Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 77
اَوَ لَا یَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ
اَوَ : کیا وہ لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے اَنَّ اللہ : کہ اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا : جو يُسِرُّوْنَ : وہ چھپاتے ہیں وَمَا : اور جو يُعْلِنُوْنَ : وہ ظاہر کرتے ہیں
کیا یہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ جو کچھ یہ چھپاتے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں خدا کو سب معلوم ہے ؟
آیت نمبر 78 تا 82 ترجمہ : اور ان یہود میں بعض ناخواندہ بھی ہیں جو کتاب یعنی تورات کا علم نہیں رکھتے، مگر دل خوش کن باتوں کا جو انہوں نے اپنے سرداروں سے سنی ہیں، ان ہی پر اعتماد کرلیا اور وہ آپ کی نبوت سے انکار کے بارے میں جن کو وہ گھڑ لیتے ہیں، محض وہم و گمان پر قائم ہیں اور ان کے پاس (اس کی) کوئی سند نہیں، لہٰذا ان کے لئے ہلاکت، شدید عذاب ہے، (اس لئے) کہ وہ اپنی طرف سے تصنیف کرتے ہیں (یعنی) ازخود ایجاد کرلیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ یہ (نوشتہ) اللہ کے پاس سے آیا ہوا ہے، تاکہ اس کے معاوضہ میں (دنیا کا) قلیل فائدہ حاصل کریں اور یہ یہود ہیں جنہوں نے آپ ﷺ کی تورات میں مذکور صفات کو بدل ڈالا اور آیت رجم وغیرہ کو (بھی) اور نازل کردہ کے برعکس لکھ دیا تو ایسے لوگوں کے لئے بربادی ہے خود نوشتہ کی وجہ سے جو انہوں نے گھڑ لیا ہے اور ان کی رشوت کی یہ کمائی بھی موجب ہلاکت ہوگئی اور وہ جب ان کو نبی ﷺ جہنم کی آگ سے ڈراتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم کو آگ ہرگز نہ چھوئے گی مگر گنتی کے چند دن یعنی چالیس دن جو ان کے آباء (و اجداد) کے بچھڑے کو پوجنے کی مدت ہے، پھر ختم ہوجائے گی، اے محمد ﷺ آپ ﷺ ان سے پوچھو، کیا تم نے اللہ سے اس کا کوئی عہدلے لیا ہے ؟ (اَتَّخَذْتُمْ ) ہمزہ استفہام کی وجہ سے ہمزہ وصل سے مستغنی یہ ہے کہ تم اللہ پر ایسی بات کا بہتان لگاتے ہو جس کے متعلق خود تم کو علم نہیں ہے، آخر تمہیں دوزخ کی آگ کیوں نہ چھوئے گی اور اس میں ہمیشہ رہو گے، جو بھی بدی شرک کمائے گا اور اس کو اس کی خطا کاری گھیرے ہو (خطیئَۃٌ) افراد اور جمع کے ساتھ ہے یعنی (بدی) اس پر غالب آگئی اور اس کو ہر جانب سے گھیر لیا بایں طور کہ وہ حالت شرک میں مرگیا، تو وہ دوزخی ہے اور دوزخ ہی میں ہمیشہ رہے گا (اولئک اور ھم اور خلدون وغیرہ میں) مَنْ کے معنی کی رعایت کی گئی ہے اور جو لوگ ایمان لائیں اور نیک اعمال کریں وہی جنتی ہیں اور وہ (جنت) میں ہمیشہ رہیں گے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : عَوَام، اُمِّیُّون، کی تفسیر عوام سے کرکے ایک سوال مقدر کے جواب کی طرف اشارہ کردیا۔ سوال : عرب میں اُمِّیُونَ بولا جاتا ہے، تو قوم عرب کی طرف ذہن سبقت کرتا ہے، نیز اُمّۃُ الُامیۃ، عرب ہی کے بارے میں بولا جاتا ہے۔ جواب : جواب کا ماحصل یہ ہے کہ یہاں اُمّیونَ سے عوام یہود مراد ہیں جو احبار یہود کے بالمقابل ہیں جن کو عوام کہا جاتا ہے نیز اس شبہ کا بھی جواب ہوگیا کہ منھم سے مراد یہود ہیں اور امیون سے معلوم ہوتا ہے کہ : عرب ہیں جب امیون کی تفسیر عوام سے کردی تو یہ تضاد بھی ختم ہوگیا۔ قولہ : اَلْاَمَانِی، اَمَانِی، اُمْنِیَّۃٌ، کی جمع ہے، بمعنی آرزو، بےاصل خیالات، یہ منیٰ یمنی، مَنیًا، بمعنی مقدر کرنا سے ماخوذ ہے۔ قولہ : بِاَ یْدِ یھم، یہ یکتبون کی تاکید ہے، اس لئے کہ کتابت ہاتھ ہی سے ہوتی ہے جیسا ” ولا طا ئرٍ یَطِیرُ بجناحیہ “ میں یطیر بجناحَیْہِ طائرٌ، کی تاکید ہے۔ قولہ : فَوَ یْلٌ لَھُمْ ۔ ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : وَیْلٌ مبتدا اور لَھُمْ اس کی خبر ہے حالانکہ وَیْلٌ نکرہ اور نکرہ کا مبتدا واقع ہونا درست نہیں ہے۔ جواب : وَیْلٌ، دارصل کلمئہ بد دعا ہے، یہ اصل میں ھَلَکَتْ وَیْلاً تھا، جیسا کہسَلّمتُ سَلَا مًا فعل کو حذف کرکے نصب سے رفع کی جانب عدول کیا تاکہ دوام ثبات پر دلالت کرے۔ تفسیر وتشریح اس سے پہلی آیت میں رؤسائے یہود کی جانب سے اس بات پر ملامت کا ذکر تھا کہ وہ مسلمانوں کو وہ باتیں بتادیتے ہیں کہ جو کل بروز قیامت خدا کے روبرو خود اپنے ہی خلافت ہتھیار اور حجب کا کام دیں گی مثلاًٍٍ آپ ﷺ کی صفات اور علامات اور آپ کا حلیہ مبارک وغیرہ جو تورات وغیرہ میں مذکور تھا۔ اَوَلَایَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللہَ ، (الآیۃ) اس آیت میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ بےمغزیہوداتنا بھی نہیں جانتے کہ جن باتوں کو مسلمانوں سے چھپانے کی کوشش کررہے ہیں، ان کی خبر وہ وحی کے ذریعہ مسلمانوں کو دے سکتا ہے، مثلاً آیت رجم کو انہوں نے چھپایا مگر اللہ نے اس کو ظاہر رکے ان کو رسوا کردیا، یہ تو ان کے علمائ کا حال ہوا کہ جو عقلمندی اور کتاب دانی کے مدعی تھی، اب اگلی آیت میں جاہل اور ناخواندہ لوگوں کا ذکر ہے کہ وہ اس بات سے قطعاً بیخبر اور غافل ہیں کہ تورات میں کیا لکھا ہے ؟ سوائے چند آرزؤں اور خوش کن باتوں کے جو انہوں نے اپنے عالموں سے سن رکھی ہیں، مثلاً جنت میں یہودیوں کے علاوہ کوئی نہیں جائے گا اور یہ کہ ہمارے آباء و اجداد ہم کو ضرور بخشوا لیں گے اور اگر بالفرض دوزخ میں جانا بھی ہوا تو وہ مدت چند (چالیس) دنوں سے زائد نہ ہوگی، ان کے یہ خیالات محض بےاصل اور بےبنیاد ہیں اس کی کوئی دلیل نہ ان کے پاس ہے اور نہ ان سے پہلوں کے پاس تھی۔
Top