Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 50
وَ اِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰكُمْ وَ اَغْرَقْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ
وَاِذْ : اور جب فَرَقْنَا : ہم نے پھاڑ دیا بِكُمُ : تمہارے لیے الْبَحْرَ : دریا فَاَنْجَيْنَاكُمْ : پھر تمہیں بچا لیا وَاَغْرَقْنَا : اور ہم نے ڈبو دیا آلَ فِرْعَوْنَ : آل فرعون وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ : اور تم دیکھ رہے تھے
اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا کو پھاڑ دیا تو تم کو تو نجات دی اور فرعون کی قوم کو غرق کردیا اور تم دیکھ ہی تو رہے تھے
وَاِذْفَرَقْنَا بِکُمُ الْبَحْرَ فَانْجَیْنَکُمْ ، بحر سے مراد یہاں دریائے نیل نہیں جیسا کہ بعض ثقات کو دھوکا ہوا ہے، بلکہ بحر قلزم (بحراحمر) مراد ہے اسرائیلی اپنے کو ہر طرف سے محصور پاکر قدرة سخت پریشان ہوئے لیکن رہنمائی اللہ کے ایک پیغمبر کر رہے تھے، آپ نے وحی الٰہی کے اشارہ پر فرمایا کہ بلا توقف سمندر میں داخل ہوجاؤ، سمندر کا پانی سمٹ کر دونوں طرف پہاڑ جیسی دیواروں کی طرف کھڑا ہوگیا، درمیان میں خشک راستہ پیدا ہوگیا اسرائیلیوں کا قافلہ عبور کرگیا، اس دوران فرعونی بھی لب ساحل پہنچ گئے، اور یہ منظر دیکھ کر وہ بھی پیدال اور سوار خشک سمندر میں داخل ہوگئے، لیکن ابھی درمیان ہی میں تھے کہ پانی کی وہ کھڑی دیواریں آپس میں مل گئیں، اور سمندر کا پانی حسب سابق رواں ہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے فرعون مع اپنے لاؤ لشکر کے غرق ہو کر رہ گیا۔ معجزہ کی حقیقت : انسان کے محدود نقطہ نظر اور ناقص علم کے اعتبار سے جو مستبعد خلاف معمول اور حیرت انگیز واقعہ کسی نبی کی تائید میں ظاہری مادی اسباب سے بےتعلق ظہور میں آئے اسے اصطلاح میں معجزہ کہتے ہیں، '' ایسے کسی واقعہ کو جس کا ثبوت رؤیت یا روایت یعنی مشاہدہ یا نقل صحیح سے مل جائے '' خلاف عقل کہہ کر اس کے امکان سے انکار کر بیٹھنا یا اس کی تاویل کی کوشش کرنا جیسا کہ سرسید احمد خاں نے کی ہے خود ایک انتہائی نادانی اور بےعقلی ہے، عجائبات سے آخر تاریخ بھری پڑی ہے، اور خوارق، نوادر، اور حوادث عجیبہ سے دنیا کا کونسا دور خالی رہا ہے، زیادہ سے زیادہ ایسے واقعات کو خلاف معمول خلاف عادت عامہ کہا جاسکتا ہے اور ان کے روایتی ثبوت کا مطالبہ یقینا کیا جاسکتا ہے اور راویوں پر جرح بھی خوب کرلینی چاہیے، لیکن اس سے تجاوز کر کے ان کے نفس امکان میں شک کرنا یا انہیں خلاف عقل یا محال قرار دینا اپنی کم عقلی کا اظہار ہے۔ استبعاد جو کچھ بھی ہے وہ تو صرف انسانی معیار سے ہے، انسان کے بہت ہی محدود مختصر رقبہ، علم و تجربہ کے اعتبار سے ہے ورنہ جو قادر مطلق ہے اس کے لئے تو حسب معمول اور خلاف معمول سب ایک ہے۔ وقوع اور امکان میں فرق : وقوع اور امکان دو بالکل الگ الگ چیزیں ہیں اور ان ہی کے خلط مبحث نے معجزہ کے مسئلہ میں اتنی الجھن پیدا کردی ہے امکان تو ہر چیز کا ہے قادر مطلق کے دائرہ قدرت کے اندر ہر بڑی سے بڑی چیز ہے ناممکن اور محال اس کے لئے کوئی چیز نہیں، لیکن وقوع پر یقین کرنے کے لئے شاہدوں کی ضرورت ہوتی ہے، یہ تو معجزات پر اصولی گفتگو تھی، باقی یہاں جس فرق بحر کا ذکر ہے تو یہ سمندر کا پھٹ جانا اور درمیان میں خشکی کی راہ بن جانا، کچھ ایسا زیادہ خارق عادت ہے بھی نہیں کہ اس کی نظیر کہیں نہ ملتی ہو، بحری زلزلے کے وقت ایسی صورتیں پیش آتی رہتی ہیں، جنوری 1934 ء رمضان 1352 ھ میں جو عظیم زلزلہ بہار اور اطراف بہار میں آیا اس موقع پر صوبہ بہار کے صدر مقام پٹنہ میں دوپہر ڈھائی بجے کے قریب ایک مجمع کثیر نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ گنگا جیسے وسیع و عریض دریا کا پانی چشم زدن میں غائب ہوگیا، اور اتنے چوڑے پاٹ میں بجائے دریا کے دھارے کے خشک زمین نکل آئی اور یہ حیرت انگیز اور دہشت ناک منظر چند سیکنڈ نہیں چار پانچ منٹ تک قائم رہا یہاں تک کہ دریا اسی برق رفتاری کے ساتھ یک بیک زمین سے ابل کر پھر جاری ہوگیا واقعہ کی مفصل روائد وقائع نگار کے قلم سے انگریزی روزنامہ '' پانیر '' (لکھنؤ) 20 جنوری 1934 ء کی اشاعت میں درج ہے۔ (تفسیر ماجدی)
Top