Tafseer-e-Jalalain - Al-Waaqia : 57
نَحْنُ خَلَقْنٰكُمْ فَلَوْ لَا تُصَدِّقُوْنَ
نَحْنُ : ہم نے خَلَقْنٰكُمْ : پیدا کیا ہم نے تم کو فَلَوْلَا : پس کیوں نہیں تُصَدِّقُوْنَ : تم تصدیق کرتے ہو۔ تم یقین کرتے۔ سچ مانتے
ہم نے تم کو (پہلی بار بھی تو) پیدا کیا ہے، تو تم (دوبارہ اٹھنے کو) کیوں سچ نہیں سمجھتے ؟
نحن خلقنکم فلولا تصدقون الخ شروع سورت سے یہاں تک محشر میں انسانوں کی تین قسموں کا ذکر تھا، مذکورۃ الصدر آیات میں ان گمراہ لوگوں کو تنبیہ ہے جو سرے سے قیامت قائم ہونے اور دوبارہ زندہ ہونے کے قائل نہیں اور اس کی توحید کے قائل ہونے کے بجائے مختلف مظاہر قدرت کو شریک ٹھہراتے ہیں۔ مذکورہ مختصر فقرے میں ایک بڑا اہم سوال انسان کے سامنے پیش کیا گیا ہے دنیا کی تمام چیزوں کو چھوڑ کر انسان صرف اسی ایک بات پر غور کرے کہ وہ خود کس طرح پیدا ہوا ہے، تو اسے نہ قرآن کی تعلیم توحید میں کوئی شک رہ سکتا ہے نہ اس کی تعلیم آخرت میں، انسان آخر اسی طرح تو پیدا ہوتا ہے کہ مرد اپنا نطفہ عورت کے رحم تک پہنچا دیتا ہے مگر کیا اس نطفہ میں بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت خود بخود پیدا ہوگئی ہے ؟ یا انسان نے خود پیدا کی ہے یا خدا کے سوا کسی اور نے پیدا کردی ہے ؟ پھر استقرار حمل سے وضع حمل تک ماں کے پیٹ میں بچے کی درجہ بدرجہ تخلیق و پرورش اور ہر بچہ کی الگ الگ صورت گری اور ہر بچہ کے اندر مختلف ذہنی صلاحیتوں اور جسمانی قوتوں کو ایک خاص تناسب کے ساتھ رکھنا جس سے وہ ایک خاص شخصیت کا انسان بن کر اٹھے کیا یہ سب کچھ ایک خدا کے سوا کسی اور کا کام ہے ؟ اگر کوئی شخص ضد اور ہٹ دھرمی میں مبتلا نہ ہو تو وہ خود محسوس کرے گا کہ شرک یا دہریت کی بنیاد پر ان سوالات کا کوئی معقول جواب نہیں دیا جاسکتا۔ ظاہر بیں نظریں ظاہری اسباب میں الجھ کر رہ جاتی ہیں اور تخلیق کائنات کو ان ہی اسباب کی طرف منسوب کرنے لگتی ہیں، اصل قدرت اور حقیقی قوت فاعلہ جو ان اسباب و مسببات کو گردش دینے والی ہے اس کی طرف التفاق نہیں کرتی۔
Top