Tafseer-e-Jalalain - Al-An'aam : 63
قُلْ مَنْ یُّنَجِّیْكُمْ مِّنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ تَدْعُوْنَهٗ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً١ۚ لَئِنْ اَنْجٰىنَا مِنْ هٰذِهٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں مَنْ : کون يُّنَجِّيْكُمْ : بچاتا ہے تمہیں مِّنْ : سے ظُلُمٰتِ : اندھیرے الْبَرِّ : خشکی وَالْبَحْرِ : اور دریا تَدْعُوْنَهٗ : تم پکارتے ہو اس کو تَضَرُّعًا : گڑگڑا کر وَّخُفْيَةً : اور چپکے سے لَئِنْ : کہ اگر اَنْجٰىنَا : بچا لے ہمیں مِنْ : سے هٰذِهٖ : اس لَنَكُوْنَنَّ : تو ہم ہوں مِنَ : سے الشّٰكِرِيْنَ : شکر ادا کرنے والے
کہو بھلا تم کو جنگلوں اور دریاؤں کے اندھیروں سے کون مخلصی دیتا ہے (جب) کہ تم اس سے عاجزی اور نیاز پنہانی سے پکارتے ہو (اور کہتے ہو) اگر خدا ہم کو اس تنگی سے نجات بخشے تو ہم اسکے بہت شکرگزار ہوں
قُلْ مَنْ یُنجّیْکم من الظلمٰتِ (الآیۃ) یہ حقیقت ہے کہ تنہا وہی قادر مطلق ہے اور وہی تمام اختیارات کا مالک ہے، اسی کے ہاتھ میں قسمتوں کی باگ ڈور ہے، جب تمام اسباب کے سر رشتے ٹوٹتے نظر آتے ہیں تو اس وقت تم بےاختیار اسی کو پکارتے ہو، اس کھلی دلیل کے ہوتے ہوئے بھی تم بلا دلیل دوسروں کو اس کی خدائی میں شریک ٹھہراتے ہو۔ قُلْ ھو القادِرُ علی ان یَبْعَثَ علیکم عذاباً ، (الآیۃ) معتبر سند سے مسند امام احمد اور نسانی وغیرہ میں ابی بن کعب وغیرہ سے روایت ہے کہ اوپر کے عذاب سے مراد آسمان سے پتھر برسانہ ہے جیسا کہ اصحاب فیل پر برسے تھے، اور نیچے کے عذاب سے مراد زمین کا دھنسنا ہے جیسا کہ قادرون دھنس گیا تھا اور اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس کی یہ روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اللہ سے دعاء کی کہ میری امت سے یہ تینوں عذاب جو اس آیت میں مذکور ہیں اٹھ جائیں تو اللہ نے پتھروں کے برسنے اور زمین میں دھنسنے کا (عمومی) عذاب تو اٹھا لیا مگر آپس میں خانہ جنگی کا عذاب باقی ہے۔
Top