Tafseer-e-Jalalain - Al-An'aam : 101
بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ اَنّٰى یَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّ لَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌ١ؕ وَ خَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ١ۚ وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
بَدِيْعُ : نئی طرح بنانے والا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین اَنّٰى : کیونکر يَكُوْنُ : ہوسکتا ہے لَهٗ : اس کا وَلَدٌ : بیٹا وَّلَمْ تَكُنْ : اور جبکہ نہیں لَّهٗ : اس کی صَاحِبَةٌ : بیوی وَخَلَقَ : اور اس نے پیدا کی كُلَّ شَيْءٍ : ہر چیز وَهُوَ : اور وہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز عَلِيْمٌ : جاننے والا
(وہی) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنیوالا (ہے) اس کے اولاد کہاں سے ہو جبکہ اس کی بیوی ہی نہیں۔ اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے۔
آیت نمبر 101 تا 110 ترجمہ : وہ آسمانوں اور زمینوں کو سابقہ نمونے کے بغیر پیدا کرنے والا ہے، اس کی اولاد کیسے ہوسکتی ہے اس کی بیوی تو ہے نہیں اور اس نے ہر اس شئ کو پیدا کیا جس کی شان مخلوق ہونا ہے اور وہ ہر چیز سے بخوبی واقف ہے یہ ہے اللہ تعالیٰ تمہارا رب اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے لہٰذا اتنہا اسی کی بندگی کرو وہ ہر شئ کا محافظ ہے آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں یعنی اس کو انہین دیکھ سکتیں، اور عدم رویت سے آخرت میں مومنین کی رویت مستثنیٰ ہے، اللہ تعالیٰ کے قول ” وجودٌ یومئذً ناضِرَۃ الی ربِّھا ناظرۃ “ اور شیخین کی حدیث کی وجہ سے ” کہ تم عنقریب اپنے رب کو اس طرح دیکھو گے جس طرح چودھویں رات میں چاند کو دیکھتے ہو “ ، اور کہا گیا ہے کہ احاطہ نہیں کرسکتیں اور وہ سب نگاہوں کا ادراک کرتا ہے یعنی دیکھتا ہے اور وہ نگاہیں اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتیں، اس کے علاوہ کسی اور کی یہ شان نہیں کہ وہ نگاہوں کو دیکھے اور نگاہیں اس کو نہ دیکھ سکیں یا (لاتدرکۃ کا) مطلب اس کا علمی احاطہ نہ کرنا ہے، وہ اپنے دوستوں پر مہربان ہے اور اس سے باخبر ہے، بلاشبہ تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے (حق بینی کے) دلائل آچکے ہیں، سو جو ان کو دیکھ کر ایمان لایا تو اس نے اپنے ہی فائدہ کے لئے دیکھا، اس لئے کہ اس دیکھنے کا ثواب اسی کو ملے گا، اور جو ان سے اندھا بنا ریا تو وہ گمراہ ہوا، تو اس کی گمراہی کا وبال اسی پر ہوگا اور میں تمہارا نگران نہیں ہوں (یعنی) تمہارے اعمال کا نگران نہیں ہوں، میں تو صرف آگاہ کرنے والا ہوں جس طرح ہم نے مذکورہ احکام بیان کئے، اسی طرح ہم مختلف پہلوؤں سے دلائل بیان کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ عبرت حاصل کریں، اور تاکہ آخر کار کافر کہیں کہ تم نے اہل کتاب سے مذاکرہ کیا ہے اور ایک قراءت میں دَرَسْتَ (بغیر الف کے ہے) یعنی تم نے گذشتہ لوگوں کی کتابیں پڑھی ہیں اور یہ تم نے اسی میں سے بیان کیا ہے اور تاکہ ہم اس کو دانشمندوں کیلئے خوب ظاہر کردیں آپ اس قرآن کی اتباع کرتے رہیے جو آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے وحی کی گئی ہے کہ اس کے علاوہ کوئی لائق عبادت نہیں اور آپ مشرکین سے کنارہ کشی کرلیں اور اگر اللہ کو منظور ہوتا تو یہ شرک نہ کرتے اور ہم نے آپ کو ان پر نگران نہیں بنایا سو ان کو ان کے اعمال کی جزاء ہم دیں گے، اور آپ ان پر مختار نہیں ہیں، کہ آپ ان پر ایمان پر مجبور کریں، اور یہ حکم جہاد کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہے، اور تم ان کرمعبودوں کو برا مت کہو جن کی وہ اللہ کے علاوہ بندگی کرتے ہیں یعنی بتوں کی، اسلئے کہ وہ ازراہ جہالت وعناد اور ظلم کی وجہ سے اللہ کی شان میں گستاخی کریں گے، جس طرح ان کے اعمال کو ان کیلئے مزین کردیا گیا ہے اسی طرح ہر امت کیلئے ہم نے ان کے اعمال کو مزین کردیا ہے خواہ عمل خیر ہو یا شر، چناچہ وہ ان ہی کو کرتے ہیں پھر ان کو ان کے رب کے پاس آخرت میں لوٹ کر جانا ہے تو جو کچھ وہ کیا کرتے تھے وہ ان کو بتلا دے گا، یعنی وہ ان کو ان کے اعمال کی سزا دے گا اور کفار مکہ نے بڑی زور دار قسمیں کھائیں یعنی انہوں نے اپنی قسموں میں انتہائی زور پیدا کرکے کہا کہ اگر ہمارے پاس ہماری تجویز کردہ نشانیوں میں سے کوئی نشانی آجائے تو ہم ان پر ضرور ایمان لے آئیں گے آپ ان سے کہئے کہ نشانیاں اللہ کی قبضے میں ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے ان کو ظاہر فرماتا ہے میں تو صرف آگاہ کرنے والا ہوں (اے مسلمانو ! ) جب وہ فرمائشی نشانی آجائے تو تمہیں ان کے ایمان کے بارے میں کیا خبر ؟ یعنی تمہیں اس کا علم نہیں (کہ وہ ایمان لے ہی آئیں گے) (یعنی) جب وہ (فرمائشی) نشانیاں آجائیں گی تو میرے علم ازلی کے اعتبار سے وہ ایمان نہ لائیں گے اور ایک قراءت میں تاء کے ساتھ (لا تؤمنون) ہے، کفار کو خطاب کرتے ہوئے، اور دوسری قراءت میں اَنَّ کے فتحہ کے ساتھ لَعَلَّ کے معنی میں ہے، یا اپنے ماقبل کا معمول ہے (یعنی) یشعرکم کا مفعول ہے، اور ہم ان کے دلوں کو حق سے پھیر دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ سمجھتے نہیں ہیں، اور ان کی آنکھوں کو حق سے پھیر دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ حق کو دیکھتے نہیں ہیں تو ایمان بھی نہیں لاتے جیسا کہ وہ نازل کردہ آیتوں پر پہلی مرتبہ ایمان نہیں لائے تھے اور ہم ان کو ان کی گمراہی میں حیران رہنے دیں گے یعنی تردد اور حیرانی میں متحیر رہیں گے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : بَدِیعُ السمٰوات والارض، بدیع السمٰوات، مبتداء محذوف کی خبر ہے ای ھُو بدیع السمٰوات، یا بدیع السمٰوات مبتداء ہے اور اس کی خبر اَنیّٰ یکونُ لہ وَلَدٌ ہے، بدیع بمعنی مُبْدِع بھی مستعمل ہے جیسا کہ سمیعٌ بمعنی مُسمِعٌ بکثرت مستعمل ہے، اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ بدیع السمٰوات میں صفت مشبہ کی اضافت فاعل کی طرف ہے، اس کی اصل بدیعٌ سمٰواتُہ وَارْضہُ ہے۔ قولہ : من شانہٖ ان یخلق، اس اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : اللہ تعالیٰ کا قول، وخلَقَ کل شئ میں خدا کی ذات وصفات بھی شامل ہیں یا نہیں ؟ اگر نہیں تو خدا کی ذات وصفات کا لاشئ ہونا لازم آئیگا جو کہ محال ہے، اور اگر داخل ہیں تو خدا کی ذات وصفات کا مخلوق ہونا لازم آتا ہے۔ جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ خَلَقَ کلّ شئ میں شئ عام خصَّ منہ البعض ہے ای ھو خالق کل شئ ما عداذاتِہٖ وصفاتِہٖ ۔ قولہ : وھذا مَخْصُوصٌ برؤیۃ المُؤْمِنِیْنَ لہ فی الآخرَۃِ ، اس اضافہ کا مقصد معتزلہ کے امتناع رویت باری کے عقیدہ کو رد کرنا ہے، معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ آخرت میں بھی رویت باری نہیں ہوگی، اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ آخرت میں مومنین کی رویت باری ہوگی قولہ : وقیل المراد تحیط بہٖ ، اور اگر لاتدر کہ الابصار سے عدم احاطہ ہو تو اس صورت میں مخصوص نہ ہوگا، بلکہ عموم اپنے اطلاق پر باقی رہے گا اس لئے کہ باری تعالیٰ کی حقیقت کا ادراک نہ دنیا میں کسی کو ہوسکتا ہے اور نہ آخرت میں۔ قولہ : او یُحِیْطُ بھا علمًا، یہ ادراک کے دوسرے معنی کا بیان ہے۔ قولہ : قل یا محمد۔ سوال : یہاں قل یا محمد مقدر ماننے کی کیا وجہ ہے ؟ جواب : وجہ یہ ہے کہ اس اضافہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مذکورہ کلام آپ ﷺ کی زبان مبارک سے صادر ہوا ورنہ تو یہ اعتراض ہوگا کہ ” وَمَا انا علیکم بحفیظ “ کے کیا معنی ہیں ؟ اسلئے کہ حفظ کی نفی اللہ تعالیٰ سے جائز نہیں ہے۔ قولہ : لِیَعْتَبِرُوْا۔ سوال : مفسر علام نے لِیَعْتبروا، مقدر کیوں مانا ہے ؟ جواب : تاکہ ولِیَقولوا کا عطف صحیح ہو سکے۔ قولہ : نُبَیِّنَہٗ ، تبیین (تفعیل) سے مضارع جمع متکلم، ہم بیان کریں ہم کھول دیں، لِنُنیِّنَہٗ ، میں لام تعلیل کا ہے اسلئے کہ تصریف سے مقصود تبیین ہی ہے اس کی ضمیر آیات کی طرف راجع ہے اور آیات قرآن کے معنی کی تاویل میں ہے لہٰذا ضمیر کی عدم مطابقت کا اعتراض ختم ہوگیا۔ قولہ : فَاتَوْہٗ ۔ سوال : مفسر علام نے فاتوہ، کیوں مقدر مانا ؟ جواب : تاکہ اس پر ثُمَّ الی ربّھم الخ کا عطف درست ہو سکے، اسلئے کہ معطوف وعدہ اور وعید ہے اور یہ عمل خیر و شر ہی پر مرتب ہوتے ہیں نہ کہ مطلق تزیین پر۔ قولہ : ای اَنْتُمْ لا تَدْرُوْنَ ذلک، یہ مومنین سے خطاب ہے، اس میں مومنوں کو مشرکین کے فرمائشی معجزوں کی تمنا سے منع کیا گیا ہے، مومنین کی یہ تمنا تھی کہ کاش اللہ تعالیٰ مشرکین مکہ کے فرمائشی معجزے آپ ﷺ کے دست مبارک پر ظاہر فرما دیں تو بہر اچھا ہو، تاکہ مشرکین مکہ ایمان لے آئیں، ایسی تمنا کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اے مسلمانو ! تم جو مشرکین کے فرمائشی معجزات کی تمنا کر رہے ہو تمہیں کیا معلوم کہ یہ لوگ فرمائشی معجزات دیکھ کر ایمان لے ہی آئیں گے، ہماری علم ازلی کے اعتبار سے یہ لوگ فرمائشی معجزات دیکھ کر بھی ایمان لانے والے نہیں ہیں، ظاہر مفہوم کا تقاضا یہ تھا کہ یوں کہا جاتا ” مَا یُدریکم انّھا اذا جاءت یؤمنون “ بغیر، لا، کے اسی وجہ سے بعض مفسرین نے ’ لا ‘ کو زائدہ کہا ہے مطلب یہ ہے کہ تم کو کیا معلوم کہ مشرکین مکہ فرمائشی معجزے دیکھ کر ایمان لے ہی آئیں گے۔ مفسر علام نے اس کی دو توجیہ کی ہیں ایک یہ ہے کہ ما یشعرکم میں ما استفہام انکاری ہے، ای لا تدرون بأنّھا اذا جاءت الآیات لا یؤمنون، فلذلک تتمنّون ونحن نعلم ذلک فلا نتمنیّٰ بھا، یعنی تم نہیں جانتے کہ اگر (فرمائشی) معجزات بھی آجائیں تب بھی یہ لوگ یقیناً ایمان نہ لائیں گے، جیسا کہ میرے علم ازلی میں ہے۔ دوسری توجیہ بفتح أنَّ بمعنی لَعَلَّ سے بیان کی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے، کہ یشعرکم کا مفعول ثانی محذوف ہے ای ما یشعرکم بایمانھم اور أنَّ بمعنی لَعَلَّ ، ای لَعلَّھم اِذَا جاءتھم آیۃٌ لا یؤمنون، اور لعلَّ اس وقت اشفاق (توقع) کے لئے ہوگا اور توقع خدائی کلام میں یقینی الوقوع کیلئے آتا ہے یعنی اگر ان کے فرمائشی معجزے بھی آجائین تب بھی وہ یقیناً ایمان نہیں لائیں گے، مذکورہ دونوں توجیہوں سے کلام مظاہر کے مطابق ہوجائیگا، اور جن مفسرین حضرات نے، لایؤمنون، میں لا کو زائدہ قرار دیا ہے ان کا مقصد بھی کلام کو ظاہر کے مطابق بنانا ہے، اِنَّ بالکسر کی صورت میں جملہ مستانفہ ہوگا جو کہ ہمیشہ سوال مقدر کا جواب ہوتا ہے، گویا کہ سوال ہوا ما یشعرکم ما یکون منھم، اس کا جواب دیا انھا اذا جاءت لا یؤمنون۔ قولہ : ونُقَلِّبُ اَفئِدَتَھُمْ ، اس کا عطف لا یؤمنون پر ہے، ای وَمَا یشعرکم اِنّا حینئذٍ نقلب اَفئدتَھم، عن احق فلا یفھمونَہ واِبصارھم فلا یبصرونَہٗ فلا یؤمنون بِھَا۔ تسہیل المشکل : وَمَا یُشعِرُکم أنَّھَا ذا جاءت لا یؤمنون، اِنّھا کو ابو عمر ابن کثیر اور مجاہد نے انھا بکسر الہمزہ پڑھا ہے، ابن مسعود ؓ کی قراءت سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے مجاہد اور ابن زید نے کہا ہے کہ اس کے مخاطب مشرکین ہیں، اور فرّاء وغیرہ نے کہا ہے کہ اس کے مخاطب مومنین ہیں، اسلئے کہ جب مشرکین نے فرمائشی معجزوں کا مطالبہ کرتے ہوئے آپ ﷺ سے کہا کہ اگر فلاں قسم کا معجزہ دکھا دو تو ہم ایمان لے آئیں گے تو اس وقت مسلمانوں کی خواہش ہوئی کہ کاش آپ ﷺ مشرکین کا مطلوبہ معجزہ دکھا دیں، اسی خواہش کے پیش نظر صحابہ نے آپ ﷺ سے عرض کیا ” لونزولت الآیۃ لعلھم یؤمنون “ تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” وَمَا یُشعرکم انھا جاءت لا یؤمنون “ اور اہل مدینہ واعمش وحمزہ و کسائی و عاصم وغیرہم نے أنَّھا فتحہ کے ساتھ پڑھا، اور خلیل نے کہا ہے کہ اَنَّھا بمعنی یزَکّٰی، اور عرب بولتے ہیں ائتِ السوق اَنّکَ تشتری لنا شیئاً ، ای لعلک، فراء اور کسائی نے کہا ہے کہ ” لایؤمنون “ اور یہ ایسا ہی ہے جیسا ” ما مَنعکَ أن لا تسجد “ میں لا زائدہ ہے، مگر زجاج وغیرہ نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے، اور نحاس نے کہا ہے کلام میں حذف ہے، تقدیر عبارت یہ ہے ” أنّھا اذا جَاءت لایؤمنون ویؤمنون “ پھر اس زائد مقدر کا علم سا مع کی وجہ سے حذف کردیا گیا۔ تفسیر و تشریح بدیع السمٰوت والارض، بدیعٌ، موجِدٌ، نیا ایجاد کرنے والا، یہ لفظ قرآن میں صرف دو جگہ آیا ہے اول سورة بقرہ میں اور دوسرے یہاں، یہ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے ایک اسم ہے بدیعٌ، بروزن فعیلٌ بمعنی مبدعٌ، بغیر نمونے کے پیدا کرنے والا۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ تمام چیزوں کے پیدا کرنے میں یکتا و بےمثال ہے کوئی اس کا شریک وسہیم نہیں، اسی طرح وہ اس کے لائق ہے کہ وہ معبودیت میں بھی واحد و لاشریک ہو لیکن لوگوں نے ازراہ احمق اس ذات واحد کو چھوڑ کر اس کی مخلوق کو اس کا شریک ٹھہرا لیا ہے حالانکہ وہ اسی کی پیدا کردہ ہے، اور یہ سب کچھ شیاطین کی اتباع کی وجہ سے ہوا ہے، اسلئے یہ درحقیقت شیطان کی پرستش ہے۔
Top