Tafseer-e-Jalalain - Al-An'aam : 122
اَوَ مَنْ كَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰهُ وَ جَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِهٖ فِی النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا١ؕ كَذٰلِكَ زُیِّنَ لِلْكٰفِرِیْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
اَوَ : کیا مَنْ : جو كَانَ مَيْتًا : مردہ تھا فَاَحْيَيْنٰهُ : پھر ہم نے اس کو زندہ کیا وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنایا لَهٗ : اس کے لیے نُوْرًا : نور يَّمْشِيْ : وہ چلتا ہے بِهٖ : اس سے فِي : میں النَّاسِ : لوگ كَمَنْ مَّثَلُهٗ : اس جیسا۔ جو فِي : میں الظُّلُمٰتِ : اندھیرے لَيْسَ : نہیں بِخَارِجٍ : نکلنے والا مِّنْهَا : اس سے كَذٰلِكَ : اسی طرح زُيِّنَ : زینت دئیے گئے لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے (عمل)
بھلا جو (پہلے) مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا اور اس کے لیے روشنی کردی جس کے ذریعے سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہوسکتا ہے جو اندھیرے میں پڑا ہوا ہو اس نکل ہی نہ سکے ؟ اس طرح کافر جو عمل کر رہے ہیں وہ انھیں اچھے معلوم ہوتے ہیں۔
آیت نمبر 122 تا 129 ترجمہ : اور (آئندہ آیت) ابوجہل وغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی، کیا وہ شخص جو کفر کی وجہ سے مردہ ہو پھر ہم نے اس کو ہدایت کے ذریعہ زندہ کردیا ہو اور اس کو ایسا نور دیا ہو کہ جس کی روشنی میں لوگوں کے درمیان چلتا ہو (یعنی) اس نور کے ذریعہ حق و باطل کو دیکھتا ہو، اور وہ (نور) ایمان ہے اس جیسا لفظ (مثل) زائد ہے ہوسکتا ہے کہ جو تاریکیوں میں بھٹک رہا ہو ؟ تاریکیوں سے نکل ہی نہ پاتا ہو اور وہ کافر ہے، نہیں ہوسکتا، جس طرح مومنوں کیلئے ایمان خوشنما بنادیا گیا ہے اسی طرح کافروں کیلئے ان کے اعمال یعنی کفر و معاصی خوشنما بنا دئیے گئے ہیں اور جس طرح ہم نے مکہ کے سرغنوں کو فاسق (حد سے تجاوز کرنے والے) بنادیا اسی طرح ہر بستی میں اس کے بڑے مجرموں کو ایمان سے روک کر فاسق (حد سے تجاوز کرنے والا) بنادیا تاکہ وہ لوگ وہاں مکر کریں اور وہ لوگ اپنے ہی ساتھ مکر کر رہے ہیں اس لئے کہ اس کا وبال ان ہی پر پڑنے والا ہے، اور ان کو اس کا احساس تک نہیں، اور جب مکہ والوں کے پاس نبی ﷺ کی صداقت کی کوئی نشانی آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اس پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے تاآنکہ ہم کو ایسی ہی رسالت نہ دیدی جائے جو اللہ کے رسولوں کو دی جاتی ہے اور تاآنکہ ہم کو اطلاع نہ دی جائے، اس لئے کہ ہم ان سے مال میں زیادہ اور عمر میں بڑے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اس بات کو تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اپنی پیغمبری کس کے پاس بھیجے (رسالات) جمع اور افراد کے ساتھ ہے، اور حیث اس فعل کا مفعول بہ ہے جس پر اَعْلَمُ دلالت کر رہا ہے یعنی اس مناسب موقع کو خوب جانتا ہے کہ کہاں اپنا پیغام بھیجے چناچہ اسی جگہ اپنا پیغام بھیج دیتا ہے، اور یہ لوگ اس کے اہل نہیں ہیں، عنقریب ان لوگوں کو جنہوں نے مذکورہ بات کہہ کر جرم کا ارتکاب کیا اللہ کے نزدیک ان کے مکر کے سبب ذلت اور سخت عذاب لاحق ہوگا، سو جس شخص کو اللہ ہدایت پر ڈالنا چاہتا ہے تو اس کے سینے کو اسلام کیلئے کھول دیتا ہے، بایں طور کہ اس کے دل میں اور ڈال دیتا ہے جس کی وجہ سے اسکا دل کشادہ ہوجاتا ہے اور اس (اسلام) کو قبول کرتا ہے، جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے، اور جس کو اللہ بےراہ رکھنا چاہتا ہے اس کے سینہ کو قبول اسلام سے نہایت تنگ کردیتا ہے (ضیّقًا) تخفیف اور تشدید کے ساتھ ہے، (حَرَجًا) راء کے کسرہ کے ساتھ صفت ہے اور اس کے فتحہ کے ساتھ مصدر ہے بطور مبالغہ صفت لائی گئی ہے، (اسے اسلام کے تصور ہی سے) جب اس کو ایمان کا مکلف بنایا جاتا ہے تو اسلام اس پر بھاری ہونے کی وجہ سے اس کو یوں معلوم ہونے لگتا ہے کہ (اس کی روح) آسمان کی طرف پرواز کر رہی ہے، اور ایک قراءت میں (یَصَّعّدُ ) کی بجائے یَصَّاعَدُ ہے اور دونوں صورتوں میں اصل میں تاء کا صاد میں ادغام ہے، اور (ایک) دوسری قراءت میں صاد کو سکون کے ساتھ ہے، فعل مذکور کے مانند اللہ تعالیٰ ایمان نہ لانے والوں پر عذاب کو یا شیطان کو مسلط کردیتا ہے اور سے محمد ﷺ جس پر تم ہو یہی تیرے رب کا سیدھا راستہ ہے جس میں کسی قسم کی کجی نہیں، اس پر نصب جملہ کا حال مؤکدہ ہونے کی وجہ سے ہے اور اس میں عامل اسم اشارہ ہے اپنے معنی کے اعتبار سے، اور ہم نے نصیحت حاصل کرنے والوں کیلئے آیتوں کو کھول کھول کر بیان کردیا ہے اس میں اصل میں تاء کا ذال میں ادغام ہے یذکرون معنی میں یتعظوں کے ہیں، اور تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ یہی لوگ آیات سے نفع حاصل کرتے ہیں، اور ان ہی کیلئے ان کے رب کے پاس سلامتی کا گھر یعنی جنت ہے اور وہی ان کا ولی ہے ان کے اعمال کی وجہ سے اس دن کو یاد کرو جس دن ہم ان سب کو جمع کریں گے نون اور یاء کے ساتھ، یعنی اللہ اپنی تمام مخلوق کو جمع کرے گا اور ان سے کہا جائیگا اے جنوں کی جماعت تم نے اغواء کے ذریعہ بہت سے انسانوں کو اپنا پیرو بنا لیا، انسانوں میں سے جنوں کے وہ دوست جنہوں نے ان کی اطاعت کی کہیں گے اے ہمارے پروردگار ہم میں سے ہر ایک نے ایک دوسرے سے خوب فائدہ اٹھایا (یعنی) انسانوں نے جنوں سے فائدہ اٹھایا جنوں کے انسانوں کیلئے شہوتوں کو خوشنما بنانے کی وجہ سے اور جنات نے (فائدہ اٹھایا) انسانوں کے ان کے پیروی کرنے کی وجہ سے، اور ہم اپنی اس مقررہ میعاد پر پہنچ چکے جو تو نے ہمارے لئے مقرر فرمائی اور وہ قیامت کا دن ہے اور یہ ان کی جانب سے اظہار حسرت ہے اللہ ان سے فرشتوں کے واسطہ سے فرمائیگا جہنم تمہارا ٹھکانہ ہے تم اس میں ہمیشہ ہمیش رہو گے مگر اتنی مدت کہ اللہ چاہے کہ وہ اس مدت میں گرم پانی پینے کیلئے نکلیں گے اس لئے کہ گرم پانی جہنم سے باہر ہوگا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” پھر ان کی جہنم کی طرف واپسی ہوگی “ اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ یہ استثناء ان لوگوں کے بارے میں ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ ایمان لائیں گے تو (اس صورت میں) مَا، من کے معنی میں ہوگا، یقینا ً تیرا رب اپنی صنعت میں حکیم اپنی مخلوق کے بارے میں علیم ہے اور اسی طرح (یعنی) جس طرح نافرمان انسانوں اور جنوں کو ایک دوسرے سے فائدہ حاصل کرنے والا بنایا اسی طرح ہم بعض ظالموں کا بعض کو مددگار بنادیں گے ان کے ان اعمال بد کی وجہ سے جو وہ کیا کرتے تھے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : مِثْلُ زَائِدَۃٌ، تاکہ تکرار کا شبہ باقی نہ رہے، زائد ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ مثل صفت ہے، اگر مثل کو زائد نہ مانیں تو صفت کا ظلمات میں ہونا لازم آتا ہے حالانکہ ظلمات ذات ہے نہ کہ صفت۔ قولہ : ضَیْقًا بالتخفیف، مصدر ہے اس صورت میں حمل مبالغۃً زید عدل کی قبیل سے بطور مجاز ہوگا، اور اگر تشدید کے ساتھ ہو تو صفت مشبہ ہوگا۔ قولہ : حَرِجًا بکسر الراء صفت مشبہ کا صیغہ اختلاف لفظ کی وجہ سے تکرار میں ایک قسم کا حسن پیدا ہوگیا ہے اور باقی حضرات نے راء کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے اس صورت میں حَرَجۃ کی جمع ہوگا بمعنی شدۃ الضیق، اور اگر مصدر ہو تو حمل مبالغۃً ہوگا۔ قولہ : یَصَّعدُ باب تفعل سے اور یصّاعد باب تفاعل سے۔ قولہ : من الولایَۃ بفتح الواء، بمعنی النصرۃ اور واؤ کے کسرہ کے ساتھ ہو تو بمعنی سلطان، دوسرے معنی مقام کے اعتبار سے زیادہ مناسب ہیں، اسی معنی پر مصنف علیہ الرحمۃ کا قول علی البعض دلالت کر رہا ہے۔ تفسیر و تشریح اَوَمَنْ ۔۔۔ (الآیۃ) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کافر کو میت اور مومن کو زندہ سے تعبیر کیا ہے اس لئے کہ کافر کفر و ضلالت کی تاریک وادیوں میں بھٹکتا پھرتا ہے جس سے وہ نکل نہیں پاتا جس کا نتیجہ ہلاکت و بربادی ہوتا ہے، اور مومن کو اللہ تعالیٰ نور ایمان کے ذریعہ زندہ رکھتا ہے جس سے زندگانی کی راہیں اس کیلئے روشن ہوجانی ہیں اور وہ ایمان و ہدایت کے راستہ پر گامزن رہ کر منزل مقصود پر پہنچتا ہے اور یہی کامیابی و کامرانی ہے، اس مضمون کو قرآن کی بہت سی آیات میں بیان فرمایا گیا ہے۔ شان نزول : اگرچہ مفسرین نے کہا ہے کہ یہ آیت حضرت عمر اور ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ حضرت امیر حمزہ اور ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن صحیح اور راجع قول یہ ہے کہ ابتداء اسلام سے لیکر قیامت تک آنے والے ہر مسلمان اور کافر کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس میں اللہ نے مومن کی مثال زندہ شخص سے اور کافر کی مردہ شخص سے دی کافروں کی مکاری اور حیلہ جوئی کی ایک مثال : کافر، انبیاء (علیہم السلام) کی صداقت کا جب کوئی نشان دیکھتے تو ازراہ مکرو عناد کہتے ہم ان دلائل و نشانات کو نہیں مانتے، ہم تو اس وقت یقین کرسکتے ہیں جب ہمارے اوپر فرشتے نازل ہوں، اور پیغمبروں کی طرح ہم کو بھی خدائی پیغام سنائیں یا خود حق تعالیٰ ہی ہمارے سامنے آجائیں، ” وقال الذین لا یرجون لقاءنا لولا انزل علینا الملائکۃ او نریٰ ربنا لقد استکبروا فی انفسھم وعتو وتواً کبیرا۔ (فرقان)
Top