باقی رہ جائیں گے، اس وقت خدا دنیا پر رحم فرمائے گا اور اپنا رسول بھیجے گا، جس کے لئے اس نے دنیا کی یہ ساری چیزیں بنائی ہیں، جو قوت کے ساتھ جنوب سے آئے گا اور بتوں کو بت پرستوں کے ساتھ برباد کر دے گا، جو شیطان سے وہ اقتدار چھین لے گا جو اس نے انسانوں پر حاصل کرلیا ہے، وہ خدا کی رحمت ان لوگوں کی نجات کے لئے اپنے ساتھ لائے گا جو اس پر ایمان لائیں گے اور مبارک ہے وہ جو اس کی باتوں کو مانے۔ (باب 96) سردار کاہن نے پوچھا کیا خدا کے اس رسول کے بعد دوسرے نبی بھی آئیں گے ؟ یسوع نے جواب دیا، اس کے بعد خدا کے بھیجے ہوئے سچے نبی نہیں آئیں گے، مگر بہت سے جھوٹے نبی آجائیں گے جس کا مجھے بڑا غم ہے، کیونکہ شیطان خدا کے عادلانہ فیصلے کی وجہ سے ان کو اٹھائے گا اور میری انجیل کے پردے میں اپنے آپ کو چھپائیں گے۔ (باب 98) سردار کاہن نے پوچھا وہ نبی کس نام سے پکارا جائے گا اور کیا نشانیاں اس کی آمد کو ظاہر کریں گی ؟ یسوع نے جواب دیا، اس مسیح کا نام قابل تعریف ہے کیونکہ خدا نے جب اس کی روح پیدا کی تھی اس وقت اس کا یہ نام خود رکھا تھا اور وہاں اسے ایک ملکوتی شان میں رکھا گیا تھا خدا نے کہا، اے محمد ! انتظار کر، کیونکہ تیری ہی خاطر میں جنت، دنیا اور بہت سی مخلوق پیدا کروں گا اور اس کو تجھے تحفے کے طور پر دوں گا، یہاں تک کہ جو تیری تعریف کے گا اسے برکت دی جائے گی اور جو تجھ پر لعنت کرے گا اس پر لعنت کی جائے گی، جب میں تجھے دنیا کی طرف بھیجوں گا تو میں تجھ کو اپنے پیغامبر نجات کی حیثیت سے بھیجوں گا، تیری بات سچی ہوگی یہاں کہ زمین و آسمان مل جائیں گے مگر تیرا دین نہیں ٹلے گا، سو اس کا مبارک نام محمد ہے۔ (باب 98) برناباس لکھتا ہے کہ ایک موقع پر شاگردوں کے سامنے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بتایا کہ میرے ہی شاگردوں میں سے ایک (جو بعد میں یہود اہ اسکر یوتی نکلا) مجھے 30 سکوں کے عوض دشمنوں کے ہاتھ بیچ دے گا، پھر فرمایا : اس کے بعد مجھے یقین ہے کہ جو مجھے بیچے گا وہی میرے نام سے مارا جائے گا، کیونکہ خدا مجھے زمین سے اوپر اٹھا لیگا، اور اس غدار کی صورت ایسی بدل دے گا کہ شخص یہ سمجھے گا کہ وہ میں ہی ہوں، مگر جب وہ ایک بری موت مرے گا تو ایک مدت تک میری ہی تذلیل ہوتی رہے گی، مگر جب محمد ﷺ خدا کا مقدس رسول آئے گا تو میری وہ بدنامی دور کردی جائیگی، اور خدا یہ اس لئے کرے گا کہ میں نے اس مسیح کی صداقت کا اقرار کیا ہے، وہ مجھے اس کا یہ انعام دے گا تاکہ لوگ یہ جان لیں گے کہ میں زندہ ہوں اور اس ذلت کی موت سے میرا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ (باب 113) حواری بربنا باس کا تعارف : انجیل برنابا (یا) برناباس، کا تعارف کرانے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ برناباس کے حالات زندگی پر روشنی ڈالی جائے تاکہ معلوم ہوجائے کہ برناباس کون ہے ؟ اور حواریوں میں اس کا مقام کیا تھا ؟ اور ان کے عقائد و نظریات کیا تھے ؟ برناباس حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں میں سے ایک جلیل القدر حواری ہیں، انجیل برناباس ان ہی کی طرف منسوب ہے، دوسرے حواریوں کی طرح انہوں نے بھی حضرت مسیح (علیہ السلام) کی سوانح حیات اور آپ کے اشادات کو جمع کیا تھا لیکن یہ انجیل عرصہ دراز سے غائب تھی، گم شدہ کتابوں میں اس کا ذکر آیا کرتا تھا، برناباس حواری کے تعارف کے سلسلہ میں ایک جملہ پولوس کے شاگرد لوقا کی کتاب الاعمال میں ملتا ہے وہ لکھتے ہیں۔ اور یوسف نام کا ایک لاوی تھا جس کا لقب رسولوں نے برناباس یعنی نصیحت کا بیٹا رکھا تھا اور جس کی پیدائش کپرس کی تھی، اس کا ایک کھیت تھا جسے اس نے بیچا اور قیمت لا کر (حواریوں) رسولوں کے پائوں پر رکھ دی۔ (اعمال 3: و 38, 36 بحوالہ بائبل سے قرآن تک، حاشیہ، ص :361) اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ برناباس حواریوں میں بلند مقام کے حامل تھے، اسی وجہ سے حواریوں نے ان کا نام نصیحت کا بیٹا رکھ دیا تھا، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ انہوں نے خدا کی رضا جوئی کی خاطر اپنی ساری دنیوی پونجی تبلیغی مقاصد کے لئے صرف کردی تھی۔ اس کے علاوہ برناباس کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ انہوں نے ہی تمام حواریوں سے پولیس کا تعارف کرایا تھا، حواریوں میں سے کوئی یہ یقین کرنے کے لئے تیار نہ تھا کہ وہ سائول (پولس) جو کل تک ہم لوگوں کو ستاتا اور تکلیف پہنچاتا رہا ہے آج اخلاص کے ساتھ ہمارا دوست اور ہم مذہب ہوسکتا ہے لیکن یہ برناباس ہی تھے جنہوں نے تمام حواریوں کے سامنے پولیس کی تصدیق کی اور انہیں بتایا کہ یہ فی الواقع تمہارا ہم مذہب ہوچکا ہے، چناچہ لوقا، پولس کے بارے میں لکھتا ہے۔ اس نے یروشلم میں پہنچ کر شاگردوں (حواریوں) میں مل جانے کی کوشش کی اور سب اس سے ڈرتے تھے کیونکہ ان کو یقین نہیں آتا تھا کہ یہ شاگرد ہے مگر برناباس نے اسے اپنے ساتھ رسولوں کے پاس لے جا کر ان سے بیان کیا کہ اس نے اس اس طرح راہ خدا کو دیکھا اور اس نے اس سے باتیں کیں اور اس نے دمشق میں کیسی دلیری کے ساتھ یسوع کے نام سے منا دی کی۔ (اعمال 28, 26, 9 بحوالہ مذکور) اس کے بعد کتاب الاعمال ہی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پولس اور برناباس عرصہ دراز تک ایک دوسرے کے ہم سفر رہے اور انہوں نے ایک ساتھ تبلیغ عیسائیت کا فریضہ انجام دیا، یہاں تک کہ دوسرے حواریوں نے ان دونوں کے بارے میں یہ شہادت دی کہ یہ دونوں ایسے آدمی ہیں کہ جنہوں نے اپنی جانیں ہمارے خداوند یسوع مسیح کے نام پر نثار کر رکھی ہیں۔ (اعمال 26:10) کتاب الاعمال کے پندرہویں باب تک برناباس اور پولیس ہر معاملہ میں شیر و شکر نظر آتے ہیں، لیکن اس کے بعد اچانک ایک ایسا واقعہ پیش آتا ہے جو بطور خاص توجہ کا مستحق ہے، اتنے عرصہ ساتھ رہنے اور تبلیغ و دعوت میں اشتراک کے بعد اچانک دونوں میں اس قدر سخت اختلاف پیدا ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کے ووادار نہیں تھے، یہ واقعہ کتاب الاعمال کے بیان کے مطابق کچھ اس قدر ناگہانی اور ڈرامائی انداز سیپیش آیا کہ قاری پہلے سے اس کا مطلق اندازہ نہیں لگا سکتا لوقا لکھتے ہیں۔ ایک روز پولیس نے برناباس سے کہا جن جن شہروں میں ہم نے خدا کا کلام سنایا تھا آئو پھر ان میں چل کر بھائیوں کو دیکھیں کہ کیسے ہیں، اور بربناباس کا مشورہ تھا کہ یوحنا (جو مرقس کہلاتا ہے) کو بھی لے چلیں، اس میں دونوں میں ایسی تکرار ہوئی کہ ایک دوسرے سے جدا ہوگئے۔ (کتاب الاعمال :35, 10 تا 031 بحوالہ مذکورہ) کیا اتنا شدید اختلاف صرف اس بنا پر ہوسکتا ہے کہ ایک شخص یوحنا کو رفیق سفر بنانا چاہتا ہے اور دوسرا سیل اس کو ؟ پھر لطف کی بات یہ ہے کہ بعد میں پولیس یوحنا (مرقس) کی رفاقت کو گوارا کرلیتا ہے، چناچہ تیمیتھیس کے نام دوسرے خط میں وہ لکھتا ہے : مرقس کو ساتھ لے کر آجا، کیونکہ خدمت کے لئے وہ میرے کام کا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مرقس سے پولیس کا اختلاف بہت زیادہ اہمیت کا حامل نہ تھا اس لئے اس نے بعد میں اس کی رفاقت کو گوارا کرلیا، لیکن پورے عہد نامہ جدید یا تاریخ کی کسی اور کتاب میں یہ کہیں نہیں ملتا کہ بعد میں برنا باس کے ساتھ بھی پولس کے تعلقات استوار ہوگئے، اگر جھگڑے کی وجہ مرقس ہی تھا تو اس کے ساتھ پولس کی رضا مندی کے بعد برناباس اور پولس کے تعلقات کیوں استوار نہیں ہوئے ؟ جب ہم خود پولس کے خطوط میں برناباس سے اس کی ناراضی کے اسباب تلاش کرتے ہیں تو ہمیں یہ کہیں نہیں ملتا کہ برناباس سے اس کی ناراضیکا سبب یوحنا (مرقس) تھا، اس کے برخلاف ہمیں ایک جملہ ایسا ملتا ہے جس سے دونوں کے اختلاف کے اصل سبب پر کسی قدر روشنی پڑتی ہے گلتیوں کے نام اپنے خط میں پولس لکھتا ہے۔ لیکن جب کیفا (یعنی پطرس) انطاکیہ میں آیا تو میں نے روبرو ہو کر اس کی مخالفت کی کیونکہ وہ ملامت کے لائق تھا، اس لئے کہ یعقوب کی طرف سے چند شخصوں کے آنے سیپہلے تو وہ غیر قوم والوں کے ساتھ کھایا کرتا تھا، مگر جب وہ آگئے تو مختونوں سے ڈر کر باز رہا اور کنارہ کش ہوگیا اور باقی یہودیوں نے بھی اس کے ساتھ ہو کر ریا کاری کی، یہاں تک کہ برناباس بھی ان کے ساتھ ریا کاری میں پڑگیا۔ (گلتبون 2: تا 31، حاشیہ بائبل سے قرآن تک، ص : 563 ملخصاً ) اس خط میں پولس دراصل اس اختلاف کو ذکر کر رہا ہے جو حضرت مسیح کے عروج آسمانی کے کچھ عرصہ بعد یروشلم اور انطاکیہ کے عیسائیوں میں پیش آیا تھا، یروشلم کے اکثر لوگ پہلے یہودی تھے اور انہوں نے بعد میں عیسائی مذہب قبول کیا تھا اور انطاکیہ کے اکثر لوگ پہلے بت پرست یا آتش پرست تھے اور حواریوں کی تعلیم و تبلیغ سے عیسائی ہوئے تھے، پہلی قسم کو بائبل میں یہودی مسیحی اور دوسری قسم کو غیر قوم کے لوگ کہا گیا ہے، یہودی مسیحیوں کا کہنا یہ تھا کہ ختنہ کرانا اور موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت کی تمام رسموں پر عمل کرنا ضروری ہے اس لئے انہیں مختون بھی کہا جاتا ہے اور غیر قوموں کا کہنا یہ تھا کہ ختنہ ضروری نہیں، اس لئے انہیں نا مختون کہا جاتا ہے اس کے علاو یہودی مسیحیوں میں چھوت چھات کی رسم بھی جاری تھی اور وہ غیرقوموں کے ساتھ کھانا پینا اور اٹھنا بیٹھنا پسند نہ کرتے تھے، پولس اس معاملہ میں سو فیصد غیر قوموں کا حامی تھا اور ختنہ اور دوسری شریعت کی رسوم کی منسوخی اس کے انقلاب انگیز نظریات میں سے ایک نظریہ ہے، جسے ثابت کرنے کے لئے اس نے اپنے خطوط میں جا بجا مختلف دلائل پیش کئے ہیں، (جن کا ذکر یہاں غیر ضروری ہے۔ ) اوپر ہم نے گلتیون کے نام کی جو عبارت پیش کی ہے اس میں پولیس نے جناب پطرس اور برناباس پر اسی لئے ملامت کی کہ انہوں نے انطاکیہ میں رہتے ہوئے مختونوں (یعنی یہودی مسیحیوں) کا ساتھ دیا اور پولس کے ان نئے مریدوں سے علیحدگی اختیار کی جو ختنہ اور دوسری شریعت کے قائل نہ تھے چناچہ اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے پادری جے پیٹرسن اسمتھ لکھتے ہیں : پطرس اسی اجنبی شہر (انطاکیہ) میں زیادہ تر ان لوگوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے جو یروشلم سے آئے تھے اور جو اس کے پرانے ملاقاتی تھے، لہٰذا وہ بہت جلد ان کا ہم خیال ہونے لگتا ہے دوسرے مسیحی یہودی پطرس سے متاثر ہوتے ہیں یہاں تک کہ برناباس بھی غیر قوم مریدوں سے علیحدگی اختیار کرنے لگتا ہے، اس قسم کے سلوک کو دیکھ کر ان نئے مریدوں کی دلشکنی ہوتی ہے، جہاں تک ممکن ہے پولس اس بات کو برداشت کرتا ہے، مگر بہت جلد وہ اس کا مقابلہ کرتا ہے، گو ایسا کرنے سے اسے اپنے ساتھیوں کی مخالفت کرنا پڑتی ہے۔ (حاشیہ بائبل سے قرآن تک ص :366) واضح رہے کہ یہ واقعہ برناباس اور پولس رسول کی جدائی سے چند ہی دن پہلے کا ہے، اس لئے کہ انطاکیہ میں پطرس کی آمد یروشلم میں حواریوں کے اجتماع کے بعد ہوئی تھی، اور یروشلم کے اجتماع اور برناباس کی جدائی میں زیادہ فاصلہ نہیں ہے، لوقا نے دونوں واقعات کتاب الاعمال کے باب 15 میں بیان کئے ہیں۔ اس لئے یہ بات انتہائی قرین قیاس ہے کہ پولس اور بربناباس کی وہ جدائی جس کا ذکر لوقا نے غیر معمولی طور پر سخت الفاظ میں کیا ہے، یوحنا (مرقس) کی ہمسفری سے زیادہ اس بنیادی اور نظریاتی اختلاف کا نتیجہ تھی، پولس اپنے نئے مریدوں کے لئے ختنہ اور دوسری شریعت کے احکام کو ضروری نہیں سمجھتا تھا اور اس نے چار چیزوں کے سوا ہر گوشت حلال کردیا تھا اور برناباس ان احکام کو پس پشت ڈالنے کے لئے تیار نہ تھا جو بائبل میں انتہائی تاکید کے ساتھ ذکر کئے گئے ہیں۔ (مثلاً ) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے خطاب ہے :” اور میرا عہد جو میرے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے اور جسے تم مانو گے سو یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک فرزند نرینہ کا ختنہ کیا جائے اور تم اپنے بدن کی کھلڑی کا ختنہ کیا کرنا اور یہ اس عہد کا نشان ہوگا جو میرے اور تمہارے درمیان ہے تمہارے یہاں پشت در پشت ہر لڑکے کا ختنہ جب وہ آٹھ روز کا ہو کیا جائے، خواہ وہ گھر میں پیدا ہو خواہ اسے کسی پردیسی سے خریدا ہو، جو تیری نسل سے نہیں، لازم ہے کہ تیرے خانہ زاد اور تیرے زر خرید کا ختنہ کیا جائے اور میرا عہد تمہارے جسم پر ابدی عہد ہوگا اور وہ فرزند نرینہ جس کا ختنہ نہ ہوا ہو اپنے لوگوں میں کاٹ ڈالا جائے کیونکہ اس نے میرا عہد توڑا۔ “ (پیدائش 1:18 تا 13) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے خطاب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ : ” اور آٹھویں دن لڑکے کا ختنہ کیا جائے۔ “ (احیاء 3:12 بحوالہ مذکور) او خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بھی ختنہ کی گئی تھی، چناچہ انجیل لوقا میں ہے ” اور جب آٹھ دن پورے ہوئے اور ان کی ختنہ کا وقت آیا تو اس کا نام یسوع رکھا گیا۔ “ (لوقا 21:2) اس کے بعد حضرت مسیح (علیہ السلام) کا کوئی ارشاد ایسا منقول نہیں ہے کہ جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ ختنہ کا حکم منسوخ ہوگیا ہے۔ لہٰذا یہ بات عین قرین قیاس ہے کہ وہ برناباس جس نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے براہ راست ملاقات کا شرف حاصل کیا تھا، پولس سے اس بنا پر برگشتہ ہوا ہو کہ وہ ایک عرصہ دراز تک اپنے آپ کو سچا عیسائی ظاہر کرنے کے بعد مذہب عیسوی کے بنیادی عقائد و احکام میں تحریف کا مرتکب ہو رہا تھا، شروع میں برنا باس نے پولس کا ساتھ اس لئے دیا تھا کہ وہ اسے مخلص عیسائی سمجھتے تھے، لیکن جب اس نے غیر اقوام کو اپنا مرید بنانے کے لئے مذہب کی بنیادوں کو منہدم کرنے اور ایک نئے مذہب کی بنیاد ڈالنے کا سلسلہ شروع کیا تو وہ اس سے جدا ہوگئے، اور اسی بنا پر لتیوں کے نام خط میں برناباس کو ملامتک رتے ہوئے یہ لکھتا ہے : ” مگر جب وہ آگئے تو مختونوں سے ڈر کر باز رہا اور کنارہ کیا اور باقی یہودیوں نے بھی اس کی طرح ریا کاری کی، یہاں تک کہ برناباس بھی ان کے ساتھ ریا کاری میں پڑگیا۔ “ (گلتیوں :13:2) اس بات کو پادری جے پیٹرسن اسمتھ بھی محسوس کرتے ہیں کہ پولس اور برناباس کی جدائی کا سبب صرف مرقس (یوحنا) نہ تھا بلکہ اس کے پس پشت یہ نظریاتی اختلاف بھی کام کر رہا تھا، چناچہ وہ لکھتے ہیں : ” برناباس اور پطرس نے جو کہ بڑے عالی حوصلہ شخص تھے ضرو اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا ہوگا اور یوں وہ وقت دور ہوجاتی ہے، لیکن باوجود اس کے یہ احتمال ضرور گذرتا ہے کہ ان کے درمیان کچھ نہ کچھ رنجش رہ جاتی ہے جو بعد میں ظاہر ہوتی ہے۔ “ (حیات وخطوط، پولس 90, 89) انجیل برناباس کا تعارف : مندرجہ بالا بحث کو ذہن میں رکھ کر اب انجیل برناباس پر آجایئے ہمیں اس انجیل کے بالکل شروع میں جو عبارت ملتی ہے وہ یہ ہے : اے عزیزو ! اللہ نیجو عظیم اور عجیب ہے اور آخری زمانہ میں ہمیں اپنے نبی یسوع مسیح کے ذریعہ ایک عظیم رحمت سے آزمایا، اس تعلیم اور آیتوں کے ذریعہ جنہیں شیطان نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کرنے کا ذریعہ بنایا، جو تقوے کا دعویٰ کرتے ہیں اور سخت کفر کی تبلیغ کرتے ہیں، مسیح کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں ختنہ کا انکار کرتے ہیں جس کا اللہ نے ہمیشہ کے لئے حکم دیا ہے اور ہر نجس گوشت کو جائز کہتے ہیں انہی کے زمرے میں پولس بھی گمراہ ہوگیا جس کے بارے میں میں کچھ نہیں کہہ سکتا مگر افسوس کے ساتھ، اور وہی سبب ہے جس کی وجہ سے وہ حق بات لکھ رہا ہوں جو میں نے یسوع کے ساتھ رہنے کے دوران سنی اور دیکھی ہے تاکہ تم نجات پائو اور تمہیں شیطان گمراہ نہ کرے، اور تم اللہ کی حق میں ہلاک نہ ہوجائو، اور اس بنا پر ہر اس شخص سے بچو جو تمہیں کسی نئی تعلیم کی تبلیغ کرتا ہے جو میرے لکھنے کے خلاف ہو، تاکہ تم ابدی نجات پائو۔ (برناباس :2 تا 9) کیا یہ عنیقرین قیاس نہیں ہے کہ پولس سے نظریاتی اختلاف کی بنا پر جدا ہونے کے بعد برناباس نے جو عرصہ دراز تک حضرت مسیح (علیہ السلام) کے ساتھ رہے تھے، حضرت مسیح (علیہ السلام) کی ایک سوانح لکھی ہو اور اس میں پولس کے نظریات پر تنقید کر کے صحیح عقائد و نظریات بیان کئے ہوں ؟ خلاصہ کلام یہ ہے کہ خود بائبل میں برناباس کا جو کردار پیش کیا گیا ہے اس میں پولس کے ساتھ ان کے جن اختلافات کا ذکر ہے ان کے پیش نظر یہ بات چنداں بعید نہیں ہے کہ برناباس نے ایک ایسی انجیل لکھی ہو جس میں پولس کے عقائد و نظریات پر تنقید کی گئی ہو اور وہ مروجہ عیسائی عقائد کے خلاف ہو، اگر یہ بات ذہن نشین ہوجائے تو انجیل برناباس کو برناباس کی تصنیف سمجھنے کے راستہ سے ایک بہت بڑی رکاوٹ دور ہوگئی، اس لئے کہ عام لوگوں، بالخصوص عیسائی حضرات کے دل میں اس کتاب کی طرف سے ایک بہت بڑا بلکہ سب سے بڑا شبہ اسی وجہ سیپیدا ہوتا ہے کہ انہیں اس میں بہت سی باتیں ان نظریات کے خلاف نظر آتی ہیں جو پولس کے واسطے سے پہنچی ہیں وہ دیکھتے ہیں کہ اس کتاب کی بہت سی باتیں اناجیل اربعہ اور مروجہ عیسائی نظریات کے خلاف ہیں تو وہ کسی طرح یہ باور کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے کہ یہ واقعی برنا باس کی تصنیف ہے۔ لیکن اوپر جو گذارشات ہم نے پیش کی ہیں ان کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اگر برناباس کی کسی تصنیف میں پولس کے عقائد و نظریات کے خلاف کوئی عقیدہ یا واقعہ بیان کیا گیا ہو تو وہ کسی طرح تعجب خیز نہیں ہوسکتا اور محض اس بنا پر اس تصنیف کو جعلی نہیں قرار دیا جاسکتا کہ وہ پولس کے نظریات کے خلاف ہے، اس لئے کہ مذکورہ بالا بحث سییہ بات واضح ہوگئی کہ پولس اور برناباس میں کچھ نظریاتی اختلاف تھا جس کی بنا پر وہ ایک دوسرے سے الگ ہوگئے تھے۔ اس بنیادی نکتے کو قدرے تفصیل اور ضاحت سے ہم نے اس لئے بیان کیا ہے تاکہ انجیل برناباس کی اصلیت کی تحقیق کرتے ہوئے وہ غلط تصور ذہن سے دور ہوجائے جو عام طور سے شعوری یا غیر شعوری طور پر ذہن میں آہی جاتا ہے، اس کے بعد آیئے دیکھیں کہ کیا واقعی برناباس نے کوئی انجیل لکھی تھی ؟ جہاں تک ہم نے اس موضوع پر مطالعہ کیا ہے اس بات میں دورائیں نہیں ہیں کہ برناباس نے ایک انجیل لکھی تھی، عیسائیوں کے قدیم مآخ میں برناباس کی انجیل کا تذکرہ ملتا ہے اظہار الحق میں (ص : 234، ج :1) پر اکیہو مو کے حوالہ سے جن کم شدہ کتابوں کی فہرست نقل کی گئی ہے اس میں انجیل برناباس کا نام بھی موجود ہے امریکاناس، (ص :262، ج :3) کے مقالہ برناباس میں بھی اس کا اعتراف کیا گیا ہے، چونکہ انجیل برناباس دوسری انجیلوں کی طرح رواج نہیں پاس کی، اس لئے کسی غیر جانبدار کتاب سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ اس کے مضامین کیا تھے، لیکن کلیسا کی تاریخ میں یہیں ایک واقعہ ایسا ملتا ہے جس سے اس کے مندرجات پر ہلکی سی روشنی پڑتی ہے، اور جس سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ برناباس کی انجیل میں عیسائیوں کے عام عقائد و نظریات کے خلاف کچھ باتیں موجود تھیں، وہ واقعہ یہ ہے کہ پانچویں صدی عیسوی میں یعنی آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری سے بہت پہلے ایک پوپ جیلاشیس اول کے نام سے گذرا ہے اس نے اپنے دور میں ایک فرمان جاری کیا تھا جو فرمان ” جیلا شیس “ کے نام سے مشہور ہے اس فرمان میں اس نے چند کتابوں کے پڑھنے کو ممنوع قرار دیا تھا ان کتابوں میں سے ایک کتاب انجیل برنا باس بھی ہے۔ (دیکھئے انسائیکلوپیڈیا امریکانا، ص 262، ج 3، مقالہ پر ناباس، اور مقدمہ انجیل پر ناباس از ڈاکٹر خلیل سعادت مسیحی) انجیل برناباس کی مخالفت کی اصل وجہ : عیسائی جس وجہ سے انجیل برناباس کے مخالف ہیں وہ دراصل یہ نہیں کہ اس میں رسول اللہ ﷺ کے متعلق جگہ جگہ صاف اور واضح بشارتیں ہیں، کیونکہ وہ تو حضور ﷺ کی پیدائش سے بہت پہلے اس انجیل کو رد کرچکے تھے، ان کی ناراضگی کی اصل وجہ کو سمجھنے کے لئے تھوڑی سی تفصیلی بحث درکار ہے۔ حضرت عیسیٰ کے ابتدائی پیرو آپ کو صرف نبی مانتے تھے، دوسری شریعت کا اتباع کرتے تھے، عقائد اور احکام اور عبادات کے معاملہ میں اپنے آپ کو دوسری نبی اسرائیل سے قطعاً الگ نہ سمجھتے تھے اور یہودیوں سے ان کا اختلاف صرف اس امر میں تھا کہ یہ حضرت عیسیٰ کو مسیح تسلیم کر کے ان پر ایمان لائے تھے اور وہ ان کو مسیح ماننے سے انکار کرتے تھ، بعد میں جب سینٹ پال (پولس) اس جماعت میں داخل ہوا تو اس نے رومیوں، یونانیوں اور دوسرے غیر یہودی اور غیر اسرائیلی لوگوں میں بھی اس دین کی تبلیغ و اشاعت شروع کردی اور اس غرض کے لئے ایک نیا دین بنا ڈالا جس کے عقائد و اصول اور اکام اس دین سے بالکل مختلف تھے جسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے پیش کیا تھا اس شخص نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی کوئی صحبت نہیں پائی تھی بلکہ ان کے زمانہ میں وہ ان کا سخت مخالف تھا اور ان کے بعد بھی کئی سال تک ان کے پیروئوں کا دشمن رہا، پھر جب اس جماعت نے ان سے ایک نیا دین بنانا شروع کیا اس وقت بھی اس نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے کسی قول کی سند پیش نہیں کی بلکہ اپنے کشف والہام کو بنیاد بنایا اس نئے دین کی تشکیل میں اس کے پیش نظر بس یہ مقصد تھا کہ دین ایسا ہو جسے عام غیر یہودی دنیا قبول کرے، اس نے اعلان کردیا کہ ایک عیسائی شریعت یہود کی تمام پابندیوں سے آزاد ہے اس نے کھانے پینے میں حرام و حلال کی تمام قیود ختم کردیں، اس نے ختنہ کے حکم کو بھی منسوخ کردیا جو غیر یہودی دنیا کو خاص طور سے ناگوار تھا حتی کہ اس نے مسیح کی الوہیت اور اس کے ابن خدا ہونے کا اور صلیب پر جان دیکر اولا آدم کے پیدائشی گناہ کا کفارہ بن جانے کا عقیدہ بھی تصنیف کر ڈالا کیونکہ عام مشرکین کے مزاج سے یہ بہت مناسبت رکھتا تھا، مسیح کے باتدائی پیروئوں نے اس کی مزاحمت کی مگر سینٹ پال (پولس) نے جو جو دروازہ کھولا تھا اس سے یہودی عیسائیوں کا ایک ایسا زبردست سیلاب اس مذہب میں داخل ہوگیا جس کے مقابلے میں وہ مٹھی بھر لوگ کسی طرح نہ ٹھہر سکے تاہم تیسری صدی عیسوی کے اختتام تک بکثرت ایسے لوگ موجود تھے جو مسیح کی الوہیت کے عقیدے سے انکار کرتے تھ، مگر چوتھی صدی کے آغاز 325 ء میں نیقیہ (Nicaea) کونسل نے پولسی عقائد کو قطعی طور پر مسیحیت کا مسلم ذہب قرار دیدیا، پھر رومی سلطنت خود عیسائی ہوگئی اور قیصر تھیوڈ ورشیس کے زمانہ میں یہی مذہب سلطنت کا سرکاری مذہب بن گیا، اس کے بعد قدرتی بات تھی کہ وہ تمام کتابیں جو اس عقیدے کے خلاف ہوں مرد ود قرار دیدی جائیں اور صرف وہی کتابیں معتبر ٹھہرائی جائیں جو اس عقیدے سے مطابقت رکھتی ہوں، 326 ء میں پہلی مرتبہ اٹھانا سیوس (Athana Siss) کے ایک خط کے ذریعہ معتبر و مسلم کتابوں کے ایک مجموعہ کا اعلان کیا گیا پھر اس کی توثیق 386 ء میں پوپ ڈیمیسیس (Damasius) کے زیر صدارت ایک مجلس نے کی اور پانچویں صدی کے آخر میں پوپ لاسیس (Galasius) نے اس مجموعہ کو مسلمقرار دینے کے ساتھ ساتھ ان کتابوں کی ایک فہرست مرتب کردی جو غیر مسلم تھیں، حالانکہ جن پولسی عقائد کو بنیاد بنا کر مذہبی کتابوں کے معتبر اور غیر معتبر ہونے کا فیصلہ کیا گیا تھا ان کے متعلق کبھی کوئی عیسائی عالم یہ دعویٰ نہیں کرسکا کہ ان میں سے کسی عقیدے کی تعلیم خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے دی تھی بلکہ معتبر کتابوں کے مجموعہ میں جو انجیلیں شامل ہیں خود ان میں بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اپنے کسی قول سے ان عاقئد کا ثبوت نہیں ملتا، انجیل برنا اس ان غیر مسلم کتابوں میں اس لئے شامل کی گئی کہ وہ مسیحیت کے اس سرکاری عقیدہ کے بالکل خلاف تھی۔ آپ ﷺ کی آمد کا ثبوت اہل کتاب سے : اس بشارت کا عیسیٰ (علیہ السلام) سے منقول ہونا خود اہل کتاب کے بیان سے حدیثوں میں ثابت ہے، چناچہ خازن میں بروایت ابودائود، نجاشی بادشاہ حبشہ کا جو کہ نصاریٰ کے عالم بھی تھے یہ قول آیا ہے کہ واقعی آپ ﷺ ہی ہیں جن کی بشارت عیسیٰ (علیہ السلام) نے دی تھی اور خازن ہی میں ترمذی سے عبداللہ بن سلام کا قول جو کہ علماء یہود میں سے تھے آیا، ہے کہ تورات میں رسول اللہ ﷺ کی صفت لکھی ہے اور یہ کہ عیسیٰ (علیہ السلام) آپ ﷺ کے ساتھ مدفون ہوں گے اور چونکہ عیسیٰ (علیہ السلام) تورات کے مبلغ تھے اس لئے تو رات میں اس بشارت کا ہونا عیسیٰ (علیہ السلام) ہی سے منقول کہا جائے گا اور مولانا رحمت اللہ (علیہ السلام) نے اظہار الحق میں خود تورات کے موجود نسخوں سے متعدد بشارتیں نقل کی ہیں (جلد دوم صفحہ 164 مطبوعہ قسطنطنیہ) اور ان مضامین کا انجیل موجودہ میں نہ ہونا اس لئے مضر نہیں کہ حسب تحقیق علماء محققین، انا جیل کے نسخ محفوظ نہیں رہے مگر پھر بھی جو کچھ موجود ہیں ان میں بھی اس قسم کا مضمون موجود ہے چناچہ یوحنا کی انجیل ترجمہ عربی مطبوعہ لندن 1821 ء و 1833 ء کے چودھویں باب میں ہے کہ ” تمہارے لئے میرا جانا ہی بہتر ہے کیونکہ اگر میں نہ جائوں تو فار قلیط تمہارے اس نہ آوے، پس اگر میں جائوں تو اس کو تمہارے پاس بھیج دوں گا “ فار قلیط احمد کا ترجمہ ہے، اہل کتاب کی عادت ہے کہ وہ ناموں کا ترجمہ کردیتے ہیں عیسیٰ (علیہ السلام) نے عبرانی میں احمد فرمایا تھا جب یونانی میں ترجمہ ہوا تو بیرکلوطوس لکھ دیا جس کے معنی ہیں احمد یعنی بہت سراہا گیا بہت حمد کرنے والا، پھر جب یونانی سے عبرانی میں ترجمہ کیا گیا تو فارقلیط کردیا۔ فلما جاء ھم بالبینت قالوا ھذا سحرمبین پھر جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے مذکورہ تمام مضامین اور معجزات پیش فرما کر اپنی ثبوت کا اثبات فرمایا، تو وہ لوگ کہنے لگے یہ تو صریح جادو ہے بعض نے اس سے نبی ﷺ مراد لئے ہیں اور قالوا کا فاعل کفار مکہ کو بنایا ہے لیطفو وا نور اللہ نور سے مراد قرآن یا اسلام یا محمد ﷺ یا دلائل وبراہین ہیں منہ سے بجھانے کا مطلب وہ طعن وتشنیع اور وہ شکوک و شبہات پیدا کرنے کی باتیں ہیں جو وہ کہا کرتے تھے۔
Top