Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 174
اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْتُمُوْنَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ الْكِتٰبِ وَ یَشْتَرُوْنَ بِهٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا١ۙ اُولٰٓئِكَ مَا یَاْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ اِلَّا النَّارَ وَ لَا یُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ لَا یُزَكِّیْهِمْ١ۖۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يَكْتُمُوْنَ : چھپاتے ہیں مَآ اَنْزَلَ : جو اتارا اللّٰهُ : اللہ مِنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب وَيَشْتَرُوْنَ : اور وصول کرتے ہیں وہ بِهٖ : اس سے ثَمَنًا : قیمت قَلِيْلًا : تھوڑی اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ مَا يَاْكُلُوْنَ : نہیں کھاتے فِيْ : میں بُطُوْنِهِمْ : اپنے پیٹ (جمع) اِلَّا : مگر (صرف) النَّارَ : آگ وَلَا : اور نہ يُكَلِّمُهُمُ : بات کرے گا اللّٰهُ : اللہ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن وَلَا : اور نہ يُزَكِّيْهِمْ : انہیں پاک کرے گا وَلَهُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
جو لوگ (خدا کی) کتاب سے ان (آیتوں اور ہدایتوں) کو جو اس نے نازل فرمائی ہیں چھپاتے اور ان کے بدلے تھوڑی سی قیمت (یعنی دنیاوی منفعت) حاصل کرتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں محض آگ بھرتے ہیں ایسے لوگوں سے خدا قیامت کے دن کلام نہ کرے گا اور نہ ان کو (گناہوں سے) پاک کرے گا اور ان کے لیے دکھ دینے والا عذاب ہے
آیت نمبر 174 تا 176 ترجمہ : بلاشبہ وہ لوگ جو چھپاتے ہیں اس کتاب (تورات) کو جو اللہ نے نازل کی ہے جو محمد ﷺ کی صفات پر مشتمل ہے (اور چھپانے والے) یہود ہیں اور اس کے عوض دنیوی قلیل قیمت لیتے ہیں اور چھپانے کے بدلے اپنے عوام سے قلیل ثمن وصول کرتے ہیں، اور اس ثمن قلیل کے فوت ہونے کے اندیشہ سے حضور ﷺ کی صفات کو ظاہر نہیں کرتے، یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے پیٹوں میں محض آگ بھر رہے ہیں، اس لئے کہ دوزخ انکا انجام ہے اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان پر غضبنا کی کی وجہ سے ان سے کلام نہ کرے گا، اور نہ ان کو گناہوں کی گندگی سے پاک کرے گا، اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے اور وہ آگ ہے الیمٌ بمعنی مولِمٌ ہے، یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی ہے یعنی دنیا میں ہدایت کے بجائے گمراہی لے لی ہے، اور عذاب کو مغفرت کے عوض لیا ہے (یعنی) وہ مغفرت جو ان کے لیے تیار کی گئی تھی اگر وہ کتمان نہ کرتے، تو یہ لوگ کس قدر آگ پر صبر کرنے والے ہیں (یعنی) کس قدر سخت ہے ان کا صبر، اور لاپرواہی سے ان کے موجبات نار جہنم کے ارتکاب کرنے پر مسلمانوں کو تعجب دلانا ہے ورنہ انہیں صبر کیسا ؟ اور یہ آگ کا کھانا اور اس کا مابعد اس سبب سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کتاب (تورات) کو حق کے ساتھ نازل کیا (بالحق) نَزَلَ کے متعلق ہے، تو اس میں انہوں نے اختلاف کیا، اس طریقہ پر کہ کچھ حصہ کا انکار کردیا اس کو چھپا کر اور جب لوگوں نے کتاب میں مذکور طریقہ پر اختلاف کیا بلاشبہ وہ یہود ہیں، اور کہا گیا ہے کہ قرآن میں اختلاف کرنے والے مشرکین ہیں، اسی طریقہ پر کہ ان میں سے بعض نے کہا (قرآن) شعر ہے اور بعض نے کہا جا دو ہے، اور بعض نے کہا کہانت ہے، بلاشبہ یہ لوگ اختلاف میں (حق سے) بہت دور ہیں۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : مِنَ الْکِتَابِ یہ ضمیر محذوف سے حال ہے، تقدیر عبارت یہ ہے مَا اَنزَلَہٗ اللہ کائناً مِنَ الکِتَابِ ۔ قولہ : مَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ اِلَّا النَّارَ ، فِی بُطُونِھم کے اضافہ کا مقصد احتمال مجاز کو دفع کرنا ہے، اس لئے کہ اکل مجازاً غضب کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، کہا جاتا ہے، اَکَلَ فلانٌ أرضی فلاں شخص میری زمین کھا گیا، یعنی غصب کرلی، جیسا کہ طَآئِرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْہِ میں بھی یَطِیرُ بجَنَاحَیہِ کا اضافہ احتمال مجاز کو دفع کرنے کے لئے ہے، اگر اکل نار سے جہنم میں اکل نار مراد ہے تو نار کے حقیقی معنی مراد ہوں گی یعنی درحقیقت آگ کھائیں گے اور اگر دنیا میں اکل نار مراد ہو مجازا نار مراد ہوگی یعنی سبب نار مراد ہوگا، اس لئے کہ رشوت کا مال نار جہنم کا سبب ہوگا، اور اگر نار سے بالقوہ نار مراد ہو تو دنیا میں بھی نار کے حقیقی معنی مراد ہوسکتے ہیں جیسا کہ ماچس بالقوہ آگ ہوتی ہے، مفسر علام نے لِانَّھَا مَآلھُم کا اضافہ کرکے معنی مجازی کی جانب اشارہ کیا ہے۔ قولہ : فَمَآ اَصْبَرَھُمْ عَلَی النَّارِ یہ صیغہ تعجب ہے ای مَا اَصْبَرَھم علیٰ اعْمَال اھلِ النارِ اور تعجب سے مراد تعجب یعنی تعجب میں ڈالنا ہے، اور تعجب بندوں کی نسبت سے ہے اس لئے کہ تعجب کا منشا سبب سے ناواقفیت ہے، تعجب کہتے ہیں انفعال النفس مما خفِیَ سَبَبُہٗ تعجب نام ہے نفس کا ایسی ثیز سے منفعل ہونے کا جس کا سبب مخفی ہو اور یہ شان باری کے لئے محال ہے اور بعض حضرات نے مَآ اَصْبَرَھُمْ میں ما کو استفہامیہ برائے توبیخ کہا ہے : اَی اَیُّ شئٍ اَصْبَرھم علی عمل النارِ ۔ (فتح القدیر ملخصا) تفسیر و تشریح شان نزول : اَنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلَ اللہُ مِنَ الْکِتَابِ یہ آیت ان علماء یہود کے بارے میں نازل ہوئی کہ جو احکام تورات کو اور خاص طور پر آپ ﷺ کی صفات کو عوام سے چھپاتے تھے بلکہ ان صفات کے خلاف ظاہر کرتے تھے اور عوام سے بدئیے تحفے وصول کرتے تھے علماء کا خیال تھا کہ آخری نبی ان ہی میں سے ہوگا، مگر جب بنی اسراعیل میں آگیا تو حسد اور بقاء ریاست اور ہدایا و تحائف کے لالچ کی وجہ سے آپ ﷺ کی ان صفات کو جو تورات میں مذکور تھیں چھپالیا۔ وَقَدْ اَخْرَجَ ابن جریر عن عکرمۃ فی قولہ (اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلَ اللہُ ) قَالَ : نَزَلَتْ فِی یھود واَخْرَجَ ابن جریر عن السدّی قال : کَتَمُوا اسم محمد ﷺ وَاَخَذُوْا علیہ طَمْعًا قلیلاً فھو الثمن القلیل۔ فی لباب النقول اَخْرَجَ الثعلبی من طریق الثعلبی عن ابی صالح عن ابن عباس ؓ ما، قال : نَزَلَتْ ھذہ الآیۃ فی رؤساء الیھود وعلمائِھم کانوا یصیبونَ من سفلتھن الھدایا والفضل و کانوا یرْجُونَ اَن یکونَ النبی المبعوث منھم فَلَمَّا بعَثَ اللہُ محمداً ﷺ من غیرھم خافوا ذھاب ما کلتھم وزَوال ریاستھم فعَمَدُوا الی صفۃ ﷺ فغیّروھَا ثم اَخْرَجُوھا الیھم وقالوا ھذہ نعت النبی الذی یخرج فی آخر الزمان لا یشبہ نعمت ھذا النبی، فانزل اللہ اِنّ الذینَ یکتُمُونَ مَا انزل اللہ من الکتاب۔ (حاشیہ بیان القرآن) آیت مذکورہ کا شان نزول اگرچہ خاص واقعہ ہے مگر اعتبار عموما الفاظ کا ہوگا، مطلب یہ ہے کہ اگر آج بھی کوئی شخص کتمان حق کرے گا اور دین فرشی کرے گا تو وہ بھی اسی وعید کا مستحق ہوگا، خلاصہ یہ کہ عوام میں جتنے غلط توہمات اور رسم و رواج جنم لیتے ہیں، ان کی ذمہ داری ان علماء پر ہے جن کے پاس کتاب الٰہی کا علم ہے مگر وہ عوام تک اس علم کو نہیں پہنچاتے اور جب لوگوں میں جہالت کی وجہ سے غلط رسم و رواج پھیلنے لگتے ہیں تو یہ علماء سوء اس وقت بھی گونگے کا گڑ کھائے ہوئے خاموش بیٹھے رہتے ہیں بلکہ ان میں سے بہت سے اپنا فائدہ اسی میں سمجھتے ہیں کہ صحیح احکام پر پردہ ہی پڑا رہے۔
Top