Tafseer-e-Jalalain - Al-An'aam : 51
وَ اَنْذِرْ بِهِ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْ یُّحْشَرُوْۤا اِلٰى رَبِّهِمْ لَیْسَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ وَلِیٌّ وَّ لَا شَفِیْعٌ لَّعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
وَاَنْذِرْ : اور ڈراویں بِهِ : اس سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَخَافُوْنَ : خوف رکھتے ہیں اَنْ : کہ يُّحْشَرُوْٓا : کہ وہ جمع کیے جائیں گے اِلٰى : طرف (سامنے) رَبِّهِمْ : اپنا رب لَيْسَ : نہیں لَهُمْ : انکے لیے مِّنْ : کوئی دُوْنِهٖ : اس کے سوا وَلِيٌّ : کوئی حمایتی وَّلَا : اور نہ شَفِيْعٌ : سفارش کرنیوالا لَّعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَّقُوْنَ : بچتے رہیں
اور جو لوگ خوف رکھتے ہیں کہ اپنے پروردگار کے روبرو حاضر کئے جائیں گے (اور جانتے ہیں کہ) اس کے سوا نہ تو ان کا کوئی دوست ہوگا اور نہ سفارش کرنے والا۔ ان کو اس (قرآن) کے ذریعے سے نصیحت کرو تاکہ پرہیزگار بنیں۔
آیت نمبر 51 تا 55 ترجمہ : اور آپ قرآن کے ذریعہ ایسے لوگوں کو ڈرائیے جو اس بات کا اندیشہ رکھتے ہیں کہ وہ اپنے رب کے سامنے ایسی حالت میں جائیں گے کہ ان کا اس کے سوانہ کوئی ولی ہوگا جو ان کی مدد کرسکے اور نہ شفیع کہ ان کی شفارش کرسکے، اور جملہ منفیہ یحشروا کی ضمیر سے حال ہے اور یہی محل خوف ہے اور مراد اس سے عصاۃ المومنین ہیں، توقع ہے کہ وہ اپنے معمولات کو چھوڑ کر اور اعمال طاعت کو اختیار کرکے خدا ترسی کی روش اختیار کرلیں، اور ان لوگوں کو (مجلس سے) نہ نکالئے جو صبح و شام اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں ان کا مقصد ان کی عبادت سے محض خدا کی ذات ہے نہ کہ دنیا کی اور کوئی غرض اور وہ فقراء (نادار) تھے اور مشرکین ان کے بارے میں طعنہ زنی کرتے تھے اور اس بات کا مطالبہ کرتے تھے کہ ان کو (مجلس سے) نکال دیں تاکہ وہ آپ کی مجلس میں بیٹھیں، اور آپ ﷺ نے ان کے اسلام کی خواہش کے پیش نظر اس کا ارادہ بھی کرلیا تھا۔ اگر ان (فقراء) کا باطن ناپسندیدہ ہو تو ان کا ذرہ برابر حساب آپ کے ذمہ نہیں، من زائدہ ہے اور نہ ذرہ برابر آپ کا حساب ان کے ذمہ ہے کہ آپ ان کو (مجلس) سے نکال دیں یہ جواب نفی ہے، اگر آپ نے ایسا کیا تو آپ کا شمار ظالموں میں ہوجائیگا، اور اسی طرح ہم نے بعض کو بعض کے ذریعہ آزمائش میں ڈال رکھا ہے یعنی شریف کو کمینہ کے ذریعہ اور مالدار کو فقیر کے ذریعہ بایں طور کہ ہم نے اس کو ایمان کی طرف سبقت کرنے میں مقدم کردیا، تاکہ شرفاء اور اغنیاء منکرین کہیں کیا یہی فقراء ہیں جن پر ہم میں سے ہدایت کا اللہ نے انعام فرمایا یعنی جس (طریقہ) پر یہ ہیں اگر وہ ہدایت ہوتا تو یہ اس کی طرف ہم سے سبقت نہ کرتے اللہ تعالیٰ نے فرمایا، کیا یہ بات نہیں ہے کہ اللہ اپنے شکر گزاروں کو بخوبی جانتا ہے کہ ان کو ہدایت دے، ہاں کیوں نہیں، اور جب وہ لوگ جو ہماری آیتوں پر ایمان لا چکے ہیں آپ کے پاس آئیں تو ان سے کہئے تم پر سلامتی ہو تمہارے رب نے اپنے ذمہ رحمت کو لازم کرلیا ہے یہ اس کا رحم و کرم ہی تو ہے کہ اگر تم میں سے کوئی نادانی کی وجہ سے کسی برائی کا ارتکاب کر بیٹھا (اور) پھر اس ارتکاب کے بعد اس نے اس برائی سے توبہ کرلی اور اپنے عمل کی اصلاح کرلی تو اللہ اسے معاف کردیتا ہے اور ایک قراءت میں ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ ہے (یعنی) اس کیلئے مغفرت ہے، اور جس طرح ہم نے یہ مذ کو رہ مضمون کیا ہے اسی طرح ہم قرآن کی آیتوں کو کھول کھول کر بیان کرتے ہیں، تاکہ حق ظاہر ہوجائے اور اس پر عمل کرے، اور تاکہ مجرموں کی راہ بالکل واضح ہوجائے تاکہ اس سے اجتناب کیا جائے، اور ایک قراءت میں (یَسْتَبِیْن) یاء تحتانیہ کے ساتھ ہے اور دوسری قراءت میں (تاء) فوقانیہ کے ساتھ اور سبیل نصب کے ساتھ ہے (اس صورت میں) خطاب نبی ﷺ کے لئے ہوگا۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : وجُمْلَۃُ النَّفِیْ حَالٌ مِنْ ضَمِیْرِ یُحْشَرُوْا، اس میں اشارہ ہے کہ جملہ منفیہ، اَلَّذِیْنَ یَخَافونَ کی صفت نہیں ہے اسلئے کہ اَلذِین معرفہ ہے اور جملہ منفیہ نکرہ اور نکرہ معرفہ کی صفت واقع نہیں ہوتا اور نہ یحشروا کی ضمیر سے صفت ہے اس لئے کہ قاعدہ مشہور ہے الضمیر لا یوصف ولا یوصف بہ، بلکہ، یُحشروا کی ضمیر سے حال ہے۔ قولہ : وھِیَ مَحَلُّ الْخَوْفِ ، اس اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : حشر سے ڈرانے سے کیا مقصد ہے ؟ جبکہ حشر تو لامحالہ واقع ہونے ہی والا ہے اس سے ڈرانا ممکن نہیں ہے کہ نذار مفید ہو۔ جواب : محل انذار یعنی مخوف بہ ایسی حالت میں حشر ہے کہ ان کا کوئی والی اور ناصر نہ ہو، اور مراد والَّذِین یخافون سے گنہگار مؤمنین ہیں، اسلئے کہ جو شخص حشر کا یقین و عقیدہ ہی نہ رکھتا ہو تو اس کو ڈرانا بےسود ہے اور جو پہلے ہی سے متقی ہے اس کو ڈرانا تحصیل حاصل ہے، لہٰذا متعین ہوگیا کہ جن کو ڈرانے کا حکم دیا جا رہا ہے وہ عصاۃ المومنین ہیں۔ قولہ : جواب النفی، یعنی فَتَطْرُدَھُمْ ، مَا عَلَیْکَ مِن حسابھم کا جواب ہے، یہ تطرد کے نصب کی وجہ کا بیان ہے۔ قولہ : ان کَانَ بَاطِنُھُمْ غَیْرَ مَرْضِیّ ، یعنی بقول المشرکین۔ قولہ : اِنْ فَعَلْتَ ذٰلِکَ ، اس میں اشارہ ہے کہ فتکون شرط محذوف کی جزاء مقدم ہے لہٰذا جواب نفی کی تکرار کا شبہ ختم ہوگیا۔ قولہ : بالسبق ای بسبب السبق۔ قولہ : لَیقولوا میں لام عاقبت کا ہے لہٰذا یہ اعتراض ختم ہوگیا کہ ابتلاء کی علت قول مذکور کو قرار دینا درست نہیں ہے۔ قولہ : قضیٰ کتبَ کی تفسیر قضیٰ سے کرکے اشارہ کردیا کہ مراد وعدہ موکد ہے نہ کہ فرض اور الزام۔ قولہ : وفی قِرَاءَۃٍ بِالَفَتْحِ ، فتحہ کی صورت میں رحمۃ سے بدل ہے اور کسرہ کی صورت میں جملہ مستانفہ ہوگا، جو کہ سوال مقدر کا جواب ہوتا ہے یعنی رحمت کے بارے میں سوال کیا ” ماھی “ اور مَن عمل الخ پورا جملہ سوال مقدر کا جواب ہے۔ قولہ : فالمَغْفِرَۃُ لہ، اس میں اشارہ ہے کہ اَنَّہُ میں اَنّ مع اپنے اسم کے مبتداء ہے اور لَہٗ اس کی خبر ہے۔ قولہ : لِیَظَھَرَ الْحَقُّ ، اس میں اشارہ ہے کہ لتستبین کا عطف علت مقدرہ پر ہے لہٰذا سابق پر عطف کی عدم صحت کا شبہ ختم ہوگیا آیات کی تفصیل بصیغہ مضارع کرنے کا مقصد استمرار ہے لہٰذا تخصیص بالمستقبل کا اعتراض ختم ہوگیا۔ قولہ : وفی قِرَاءَۃٍ بالتحتانیہ، یعنی ایک قراءت میں لیستبین، یاء تحتانیہ کے ساتھ ہے اور السبیل اس کا فاعل ہے اور سبیل چونکہ مذکر اور مؤنچ دونوں طرح مستعمل ہے لہٰذا عدم مطابقت کا اعتراض بھی ہوگیا، اور السبیل کے نصب کی صورت میں تستبین کا مفعول ہوگا، صیغہ خطاب کی صورت میں مخاطب آپ ﷺ ہوں گے۔ تفسیر و تشریح وَاَنْذِرْ بہٖ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْ یُحْشَرُوا الیٰ رَبِّھِم الخ، اس آیت میں عُصاۃ المومنین کا ذکر ہے نہ کہ منکرین حشر و نشر کا، مطلب یہ ہے کہ انذار کا فائدہ ایسے ہی لوگوں کو ہوسکتا ہے جو توحید اور حشر و نشر کے عقیدہ کے باوجود عملی کوتاہی کے بھی مرتکب ہوئے ہوں ورنہ جو شخص بعث بعد الموت اور آخرت میں جوابدہی کا عقیدہ نہ رکھتا ہو اور وہ اپنے کفر و جحود پر قائم ہو اس کو نہ انذار فائدہ دے سکتا ہے اور نہ کسی کی سفارش کام آسکتی ہے، نبی کا وعظ و نصیحت تو سب کیلئے یکساں ہوتا ہے مگر اپنی اپنی صلاحیت و استعداد کے مطابق ہی اثر قبول کرتے ہیں۔ صحیح بخاری میں اسی مضمون کی ایک حدیث ابو موسیٰ اشعری ؓ سے منقول ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے قرآن کی نصیحت کی مثال بارش کی اور امت کی مثال اچھی بری زمین کی فرمائی ہے یہ حدیث گویا کہ اس آیت کی تفسیر ہے۔ شان نزول : ولا تطرد الذین یدعون ربھم الخ، صحیح مسلم، صحیح ابن حبان وغیرہ کی روایتوں سے اس آیت کا جو شان نزول متعین کیا گیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ اور مطعم بن عدی اور حارث بن نوفل نے جو قریش کے سرداروں اور شرفاء میں شمار ہوتے تھے ایک روز آنحضرت ﷺ سے درخواست کی کہ بلال، عمار بن یاسر، صہیب، خباب فقراء و مساکین کا آپ کے اردگرد ہجوم رہتا ہے اگر آپ ان کو اپنی مجلس سے ہٹا دیں تو ہم بھی آپ کی مجلس میں بیٹھیں، ہمیں ان کے جبوں سے بدبو آتی ہے اور چھوٹے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے میں ہمیں شرم آتی ہے اور ہم ایسے معمولی لوگوں کے ساتھ بیٹھنے میں اپنی کسر شان سمجھتے ہیں۔ چونکہ اللہ کے نزدیک ایسی شرافت و امارات سے زیادہ اخلاص مقبول ہے اور یہ فقراء مسلمین اخلاص کے ساتھ آپ کی مجلس میں حاضر ہوتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اشراف قریش کا مشورہ ماننے سے منع کردیا، اور مذکورہ آیت نازل فرمائی، ابتداء میں اکثر غریب و نادار قسم کے لوگ مشرف باسلام ہوئے تھے، یہی چیز روساء کفار کی آزمائش کا ذریعہ بن گئی اور وہ ان فقراء و مساکین کا مذاق بھی اوڑاتے اور جن پر ان کا بس چلتا انھیں ایذاء رسانی سے بھی نہ چوکتے اور کہتے کہ ایمان اور اسلام اگر واقعی کوئی خیر کی چیز ہوتی تو اس سے پہلے اس کی طرف ہم سبقت کرتے اور ہم نے سبقت نہیں کی تو اس سے ظاہر ہوگیا کہ یہ کوئی خیر و شرف کی چیز نہیں ایک دوسرے مقام پر فرمایا ” لو کان خیراً ما سَبَقونا “۔ (احقاف) مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ ظاہری چمک دمک، ٹھاٹھ باٹھ اور رئیسانہ کرّ وفر وغیرہ نہیں دیکھتا اور نہ شکل و صورت ورنگ وروپ کو دیکھتا ہے وہ تو دلوں کیفیت کو دیکھتا ہے لہٰذا وہ جانتا ہے کہ اس کے شکرگزار اور حق شناس بندے کون ہیں ؟ جس میں شکر گزاری کی خوبی دیکھی انہیں ایمان کی سعادت سرفراز فرمایا۔
Top