Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - Al-An'aam : 101
بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ اَنّٰى یَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّ لَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌ١ؕ وَ خَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ١ۚ وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
بَدِيْعُ
: نئی طرح بنانے والا
السَّمٰوٰتِ
: آسمان (جمع)
وَالْاَرْضِ
: اور زمین
اَنّٰى
: کیونکر
يَكُوْنُ
: ہوسکتا ہے
لَهٗ
: اس کا
وَلَدٌ
: بیٹا
وَّلَمْ تَكُنْ
: اور جبکہ نہیں
لَّهٗ
: اس کی
صَاحِبَةٌ
: بیوی
وَخَلَقَ
: اور اس نے پیدا کی
كُلَّ شَيْءٍ
: ہر چیز
وَهُوَ
: اور وہ
بِكُلِّ شَيْءٍ
: ہر چیز
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
(وہی) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنیوالا (ہے) اس کے اولاد کہاں سے ہو جبکہ اس کی بیوی ہی نہیں۔ اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے۔
آیت نمبر 101 تا 110 ترجمہ : وہ آسمانوں اور زمینوں کو سابقہ نمونے کے بغیر پیدا کرنے والا ہے، اس کی اولاد کیسے ہوسکتی ہے اس کی بیوی تو ہے نہیں اور اس نے ہر اس شئ کو پیدا کیا جس کی شان مخلوق ہونا ہے اور وہ ہر چیز سے بخوبی واقف ہے یہ ہے اللہ تعالیٰ تمہارا رب اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے لہٰذا اتنہا اسی کی بندگی کرو وہ ہر شئ کا محافظ ہے آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں یعنی اس کو انہین دیکھ سکتیں، اور عدم رویت سے آخرت میں مومنین کی رویت مستثنیٰ ہے، اللہ تعالیٰ کے قول ” وجودٌ یومئذً ناضِرَۃ الی ربِّھا ناظرۃ “ اور شیخین کی حدیث کی وجہ سے ” کہ تم عنقریب اپنے رب کو اس طرح دیکھو گے جس طرح چودھویں رات میں چاند کو دیکھتے ہو “ ، اور کہا گیا ہے کہ احاطہ نہیں کرسکتیں اور وہ سب نگاہوں کا ادراک کرتا ہے یعنی دیکھتا ہے اور وہ نگاہیں اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتیں، اس کے علاوہ کسی اور کی یہ شان نہیں کہ وہ نگاہوں کو دیکھے اور نگاہیں اس کو نہ دیکھ سکیں یا (لاتدرکۃ کا) مطلب اس کا علمی احاطہ نہ کرنا ہے، وہ اپنے دوستوں پر مہربان ہے اور اس سے باخبر ہے، بلاشبہ تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے (حق بینی کے) دلائل آچکے ہیں، سو جو ان کو دیکھ کر ایمان لایا تو اس نے اپنے ہی فائدہ کے لئے دیکھا، اس لئے کہ اس دیکھنے کا ثواب اسی کو ملے گا، اور جو ان سے اندھا بنا ریا تو وہ گمراہ ہوا، تو اس کی گمراہی کا وبال اسی پر ہوگا اور میں تمہارا نگران نہیں ہوں (یعنی) تمہارے اعمال کا نگران نہیں ہوں، میں تو صرف آگاہ کرنے والا ہوں جس طرح ہم نے مذکورہ احکام بیان کئے، اسی طرح ہم مختلف پہلوؤں سے دلائل بیان کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ عبرت حاصل کریں، اور تاکہ آخر کار کافر کہیں کہ تم نے اہل کتاب سے مذاکرہ کیا ہے اور ایک قراءت میں دَرَسْتَ (بغیر الف کے ہے) یعنی تم نے گذشتہ لوگوں کی کتابیں پڑھی ہیں اور یہ تم نے اسی میں سے بیان کیا ہے اور تاکہ ہم اس کو دانشمندوں کیلئے خوب ظاہر کردیں آپ اس قرآن کی اتباع کرتے رہیے جو آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے وحی کی گئی ہے کہ اس کے علاوہ کوئی لائق عبادت نہیں اور آپ مشرکین سے کنارہ کشی کرلیں اور اگر اللہ کو منظور ہوتا تو یہ شرک نہ کرتے اور ہم نے آپ کو ان پر نگران نہیں بنایا سو ان کو ان کے اعمال کی جزاء ہم دیں گے، اور آپ ان پر مختار نہیں ہیں، کہ آپ ان پر ایمان پر مجبور کریں، اور یہ حکم جہاد کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہے، اور تم ان کرمعبودوں کو برا مت کہو جن کی وہ اللہ کے علاوہ بندگی کرتے ہیں یعنی بتوں کی، اسلئے کہ وہ ازراہ جہالت وعناد اور ظلم کی وجہ سے اللہ کی شان میں گستاخی کریں گے، جس طرح ان کے اعمال کو ان کیلئے مزین کردیا گیا ہے اسی طرح ہر امت کیلئے ہم نے ان کے اعمال کو مزین کردیا ہے خواہ عمل خیر ہو یا شر، چناچہ وہ ان ہی کو کرتے ہیں پھر ان کو ان کے رب کے پاس آخرت میں لوٹ کر جانا ہے تو جو کچھ وہ کیا کرتے تھے وہ ان کو بتلا دے گا، یعنی وہ ان کو ان کے اعمال کی سزا دے گا اور کفار مکہ نے بڑی زور دار قسمیں کھائیں یعنی انہوں نے اپنی قسموں میں انتہائی زور پیدا کرکے کہا کہ اگر ہمارے پاس ہماری تجویز کردہ نشانیوں میں سے کوئی نشانی آجائے تو ہم ان پر ضرور ایمان لے آئیں گے آپ ان سے کہئے کہ نشانیاں اللہ کی قبضے میں ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے ان کو ظاہر فرماتا ہے میں تو صرف آگاہ کرنے والا ہوں (اے مسلمانو ! ) جب وہ فرمائشی نشانی آجائے تو تمہیں ان کے ایمان کے بارے میں کیا خبر ؟ یعنی تمہیں اس کا علم نہیں (کہ وہ ایمان لے ہی آئیں گے) (یعنی) جب وہ (فرمائشی) نشانیاں آجائیں گی تو میرے علم ازلی کے اعتبار سے وہ ایمان نہ لائیں گے اور ایک قراءت میں تاء کے ساتھ (لا تؤمنون) ہے، کفار کو خطاب کرتے ہوئے، اور دوسری قراءت میں اَنَّ کے فتحہ کے ساتھ لَعَلَّ کے معنی میں ہے، یا اپنے ماقبل کا معمول ہے (یعنی) یشعرکم کا مفعول ہے، اور ہم ان کے دلوں کو حق سے پھیر دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ سمجھتے نہیں ہیں، اور ان کی آنکھوں کو حق سے پھیر دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ حق کو دیکھتے نہیں ہیں تو ایمان بھی نہیں لاتے جیسا کہ وہ نازل کردہ آیتوں پر پہلی مرتبہ ایمان نہیں لائے تھے اور ہم ان کو ان کی گمراہی میں حیران رہنے دیں گے یعنی تردد اور حیرانی میں متحیر رہیں گے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : بَدِیعُ السمٰوات والارض، بدیع السمٰوات، مبتداء محذوف کی خبر ہے ای ھُو بدیع السمٰوات، یا بدیع السمٰوات مبتداء ہے اور اس کی خبر اَنیّٰ یکونُ لہ وَلَدٌ ہے، بدیع بمعنی مُبْدِع بھی مستعمل ہے جیسا کہ سمیعٌ بمعنی مُسمِعٌ بکثرت مستعمل ہے، اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ بدیع السمٰوات میں صفت مشبہ کی اضافت فاعل کی طرف ہے، اس کی اصل بدیعٌ سمٰواتُہ وَارْضہُ ہے۔ قولہ : من شانہٖ ان یخلق، اس اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : اللہ تعالیٰ کا قول، وخلَقَ کل شئ میں خدا کی ذات وصفات بھی شامل ہیں یا نہیں ؟ اگر نہیں تو خدا کی ذات وصفات کا لاشئ ہونا لازم آئیگا جو کہ محال ہے، اور اگر داخل ہیں تو خدا کی ذات وصفات کا مخلوق ہونا لازم آتا ہے۔ جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ خَلَقَ کلّ شئ میں شئ عام خصَّ منہ البعض ہے ای ھو خالق کل شئ ما عداذاتِہٖ وصفاتِہٖ ۔ قولہ : وھذا مَخْصُوصٌ برؤیۃ المُؤْمِنِیْنَ لہ فی الآخرَۃِ ، اس اضافہ کا مقصد معتزلہ کے امتناع رویت باری کے عقیدہ کو رد کرنا ہے، معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ آخرت میں بھی رویت باری نہیں ہوگی، اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ آخرت میں مومنین کی رویت باری ہوگی قولہ : وقیل المراد تحیط بہٖ ، اور اگر لاتدر کہ الابصار سے عدم احاطہ ہو تو اس صورت میں مخصوص نہ ہوگا، بلکہ عموم اپنے اطلاق پر باقی رہے گا اس لئے کہ باری تعالیٰ کی حقیقت کا ادراک نہ دنیا میں کسی کو ہوسکتا ہے اور نہ آخرت میں۔ قولہ : او یُحِیْطُ بھا علمًا، یہ ادراک کے دوسرے معنی کا بیان ہے۔ قولہ : قل یا محمد۔ سوال : یہاں قل یا محمد مقدر ماننے کی کیا وجہ ہے ؟ جواب : وجہ یہ ہے کہ اس اضافہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مذکورہ کلام آپ ﷺ کی زبان مبارک سے صادر ہوا ورنہ تو یہ اعتراض ہوگا کہ ” وَمَا انا علیکم بحفیظ “ کے کیا معنی ہیں ؟ اسلئے کہ حفظ کی نفی اللہ تعالیٰ سے جائز نہیں ہے۔ قولہ : لِیَعْتَبِرُوْا۔ سوال : مفسر علام نے لِیَعْتبروا، مقدر کیوں مانا ہے ؟ جواب : تاکہ ولِیَقولوا کا عطف صحیح ہو سکے۔ قولہ : نُبَیِّنَہٗ ، تبیین (تفعیل) سے مضارع جمع متکلم، ہم بیان کریں ہم کھول دیں، لِنُنیِّنَہٗ ، میں لام تعلیل کا ہے اسلئے کہ تصریف سے مقصود تبیین ہی ہے اس کی ضمیر آیات کی طرف راجع ہے اور آیات قرآن کے معنی کی تاویل میں ہے لہٰذا ضمیر کی عدم مطابقت کا اعتراض ختم ہوگیا۔ قولہ : فَاتَوْہٗ ۔ سوال : مفسر علام نے فاتوہ، کیوں مقدر مانا ؟ جواب : تاکہ اس پر ثُمَّ الی ربّھم الخ کا عطف درست ہو سکے، اسلئے کہ معطوف وعدہ اور وعید ہے اور یہ عمل خیر و شر ہی پر مرتب ہوتے ہیں نہ کہ مطلق تزیین پر۔ قولہ : ای اَنْتُمْ لا تَدْرُوْنَ ذلک، یہ مومنین سے خطاب ہے، اس میں مومنوں کو مشرکین کے فرمائشی معجزوں کی تمنا سے منع کیا گیا ہے، مومنین کی یہ تمنا تھی کہ کاش اللہ تعالیٰ مشرکین مکہ کے فرمائشی معجزے آپ ﷺ کے دست مبارک پر ظاہر فرما دیں تو بہر اچھا ہو، تاکہ مشرکین مکہ ایمان لے آئیں، ایسی تمنا کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اے مسلمانو ! تم جو مشرکین کے فرمائشی معجزات کی تمنا کر رہے ہو تمہیں کیا معلوم کہ یہ لوگ فرمائشی معجزات دیکھ کر ایمان لے ہی آئیں گے، ہماری علم ازلی کے اعتبار سے یہ لوگ فرمائشی معجزات دیکھ کر بھی ایمان لانے والے نہیں ہیں، ظاہر مفہوم کا تقاضا یہ تھا کہ یوں کہا جاتا ” مَا یُدریکم انّھا اذا جاءت یؤمنون “ بغیر، لا، کے اسی وجہ سے بعض مفسرین نے ’ لا ‘ کو زائدہ کہا ہے مطلب یہ ہے کہ تم کو کیا معلوم کہ مشرکین مکہ فرمائشی معجزے دیکھ کر ایمان لے ہی آئیں گے۔ مفسر علام نے اس کی دو توجیہ کی ہیں ایک یہ ہے کہ ما یشعرکم میں ما استفہام انکاری ہے، ای لا تدرون بأنّھا اذا جاءت الآیات لا یؤمنون، فلذلک تتمنّون ونحن نعلم ذلک فلا نتمنیّٰ بھا، یعنی تم نہیں جانتے کہ اگر (فرمائشی) معجزات بھی آجائیں تب بھی یہ لوگ یقیناً ایمان نہ لائیں گے، جیسا کہ میرے علم ازلی میں ہے۔ دوسری توجیہ بفتح أنَّ بمعنی لَعَلَّ سے بیان کی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے، کہ یشعرکم کا مفعول ثانی محذوف ہے ای ما یشعرکم بایمانھم اور أنَّ بمعنی لَعَلَّ ، ای لَعلَّھم اِذَا جاءتھم آیۃٌ لا یؤمنون، اور لعلَّ اس وقت اشفاق (توقع) کے لئے ہوگا اور توقع خدائی کلام میں یقینی الوقوع کیلئے آتا ہے یعنی اگر ان کے فرمائشی معجزے بھی آجائین تب بھی وہ یقیناً ایمان نہیں لائیں گے، مذکورہ دونوں توجیہوں سے کلام مظاہر کے مطابق ہوجائیگا، اور جن مفسرین حضرات نے، لایؤمنون، میں لا کو زائدہ قرار دیا ہے ان کا مقصد بھی کلام کو ظاہر کے مطابق بنانا ہے، اِنَّ بالکسر کی صورت میں جملہ مستانفہ ہوگا جو کہ ہمیشہ سوال مقدر کا جواب ہوتا ہے، گویا کہ سوال ہوا ما یشعرکم ما یکون منھم، اس کا جواب دیا انھا اذا جاءت لا یؤمنون۔ قولہ : ونُقَلِّبُ اَفئِدَتَھُمْ ، اس کا عطف لا یؤمنون پر ہے، ای وَمَا یشعرکم اِنّا حینئذٍ نقلب اَفئدتَھم، عن احق فلا یفھمونَہ واِبصارھم فلا یبصرونَہٗ فلا یؤمنون بِھَا۔ تسہیل المشکل : وَمَا یُشعِرُکم أنَّھَا ذا جاءت لا یؤمنون، اِنّھا کو ابو عمر ابن کثیر اور مجاہد نے انھا بکسر الہمزہ پڑھا ہے، ابن مسعود ؓ کی قراءت سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے مجاہد اور ابن زید نے کہا ہے کہ اس کے مخاطب مشرکین ہیں، اور فرّاء وغیرہ نے کہا ہے کہ اس کے مخاطب مومنین ہیں، اسلئے کہ جب مشرکین نے فرمائشی معجزوں کا مطالبہ کرتے ہوئے آپ ﷺ سے کہا کہ اگر فلاں قسم کا معجزہ دکھا دو تو ہم ایمان لے آئیں گے تو اس وقت مسلمانوں کی خواہش ہوئی کہ کاش آپ ﷺ مشرکین کا مطلوبہ معجزہ دکھا دیں، اسی خواہش کے پیش نظر صحابہ نے آپ ﷺ سے عرض کیا ” لونزولت الآیۃ لعلھم یؤمنون “ تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” وَمَا یُشعرکم انھا جاءت لا یؤمنون “ اور اہل مدینہ واعمش وحمزہ و کسائی و عاصم وغیرہم نے أنَّھا فتحہ کے ساتھ پڑھا، اور خلیل نے کہا ہے کہ اَنَّھا بمعنی یزَکّٰی، اور عرب بولتے ہیں ائتِ السوق اَنّکَ تشتری لنا شیئاً ، ای لعلک، فراء اور کسائی نے کہا ہے کہ ” لایؤمنون “ اور یہ ایسا ہی ہے جیسا ” ما مَنعکَ أن لا تسجد “ میں لا زائدہ ہے، مگر زجاج وغیرہ نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے، اور نحاس نے کہا ہے کلام میں حذف ہے، تقدیر عبارت یہ ہے ” أنّھا اذا جَاءت لایؤمنون ویؤمنون “ پھر اس زائد مقدر کا علم سا مع کی وجہ سے حذف کردیا گیا۔ تفسیر و تشریح بدیع السمٰوت والارض، بدیعٌ، موجِدٌ، نیا ایجاد کرنے والا، یہ لفظ قرآن میں صرف دو جگہ آیا ہے اول سورة بقرہ میں اور دوسرے یہاں، یہ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے ایک اسم ہے بدیعٌ، بروزن فعیلٌ بمعنی مبدعٌ، بغیر نمونے کے پیدا کرنے والا۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ تمام چیزوں کے پیدا کرنے میں یکتا و بےمثال ہے کوئی اس کا شریک وسہیم نہیں، اسی طرح وہ اس کے لائق ہے کہ وہ معبودیت میں بھی واحد و لاشریک ہو لیکن لوگوں نے ازراہ احمق اس ذات واحد کو چھوڑ کر اس کی مخلوق کو اس کا شریک ٹھہرا لیا ہے حالانکہ وہ اسی کی پیدا کردہ ہے، اور یہ سب کچھ شیاطین کی اتباع کی وجہ سے ہوا ہے، اسلئے یہ درحقیقت شیطان کی پرستش ہے۔
Top