Tafseer-e-Jalalain - Al-An'aam : 103
لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ١٘ وَ هُوَ یُدْرِكُ الْاَبْصَارَ١ۚ وَ هُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ
لَا تُدْرِكُهُ : نہیں پاسکتیں اس کو الْاَبْصَارُ : آنکھیں وَهُوَ : اور وہ يُدْرِكُ : پاسکتا ہے الْاَبْصَارَ : آنکھیں وَهُوَ : اور وہ اللَّطِيْفُ : بھید جاننے والا الْخَبِيْرُ : خبردار
(وہ ایسا ہے کہ) نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے۔ اور وہ بھید جاننے والا خبردار ہے۔
رؤیت باری کا مسئلہ : لاتدر کہ الابصار، اَبْصار، بصر کی جمع ہے، (نگاہ) انسان کی نظر کی رسائی خدا کی حقیقت اور کنہ تک نہیں ہوسکتی، اس رویت کی نفی سے مراد دنیا میں رویت بصری کی نفی ہے، صحیح اور متواتر روایات سے ثابت ہے کہ روز قیامت ایمان والے اللہ کے دیدار سے مشرف ہوں گے اور جنت میں بھی دیدار باری تعالیٰ نصیب ہوا کرے گا، معتزلہ کا عقیدہ اس کے خلاف ہے وہ دیدار باری کے مطلقا منکر ہیں اور اسی آیت سے استدلال کرتے ہیں، حالانکہ اس کا تعلق دنیا سے ہے یعنی اللہ تعالیٰ کا دیدار دنیا میں بہ چشم سر ممکن نہیں ہے، اسی لئے حضرت عائشہ بھی اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ جس شخص نے یہ دعویٰ کیا کہ نبی ﷺ نے شب معراج میں اللہ تعالیٰ کی زیارت کی اس نے قطعاً دروغ گوئی کی (صحیح بخاری، سورة انعام) البتہ آخرت کی زندگی میں یہ دیدار ممکن ہوگا، جس کا دوسرے مقام پر قرآن نے اثبات فرمایا ہے ” وُجُوہٌ یومئذ ناضرۃ الی ربِّھا ناظرۃ، کئی چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔ بصائر، بصیرۃ کی جمع ہے، روشنی قلب کا کہتے ہیں یہاں مراد دلائل وبراہین ہیں جو قرآن میں بار بار اور جگہ جگہ بیان کئے گئے ہیں اور نبی ﷺ نے احادیث میں بھی بیان فرمایا ہے۔ قد جاء کم بَصَائر من ربکم، مطلب یہ ہے کہ تمہارے رب کی طرف سے بصیرت کی روشنیاں آچکی ہیں اب جو بینائی سے کام لے گا وہ اپنا ہی بھلا کرے گا اور جو اندھا بنا رہے گا وہ نقصان اٹھائیگا۔
Top