Tafseer-e-Jalalain - As-Saff : 10
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى تِجَارَةٍ تُنْجِیْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ : اے لوگو اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے ہو هَلْ اَدُلُّكُمْ : کیا میں رہنمائی کروں تمہاری عَلٰي تِجَارَةٍ : اوپر ایک تجارت کے تُنْجِيْكُمْ : بچائے تم کو مِّنْ عَذَابٍ : عذاب سے اَلِيْمٍ : دردناک
مومنو ! میں تم کو ایسی تجارت بتاؤں جو تمہیں عذاب الیم سے مخلصی دی۔
اے ایمان والو ! کیا تمہیں وہ تجارت نہ بتائوں کہ جو تمہیں درد ناک عذاب سے بچائے ؟ (تنجیکم) تخفیف اور تشدید کے ساتھ ہے، گویا کہ انہوں نے کہا ہاں، تم اللہ پر اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لائو یعنی ایمان پر قائم رہو اور اپنی جان سے اور اپنے مالوں سے اللہ کے راستہ میں جہاد کرو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم سمجھ سکتے ہو کہ یہ بہتر ہے تو اس کام کو کرو اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو معاف فرما دے گا اور تمہیں ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور صاف ستھرے گھروں میں جو جنت عدن (قابل رہائش) جنت میں ہوں گے یہ بڑی کامیابی ہے اور تم کو ایک دوسری نعمت بھی عطا کرے گا جس کو تم پسند کرتے ہو وہ اللہ کی مدد اور جلد فتح یابی ہے (آپ ﷺ ) مومنین کو فتح و نصرت کی خوشخبری سنائیے ! اے ایمان والو ! اللہ کے یعنی اس کے دین کے مددگار بن جائو اور ایک قرأت میں (انصار اللہ) اضافت کے ساتھ ہے جیسا کہ (حضرت (علیہ السلام) ) کے حواری انصار اللہ ہوئے، اس پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قول دلالت کرتا ہے عیسیٰ (علیہ السلام) ابن مریم نے حواریوں سے فرمایا کون ہے جو اللہ کی راہ میں میرا مددگار ہو ؟ یعنی ان مددگاروں میں سے جو میرے ساتھ اللہ کی نصرت کی جانب متوجہ ہوں ؟ حواریوں نے کہا ہم اللہ کی راہ میں مددگار ہیں اور حواری حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے منتخب کردہ تھے، یہ وہ لوگ تھے جو شروع ہی میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے تھے اور وہ بارہ اشخصا تھے، یہ حور سے مشتق ہے، حور خالص سفیدی کو کہتے ہیں اور کہا گیا ہے کہ وہ دھوبی تھے جو کپڑوں کو دھوتے یعنی سفید کیا کرتے تھے، پس بنی اسرائیل میں سے ایک جماعت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائی اور انہوں نے کہا وہ (عیسیٰ (علیہ السلام) ) اللہ کے بندے ہیں جن کو آسمانوں کی طرف اٹھا لیا گیا اور ایک جماعت نے کفر کیا ان کے اس قول کی وجہ سے عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں ان کو آسمانوں پر اٹھا لیا گیا دونوں جماعتیں آپس میں قتال کرنے لگیں تو ہم نے ان لوگوں کی، یعنی ان کے دشمنوں کے مقابلہ میں مدد کی جو دونوں فریقوں میں سے ایمان لائے، یعنی کافر جماعت پر، پس وہ غالب آگئے یعنی فتح یاب ہوگئے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل وتفسیری فوائد قولہ :۔ ھل ادلکم علی تجارۃ تنجیکم من عذاب الیم استفہام بمعنی خبر ہے خبر کو لفظ استفہام سے ذکر کرن کا مقصد تشویف و ترغیب ہے، اس لئے کہ استفہام اوقع فی النفس ہوتا ہے، جہاد کو تجارت کے کہنے کی وجہ ی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” ان اللہ اشتری من المومنین انفسھم واموالھم “ (الآیۃ) یعنی مجاہد کی جان و مال جس کو وہ راہ خدا میں صرف کرتا ہے اس خرچ کرنے کو اشتریٰ سے تعبیر فرمایا ہے جو کہ تجارت میں ہوتا ہے۔ قولہ :۔ تومنون یہ متبداء محذوف کی خبر ہے، ایھی تومنون یا جملہ مستانفہ ہے جو کہ سوال مقدر کے جواب میں واقع ہے، ای ماھی التجارۃ ؟ اس کا جواب دیا گیا ھی تومنون الخ قولہ :۔ ذالکم خیر لکم الخ، ذلکم مبتداء خیر خبر قولہ :۔ انہ خیرلکم سے اشارہ کردیا کہ تعلمون کا مفعول محذوف ہے اور فافعلوا سے اشارہ کردیا کہ ان کنتم تعلمون کا جواب شرط محذوف ہے۔ قولہ :۔ یغفرلکم یہ شرط محذوف کا جواب ہے ای ان تفعلوہ، یغفرلکم اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس امر کا جواب ہونے کی وجہ سے مجزوم ہو جو تومنون سے مفہوم ہے اس لئے کہ تومنن آمنوا کے معنی میں ہے۔ قولہ :۔ یوتکم نعمۃ مفسر علام نے یوتکم عامل کو مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ اخری موصوف محذوف کی صفت ہے اور موصوف صفت سے مل کر یوتکم مقدر کا مفعول ہے اور اس عامل مقدر کا عطف مذکور یعنی یدخلکم پر ہے۔ قولہ :۔ تحبونھا، اخری کی صفت ہے۔ قولہ :۔ نصر من اللہ الخ یہ مبتداء محذوف کی خبر ہے ای تلک النعمۃ الاخری نصر من اللہ تفسیر و تشریح شان نزول : یایھا الذین آمنا ھل ادلکم (الآیۃ) قرطبی میں ہے کہ مقاتل نے فرمایا یہ آیت حضرت عثمان بن مظعون ؓ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، حضرت عثمان بن مظعون ؓ نے ایک روز آپ ﷺ سے عرض کیا، اگر آپ ﷺ اجازت دیں تو میں (اپنی بیوی) خولہ کو طلاق دیدوں ؟ اور ترک دنیا اختیار کرلوں اور خصی ہوجائوں اور گوشت کو حرام کرلوں ( یعنی ترک کر دوں) اور رات کو کبھی نہ سوئوں اور ہمیشہ دن میں روزہ رکھوں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ ناکح میری سنت ہے اور اسلام میں رہبانیت (ترک دنیا) نہیں ہے میری امت کی رہبانیت اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا ہے، اور میری امت کا خصی ہونا روزہ رکھنا ہے اور اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام نہ کرو اور میرا طریقہ ی ہے کہ میں سوتا بھی ہوں اور (رات کو) نماز بھی پڑھتا ہوں جو میری سنت سے صرف نظر کرے وہ میرا نہیں ہ، پھر حضرت عثمان بن مظعون ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ میں جاننا چاہتا ہوں کہ اللہ کے نزدیک کونسی تجارت پسندیدہ ہے، تاکہ میں وہ تجارت کروں تو مذکورہ آیت نازل ہوئی۔ اور ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ بعض صحابہ ؓ نے یہ تذکرہ کیا کہ کاش ہمیں معلوم ہوجاتا کہ کونسا عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین ہے تو ہم وہ عمل کرتے تو مذکورہ آیت نازل ہوئی۔ اس آیت میں ایمان اور مجاہدہ بالمال و النفس کو تجارت فرمایا ہے کیونکہ جس طرح تجارت میں کچھ مال خرچ کرن اور محنت کرن کے صلہ میں منافع حاصل ہوتے ہیں ایمان کے ساتھ اللہ کی راہ میں جان و مال خرچ کرنے کے بدلے میں اللہ کی رضا اور آخرت کی دائمی نعمتیں حاصل ہوتی ہیں جن کا ذکر اگلی آیت میں ہے کہ جس نے یہ تجارت اختیار کی اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف فرما دے گا اور جنت میں اس کو پاکیزہ بہترین مساکن و مکانات عطا فرمائے گا جن میں ہر طرح کے آرام و عیش کے سامان ہوں گے، جیسا کہ حدیث میں ” مساکن طیبہ “ کی تفسیر میں اس کا بیان آیا ہے، آگے آخرت کی نعمتوں کے ساتھ کچھ دنیا کی نعمتوں کا بھی وعدہ فرماتے ہیں۔ (معارف)
Top