Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 187
اُحِلَّ لَكُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَآئِكُمْ١ؕ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ١ؕ عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَیْكُمْ وَ عَفَا عَنْكُمْ١ۚ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْهُنَّ وَ ابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ١۪ وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ١۪ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَى الَّیْلِ١ۚ وَ لَا تُبَاشِرُوْهُنَّ وَ اَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ١ۙ فِی الْمَسٰجِدِ١ؕ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَقْرَبُوْهَا١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ اٰیٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
اُحِلَّ : جائز کردیا گیا لَكُمْ : تمہارے لیے لَيْلَةَ : رات الصِّيَامِ : روزہ الرَّفَثُ : بےپردہ ہونا اِلٰى : طرف (سے) نِسَآئِكُمْ : اپنی عورتوں سے بےپردہ ہونا ھُنَّ : وہ لِبَاسٌ : لباس لَّكُمْ : تمہارے لیے وَاَنْتُمْ : اور تم لِبَاسٌ : لباس لَّهُنَّ : ان کے لیے عَلِمَ : جان لیا اللّٰهُ : اللہ اَنَّكُمْ : کہ تم كُنْتُمْ : تم تھے تَخْتَانُوْنَ : خیانت کرتے اَنْفُسَكُمْ : اپنے تئیں فَتَابَ : سو معاف کردیا عَلَيْكُمْ : تم کو وَعَفَا : اور در گزر کی عَنْكُمْ : تم سے فَالْئٰنَ : پس اب بَاشِرُوْھُنَّ : ان سے ملو وَابْتَغُوْا : اور طلب کرو مَا كَتَبَ : جو لکھ دیا اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے وَكُلُوْا : اور کھاؤ وَاشْرَبُوْا : اور پیو حَتّٰى : یہاں تک کہ يَتَبَيَّنَ : واضح ہوجائے لَكُمُ : تمہارے لیے الْخَيْطُ : دھاری الْاَبْيَضُ : سفید مِنَ : سے لْخَيْطِ : دھاری الْاَسْوَدِ : سیاہ مِنَ : سے الْفَجْرِ : فجر ثُمَّ : پھر اَتِمُّوا : تم پورا کرو الصِّيَامَ : روزہ اِلَى : تک الَّيْلِ : رات وَلَا : اور نہ تُبَاشِرُوْھُنَّ : ان سے ملو وَاَنْتُمْ : جبکہ تم عٰكِفُوْنَ : اعتکاف کرنیوالے فِي الْمَسٰجِدِ : مسجدوں میں تِلْكَ : یہ حُدُوْدُ : حدیں اللّٰهِ : اللہ فَلَا : پس نہ تَقْرَبُوْھَا : اس کے قریب جاؤ كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ : واضح کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ اٰيٰتِهٖ : اپنے حکم لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَّقُوْنَ : پرہیزگار ہوجائیں
روزوں کی راتوں میں تمہارے لیے اپنی عورتوں کے پاس جانا جائز کردیا گیا ہے وہ تمہاری پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو خدا کو معلوم ہے کہ تم (ان کے پاس جانے سے) اپنے حق میں خیانت کرتے تھے سو اس نے تم پر مہربانی کی اور تمہاری حرکات سے درگزر فرمائی اب (تم کو اختیار ہے کہ) ان سے مباشرت کرو اور جو چیز خدا نے تمہارے لیے لکھ رکھی ہے (یعنی اولاد) اس کو خدا سے طلب کرو اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری (رات کی) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے پھر روزہ (رکھ کر) رات تک پورا کرو اور جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو ان سے مباشرت نہ کرو یہ خدا کی حدیں ہیں ان کے پاس نہ جانا اسی طرح اپنی آیتیں لوگوں کے (سمجھانے کے) لئے کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ وہ پرہیزگار بنیں
آیت نمبر 187 تا 188 ترجمہ : اور حلال کردیا گیا تمہارے لئے روزہ کی رات میں تمہاری عورتوں سے جماع کے طور پر بےحجاب ہونا یہ حکم ابتداء اسلام میں عورتوں سے جماع اور عشاء کے بعد کھانے پینے کی حرمت کو منسوخ کرنے کے لئے نازل ہوا، وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو، یہ کنایہ ہے باہمی معانقہ سے یا ایک دوسرے کا حاجتمند ہونے سے، اللہ کو معلوم ہے کہ تم روزہ کی رات جماع کرکے اپنے ہی ساتھ خیانت کر رہے ہو، یہ واقعہ حضرت عمر ؓ وغیرہ کو پیش آیا تھا، اور ان لوگوں نے آپ ﷺ سے معذرت چاہی، تو اس نے تمہاری توبہ قبول کرلی اور تم سے درگزر کیا پس اب جب کہ تمہارے لئے حلال کردیا گیا ہے تو ان سے مباشرت کرسکتے ہو یا اس (اولاد) کو طلب کرسکتے ہو جو تمہارے لئے اللہ نے مقدر کردی ہے یعنی جماع جائز کردیا یا ولد مقدر کو طلب کرنا جائز کردیا اور رات کے ہر حصہ میں کھاپی سکتے ہوتا ایں کہ فجر یعنی صبح صادق کا سفید دھاگا کالے دھاگے سے ممتاز ہوجائئے (مِنَ الفجر) الخیط الابیض کا بیان ہے اور الاسود کا بیان محذوف ہے، (اور وہ من اللیل ہے) ظاہر ہونے والی سفیدی کو اور اس تاریکی کو جو اس کے ساتھ ممتد ہوتی ہے سفید اور سیاہ دو دھاگوں کے ساتھ درازی میں تشبیہ دی گئی ہے پھر صبح صادق سے رات تک روزہ پورا کرو، یعنی غروب شمس کے ساتھ رات داخل ہونے تک، اور اپنی عورتوں سے مباشرت نہ کرو جب کہ تم اعتکاف کی نیت سے مسجدوں میں مقیم ہو فی المساجد، عاکفون کے متعلق ہے، یہ ممانعت اس شخص کے لئے ہے جو (مسجد میں) معتکف ہونے کی وجہ سے مسجد سے نکل گیا ہو، اور اپنی بیوی سے مجامعت کرکے واپس آیا ہو، یہ مذکورہ احکام اللہ کی حدود ہیں جس کو اللہ نے اپنے بندوں کے لئے مقرر فرمایا ہے، لہٰذا ان کے قریب بھی نہ جانا یہ تعبیر لا تعتدوھا سے بلیغ تر ہے، جس کو دوسری آیت میں تعبیر کیا گیا ہے، اسی طرح جس طرح تمہارے لئے مذکورہ (احکام) بیان کئے گئے اللہ تعالیٰ اپنی آیتوں کو لوگوں کے لئے بیان کرتا ہے تاکہ حرام کردہ چیزوں سے بچیں اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کا مال ناروا طریقہ سے کھاؤ یعنی باطل طریقہ سے ایک دوسرے کا مال نہ کھاؤ، یعنی اس طریقہ پر جو شرعاً حرام ہے مثلاً چوری، غصب (وغیرہ) اور نہ پہنچاؤ مال کو یعنی مالی خصومت کو حکام کے پاس یعنی مالی نزاع کو حاکموں کے پاس یا مال کو بطور رشوت حکام کے پاس نہ پہنچاؤ تاکہ کھا جاؤ تم مرافعہ الی الحکام کرکے لوگوں کے مال کا ایک حصہ گناہ کے ساتھ آلودہ کرکے جب کہ تم جانتے ہو کہ تم ناحق پر ہو۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ ، الرَّفَثُ وہ گفتگو جو مرد اور عورت کے درمیان جماع کے وقت ہوتی ہے اور دوسرے وقت ناپسند کی جاتی ہے، رفَث اور جماع کے درمیان عموماً لزوم ہونے کی وجہ سے رفث بول کر جماع مراد لیا گیا ہے۔ (اعراب القرآن) رَفَثَ یَرْفُثُ (ن) رَفْثًا، فحش باتیں کرنا۔ سوال : رفث کا صلہ فی یا باء آتا ہے، یہاں الیٰ استعمال ہوا ہے ؟ جواب : رفث چونکہ افضاء کے معنی کو مشتمل ہے لہٰذا صلہ الیٰ لانا صحیح ہے، جیسا کہ مفسر علام نے اشارہ کردیا ہے۔ قولہ : لَیْلَۃَ الصِّیامِ ظاہر تو یہی ہے کہ لَیْلَۃَ ، اُحِلّ کی وجہ سے منصوب ہے جیسا کہ بہت سے مفسرین نے یہی کہا ہے، مگر اس صورت میں یہ شبہ ہوتا ہے کہ حلت تو اس وقت سے پہلے ہی ثابت تھی، اس ترکیب سے ظاہر ہوتا ہے کہ حلت اسی وقت ہوئی۔ سوال : الرفثُ جو کہ بعد میں مذکور ہے وہ لَیْلَۃَ کا ناصب ہوسکتا ہے ؟ جواب : الرفث چونکہ مصدر عامل ضعیف ہے جو اپنے ماقبل میں عمل نہیں کرسکتا، اس لئے وہ عامل نہیں ہے، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ لَیْلَۃَ کا عامل محذوف مان لیا جائے، تقدیر عبارت یہ ہوگی اَنْ تَرْفُثوا لَیْلَۃَ الصِّیامِ ۔ قولہ : تخونون، تختانون کی تفسیر تخونون سے کرکے ایک اشکال کا جواب دیا ہے۔ اشکال : تختانون باب افتعال سے ہے جو کہ لازم ہوتا ہے حالانکہ یہاں انفسکم کی جانب متعدی ہے۔ جواب : مفسر علام نے تختانون کی تفسیر تخونون سے کرکے اسی اشکال کا جواب دیا ہے، جواب کا ماحصل یہ ہے کہ افتعال مجرد کے معنی میں ہے اور باب افتعال کثرت خیانت کو ظاہر کرنے کے لئے اختیار کیا گیا ہے۔ قولہ : وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا اس کا عطف باشِرُوھُنَّ پر ہے۔ قولہ : الغَبَش شین اور باء کے فتحہ کے ساتھ بمعنی غلس بقیۃ اللیل یا آخر شب کی ظلمت۔ قولہ : الی دخولہ بغروب الشمس اس میں اشارہ ہے کہ غایت مغیا میں داخل نہیں ہے۔ قولہ : شُبِّہَ مَا یَبدُوا مِنَ البِیَاضِ ومَا یمتدُّ مَعَہٗ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک اشکال جواب ہے۔ اشکال : یہ ہے کہ صبح صادق کو خیط ابیض سے تشبیہ دی گئی ہے حالانکہ یہ تشبیہ صبح کاذب سے زیادہ مشابہ ہے اس لئے کہ وہ دھاگے کی شکل میں عموداً ممتد ہوتی ہے نہ کہ صبح صادق، صبح صادق تو عرضاً پھیلی ہوئی ہوتی ہے، مذکورہ عبارت سے اسی اعتراض کا جواب دیا ہے جواب : کا خلاصہ یہ ہے کہ صبح صادق جب ابتدا نمودار ہوتی ہے تو اس کا بالائی کنارہ خیط ابیض کے مشابہ ہوتا ہے، معلوم ہوا تشبیہ ابتداء نمودار ہونے والے کنارہ کے ساتھ ہے نہ کہ درمیان یا آخر کے ساتھ۔ فافھم۔ قولہ : فلا تقربوھا اَبلَغُ مِن لا تَعْتَدُوھَا، ھُوَ ابْلَغُ الخ سے دو اشکالوں کا جواب دینا مقصود ہے : (1) پہلا اشکال : جن احکام کے قریب نہ جانے کا حکم کیا جا رہا ہے ان میں سے بعض واجب ہیں اور بعض مباح اور بعض حرام تو ان سب کے لیے یہ کہنا ان کے قریب بھی مت جانا کیسے درست ہوسکتا ہے ؟ (2) دوسرا اشکال : دوسری آیت میں وارد ہوا ہے تِلْکَ حُدُوْدُ اللہِ فَلَا تعْتَدُوْھَا مطلب یہ ہے کہ یہ اللہ کی حدود و احکام ہیں ان سے آگے نہ بڑھنا (تجاوز نہ کرنا) ان دونوں آیتوں کے مفہوم میں تضاد ہے، لہٰذا جمع و توفیق کی کیا صورت ہوگی ؟ (1) پہلے اشکال کا جواب : اللہ تعالیٰ نے احکام کو ان حدود کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو حق و باطل کے درمیان حاجز ہیں جو ان احکام پر عمل پیرا ہوگا وہ حق کا ادا کرنے والا ہوگا اور جو ان کی مخالفت کرے گا وہ باطل میں واقع ہوگا، لہٰذا ان کے قریب جانے سے منع فرما دیا تاکہ باطل کے قریب نہ جائے گویا کہ قربان حدود سے نہی، قرب باطل سے نہی ہے۔ (2) دوسرے اشکال کا جواب : فلا تقربوھَا اور لَا تَعْتَدُوھَا دونوں کا مقصد باطل کے قریب جانے سے منع کرنا ہے، لا تعتدوھَا میں صراحت کے ساتھ منع کیا گیا ہے اور فلا تقربوھا میں بطور کنایہ منع کیا گیا ہے، اور قاعدہ مشہور ہے کہ الکنایۃ ابلغ من التصریح۔ قولہ : ای لا یا کل بعضکم مال بعض اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک شبہ کو دفع کرنا ہے۔ شبہ : وَلَا تَاْکُلُوا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص اپنا مال باطل طریقہ سے نہ کھائے حالانکہ اس کا کوئی مفہوم نہیں ہے جواب : یہ تقسیم جمع علی الجمع کے قبیل سے نہیں ہے جیسا کہ اِرکَبُوا دَوابکم یعنی تم میں سے ہر اییک اپنے گھوڑے پر سوار ہوجائے، بلکہ یہ لَاتَلْمِزُوا اَنْفُسَکُم کے قبیل سے ہے، یعنی آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ، جیسا کہ بَینَکم کے لفظ سے بھی اسی معنی کی تائید ہوتی ہے۔ قولہ : وَلَا تُدْلُوْا بِھَا، لا کو مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ اس کا عطف لاتاکلوا پر ہے۔ لہٰذا جس طرح لاتاکلوا مجزوم بالجازم ہے اسی طرح تدلوا بِھَا بھی مجزوم بالجازم ہے، فرق یہ ہے کہ یہاں جازم مقدر ہے اور وہاں ظاہر تدلوا، اِدلاءٌ سے ماخوذ ہے، اِدلا کے معنی رسی کے ذریعہ کنوئیں میں ڈول لٹکانا، اب وسیلہ اور ذریعہ کے معنی کیلئے مستعار لے لیا گیا ہے، یعنی حکام کے پاس مالی خصومات کو لیجا کرنا جائز طریقہ سے دوسروں کا مال کھانے کا ذریعہ نہ بناؤ اَو بالاموالِ رشوۃ، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مال سے مالی رشوت مراد ہے۔ تفسیر و تشریح شان نزول : اُحِلَّ لکُم، اُح، لَّ لکُم کے لفظ سے معلوم ہوا کہ جو چیز اس آیت کے ذریعہ حلال کی گئی ہے وہ اس سے پہلے حرام تھی، بخاری وغیرہ میں بروایت براء ین عازب ؓ مذکور ہے کہ ابتداء میں جب رمضان کے روزے فرض کئے گئے تو افطار کے بعد کھانے پینے اور بیویوں سے اختلاط کی صرف اس وقت تک اجازت تھی جب تک سو نہ جائے، سو جانے کے بعد کی سب چیزیں حرام ہوجاتی تھیں، بعض صحابہ کرام ؓ کو اس میں مشکلات پیش آئیں۔ قیس بن صرمہ انصاری ؓ دن بھر مزدوری کرکے گھر پہنچے تو گھر میں کھانے کے لئے کچھ نہ تھا، بیوی نے کہا میں کہیں سے کچھ انتطام کرکے لاتی ہوں، جب وہ واپس آئیں تو دن بھر کی تکان کی وجہ سے قیس بن صرمہ کی آنکھ لگ گئی جب بیدار ہوئے تو کھانا حرام ہوچکا تھا اسی حالت میں اگلے روز کا روزہ رکھ لیا دوپہر کی وقت ضعف کی وجہ سے بیہوش ہوگئے۔ (ابن کثیر) اسی طرح بعض صحابہ سونے کے بعد اپنی بیویوں کے ساتھ اختلاط میں مبتلا ہو کر پریشان ہوگئے اسی قسم کا ایک واقعہ حضرت عمر ؓ کا بھی روایات میں مذکور ہے، ایک مرتبہ حضرت عمر ؓ رات دیر گئے آنحضرت ﷺ کے پاس سے گھر پہنچے تو اپنی بیوی سے ہم بستری کا ارادہ کیا، بیوی نے کہا میں سو چکی ہوں حضرت عمر ؓ نے کہا تم سو چکی ہو میں تو نہیں سویا، اور یہ کہہ کر ہم بستری کی، حضرت کعب ؓ کا بھی اسی طرح کا واقعہ ہوا، حضرت عمر ؓ نے آنحضرت ﷺ سے اس کی معذرت چاہی تو مذکورہ آیت نازل ہوئی۔ حَتٰی یتبیَّنَ لکُم الخیطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الخیط الْاَسْوَد مِنَ الفجر، خیط ابیض سے صبح صادق کا ابتداء نمودار ہونے والا کنارہ اور خیط الاسود سے ظلمت شب بطور استعارہ مراد ہیں مطلب یہ ہے کہ جب صبح صادق نمودار ہوجائے تو کھانا پینا بند کردو۔ امام بخاری وغیرہ نے سہل بن سعد ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب ” وکلوا واشربوا حتی یتبیَّنَ لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود “ نازل ہوئی، تو بعض لوگوں کا یہ طریقہ کار تھا کہ وہ اپنے پیر میں سفید دھاگا اور کالادھاگا باندھ لیتے تھے اور اس وقت تک کھاتے پیتے رہتے تھے جب تک کہ دونوں دھاگوں میں امتیاز نہ ہونے لگے تو اللہ تعالیٰ نے ” مِنَ الفجر “ نازل فرمائی قرآن میں نازل ہونے والی یہ سب سے چھوٹی آیت ہے۔ صحیحین میں عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے کہ وپ اپنے تکیہ کے نیچے دو دھاگے رکھ لیا کرتے تھے ایک سفید اور دوسرا کالا اور ان دھاگوں کو دیکھتے رہتے اور کھاتے رہتے اس کا تذکرہ آنحضرت ﷺ سے کیا تو آپ نے فرمایا : ” اِنّ وِسَادَکَ لعریْضٌ انما ذلک بیاض النھار وسواد اللیل “ اور بخاری وغیرہ کی روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا : اِنَّکَ لعریض القَفَا اِنَّما ذلک بیض النھار وسواد اللیل یعنی تیرا تکیہ بڑا لمبا چوڑا ہے کہ اس میں بیاض نہار اور سواد لیل سما جاتی ہے، دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا تم عریض القفا ہو۔ عریض القفا بیوقوف اور ناسمجھ کو کہا جاتا ہے، عام طور پر مشہور ہے کہ جس کی گدی عریض ہوتی ہے وہ بیوقوف ہوتا ہے۔ مسئلہ : اگر کوئی شخص صبح صادق کے ہونے نہ ہونے میں شک اور تذبذب کا شکار ہو تو اصل تو یہی ہے کہ کچھ کھانے پینے کا قدام نہ کرے، مشکوک حالت میں صبح صادق کا یقین ہونے سے پہلے کسی نے کچھ کھالیا تو گنہگار نہیں ہوگا لیکن بعد میں تحقیق سے یہ ثابت ہو کہ اس وقت صبح صادق ہوچکی تھی تو قضاء لازم ہوگی، امام جصاص کے بیان سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جس شخص کی آنکھ دیر میں کھلی اور صبح صادق یقینی طور پر ہوچکی تھی ایسی صورت میں اگر کچھ کھائے گا تو گنہگار بھی ہوگا اور قضا بھی لازم ہوگی اور اگر مشکوک حالت میں کھائے گا تو گنہگار تو نہیں ہوگا مگر قضا واجب ہوگی۔ وَلاَ تُبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسَاجِدِ ، اعتکاف کے لغوی معنی کسی جگہ ٹھہرنے کے ہیں اور قرآن و سنت کی اصطلاح میں خاص شرطوں کے ساتھ مسجد میں قیام کرنے کا نام اعتکاف ہے لفظ المساجد کے عموم سے معلوم ہوتا ہے کہ اعتکاف مسجد میں ہی ہوسکتا ہے فقہاء نے یہ شرط بھی لگائی ہے کہ اعتکاف ایسی مسجد میں درست ہوگا جس میں پنجوقتہ نماز باجماعت ہوتی ہو۔ حالت اعتکاف میں رات کو بھی وطی جائز نہیں ہے، ایک دن کے اعتکاف میں سابق رات بھی شامل رہے گی احناف کے یہاں ایک شب و روز سے کم کا اعتکاف نہیں اور اس میں بھی روزہ شرط ہے۔ مسئلہ : اعتکاف کے لئے روزہ شرط ہے اور یہ کہ بلا ضرورت شرعی یا بشری مسجد سے نکلنے سے اعتکاف فاسد ہوجاتا ہے۔
Top