بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Jalalain - As-Saff : 1
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
سَبَّحَ لِلّٰهِ : تسبیح کی ہے اللہ کے مَا فِي السَّمٰوٰتِ : ہر چیز نے جو آسمانوں میں ہے وَمَا فِي الْاَرْضِ : اور جو زمین میں ہے وَهُوَ الْعَزِيْزُ : اور وہ زبردست ہے الْحَكِيْمُ : حکمت والا ہے
جو چیز آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے سب خدا کی تسبیح کرتی ہے اور وہ غالب حکمت والا ہے۔
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، زمین و آسمان میں ہر چیز اللہ کی پاکی بیان کرتی ہے یعنی اس کی تنزیہ کرتی ہے (للہ) میں لام زائدہ ہے اور من کے بجائے، ما اکثر کو غلبہ دینے کے اعتبار سے لایا گیا ہے وہ اپنے ملک میں غالب ہے اور اپنی صنعت میں حکیم ہے اے ایمان والو ! طلب جہاد میں تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو ؟ جب کہ تم احد میں شکست کھا گئے اس کا کہنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک سخت ناپسند ہے مقتا تمیز ہے (ان تقولوا) کبر کا فاعل ہے، کہ تم وہ بات کہو جو تم کرتے نہیں ہو، بیشک اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے (یعنی) مدد اور اکرام کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ جہاد کرتے ہیں (صفا) حال ہے بمعنی صافین گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی باہم پیوستہ ایک عمارت ہیں اور اس وقت کو یاد کرو جب موسیٰ نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! تم مجھے کیوں سات رہے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ موسیٰ آدز ہے یعنی پھولے ہوئے خصیوں والا ہے، حالانکہ ایسی بات نہیں تھی اور ان کی تکذیب کی حالانکہ تم کو (بخوبی) معلم ہے کہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں قد تحقیق کے لئے ہے جملہ حالیہ ہے اور رسول محترم ہوتا ہے چناچہ جب وہ ان کو ایذا پہنچا کر جادہ حق سے ہٹ گئے تو اللہ نے ان کے قلوب کو ہدایت سے پھیر دیا اس کے مطابق جو ازل میں مقدر کردیا تھا اور اللہ تعالیٰ نافرمان قوم کو جو اس کے علم میں کافر سے ہدایت نہیں دیتا اس وقت کو یاد کرو جب عیسیٰ ابن مریم نے فرمایا اے نبی اسرائیل ! (یہاں) یا قوم نہیں فرمایا اس لئے کہ حضرت عیسیٰ کی ان میں قرابت داری نہیں تھی میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں مجھ سے پہلے کی کتاب تورات کی میں تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی خوشخبری سنانے والا ہوں جن کا نام احمد ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا پھر جب احمد ان کافروں کے پاس کھلی دلیلیں اور نشانیاں لے کر آئے تو کہنے لگے یہ چیز جس کو یہ لیکر آئے ہیں کھلا جادو ہے اور ایک قرأت میں ساحر ہے یعنی اس کے لانے والا جادوگر ہے اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہوگا ؟ جس نے اللہ کی طرف شرک کی اور ولد کی نسبت کر کے بہتان لگایا اور اسکی آیات کو سحر سے متصف کیا حالانکہ وہ اسلام کی جانب بلایا جاتا ہے اللہ ظالم کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو یعنی اس کی شریعت اور براہین کو اپنے مونہوں باتوں سے بجھا دیں کہ یہ تو سحر ہے اور شعر ہے اور کہانت ہے، (لیطفو وا) ان مقدرہ کی وجہ سے منصوب ہے اور لام زائدہ ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے نور کو ظاہر کرنے والا ہے اور ایک قرأت میں (متم نورہ) اضافت کے ساتھ ہے اگرچہ کافر اس کو ناپسند کریں وہ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت دی اور دین حق دیکر بھیجا تاکہ دیگر تمام مذاہب پر یعنی تمام مخالف دینوں پر غالب کرے اگرچہ مشرک اس کو ناپسند کریں۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : مکیۃ او مدنیۃ عکرمہ رحمتہ اللہ تعالیٰ قتادہ (رح) تعالیٰ اور حسن (رح) تعالیٰ کیق ول کے مطابق مکی ہے، جمہور کے قول کے مطابق مدنی ہے۔ قولہ :۔ مقتاتمییز یعنی فاعل سے منقول ہو کر تمیز ہے یعنی مقتا اصل میں فاعل ہے تقدیر عابرت یہ ہے کہ کبرت مقت قولکم، المقت اشد البغض، ناپسندیدہ قولہ :۔ مرصوص رص سے اسم مفعول، مضبوط، سیسہ پلائی ہوئی، رص، دو چیزوں کو ملا کر جوڑنا، چمٹانا، رصاص، رانگ، سیسہ قولہ :۔ ینصرویکرم یہ یحب کے لازم معنی کا بیان ہے، مقصد اس تفسیر سے ایک اعتراض کا جواب دینا ہے۔ اعتراض : محبۃ کے معنی میلان قلب کے ہیں یہ معنی اللہ تعالیٰ کے حق میں محال ہیں اس لئے کہ میلان قلب کے لئے قلب لازم ہے اور قلب کے لئے جسم لازم ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ جسم سے منزہ اور پاک ہیں۔ جواب : جواب کا ماحصل یہ ہے کہ محبۃ کے لازم معنی مراد ہیں یعنی میلان قلب اور رقت قلب کے لئے نصرت اور اکرام لازم ہے جو یہاں مراد ہے، لہٰذا یہاں لازم معنی مراد ہیں۔ قولہ :۔ صفا یہ یقاتلون کی ضمیر سے حال ہے، صافین کا مفعول، انفسھم محذوف ہے، ای صافین انفسھم قولہ :۔ لانہ لم یکن لہ فیھم قرابۃ قرابت نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ قرابت اور نسب کا تعلق اب (والد) سے ہوتا ہے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا کوئی اب نہیں تھا۔ قولہ :۔ مصدقاً یہ رسول ٌ بمعنی مرسل کی ضمیر سے حال ہے اور اسی طرح مبشراً بھی۔ قولہ :۔ بانی من بعدی جملہ ہو کر رسول کی صفت ہے۔ قولہ :۔ المجی یہ جاء سے اسم مفعول ہے مجیء دراصل مجیوء تھا بروزن مضروب یاء کا ضمہ جیم کو دے دیا، دو ساکن یاء اور وائو جمع ہوئے وائو کو حذف کردیا اور جیم کو یاء کی مناسبت سے کسرہ دے دیا، مجیء ہوگیا۔ قولہ :۔ لا احد اس سے اشارہ ہے کہ ومن اظلم میں من استفہام انکاری بمعنی نفی ہے۔ قولہ :۔ ووصف آیاتہ وصف کا عطف نسبۃ الشرک پر ہونے کی وجہ سے مجرور ہے۔ قولہ :۔ وھو یدعی الا الاسلام جملہ حالیہ ہے۔
Top