Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - Al-Furqaan : 21
وَ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْمَلٰٓئِكَةُ اَوْ نَرٰى رَبَّنَا١ؕ لَقَدِ اسْتَكْبَرُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ وَ عَتَوْ عُتُوًّا كَبِیْرًا
وَقَالَ
: اور کہا
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
لَا يَرْجُوْنَ
: وہ امید نہیں رکھتے
لِقَآءَنَا
: ہم سے ملنا
لَوْلَآ
: کیوں نہ
اُنْزِلَ
: اتارے گئے
عَلَيْنَا
: ہم پر
الْمَلٰٓئِكَةُ
: فرشتے
اَوْ نَرٰي
: یا ہم دیکھ لیتے
رَبَّنَا
: اپنا رب
لَقَدِ اسْتَكْبَرُوْا
: تحقیق انہوں نے بڑا کیا
فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ
: اپنے دلوں میں
وَعَتَوْ
: اور انہوں نے سرکشی کی
عُتُوًّا كَبِيْرًا
: بڑی سرکشی
اور جو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے کہتے ہیں کہ ہم پر فرشتے کیوں نہ نازل کیے گئے یا ہم اپنی آنکھ سے اپنے پروردگار کو دیکھ لیں ؟ یہ اپنے خیال میں بڑائی رکھتے ہیں اور (اسی بنا پر) بڑے سرکش ہو رہے ہیں
آیت نمبر 21 تا 34 ترجمہ : جو لوگ ہمارے سامنے پیش ہونے سے اندیشہ نہیں کرتے یعنی بعث (بعد الموت) کا خوف نہیں رکھتے وہ یوں کہتے ہیں کہ ہمارے پاس فرشتے کیوں نہیں آتے ؟ کہ ہماری طرف رسول ہوں یا ہم اپنے رب کو دیکھ لیتے پھر ہمیں وہ یہ بات تباتے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے کہا ان لوگوں نے اپنے دلوں میں اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھ لیا ہے اور دنیا ہی میں اللہ کی رویت کا مطالبہ کرکے بڑی سرکشی کی ہے اور عَتَوْ واؤ کے ساتھ اپنی اصل پر ہے بخلاف عُتِیَ کے ابدال کے ساتھ سورة مریم میں جس روز یہ منجملہ خلائق کے فرشتوں کو دیکھیں گے اور (یومَ ) کا نصب اذکر فعل مقدر کی وجہ سے ہے، اس روز مجرموں یعنی کافروں کے لئے کوئی خوشخبری نہ ہوگی، بخلاف مؤمنین کے، ان کے لئے جنت کی خوشخبری ہوگی اور کہیں گے کہ پناہ ہے پناہ ہے (بچاؤ بچاؤ) اپنی عادت کے مطابق دنیا میں جب ان پر کوئی مصیبت آپڑتی، یعنی پناہ پناہ چلائیں گے اور ملائکہ سے پناہ چاہیں گے، اللہ تعالیٰ کہے گا، اور ہم ان کے ان اچھے کاموں کی طرف جو وہ دنیا میں کرچکے ہیں متوجہ ہوں گے، مثلاً صدقہ اور صلہ رحمی، مہمان نوازی اور مظلوم کی فریاد رسی تو ہم ان (اعمال) کو پراگندہ ذروں کی طرح کردیں گے ھَبَاءً منثوراً ان ذروں کو کہتے ہیں جو اس سوراخ میں نظر آتے ہیں جس پر دھوپ پڑتی ہے جیسا کہ منتشر غبار یعنی (ان کے اعمال کو) بےفائدہ ہونے میں غبار منتشر کے مانند کردیں گے، اس لئے کہ ان اعمال کا کوئی اجر نہ ہوگا، اجر کی شرط مفقود ہونے کی وجہ سے اور اس کی جزاء دنیا ہی میں دیدئیے جائیں گے، اہل جنت اس دن یعنی قیامت کے دن قیام گاہ میں بھی دنیا میں کافروں سے اچھے رہیں گے اور آرام گاہ میں بھی ان سے اچھے رہیں گے یعنی جنت میں قیلولہ (آرام) کرنے کی جگہ، اور قیلولہ دوپہر کو گرمی میں آرام کرنے کو کہتے ہیں اور اسی (احسن مقیلاً ) سے لیا گیا ہے کہ حساب دوپہر تک پورا ہوجائے گا جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا ہے اور جس روز آسمان یعنی ہر آسمان مع بادل کے پھٹ جائے گا اور وہ سفید بادل ہے، اور ہر آسمان سے فرشتے بکثرت اتارے جائیں گے اور وہ دن قیامت کا دن ہوگا اور یوم اُذْکُرْ محذوف کی وجہ سے منصوب ہے، اور ایک قرأت میں تشَّقَّقُ کی شین کی تشدید کے ساتھ، اصل میں (یعنی تا کو شین سے بدلنے اور شین کو شین میں ادغام کرنے سے پہلے) تائے ثانیہ کو شین میں ادغام کرکے، اور دوسری قرأت میں نُنزِلُ دونوں کے ساتھ، دوسرا نون ساکن اور لام کے ضمہ کے ساتھ اور ملائکہ کے نصب کے ساتھ اس روز حقیقی حکومت رحمن کی ہوگی اس دن اس کا کوئی شریک نہ ہوگا اور وہ دن کافروں کے لئے بڑا سخت ہوگا بخلاف مومنین کے اور جس روز ظالم مشرک عقبہ بن ابی معیط جس نے شہادتین کا اقرار کرلیا تھا اور پھر ابی بن خلف کو خوش کرنے کے لئے پھر گیا، اپنے ہاتھوں کو ندامت اور حسرت کے ساتھ قیامت کے دن کاٹ کھائے گا اور کہے گا کیا اچھا ہوتا کہ میں رسول محمد ﷺ کے ساتھ ہدایت کے راستہ پر لگ لیتا ہائے میری مبختی وَیْتَاا کا الف یائے اضافت کے عوض میں ہے (اصل میں) وَیْلَتِیْ تھا اور اس کے معنی میری ہلاکت کے ہیں کاش میں فلاں یعنی ابی بن خلف کو درست نہ بناتا اس نے مجھے نصیحت یعنی قرآن سے اس کے میرے پاس آنے کے بعد بہکا دیا اس طریقہ سے کہ اس پر ایمان لانے کے بعد مجھے واپس کردیا، اور شیطان تو کافر انسان کو (وقت پر) دھوکا دینے ہی والا ہے اس طریقہ پر کہ مصیبت کے وقت اس کو چھوڑ دیتا ہے اور اس سے اظہار بیزاری کردیتا ہے اور رسول یعنی محمد ﷺ کہیں گے اے میرے پروردگار میری قوم قریش نے اس قرآن کو متروک کردیا اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور اسی طرح تیری قوم کے مشرکوں کو تیرا دشمن بنادیا تم سے پہلے ہر نبی کا بعض مجرمین مشرکین کو دشمن بنادیا لہٰذا جس طرح انہوں نے صبر کیا تم بھی صبر کرو، آپ کی رہنمائی کرنے اور مدد کرنے کے لئے تیرا رب کافی ہے یعنی تیرے دشمنوں کے خلاف تیری مدد کرنے کے لئے کافی ہے اور کافروں نے کہا اس پر پورا قرآن ایک ساتھ کیوں نازل نہیں کیا گیا ؟ جس طرح کہ تورات اور انجیل اور زبور اتاری گئیں اور اس طرح یعنی متفرق نزول اس لئے ہے کہ ہم اس کے ذریعہ آپ کے قلب کو قوی کریں گے اور ہم نے اس کو بہت ٹھہر ٹھہر کر اتارا ہے، یعنی ہم نے اس کو تھوڑا تھوڑا کرکے وقفہ اور آہستگی کے ساتھ اتارا ہے تاکہ اس کا سمجھنا اور یاد کرنا آسان ہو اور یہ لوگ کیسا ہی عجیب سوال آپ کے معاملہ کو باطل کرنے کے لئے آپ کے سامنے پیش کریں مگر ہم ٹھیک جواب جو اس سوال کو دفع کرنے والا ہو اور بیان کے اعتبار سے خوب واضح ہو عنایت کردیتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے چہروں کے بل جہنم کی طرف گھسیٹے جائیں گے یہ لوگ مکان کے اعتبار سے بھی بدترین ہیں اور وہ (مکان) جہنم ہے اور طریقہ میں بھی سب سے زیادہ گمراہ ہیں یعنی دوسروں سے زیادہ گمراہ ہیں اور وہ (طریقہ) ان کا کفر ہے۔ تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد قولہ : لاَ یخافون یہ تَھَامَہ کی لغت میں لاَ یَرْجون کی تفسیر ہے، لاَ یَرْجونَ کو اپنے حقیقی معنی میں استعمال کرنا اولیٰ ہے، اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا لاَ یَامَلُوْنَ لِقَاءَ مَا وَعَدَنَا علیٰ الطَّاعۃِ من الثَّوابِ اور یہ بات ظاہر ہے کہ جو ثواب کی امید نہیں رکھتا وہ عذاب سے بھی نہیں ڈرتا لقد استکبر میں لام قسمیہ ہے۔ قولہ : وعتَوْا علیٰ اصلہ عَتَوْا اپنی اصل پر ہے واؤ یا سے تبدیل کئے بغیر، بخلاف سورة مریم کے کہ وہاں فواصل کی رعایت کی وجہ سے واؤ یا سے بدل دیا گیا ہے (مزید تحقیق سورؤ مریم میں دیکھ لی جائے) ۔ قولہ : لا بشری یہ جملہ قول مضمر کا معمول ہے، ای یَرَوْنَ الملائکۃ یقولون لا بشریٰ ۔ قولہ : حِجْرًا مصدر بمعنی استعاذہ ہے اور مَحْجُوْرًا اس کی تاکید ہے جیسا کہ عرب کہتے ہیں حرام مُحرَّم یا کہتے ہیں المحرم الحرام۔ قولہ عمدنا قدمنا کی تفسیر عمدنا سے کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قدوم کا اطلاق اللہ پر درست نہیں ہے اس لئے کہ قدوم جسمانیات کی صفت ہے۔ قولہ : ملھوف مظلوم فریاد خواہ کو کہتے ہیں۔ قولہ : کُویٰ کاف کے فتحہ اور ضمہ کے ساتھ، اس سوراخ کو کہتے ہیں جس سے سورج کی روشنی داخل ہوتی ہو۔ قولہ : ھَبَاءً ان ذرات کو کہتے ہیں جو سوراخ سے آنے والی روشنی میں اڑتے ہوئے نظر آتے ہیں اگر کوئی ان کو ہاتھ میں پکڑنا چاہے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ قولہ : خیرٌ مستقراً من الکافرین یعنی مومنین کا مستقر جنت میں دنیا میں کافروں کے مستقر سے بہتر ہے، یہاں اسم تفضیل خیرٌ اپنے معنی میں ہے من الکافرین فی الدنیا کہہ کر مفسر (رح) نے اسی کی طرف اشارہ کیا ہے گویا کہ یہ اس شبہ کا جواب ہے کہ اہل نار کے مستقر (جہنم) میں کوئی خیر نہیں ہے مگر خیر اسم تفضیل سے معلوم ہو رہا ہے کہ کافروں کے مستقر میں بھی خیر ہے مگر اہل جنت کے مستقر سے کم خیر ہے اور یہ مطلب بھی صحیح ہے کہ مستقر سے دونوں فریقوں کا آخرت میں مستقر مراد ہو اس صورت خیرٌ سے اسم تفضیل کے معنی مراد نہ ہوں بلکہ کفار کی محض تقریع وتوبیخ مراد ہوگی اور یہ عرب کے قول (العَسلُ اَحْلیٰ من الخَلَ ) کے قبیل سے ہوا حالانکہ خل میں کوئی حلاوۃ نہیں ہوتی، اس سے معلوم ہوتا ہے اسم تفضیل کے لئے مفضل منہ کا ہمیشہ ہونا ضروری نہیں، لہٰذا اعتراض دفع ہوگیا۔ قولہ : اُخِذَ من ذٰلک الخ یعنی احسن مقیلاً سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے میدان محشر میں حساب کتاب نصف النہار سے قبل ہی ختم ہوجائے گا اس لئے کہ جنت کے آرام کے لئے مقیلا کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کے معنی دوپہر کو قیلولہ کرنے کے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حساب کتاب سے فراغت دوپہر سے قبل ہی ہوجائے گی، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت ہے کہ قیامت کے روز اہل جنت جنت میں اور اہل دوزخ دوزخ میں قیلولہ کریں گے، گو یہ نصف یوم مومنین کے لئے بقدر ایک نماز کے معلوم ہوگا اور کافروں کو بہت طویل عرصہ معلوم ہوگا۔ قولہ : یَوْمَ تَشَقَّقُ السماءُ یومَ اُذکر محذوف کی وجہ سے منصوب ہے کل سماء سے اشارہ اس بات کی جانب ہے کہ السماء میں الف لام استغراق اور مَعَہٗ سے اشارہ با بمعنی مع ہے با سببیہ اور بمعنی عن بھی ہوسکتی ہے۔ قولہ : اَلْمُلکُ یَؤمَئِذٍ الحقُّ للرحمٰن الملکُ مبتداء ہے الحق اس کی صفت للرحمن خبر، ای الملک الثابتُ الذی لایزول للرحمن یومئذٍ مفسر علام نے ظالم کی تفسیر مشرک عقبہ بن ابی معیط سے کرکے اشارہ کردیا ہے کہ یہ آیت ایک خاص مشرک کے بارے میں نازل ہوئی جس کا نام عقبہ بن ابی معیط تھا۔ قولہ : یقول یَالَیْتَنی جملہ یَعُضُّ کی ضمیر سے حال ہے یَالَیْتَنِیْ میں یا تنبیہ کے لئے ہے نہ کہ ندا کے لئے اس لئے کہ منادیٰ کے لئے اسم ہونا شرط ہے اور اگر یا کو ندا کے لئے مانیں تو منادیٰ محذوف ماننا ہوگا ای یا قوم۔ قولہ : لَقَدْ اَضَلَّنِیْ میں لام قسمیہ ہے اَیْ واللہ لَقَدْ اَضَلَّنِیٰ ۔ قولہ : قال تعالیٰ سے اشارہ ہے کہ یہ جملہ مستانفہ ہے ظالم کا کلام اِذْ جاءَنِیْ پر پورا ہوگیا۔ قولہ : لَوْ لا نُزِّلَ القرآنَ جملۃ واحدۃً یہاں نُزِّل بمعنی اُنْزِلَ ہے اسلئے کہ نُزِّل کے معنی ہیں تھوڑا تھوڑا اتارنا اور اُنْزِلَ کے معنی ہیں ایک ساتھ اتارنا لہٰذا نُزِّل اور جملۃً واحدۃً میں تعارض ہوگا اسلئے کہا جائے گا نُزِّلَ کے ہے نَزّلْنَا کذٰلِکَ نَزَّلنا محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ کذٰلِکَ فعل محذوف کا مفعول ہے اور لنِثَبِّتَ بہٖ سے قرآن کو متفرق طور پر اتارنے کی تین حکمتوں کا بیان ہے۔ قولہ : وَاَحْسَنَ کا عطف الحق پر ہے، احسن محلاً مجرور ہے، قولہ : اَلَّذِیْنَ یُحْشَرُوْنَ ، ھُمْ مبتداء محذوف کی خبر ہے جیسا کہ مفسر (رح) نے ظاہر کردیا تفسیر و تشریح وقال۔۔۔۔ لقائنا (الآیہ) رَجَا کے معنی عام طور پر کسی محبوب و مرغوب چیز کی امید کرنے کے آتے ہیں اور کبھی یہ لفظ خوف کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، جیسا کہ ابن الانباری نے کتاب الاضداد میں لکھا ہے، اس جگہ بھی یہی خوف کے معنی زیادہ واضح ہیں، یعنی وہ لوگ جو ہمارے سامنے پیشی سے نہیں ڈرتے حِجْرًا مَحْجورًا حِجْر کے لفظی معنی محفوظ جگہ کے ہیں اور محجور اس کی تاکید ہے یہ لفظ محاورہ عرب میں اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی مصیبت سامنے ہو اس سے بچنے کے لئے لوگوں سے کہتے تھے کہ پناہ ہے پناہ ہے یعنی ہمیں اس مصیبت سے پناہ دو قیامت کے روز بھی جب کفار فرشتوں کو سامان عذاب لاتا ہوا دیکھیں گے تو دنیا کی عادت کے مطابق یہ لفظ کہیں گے، اور حضرت ابن عباس ؓ سے اس لفظ کے معنی حَرَامًا مَحْرمًا منقول ہیں اور مراد یہ ہے کہ قیامت کے روز جب یہ لوگ فرشتوں کو عذاب کے ساتھ دیکھیں گے اور ان سے معاف کرنے اور جنت میں جانے کی درخواست کریں گے تو فرشتے ان کے جواب میں کہیں گے حِجْرًا مَحْجُورًا یعنی جنت کافروں پر حرام اور ممنوع ہے۔ (مظہری) وقدمنا۔۔۔ عملوا یہاں کا رخیر سے وہ کار خیر مراد ہیں جن کا وجود نیت پر موقوف نہیں ہے جیسے مہمان نوازی، صلہ رحمی، حسن معاشرت، مظلوم کی مدد اور فریاد رسی، اس قسم کے اعمال خیر کا بدلہ، دنیا ہی میں مثلاً صحت و تندرستی، مالداری، خوشحالی، حسن و خوبصورتی، عقل و دانشمندی کے صورت میں دیدیا جاتا ہے، کافروں نے بزعم خویش دنیا میں اعمال کئے ہونگے اور آخرت میں ان کے اجر کی توقع رکھتے ہونگے وہ قیامت کے دن ذروں کے مانند کہ جو سورج کی کرنوں میں محسوس کرتے ہیں بےحیثیت ہوں گے، یہاں کافروں کے اعمال خیر کو جس طرح بےحیثیت ذروں کے مثل کہا گیا ہے، اسی طرح دوسرے مقامات پر کہیں راکھ سے، کہیں سراب سے اور کہیں صاف چکنے پتھر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ تشقق۔۔۔۔ الغمام معنی یہ ہیں کہ آسمان شق ہو کر اس میں سے ایک رقیق بادل اترے گا جس میں فرشتے ہوں گے، یہ ابر بشکل سائبان آسمان سے آئے گا اور اس میں حق تعالیٰ کی تجلی ہوگی اور اس کے گرداگرد ملائکہ ہوں گے، یہ حساب شروع ہونے کا وقت ہوگا اور اس وقت آسمان کا پھٹنا صرف کھلنے کے طور پر ہوگا، اس لئے کہ یہ نزول غمام جس کا ذکر آیت میں ہے نفخۂ ثانیہ کے بعد ہوگا جب کہ سب زمین و آسمان درست ہوچکے ہوں گے۔ یقول۔۔۔۔ خلیلاً یہ آیت ایک خاص واقعہ میں نازل ہوئی ہے مگر حکم عام ہے، واقعہ یہ تھا کہ عقبہ ابن معیط مکہ کے مشرک سرداروں میں سے تھا اس کی عادت تھی کہ جب کسی سفر سے واپس آتا تو شہر کے معزز لوگوں کی دعوت کرتا تھا اور رسول اللہ ﷺ سے اس کے تعلقات تھے ایک مرتبہ اس نے حسب عادت معززین شہر کی دعوت کی اور رسول اللہ ﷺ کو بھی بلایا جب اس نے آپ کے سامنے کھانا رکھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہارا کھانا اس وقت تک نہیں کھا سکتا جب تک تم اس کی گواہی نہ دو کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں، عقبہ نے یہ کلمہ پڑھ لیا اور آپ ﷺ نے شرط کے مطابق کھانا تناول فرما لیا۔ عقبہ کا ایک جگری دوست تھا اس کا نام ابی بن خلف تھا جب اس کو معلوم ہوا کہ عقبہ مسلمان ہوگیا تو بہت برہم ہوا، عقبہ نے عذر کیا کہ قریش کے معزز مہمان محمد ﷺ میرے گھر پر آئے تھے اگر وہ بغیر کھانا کھائے میرے گھر سے واپس چلے جاتے تو میرے لئے بڑی رسوائی کی بات تھی اس لئے میں نے ان کی خاطر یہ کلمہ پڑھ لیا، ابی بن خلف نے کہا میں تیری ایسی باتوں کو قبول نہیں کروں گا جب تک تو جا کر ان کے منہ پر نہ تھوکے، یہ کمبخت دوست کے کہنے سے اس گستاخی پر آمادہ ہوگیا اور کر گذرا، اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھی ان دونوں کو ذلیل کیا کہ غزوہ بدر میں دونوں مارے گئے (بغوی) اور آخرت میں ان کے لئے عذاب کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے کہ جب آخرت کا عذاب سامنے دیکھے گا تو اس وقت ندامت و افسوس سے اپنے ہاتھ کاٹنے لگے گا اور کہے گا کاش میں فلاں یعنی ابی بن خلف کو دوست نہ بناتا۔ (مظہری) نکتہ : آنحضرت ﷺ کے کھانا کھانے کے لئے کلمہ پڑھنے کی شرط لگانے سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کام کے لئے اخلاقی دباؤ ڈالنا درست ہے جیسا کہ بعض اوقات مبلغین حضرات دعوت قبول کرنے کے لئے خدا کے راستہ میں نکلنے کی شرط لگا دیتے ہیں۔ اس واقعہ سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ برے شخص کی دوستی اور صحبت سے بھی اجتناب کرنا چاہیے اس لئے کہ بری صحبت کا اثر جلدی ہوتا ہے، مسند احمد، ترمذی وغیرہ نے حضرت ابو سعید خدری سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لاً تُصَاحِبْ اِلاَّ مُؤْمِنًا وَلاَ یَاکُلُ مَا لَکَ الاتقی غیر مومن کو اپنا دوست نہ بناؤ اور تمہارا مال (بطور دوستی) صرف متقی آدمی کھائے یعنی غیر متقی سے دوستی نہ کرو اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا المرءُ علیٰ دین خلِیْلِہٖ فلینظُرْ من یخالل ہر آدمی (عادۃ) اپنے دوست کے طریقہ پر چلا کرتا ہے اسلئے دوست بنانے سے پہلے خوب غور کرلیا کرو کہ کس کو دوست بنا رہے ہو۔ وقال الرسول۔۔۔۔۔ مھجوراً یعنی آپ ﷺ اپنے پروردگار سے شکایت کریں گے اے میرے پروردگار میری قوم نے اس قرآن کو مہجور متروک کردیا، آنحضرت ﷺ کی یہ شکایت قیامت کے روز ہوگی یا اسی دنیا میں اس میں مفسرین کا اختلاف ہے احتمال دونوں ہیں اگلی آیت بظاہر اس کا قرینہ ہے کہ یہ شکایت دنیا ہی میں پیش فرمائی تھی جس کے جواب میں آپ کو تسلی دینے کے لئے اگلی آیت میں فرمایا کَذٰلِکَ جَعَلْنَا لکلِّ نبِّیٍ (الآیۃ) وقال۔۔۔ نزل (الآیۃ) اللہ اور رسول کے دشمن لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے بےسروپا اور نہایت غیر معقول اعتراض کرتے تھے، کہتے تھے کہ صاحب دوسری کتابوں کی طرح پورا قرآن ایک ہی دفعہ کیوں نہ اتارا گیا ؟ برسوں میں جو تھوڑا تھوڑا کرکے اتارا، کیا اللہ کو کچھ سوچنا پڑتا ہے ؟ اس سے تو شبہ ہوتا ہے کہ خود محمد ﷺ سوچ سوچ کر بناتے ہیں پھر موقع مناسب دیکھ کر تھوڑا تھوڑا سناتے رہتے ہیں۔ قرآن کو بتدریج نازل کرنے کی حکمت : اول حکمت تو یہ بیان فرمائی کہ بتدریج نازل کرنے میں یہ حکمت ہے کہ وقتاً فوقتاً قرآن کے نزول سے آپ کے قلب کو تقویت رہے اور دربار خداوندی سے مسلسل رابطہ رہے، دوم یہ کہ بتدریج نزول کی وجہ سے یاد کرنے میں آسانی ہو، تیسرے یہ کہ اگر کفار آپ پر کوئی نیا اعتراض کریں تو اس کا جواب بروقت نازل کردیا جائے اور آپ کو تسلی بھی دیدی جائے، اور اگر پورا قرآن ایک ہی دفعہ آگیا ہوتا اور اس خاص اعتراض کا جواب اور آپ کے لئے تسلی نازل ہو بھی گئی ہوتی تو بہرحال اس کو قرآن میں تلاش کرنے کی ضرورت پڑتی اور بروقت اس کی طرف ذہن کا متوجہ ہونا بھی ضروری نہیں، ان حکمتوں کے علاوہ بھی حکمتیں ہوسکتی ہیں ان میں انحصار ضروری نہیں۔
Top