Tafseer-e-Jalalain - An-Nisaa : 92
وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّا خَطَئًا١ۚ وَ مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَئًا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَّ دِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى اَهْلِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّصَّدَّقُوْا١ؕ فَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ١ؕ وَ اِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍۭ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ مِّیْثَاقٌ فَدِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى اَهْلِهٖ وَ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ١ۚ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَهْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ١٘ تَوْبَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
وَمَا : اور نہیں كَانَ : ہے لِمُؤْمِنٍ : کسی مسلمان کے لیے اَنْ يَّقْتُلَ : کہ وہ قتل کرے مُؤْمِنًا : کسی مسلمان اِلَّا خَطَئًا : مگر غلطی سے وَمَنْ : اور جو قَتَلَ : قتل کرے مُؤْمِنًا : کسی مسلمان خَطَئًا : غلطی سے فَتَحْرِيْرُ : تو آزاد کرے رَقَبَةٍ : ایک گردن (غلام) مُّؤْمِنَةٍ : مسلمان وَّدِيَةٌ : اور خون بہا مُّسَلَّمَةٌ : حوالہ کرنا اِلٰٓى اَھْلِهٖٓ : اس کے وارثوں کو اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ يَّصَّدَّقُوْا : وہ معاف کردیں فَاِنْ : پھر اگر كَانَ : ہو مِنْ : سے قَوْمٍ عَدُوٍّ : دشمن قوم لَّكُمْ : تمہاری وَھُوَ : اور وہ مُؤْمِنٌ : مسلمان فَتَحْرِيْرُ : تو آزاد کردے رَقَبَةٍ : ایک گردن (غلام) مُّؤْمِنَةٍ : مسلمان وَاِنْ : اور اگر كَانَ : ہو مِنْ قَوْمٍ : ایسی قوم سے بَيْنَكُمْ : تمہارے درمیان وَبَيْنَھُمْ : اور ان کے درمیان مِّيْثَاقٌ : عہد (معاہدہ فَدِيَةٌ : تو خون بہا مُّسَلَّمَةٌ : حوالہ کرنا اِلٰٓى اَھْلِهٖ : اس کے وارثوں کو وَتَحْرِيْرُ : اور آزاد کرنا رَقَبَةٍ : ایک گردن (غلام) مُّؤْمِنَةٍ : مسلمان فَمَنْ : سو جو لَّمْ يَجِدْ : نہ پائے فَصِيَامُ : تو روزے رکھے شَهْرَيْنِ : دو ماہ مُتَتَابِعَيْنِ : لگاتار تَوْبَةً : توبہ مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اور کسی مومن کو شایان نہیں کہ مومن کو مار ڈالے مگر بھول کر اور جو بھول کر بھی مومن کو مار ڈالے تو (ایک تو) ایک مسلمان غلام آزاد کریں اور (دوسرے) مقتول کے وارثوں کو خون بہادے ہاں اگر وہ معاف کریں (تو ان کو اختیار ہے) اگر مقتول تمہارے دشمنوں کی جماعت میں سے ہو اور وہ خود مومن ہو تو صرف ایک مسلمان غلام آزاد کرنا چاہے اور اگر مقتول ایسے لوگوں میں سے ہو جن میں اور تم میں صلح کا عہد ہو تو وارثان مقتول کو خون بہا دینا اور ایک مسلمان غلام آزاد کرنا چاہے اور جس کو یہ میسر نہ ہو وہ متواتر دو مہینے متواتر روزے رکھے یہ (کفارہ) خدا کی طرف سے (قبول) توبہ (کے لیے) ہے اور خدا (سب کچھ) جانتا (اور) بڑی حکمت والا ہے
آیت نمبر 92 تا 96 ترجمہ : کسی مومن کے لئے یہ روا نہیں کہ کسی مومن کو قتل کرے یعنی مومن کے لئے یہ مناسب نہیں کہ اس سے مومن کا قتل سرزد ہو، سوائے غلطی کے یعنی بلا ارادہ غلطی سے قتل ہوجائے (تو اور بات) اور جو کوئی مومن غلطی سے قتل کردے بایں طور کہ نشانہ غیر مومن مثلاً شکار یا درخت کو لگایا مگر مومن کو لگ گیا یا کسی ایسے آلہ سے قتل کردیا کہ جس سے عام طور پر قتل نہیں کیا جاتا تو اس پر ایک مومن غلام آزاد کرنا لازم ہے اور خون بہا بھی جو اس کے عزیزوں کے حوالہ کیا جائیگا، یعنی مقتول کے ورثاء کو، سوا اس کے کہ اسکے (عزیز) دیت معاف کردیں، اور سنت نے بیان کیا ہے کہ دیت سو (100) اونٹ ہیں بیس (20) بنت مخاض، اور اتنی ہی بنت لبون، اور بنولبون، اور حقے اور جذعے اور یہ دیت قاتل کے اہل خاندان پر ہے اور وہ اصل وفرع کے عصبہ ہیں، جو عصبات پر تقسیم کی جائیگی، (اس کی مدت) تین سال ہوگی ان میں سے مالدار پر نصف دینار سالانہ اور متوسط پر ربع دینار سالانہ اور اگر یہ لوگ ادا نہ کرسکیں تو بیت المال سے ادا ہوگی، اور اگر یہ بھی دشوار ہو تو جانی (قاتل) پر واجب ہوگی، اور اگر مقتول تمہاری دشمن قوم (دارلحرب) سے ہو حال یہ کہ وہ مومن ہو تو اس کے قاتل پر ایک غلام آزاد کرنا واجب ہے بطور کفارہ، نہ کہ بطور دیت، تاکہ اس کے اہل خانہ کو سپرد کردی جائے ان کے ساتھ محاربہ ہونے کی وجہ سے اور اگر مقتول ایسی قوم سے تعلق رکھتا ہو کہ تمہارے اور ان کے درمیان معاہدہ ہے جیسا کہ اہل ذمہ، اور اس کے قاتل پر ایک مومن غلام آزاد کرنا ہے سو اگر جو شخص غلام نہ پائے اس وجہ سے کہ غلام دستیاب نہ ہو یا اتنا مال نہ ہو کہ جس سے غلام خرید سکے، تو اس کا کفارہ دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے طعام کی طرف رجوع کا ذکر نہیں فرمایا جیسا کہ ظہار میں فرمایا ہے، اور امام شافعی (رح) تعالیٰ نے اپنے دونوں قولوں میں سے صحیح ترین قول میں اسی کو لیا ہے، اور اللہ کی جانب سے توبہ کی قبولیت ہے، توبة، مصدر ہے فعل مقدر (تاب) کی وجہ سے منصوب ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے بارے میں باخبر ہے، (اور) اس نے جو نظام قائم کیا ہے اس میں حکمت ہے اور جو شخص کسی مومن کو قصداً قتل کردے اس طریقہ پر کہ اس کو ایسی چیز سے قتل کا ارادہ کرکے کہ جس سے غالباً قتل کیا جاتا ہے اس کے ایمان سے واقف ہونے کے باوجود، تو ایسے شخص کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اس کو رحمت سے دوری ہے، اور اس کیلئے (اللہ نے) جہنم میں بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے، اور یہ (آیت) مؤوّل ہے اس شخص کے ساتھ جو مومن کے قتل کو حلال سمجھے یا اس طریقہ پر کہ یہ اس کی سزاء ہے اگر سزا دیا جائے، اور وعید کے تخلف میں کوئی ندرت نہیں ہے اللہ تعالیٰ کا قول '' ویغفر مادون ذلک لمن یشاء '' کی وجہ سے اور ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ یہ آیت اس کے ظاہر پر محمول ہے اور مغفرت کی دیگر آیتوں کیلئے ناسخ ہے اور سورة بقرہ کی آیت نے بیان کیا ہے کہ عمداً قتل کرنے والا قتل کی وجہ سے قتل کیا جائیگا، اور یقینا اس پر دیت واجب ہے اگرچہ اس کو معاف کردیا جائے اور دیت کی تعداد سابق میں گذر چکی ہے، اور سنت نے بیان کیا ہے کہ قتل عمد اور قتل خطاء کے درمیان ایک قتل اور ہے جس کا نام شبہ عمد ہے اور وہ یہ ہے کہ ایسی چیز سے قتل کردے کہ جس سے عام طور پر قتل کیا جاتا، تو اس میں قصاص نہیں ہے بلکہ اس میں دیت ہے صفت میں قتل عمد کے مانند اور تاجیل (تاخیر) اور خاندان والوں پر ڈالنے میں قتل خطاء کے مانند، قتل شبہ عمد اور قتل عمد کفارہ کے (وجوب) کیلئے قتل خطاء سے اولیٰ ہے، اور نازل ہوئی (آئندہ آیت) اس وقت جبکہ صحابہ کی ایک جماعت کا بنی سلیم کے ایک شخص کے پاس سے گذر ہوا اور وہ بکریاں لے جارہا تھا اس شخص نے ان لوگوں کو سلام کیا تو ان لوگوں نے کہا اس نے سلام محض جان بچانے کے لئے کیا ہے، چناچہ ان لوگوں نے اس کو قتل کردیا اور اس کی بکریوں کو ہانک لائے، (تو آیت یٰا یھا الذین آمنوا نازل ہوئی) اے ایمان والو جب تم خدا کے راستہ میں جہادی سفر کررہے ہو تو تحقیق کرلیا کرو اور ایک قراءت میں دونوں جگہ ثاء مثلثہ کے ساتھ ہے، (فَتَثبتوا) انتظار کیا کرو اور جو تمہیں سلام علیک کرے (سلام) الف کے ساتھ اور بدون الف کے ہے، اور کلمہ شہادت کے ذریعہ جو کہ اس کے اسلام کی علامت ہے انقیاد (فرمانبرداری) کا اظہار کرے تو تم یہ نہ کہ دو یا کرو کہ تو مسلمان نہیں ہے تو نے تو یہ کلمہ اپنی جان اور مال بچانے کے لئے کہا ہے، دنیاوی سامان مال غنیمت طلب کرنیکے لئے اس کو قتل کردو اللہ تعالیٰ کے پاس بہت غنیمتیں ہیں تو وہ غنیمتیں تم کو اس کے مال کے لئے اس کے قتل سے مستغنی کردے گی، اس سے پہلے تم بھی ایسے ہی تھے تمہاری جانیں اور تمہارے اموال محض تمہارے کلمہ شہادت کی وجہ سے محفوظ رکھے جاتے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تمہارے اوپر ایمان کی شہرت اور استقامت کے ذریعہ احسان فرمایا تو تم تحقیق کرلیا کرو (ایسا نہ ہو کہ) تم کسی مومن کو قتل کردو اور اسلام میں داخل ہونے والے کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرو جیسا تمہارے ساتھ کیا گیا، بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے، جن کی وہ تم کو جزاء دے گا، بغیر کسی عذر کے جہاد سے بیٹھے رہنے والے مومن (غیرُ ) رفع کے ساتھ حفت ہونے کی وجہ سے، اور نصب کے ساتھ استثناء کی وجہ سے، اپاہج یا اندھا وغیرہ ہونے کی وجہ سے، اور اللہ کے راستہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرنے والے برابر نہیں ہوسکتے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی جانوں اور مالوں سے جہاد کرنے والوں کو عذر کی وجہ سے جہاد نہ کرنے والوں پر فضیلت بخشی ہے دونوں کے نیت میں مساوی ہونے اور مجاہد کے عملی طور پر جہاد کرنے کی وجہ سے، اور (یوں تو) اللہ تعالیٰ نے دونوں فریقوں سے اچھائی کا وعدہ کررکھا ہے اور مجاہدین کو عذر بیٹھے رہنے والوں پر بڑے اجر کی فضیلت دے رکھی ہے اور درجاتٍ منہ (اجراً ) سے بدل ہے اپنی طرف سے مرتبے کی جو عزت میں ایک سے بڑھ کر ہے اور مغفرت اور رحمة میں دونوں اپنے مقدر فعلوں کی وجہ سے منصوب ہیں، اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کو معاف کرنے والا اور اسکی اطاعت کرنے والوں پر رحم کرنے والا ہے۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : مُخْطِئاً فی قَتْلہ، اس میں اشارہ ہے کہ خَطَأ، حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اور مصدر بمعنی اسم فاعل ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہو اور محذوف کی صفت ہو، ای اِلَّا قَتْلاً خَطأَ. قولہ : عَلَیْہِ : اس میں اشارہ ہے کہ تحریر، مبتداء ہے اور اس کی خبر محذوف ہے، ای فعلیہ تحریر یا مبتداء محذوف کی خبر ہے ای فالو اجب علیہ تحریر رقبةٍ اور فعل محذوف کا فاعل بھی ہوسکتا ہے ای فیجب علیہ تحریر رقبةٍ ، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ علیہ شرط کی جزاء ہو اور چونکہ جزاء کے لئے جملہ ہونا شرط ہے، لہٰذا علیہ کو محذوف مانا ہو۔ قولہ : وَدِیَة، اس کا عطف تحریر پر ہے وَدیة اصل میں مصدر ہے مال ماخوز پر اس کا اطلاق کیا گیا ہے اسی وجہ سے اس کی صفت مُسَلَّمة لائی گئی ہے اور یہ اصل میں وَدِی تھا داؤکو حذف کردیا اس کے عوض آخر میں تاء تانیث کا اضافہ کردیا، دیة ہوگیا۔ قولہ : نِصْفُ دِیْنَارِ ، یہ امام شافعی (رح) تعالیٰ کے نزدیک ہے۔ قولہ : ثُلُثاَ عُشْرِھا، یہ امام شافعی (رح) تعالیٰ کا مذہب ہے۔ قولہ : مَصْدَر مَنْصُوْب بِفِعْلِہِ الْمُقَدَّرِ ای تاَبَ علیکم تَوْبَةً. قولہ : عَالِماً باِیْمَانِہ، یعنی مذکورہ عذاب کا مستحق اس وقت ہوگا جبکہ اس کو مومن سمجھ کر قتل کیا ہو، اور اگر حربی سمجھ کر قتل کیا گیا ہو تو مستحق نہ ہوگا۔ قولہ : بِمَنِ اسْتَحَلَّہ '، اس کا اضافہ کا مقصد معتزلہ پر رد کرنا ہے اسلئے کہ جہنم میں دائمی دخول تو کافر کے لئے ہوگا، اسلئے کہ کتاب اور اجماع کے دلائل قطعیہ اس میں صریح ہیں کہ عصاة المسلمین کا دایمی طور پر داخلہ نہیں ہوگا، بخلاف معتزلہ کے کہ یہاں مرتکب گناہ کبیرہ اگر بغیر توبہ کے مرجائے تو وہ بھی دائمی جہنمی ہے۔ قولہ : لا بِدْعَ ای لْا نُدْرَةَ ، ابن عباس ؓ کے نزدیک آیت ظاہر پر محمول ہے، غالباً اس سے مقصد شدت کو ظاہر کرنا ہے، اسلئے کے حضرت ابن عباس ؓ ہی سے اس خلاف بھی مروی ہے۔ قولہ : فیِ قِرَائَ ةٍ بِالْمُثَلَّثَةِ ای بالثائ، ای فَتَثَبَّتُوْا . (یعنی انتظار کیا کرو) ۔ قولہ : بالرَّفْعِ صِفَةً ، یعنی غیر مرفوع ہے قاعدون کی صفت ہونے کی وجہ سے۔ سوال : القاعِدُوْنَ الف لام کی وجہ سے معرفہ ہے اور غیر نکرہ ہے لہٰذا صفت واقع ہونا درست نہیں ہے۔ پہلا جواب : غیر ھب دومتضاد کے درمیان واقع ہوتا ہے تو بھی معرفہ ہوجاتا ہے۔ دوسرا جواب : القاعدون میں الف لام جنس کا ہے جس کی وجہ سے مشابہ بنکرہ ہے۔ تیسرا جواب : القاعدون سے چونکہ کوئی متعین قوم مراد نہیں ہے لہٰذا وہ نکرہ ہی ہے معرفہ جب ہوتا جب متعین قوم مراد ہوتی، ظاہر یہ ہے کہ غیر، القاعدون سے بدل ہے اور ندل و مبدل منہ میں تعریف وتنکیر میں، طابقت ضروری نہیں ہے، اور غیر پر نصب بھی جائز ہے القاعدون سے استثناء کی وجہ سے۔ قولہ : من الزَمَانَةِ ، یہ للضرر کا بیان ہے۔ قولہ : مَنْصُوْ بانِ بِفِعْلِھمَا الْمقَدَّرِ یعنی مغفرةً ورحمةً دونوں اپنے اپنے فعل مقدر کی وجہ سے منصوب ہیں نہ کہ اَجْرًا، پر معطوف ہونے کی وجہ سے، تقدیر عبارت یہ ہے غفر اللہ لھم مغفرةً ورحمھم اللہ رحمةً. تفسیر وتشریح وَمَا کان لِمؤمِنٍ (الایة) یہ نفی بمعنی نہی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول ' وَمَا کان لکم أب تُؤ ذُوْا رسول اللہ ' میں نفی بمعنی نہی ہے اور اگر نفی اپنے معنی پر ہو تو یہ خبر ہوگی اور اس کا صادق ہونا صروری ہوگا، جس کی صورت یہ ہوگی کہ کسی مومن کا قتل صادر نہ ہو حالانکہ یہ واقعہ کے خلاف ہے۔ شان نزول : عبدبن حمید ابن جریر وغیرہ نے مجاہد سے نقل کیا ہے کہ عیاش بن ابی ربیعہ نے ایک مومن شخص کو نادانستہ قتل کردیا تھا جس کے بارے میں مذکورہ آیت نازل ہوئی۔ واقعہ کی تفصیل : ابھی آپ ﷺ نے ہجرت نہیں فرمائی تھی، ایک صاحب عیاش بن ابی ربیعہ حلقہ بگوش اسلام ہوگئے تھے، مگر قریش کے ظلم وستم نے ان کو اس کا موقع نہ دیا کہ وہ اپنے اسلام کا علی الاعلان اظہار کردیں اور انھیں اس بات کا بھی خوف تھا کہ کہیں ان کے مسلمان ہونے کی اطلاع ان کے گھر والوں کو نہ ہوجائے جس کی وجہ سے ان کی دقتوں میں اور زیادہ اضافہ ہوجائے، اس وقت مدینہ مسلمانوں کیلئے پناہ گاہ بن چکا تھا اکاّ دکاّ مصیبت زدہ مسلمان مدینہ کا رخ کررہے تھے، عیاش بن ابی ربیعہ اور ابوجہل آپس میں سوتیلے بھائی تھے، دونوں کی ماں ایک اور والد الگ الگ تھے ماں کی پریشانی نے ابوجہل کو اضطراب اور پریشانی میں ڈالدیا، ابوجہل کو کسی طرح معلوم ہوگیا کہ عیاش مدینہ میں پناہ گزیں ہوگیا ہے چناچہ ابوجہل خود اور اس کا دوسرا بھائی حارث اور ایک تیسرا شخص حارث بن زید بن ابی انیسہ مدینہ پہنچے، انہوں نے عیاش کو ان کی والدہ کی رو رو کر پوری حالت سنائی اور پورا یقین دلایا کہ تم صرف اپنی ماں سے مل آؤ، اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں چاہتے، حضرت عیاش نے اپنی والدہ کی بےچینی اور بھائیوں کے وعدہ پر اعتماد کرکے خود ان کے سپرد کردیا اور مکہ کے لئے ان کے ساتھ روانہ ہوگئے، مدینہ سے دو منزل مسافت طے کرنے کے بعد ان لوگوں نے غداری کی اور وہی سب کچھ کیا جس کا اندیشہ تھا، بڑی بےدردی سے پہلے تو ان کے ہاتھ پیر باندھے اور اس کے بعد تینوں نے بڑی بےرحمی سے ان پر اتنے کوڑے برسائے کہ پورابدن چھلنی کردیا، جس ماں کے لئے یہ سب کچھ کیا تھا اس نے عیاش کو تپتی ہوئی دھوپ میں ڈلوادیا کہ جب تک خدا اور اس کے رسول سے نہ پھروگے یوں ہی دھوپ میں جلتے رہو گے۔ یہ شہادت کی الفت میں قدم رکھنا ہے لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا لہو میں ڈوبا ہوا بدن، جکڑے ہوئے ہاتھ پاؤں، سفر کی تکلیف، ماں کا یہ ستم، بھائیوں کی یہ درندگی، مکہ کی تپتی ہوئی پتھریلی زمین آخر کب تک ؟ آخر مجبوراً عیاش کو وہ الفاظ کہنے پڑے جنھیں کہنے کے لئے ان کا دل ہرگز آمادہ نہیں تھا، تب کہیں اس عذاب سے چھٹکارا نصیب ہوا، ان کی اس بےکسی پر طعن کرتے ہوئے حارث بن زید نے ایک زبردست چوٹ کی کہنے لگے کیوں عیاش تمہارا دین بس اتنا ہی تھا ؟ عیاش غصہ کا گھونٹ پی کر رہ گئے اور قسم کھالی کہ جب بھی موقع ملے گا اس کو قتل کردوں گا، حضرت عیاش پھر کسی طرح مدینہ پہنچ گئے، ان ہی دنوں حارث بن زید بھی مکہ مکرمہ سے نکل کر مدینہ منورہ حاضر ہو کر جاں نثارانِ نبوت کی صف میں شامل ہوگئے، حضرت عیاش کو حارث بن زید کے اسلام قبول کرنے کی بالکل خبر نہ تھی، ایک روز اتفاق سے قباء کے نواح میں دونوں کا آمنا سامنا ہوگیا، حضرت عیاش ؓ کو حارث بن زید کی ساری حرکتیں یاد تھیں، سمجھے کہ پھر کسی بےکس کے ہاتھ پاؤں باندھنے آئے ہوں گے، اس سے پہلے کہ ایک دوسرے کے حالات سے واقف ہوتے حضرت عیاش کی تلوار اپنا کام کرچکی تھی، اس واقعہ کے بعد لوگوں نے عیاش کو صورت حال سے آگاہ کیا کہ حارث بن زید تو مسلمان ہو کر مدینہ آئے تھے، حضرت عیاش آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انتہائی افسوس کے ساتھ عرض کیا حضور آپ کو بخوبی معلوم ہے کہ حضرت حارث نے میرے ساتھ کیا کچھ کیا تھا میرے دل میں ان سب باتوں کا زخم تھا اور مجھے بالکل معلوم نہ تھا کہ وہ مشرف باسلام ہوچکے ہیں، ابھی یہ بات ہو رہی تھی کہ یہ آیت نازل ہوئی۔ قتل کی تین قسمیں اور ان کا شرعی حکم : پہلی قسم : قتلِ عمد، جو قصداً ایسے آلہ کے ذریعہ واقع ہو جو آہنی ہو یا تفریق اجزاء میں آہنی آلہ کے مانند ہو جیسے دھار دار پتھر یا بانس وغیرہ۔ دوسری قسم : قتل شبہ عمد، جو قصداً تو ہو مگر ایسے آلہ سے نہ ہو جس سے اجزاء میں تفریق ہوسکتی ہو، یا قتل ایسی چیز سے ہو جس سے عام طور پر قتل نہ ہونا ہو۔ تیسری قسم : قتل شبہ عمد، خطایا تو قصدوظن میں ہو کہ انسان کو شکار سمجھ بیٹھا، یا نشانہ خطا کر گیا کہ نشانہ چوک کر کسی انسان کو لگ گیا، ان دونوں قسموں میں قاتل پر دیت واجب ہے اور قاتل گنہگار بھی ہے مگر دونوں کی دیت میں فرق ہے، دوسری اور تیسری قسم کی دیت (100) اونٹ ہے، مگر اس تفصیل سے کہ چاروں قسم یعنی بنت لبون، جِذعہ، حِقہ ہر ایک قسم میں سے پچیس پچیس اور تیسری قسم میں اس تفصیل سے کہ اونٹ کی پانچ مع (بنولبون) قسموں میں سے ہر ایک میں بیس بیس، البتہ دیت اگر نقد کی صورت میں دی جائے تو مذکورہ دونوں قسموں میں دس ہزار درہم شرعی یا ایک ہزار دینار شرعی ہیں، اور گناہ دوسری قسم میں زیادہ ہے اسلئے کہ اس میں قصد کو دخل ہے اور تیسری قسم میں کم اور وہ بےاحتیاطی کا گناہ ہے۔ (معارف) مسلہ : دیت کی مذکورہ مقدار اس وقت ہے کہ جب مقتول مرد ہو اور عورت ہو تو دیت اس کی نصف ہوگی۔ (کذافی الھدایة) مسلہ : دیت مسلم اور ذمی کی برابر ہے حدیث میں ہے آپ نے فرمایا '' دِیَّة کل ذمی عھد فی عھدہ الف دینار ''. (اخرجَہ ' ابو داؤد) مسلہ : کفارہ یعنی تحریر رقبہ یا روزے رکھنا خود قاتل کے ذمہ ہیں، اور دیت قاتل کے (خاندان) اہل نصرت پر ہے جس کو اصلاح شرع میں عاقلہ کہتے ہیں۔ (معارف) مسلہ : مقتول کی دیت مقتول کے شرعی ورثاء میں تقسیم ہوگی اور جو اپنا حصہ معاف کردے گا اس قدر معاف ہوجائیگا اور اگر سب معاف کردیں گے تو پوری دیت معاف ہوجائیگی۔ مسلہ : جس مقتول کا وارث شرعی نہ ہو اس کی دیت بیت المال میں جمع ہوگی۔ خلاصہ کلام : کسی کو قتل کرنے کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں ایک یہ کہ جان بوجھ کر عمداً قتل کیا جائے اور دوسرے یہ کہ نادانستہ ایسا ہوجائے، دانستہ بلا قصور قتل کرنے کے مسائل سورة بقرہ آیت '' کتب علیکم القصاص '' کی تفسیر میں گذر چکے ہیں، نادانستہ قتل کے مسائل کی تفصیل حسب ذیل ہے، نادانستہ قتل کی کل چار صورتیں ممکن ہیں۔ (1) یہ کہ مقتول مومن ہو۔ (2) یہ کہ مقتول کافر ہو، مگر ذمیّ یا مستامن ہو جسکی جان ومال کی حفاظت کی ذمہ داری مسلمانوں کی ہو۔ (3) یہ کہ مقتول کافر معاہد ہو، یعنی اس ملک کا ہو کہ جس کے ساتھ معاہدۂ امن ہو۔ (4) یہ کہ مقتول کا فرحربی ہو۔ ان میں سے ہر ایک کی دو صورتیں ہیں، (1) اسے عمداً قتل کیا ہو، (2) یا غلطی سے قتل ہوا ہو، اس طرح کل آٹھ صورتیں ہوجاتی ہیں۔ (1) مومن اگر بلا قصور جان بوجھ کر قتل کردیا جائے تو اس کی دنیاوی سزا سورة بقرہ میں بیان فرمائی گئی ہے اور آخرت کی سزا آیت ” ومَنْ قتل مؤمناً متعمدٌا “ میں آرہی ہے۔ (2) مومن کو اگر نادانستہ قتل کردیا گیا تو اس کی سزا یہ ہے کہ ورثاء کو خون بہا ادا کیا جائے اور ایک غلام آزاد کیا جائے اور غلام میسر نہ ہونے کی صورت میں لگا تار دو مہینے کے روزے رکھے جائیں۔ (3) مقتول اگر ذمی ہو اور عمداً قتل کیا گیا ہو تو اس کی سزا یہ ہے کہ قتل کے بدلے قتل کردیا جائے یعنی جو سزا مومن کو عمداً قتل کرنے کی ہے وہی ذمی کو قتل کرنے کی بھی ہے، یہ امام صاحب کا مسلک ہے۔ (4) ذمی اگر نا دانستہ قتل کردیا جائے تو اس کے وارثوں کو خون بہا (خون کی قیمت) ادا کیا جائے گا، خون بہا کی مقدار میں ائمہ کے درمیان اختلاف ہے۔ (5) اگر مقتول معاہدہو اور قصداً قتل کردیا گیا تو اس کے قتل کی سزا میں اختلاف ہے، البتہ خون بہا ادا کرنا ضروری ہے۔ (6) اگر معاہدہ امن کرنے والا نادانستہ قتل ہوجائے تو اس کے لئے تو وہی قانون ہے جو ذمی کے قاتل کے لئے ہے یعنی وارثوں کو خون بہا دیا جائے۔ (7) ، (8) اگر مقتول حربی (مسلمانوں کا دشمن) تھا تو اس کا قتل خواہ دانستہ ہو یا نا دانستہ اس کے قاتل پر نہ قصاص ہے اور نہ دیت کیونکہ وہ حالت جنگ میں ہے۔ خون بہا کی مقدار : اس سلسلہ میں یہ بات ذہن نشین رہے کہ خون بہا کا دارومدار قیل کی نوعیت پر ہے، ایک صورت تو یہ ہے کہ قاتل پر عمداً قتل کا الزام ثابت ہوچکا ہو مگر کسی وجہ سے قصاص کے بجائے خون بہا پر معاملہ ٹھہرا ہے تو یہ سب سے اہم خون بہا سمجھا جائیگا۔ اگر واقعہ کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قتل کرنا مقصود نہیں تھا، یعنی عام حالات میں ایسے واقعہ میں آدمی مرتا نہیں ہے مگر اتفاق سے یہ شخص مرگیا، اس صورت میں جو خون بہا ہوگا وہ یقینا پہلی صورت سے ہلکا ہوگا، تیسری صورت یہ ہے کہ محض غلطی سے قتل کا صدور ہوگیا، ایسی صورے میں خون بہا دوسری صورت سے بھی ہلکا ہوگا۔ اگر خون بہا اونٹوں کی شکل میں ہو تو سو (100) اونٹ ہوں گے، اور گائے کی شکل میں ہو تو دو سو (200) گائے ہوں گی اور بکریوں کی صورت میں ہو تو ایک ہزار بکریاں ہوں گی، اور اگر کپڑوں کی شکل میں ہو تو دو سو (200) جوڑے ہوں گے، اس کے علاوہ اگر کسی اور چیز سے خون بہا ادا کیا جائے تو ان ہی چیزوں کی بازاری قیمت کے لحاظ سے متعین کیا جائیگا، مثلاً نبی ﷺ کے زمانہ میں سو اونٹوں کی قیمت آٹھ سو (800) دیناریا آٹھ ہزار (8000) درہم تھے جب حضرت عمر ؓ کا زمانہ آیا تو فرمایا کہ اب اونٹوں کی قیمت بڑھ گئی ہے لہٰذا اب دیت سونے کی صورت میں ایک ہزار دینار اور چاندی کی صورت میں بارہ ہزار درہم خون بہا دلوایا جائیگا۔ عورت کا خون بہا : عورت کا خون بہا مرد کا آدھا ہے اور باندی و غلام کا خون بہا اس کی ممکن قیمت ہوتی ہے، خون بہا کے معاملہ میں مسلم اور غیر مسلم امام صاحب کے نزدیک دونوں برابر ہیں، جو خون بہا اس کے بجائے قاتل کے ذمہ واجب ہوا ہے وہ صرف قاتل کے ذمہ ہوگا، اور جو خون بہا دوسری کسی وجہ سے عائد ہوتا ہے اس میں قاتل کے تمام رشتہ دار شریک ہو کر بطور چندہ ادا کریں گے۔
Top