Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 183
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَيْكُمُ : تم پر الصِّيَامُ : روزے كَمَا : جیسے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار بن جاؤ
مومنو ! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بنو۔
آیت نمبر 183 تا 186 ترجمہ : اے ایمان والو ! تم پر اسی طرح روزہ رکھنا فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم معاصی سے بچو بلاشبہ روزہ شہوت کو توڑ دیتا ہے جو کہ معصیت کا سرچشمہ ہے (ایَّامًا) صِیَامًا کی وجہ سے یا یصوموا مقدر کی وجہ سے منصوب ہے، جو معدودے چند روزے ہیں جن کی تعداد معلوم ہے اور وہ رمضان کے روزے ہیں جیسا کہ عنقریب آئے گا، ماہ رمضان کے روزوں کو مکلفین پر سہولت کے لئے قلیل قرار دیا ہے، پس تم میں سے جو ماہ رمضان کی آمد کے وقت مریض یا مسافر ہو یعنی سفر قصر کی مسافت کا مسافر ہو اور دونوں صورتوں میں اس کو روزے سے مشقت ہو تو وہ افطار کرسکتا ہے، اس پر چھوڑے ہوئے روزوں کی تعداد کے مساوی دوسرے دنوں میں تعداد کو پورا کرنا لازم ہے، کہ ان کے بدلے روزے رکھے، اور جو و لوگ کبرسنی کی وجہ سے یا ایسے مرض کی وجہ سے جس سے صحت یاب ہونے کی امید نہ ہو روزہ نہ رکھ سکیں تو ان پر فدیہ واجب ہے (اور) وہ ایک مسکین کی خوراک ہے یعنی اتنی مقدار کہ جو ایک روز کی خوراک ہو اور وہ بقدر ایک مُد ہے، روز مررہ شہر کی عام خوراج سے، اور ایک قراءت میں فدیہ کی اضافت کے ساتھ ہے اور یہ اضافت بیانیہ ہے اور کہا گیا ہے کہ لَا مقدر نہیں ہے، اور ابتداء اسلام میں روزہ اور فدیہ میں اختیار تھا، پھر اللہ کے قول فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ کے ذریعہ اختیار منسوخ کردیا گیا ابن عباس ؓ نے فرمایا، حاملہ اور مرضعہ (دودھ پلانے والی) کا اختیار منسوخ نہیں ہوا، جب کہ اپنے بچے کے بارے میں (نقصان) کا اندیشہ ہو جس کی وجہ سے فدیہ ان دونوں کے حق میں بلانسخ باقی ہے، پھر جو شخص فدیہ کی مقدار مذکور میں بخوشی اضافہ کرے تو یہ بخوشی اضافہ اس کے لئے بہتر ہے، اور تمہارا روزہ رکھنا افطار اور فدیہ سے تمہارے لئے بہتر ہے أن تصُومُوا مبتداء اور خیرٌلکم اس کی خبر ہے، اگر تم سمجھو، کہ روزہ رکھنا تمہارے لئے بہتر ہے تو تم ان دنوں کے روزے رکھو ماہ رمضان وہ مہینہ ہے کہ جس میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف لیلۃ القدر میں نازل کیا گیا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کے لئے گمراہی سے ہدایت کرنے والا ہے اور ہدایت کی واضح نشانیاں ہیں جو حق یعنی احکام کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور حق و باطل کے درمیان امتیاز کرتا ہے لہٰذا تم میں سے جو شخص بھی ماہ رمضان کو پائے تو اس کو روزہ رکھنا چاہیے اور جو شخص مریض یا مسافر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں تعداد پوری کرے اس جیسا حکم سابق میں بھی گزر چکا ہے اور اس حکم کو مکرر لایا گیا ہے تاکہ فَمَنْ شَھِدَ کے عموم سے (حکم قضا کے) منسوخ ہونے کا وہم نہ ہو، اللہ تمہارے ساتھ نرمی کا معاملہ کرنا چاہتا ہے سختی کا نہیں اس لئے تمہارے لئے حالت و سفر میں افطار کو مباح قرار دیا، اور یُرِیدُ اللہ الخ کے بھی امر بالصوم (یعنی فَلْیَصُمہٗ ) کی علت کے معنی میں ہونے کی وجہ سے َلِتکمِلْوا الخ کا رُرِیدُ اللہ الخ پر عطف کیا گیا ہے، (وَلِتکمِلُوا) تخفیف و تشدید کے ساتھ، اور تاکہ رمضان کے روزوں کے عدد کو پورا کرو اور روزوں کو پورا کرنے بعد اس بات پر کہ اس میں تم کو ہدایت دی (یعنی) اپنے دین کے احکام کی طرف رہنمائی فرمائی، اللہ کی بڑائی بیان کرو اور تاکہ تم اس ہدایت پر اللہ کا شکر ادا کرو اور کچھ لوگوں نے اللہ کے نبی ﷺ سے سوال کیا کہ ہمارا پروردگار آیا قریب ہے کہ اس سے سرگوشی کریں یا بعید ہے کہ اس کو زور سے پکاریں، تو آیت نازل ہوئی، اور جب میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں (تو واقعہ یہ ہے) کہ میں ان سے باعتبار میرے علم کے بلاشبہ قریب ہوں آپ ان کو یہ بات بتادو ہر دعا کرنے والے کی دعا اس کا مطلوب عطا کرکے قبول کرتا ہوں اس لئے لوگوں کو بھی چاہیے کہ اطاعت کرکے میری بات مان لیا کریں۔ اور مجھ پر ایمان رکھیں (یعنی) ایمان پر دائم و قائم رہیں تاکہ وہ راہ راست پائیں۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : الصِّیام (ن) صَومًا وصِیَامًا لغت میں مطلقًا رکنا، اصطلاح شرع میں کھانے پینے اور جماع سے روزہ کی نیت کے ساتھ صبح صادق سے غروب شمس تک رکنا۔ قولہ : مِنَ الاُمَمِ کا اضافہ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ کے عموم کو ظاہر کرنے کے لئے اور ان لوگوں کی تردید ہے جو اَلَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ سے نصاریٰ مراد لیتے ہیں، الصیام مصدر ہے بمعنی روزہ رکھنا۔ قولہ : المعاصی کے اضافہ سے اشارہ کردیا کہ تتقون سے لغوی معنی مراد ہیں اور المعاصی اس کا مفعول بہ ہے۔ قولہ : نُصِبَ بالصَّیامِ او بصوموْا مُقَدّرًا، کی تقدیر سے اَیّامًا کے منصوب ہونے کی دو صورتوں کی طرف اشارہ ہے، ایک تو یہ ہے کہ ایّامًا، الصِّیام مذکور کی وجہ سے منصوب ہے، مگر اس پر یہ اعتراض ہے کہ عامل اور معمول کے درمیان کما کتِبَ علی الذین من قبلکم کا فعل بالاجنبی ہے، لہٰذا الصِّیام عامل نہیں ہوسکتا، جواب اس کا یہ ہے کہ رضی (رح) تعالیٰ نے کہا ہے کہ اگر معمول ظرف ہو تو فصل بالاجنبی کے باوجود عمل درست ہے، دوسری صورت یہ ہے کہ صُومُوْا مقدر مان لیا جائے، اس صورت میں کوئی اشکال نہیں۔ قولہ : ای قلَائِلَ ، معدُودَاتٍ کی تفسیر قَلائِلَ سے کرکے اشارہ کردیا کہ معدودات سے مراد قلیل مقدار ہے اس لئے کہ عرب قلیل کو جو کہ چالیس سے کم ہو ” معدود “ سے اور کثیر کو ” موزون “ سے تعبیر کرتے ہیں، قلیل مال کو کہتے ہیں یُعَدُّ عدًّا اور کثیر کو یُصَبُّ صَبًّا بولتے ہیں، ای یُوزَنُ وزْنًا۔ قولہ : ای موقتاتٍ بعددٍ ای محدوداتٍ ، بعدد یہ قلائل کی تفسیر ہے معنی ہیں معدودے چند۔ قولہ : قَلَّلَہٗ تَسْھِیلًا علی المکلفین ماہ رمضان کے روزے اگرچہ بنفسہ کثیر ہیں مگر نفسیانی طور پر متاثر کرنے کے لئے تشجیع کے طور پر قلت سے تعبیر کردیا ہے تاکہ مکلفین کے لئے اداء صوم میں سہولت اور آسانی ہو۔ قولہ : حین شھودہٖ یعنی رمضان کی آمد کی وقت مریض ہو یا مسافر اس میں احتراز ہے اس صورت سے جب کہ حالت سفر یا حالت مرض میں روزہ شروع ہوجائے۔ قولہ : ای مسافِرًا سفر القصر اس میں سفر شرعی کی طرف اشارہ ہے۔ قولہ : اَجْھَدَہُ الصومُ فی الحالین فَافْطَرَ ای فی حالۃ المرض والسفر دونوں صورتوں میں افطار کی اجازت کے لئے مشقت کی شرط امام شافعی (رح) تعالیٰ کے قول کے مطابق ہے احناف کے نزدیک سفر میں مشقت کی شرط نہیں ہے سفر اگر آرام دہ بھی ہو تب بھی افطار کی اجازت ہے، مرض میں افظار کے لئے جہد و مشقت کی شرط ہے، اس لئے کہ بعض امراض میں روزہ مفید ہوتا ہے نہ کہ مضر، بخلاف سفر کے کہ سفر ہی کو قائم مقام مشقت مان لیا گیا ہے۔ قولہ : ھُدًی حال ہے بمعنی ھادِیًا، نہ کہ القرآن کی صفت اس لئے کہ ھدًی نکرہ اور القرآن معرفہ ہے۔ قولہ : وَکَرَّرَہُ لِئَلَّا یُتَوَھَّم نسخہ بتعمیم مَن شھِدَ اس اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : مذکورہ آیت کو مکرر لانے کی کیا وجہ ہے ؟ جواب : اللہ تعالیٰ کے قول فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمْ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہٗ سے معلوم ہوتا ہے کہ ماہ رمضان کے روزے سے کوئی مستثنیٰ نہیں ہے، مریض ہو یا مسافر، مرضعہ ہو یا حامل، حالانکہ اول دو کے علاوہ سب مستثنیٰ ہیں خواہ مقیم ہو یا تندرست، اس لئے کہ فَمَنْ شَھِدَ عموم پر دلالت کرتا ہے، اسی وہم کو دفع کرنے کے لئے اس آیت کو مکرر لایا گیا ہے۔ قولہ : ولِکَون ذٰلک فی معنی العلۃ ایضا للامر بالصوم عُطِفَ علیہ ولتکمِلُوا اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک اعتراض کو دفع کرنا ہے۔ اعتراض : اعتراض کا ماحصل یہ ہے کہ یُرِیْدُ اللہُ بِکُمُ الیُسْرَ الخ۔ فعدۃ من ایام اخر جملہ فعلیہ ہے اور اس پر ولتکمِلُوا العِدَّۃَ کا عطف ہے، اور یہ جملہ انشائیہ ہے اور جملہ انشائیہ کا جملہ خبر یہ پر عطف درست نہیں ہے۔ جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ معطوف علیہ یعنی یُریدُ اللہ بکم الیسر الخ علت کے معنی میں ہے اور ولتکملوا بھی علت کے معنی میں ہے لہٰذا علت کا علت پر عطف درست ہے۔ قولہ : وَلِتکبِّوُوا اللہ علیٰ ما ھدٰکم امر بالقضاء کی علت ثالثہ ہے۔ تفسیر و تشریح یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ ، صِیام روزہ رکھنا، باب نصر کا مصدر ہے۔ صوم کے لغوی معنی مطلقًا رکنا، اور اصطلاح شرح میں صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے، جماع سے روزہ کی نیت کے ساتھ رکنا، روزہ کسی نہ کسی شکل و صورت میں دنیا کے تقریباً ہر مذہب و قوم میں پایا جاتا ہے، قرآن چونکہ مشرکانہ مذاہب سے بحث نہیں کرتا اس لئے اَلَّذِیْنَ مِن قبلِکُمْ سے اہل کتاب ہی مراد ہیں، کمَا کُتِبَ یہ تشبیہ دوسری ملتوں کے ساتھ فرضیت صیام میں ہے نہ کہ تعداد اور شرائط و کیفیات صوم میں، فھُوَ تشبیہ فی الفرضیۃِ ولا تدخل فِیْہِ الکیفیۃُ والکمیَّۃُ ۔ (المنار) روزہ کا جسمانی و روحانی فائدہ : لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ اس جملہ سے روزہ کی اصل غرض وغایت کی طرف اشارہ ہے، روزہ کا مقصد تقویٰ کی عادت ڈالنا اور امت کے افراد کو متقی بنانا ہے، تقویٰ نفس کی ایک مستقل کیفیت کا نام ہے، جس سے عالم آخرت کی لذتوں اور نعمتوں سے لطف اٹھانے کی صلاحیت و استعداد انسان میں پوری طرح پیدا ہوجاتی ہے روزہ سے جہاں بہت سی جسمانی بیماریوں سے نجات مل جاتی ہے وہیں بہت سی روحانی بیماریوں کا بھی کارگر اور محرب علاج ہے، جدید و قدیم سب طبیں اس پر متفق ہیں کہ روزہ جسمانی بیماریوں کے دور کرنے کا بہترین علاج ہے اس کے علاوہ اس سے سپاہیانہ ہمت اور ضبط نفس کی عادت پیدا ہوتی ہے، روزہ رکھنے سے بھوک خوب کھل کر لگتی ہے خون صالح پیدا ہوتا ہے۔
Top