Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 153
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو کہ اٰمَنُوا : ایمان لائے اسْتَعِيْنُوْا : تم مدد مانگو بِالصَّبْرِ : صبر سے وَالصَّلٰوةِ : اور نماز اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ مَعَ : ساتھ الصّٰبِرِيْن : صبر کرنے والے
اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد لیا کرو بیشک خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
آیت نمبر 153 تا 158 ترجمہ : اے ایمان والو ! طاعت اور مصیبت پر صبر اور نماز سے آخرت کے لئے مدد چاہو نماز کو اس لے بار بار آنے اور اس کی عظمت شان کی وجہ سے خاص طور پر مکرر ذکر کیا ہے بلاشبہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کا مدد کے ذریعہ ساتھ دیتا ہے اور راہ خدا کے شہدوں کو مردہ مت کہو، وہ زندہ ہیں ان کی روحیں سبز پرندوں کے پوٹوں میں جنت میں جہاں چاہیں گھومتی ہیں، اس مضمون کی حدیث کی وجہ سے، لیکن جس کیفیت میں وہ ہیں تم نہیں سمجھ سکتے اور ہم تم کو دشمن کے خوف اور قحط کی فاقہ کشی اور مال کے ضیاع کے ذریعہ نقصان نیز جانوں میں قتل اور امراض اور موت کے ذریعہ ضرور آزمائیں گے، اور پھلوں میں روگ سے نقصان کے ذریعہ تمہاری ضرور آزمائش کریں گے، تاکہ ہم دیکھ لیں آیا تم صبر کرتے ہو یا نہیں اور مصیبت پر صبر کرنے والوں کو جنت کی خوشخبری دیدو یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم ملکیت اور عبدیت کے اعتبار سے اللہ کے ہیں اس کو اختیار ہے وہ ہمارے ساتھ جو چاہے کرے اور ہم آخرت میں اسی کی طرف پلٹنے والے ہیں تو وہ ہم کو جزاء دے گا، حدیث شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ آپ ﷺ کا چراغ گل ہوگیا تو آپ ﷺ نے اِنَّا للہ پڑھی، حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا (یا رسول اللہ) یہ چراغ ہی تو ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا : ہر وہ چیز مومن کو تکلیف پہنچائے وہ مصیبت ہے، اس کو ابو داؤد نے اپنی مراسیل میں ذکر کیا ہے۔ یہی ہیں وہ لوگ جن پر ان کے رب کی طرف سے مغفرت اور نوازشیں ہوں گی اور ایسے راستی کی طرف ہدایت یافتہ ہیں، یقیناً صفا اور مردہ مکہ ہے دو پہاڑ اللہ کی نشانیاں ہیں یعنی اس کے دین کی نشانیاں ہیں، شَعَائِرْ ، شَعِیْرَۃ کی جمع ہے، سو جس نے بیت اللہ کا حج کیا یا عمرہ کیا یعنی حج وعمرہ کا احرام باندھا، اور حج کے اصلی معنی قصد و زیارت کے ہیں، تو اس کے لئے صفا ومروہ کے درمیان سعی کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے، یطَّوَّفَ میں اصل میں تاء کا طاء میں ادغام ہے، اس طریقہ پر کہ صفا اور مروہ کے درمیان سات مرتبہ سعی کرے، یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب مسلمانوں نے (سعی بیان الصفا و المروۃ) ناپسند سمجھا، اس لئے کہ اہل جاہلیت ان کا طواف کیا کرتے تھے اور ان پر دو بت تھے، اور ان کو مس کرتے تھے، اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ سعی فرض نہیں ہے، اس لئے کہ رفع اثم سے تخییر مستفاد ہوتی ہے، امام شافعی (رح) تعالیٰ وغیرہ نے فرمایا کہ (سعی) رکن ہے، اور رسول اللہ ﷺ نے اپنے قول اِنّ الہ کتب علَیْکُمْ السَّعْیَ سے اس کا وجوب بیان فرمایا، (رواہ بیہقی وغیرہ) اور فرمایا جس سے اللہ نے ابتداء فرمائی تم بھی اسی سے ابتداء کرو، یعنی صفا سے (رواہ مسلم) اور شخص اختیاری طور پر (کوئی) کارخیر کرے، یعنی طواف وغیرہ یعنی کوئی ایسا کارخیر کرے جو اس پر واجب نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا اجر عطا فرما کر اس کے عمل کا قدر دان ہے، اس سے باخبر ہے، تَطَوَّعَ میں ایک قراءت یاء تحتانیہ کے اور طاء کی تشدید کے ساتھ مجزوم ہے، اور اس میں تاء کا طاء میں ادغام ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : بِالعَوْنِ ، بِالعَوْنِ کہہ کر اشارہ کردیا کہ عَوْن سے نصرت خاصہ مراد ہے، اس لئے کہ عمومی معیت تو اللہ تعالیٰ کی ہر شئ کے ساتھ ہے، لہٰذا اس میں صابرین کے لئے کوئی فضیلت نہیں ہے، مفسر علام نے بِالعَوْنِ کہہ کر اسی شبہ کو دفع کیا ہے، اس دفع کا حاصل یہ ہے کہ معیت دو قسم کی ہوتی ہے اور ان میں سے یہ معیت متقین و محسنین و صابرین کے ساتھ خاص ہے، اس میں صبر و صلوٰۃ کے ذریعہ امر بالا ستعانت کی علت بھی ہے، صلوٰۃ صبر سے اولیٰ ہے، لہٰذا مصلین کے ساتھ معیت خاصہ بطریق اولیٰ ہوگی۔ قولہ : فی الحواصل، حَوَاصِلُ ، حَوصِلَۃٌ کی جمع ہے، فارسی میں سنگدانِ مرغ کو کہتے ہیں، اور اردو میں اس کا ترجمہ ہے پوٹا۔ قولہ : لحدیث بذلک۔ (المسلم والمشکور) ۔ قولہ : بالجوائح یہ جائحۃٌ کی جمع ہے، پھلوں کے روگ کو کہتے ہیں۔ قولہ : ھَمْ اَمْوَات، ھُمْ محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ اَمْوَاتٌ مبتداء محذوف کی خبر ہے، اس لئے اَمْوات مقولہ ہے اور مقولہ جملہ ہوا کرتا ہے۔ قولہ : بَلْ ھُمْ اَحْیَاءٌ مفسر علام نے ھُمْ کا اضافہ کرکے اشارہ کردیا ہے کہ اَحْیاءٌ اور نہ ھم اموات پر عطف ہے کہ عطف جملہ علی الجملہ ہو اس لئے کہ یہ قول کے تحت نہیں ہے بلکہ یہ جملہ تقولوا پر معطوف ہے، اس جملہ کے ذریعہ نہی ہے اخبار کی جانب اضراب ہے، اس لئے کہ مقصد، ان کے لئے اثبات حیات ہے نہ یہ کہ ان کو حکم دی جا رہا ہے کہ تم ان کی شان میں اَنَھم اَحْیَاءٌ کہو۔ قولہ : مَاھُمْ فیہِ ، تَشْعُرُوْنَ بمعنی تعلمون کا مفعول بہ ہے۔ قولہ : مُصِیْبَۃٌ یہ اِصَابَۃٌ (افعال) سے اسم فاعل مؤنث ہے، تکلیف پہنچانے والی، مُصیبَۃ دراصل کا صیغہ ہے اور کثرت استعمال کی وجہ سے اس کا موصوف محذوف ہے، مثلاً رَمْیۃ مُصیبۃ نشانہ پر لگنے والی تیر اندازی، جیسا کہ کثرت استعمال کی وجہ سے مویز منقیٰ بیج نکالا ہوا مویز۔ منقیٰ کے معنی ہیں، بیج صاف کیا ہوا۔ مویز دواؤں میں چونکہ بیج نکال کر ہی استعمال ہوتا ہے گویا کہ بیج نکالنا لازم ہے، لہٰذا موصوف کو حذف کرکے صفت کو اس کے قائم مقام کردیا، اور صرف منقیّٰ کہا جانے لگا۔ قولہ : نِعمَۃ، رحمَۃ کی تفسیر، نعمۃ سے کرکے اشارہ کردیا کہ رحمۃ کے لازم معنی مرا ہیں اور وہ ہیں نعمت، اس لئے کہ رحمۃ کے اصلی معنی رقت قلبی کے ہیں جو ذات باری تعالیٰ کے لئے مقصود نہیں ہیں۔ قولہ : مجزومًا یعنی یاء کی صورت میں یَطَّوَعْ جزم عین کے ساتھ ہوگا، مجزومًا کے اضافہ کا مقصد ایک وہم کو دور کرنا ہے، وہم یہ ہے کہ جس طرح تَطَوَعَّ کی صورت میں عین کے فتحہ کے ساتھ ہے لہٰذا یاء کی صورت میں بھی عین کے فتحہ کے ساتھ ہوگا، حالانکہ یاء کی صورت میں مضارع ہوگا، اور مضارع بغیر ناصب کے منصوب نہیں ہوسکتا، بخلاف تاء کی صورت کے کہ ماضی کا صیغہ ہے، اور مجزوم ہونے کی وجہ جزاء ہونا ہے۔ تفسیر و تشریح ربط آیات : امت کو منصب امامت پر فائز کرنے کے بعد، اب کچھ ضروری ہدایات دی جا رہی ہیں، سب سے پہلے جس بات پر متنبہ کیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ منصب امامت کوئی پھولوں کی سیج نہیں ہے جس پر آپ حضرات لٹائے جا رہے ہیں، یہ تو ایک عظیم الشان اور پرخطر خدمت ہے جس کی ذمہ داری اٹھانے کے ساتھ تم پر ہر قسم کے مصائب کی بارش ہوگی، سخت آزمائشوں میں ڈالے جاؤ گے، طرح طرح کے نقصانات اٹھانے پڑیں گے اور جب صبر و ثبات اور عزم و استقلال کے ساتھ ان تمام مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے راہ خدا میں بڑھتے چلے جاؤ گے تب تم پر عنایات کی بارشیں ہوں گی۔ طاقت کا سرچشمہ : اس باری خدمت کے بوجھ کو اٹھانے کے لئے توانائی کہاں سے حاصل ہوگی ؟ اس کا سرچشمہ کہاں ہے ؟ اسی قوت کی نشان دہی اور اس سوال کا جواب یَآ اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوٰۃِ سے دیا گیا ہے، اور بتایا گیا ہے کہ یہ توانائی تم کو دو چیزوں سے حاصل ہوگی، ایک صبر اور دوسرے نماز، حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں کلید کامیابی ہیں، جس کے بغیر کوئی شخص کسی مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا، صبر ایک سلبی کیفیت کا نام ہے اور صلوٰۃ ایک ایجابی عمل ہے، ان دونوں کلیدی لفظوں سے اس طرف اشارہ ہوگیا کہ انفرادی اصلاح اور اجتماعی فلاح دونوں کا راز صرف ان دو چیزوں میں ہے ایک معاصی سے حفظ و اجتناب اور دوسرے اوامر کا امتشال واتباع۔ صبر کے معنی : صبر کے لفظی معنی ہیں تنگی اور ناخوشگواری کی حالت میں اپنے آپ پر قابو رکھنا الصَّبْرُ اَلِامْسَاکُ فی ضیقٍ (راغب) اصطلاح شرح میں اس کے معنی ہیں نفس کو عقل پر غالب نہ آنے دیا جائے اور قدم دائرہ شریعت سے باہر نہ نکالا اور بشری ہیں، ان کے آثار کو بھی اپنے اوپر طاری نہ ہونے دی جائے، بھوک کے وقت مضمحل اور نڈھال ہونا، درد کی تکلیف سے کراہنا، اور رنج کے وقت آہ سرد بھرنا، عزیز و قریب کی موت پر دل گیر اور رنجیدہ ہونا، ان میں سے کوئی شئ بھی صبر کے منافی اور بےصبری میں داخل نہیں، قرآنی فرمان کا مطلب صرف اتنا ہے کہ ہجوم مشکلات کے وقت گھبرا نہ جاؤ، ثابت قدم رہو، دل کو بس میں رکھو، خود دل کے بس میں نہ آجاؤ۔ صبر کے تین شعبے : صبر کے معنی تو نفس کو قابو میں رکھنے کے ہیں، مگر قرآن و سنت کی اصطلاح میں صبر کے تین شعبے ہیں، (1) اول اپنے نفس کا حوام اور ناجائز چیزوں سے روکنا (2) دوسرے طاعات اور عبادات کی پابندی پر نفس کو مجبور کرنا (3) تیسرے مصائب و آفات پر صبر کرنا، اس کے باوجود اگر تکلیف و پریشانی کے وقت کوئی کلمہ اظہار پریشانی کا منہ سے نکل جائے تو یہ صبر کے منافی نہیں۔ (ابن کثیر عن سعید بن جبیر) قرآن و حدیث کی اصطلاح میں صابرین انہیں لوگوں کا لقب ہے جو تینوں طرح کے صبر میں ثابت قدم ہوں بعض روایات حدیث میں ہے کہ محشر میں ندا کی جائے گی کہ صابریں کہاں ہیں ؟ تو وہ لوگ جو تینوں طرح کے صبر پر قائم رہ کر زندگی سے گزرے ہیں وہ کھڑے ہوجائیں گے، اور ان کو بلاحساب جنت میں داخلہ کی اجازت دیدی جائے گی۔ اس نسخہ کامیابی کا دوسرا جز نماز ہے، اگرچہ صبر کی تفسیر سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ نماز اور دیگر عبادات صبر ہی کی جزئیات ہیں، مگر نماز کو جداگانہ بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ تمام عبادات میں نماز ایک ایسی عبادت ہے کہ جو صبر کا مکمل نمونہ ہے، کیونکہ نماز کی حالت میں نفس کو عبادت وطاعت پر محسوس کیا جاتا ہے اور تمام معاصی و مکروہات سے بلکہ تمام مباحات سے بھی نفس کو بحالت نماز روکا جاتا ہے، اس لئے نماز صبر کی ایک مکمل تمثیل ہے۔ نماز کی تاثیر یقینی ہے : اس کے علاوہ نماز کو انسان کی تمام حاجات کے پورا کرنے میں ایک خاص تاثیر بھی ہے گو اس کی وجہ اور سبب معلوم نہ ہو، جیسے دواؤں میں بہت سی ادویہ مؤثر بالخاصہ ہوتی ہیں مگر اس کی وجہ معلوم نہیں ہوتی، جیسے دردگردہ کے لئے فرنگی دانہ ہاتھ یا منہ میں رکھنا بالخاصہ مفید ہے مگر اس کی وجہ کسی کو معلوم نہیں، یا مثلاً مرگی کے لئے عود صلیب گلے میں ڈالنا مفید ہے مگر سبب معلوم نہیں ہے مقناطیس لوہے کو اپنی طرف کھینچنے میں مؤثر بالخاص ہے مگر آج تک اس کی وجہ معلوم نہیں ہوسکی اور جو کچھ معلوم ہوا ہے وہ صرف تخمین وظن ہے، اسی طرح نماز تمام انسانی ضروریات کی کفالت اور تمام مصائب سے نجات دلانے میں مؤثر بالخاص ہے بشرطیکہ نماز کو نماز کی طرح آداب و خشوع کے ساتھ پڑھا جائے، ہماری نمازیں جو غیر مؤثر نظر آتی ہیں اس کا سبب ہمارا قصور ہے نہ کہ نماز کا، کہ نماز کے آداب اور خضوع میں کوتاہی ہوتی ہے ورنہ آپ ﷺ کی عادت شریفہ تھی کہ جب کوئی مہم پیش آتی تو نماز کی طرف رجوع فرماتے تھے، اور اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ اس مہم کو پورا فرما دیتے تھے۔ (معارف) اِنَّ اللہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ ، بالعَونِ معیت کی مختلف قسمیں ہیں عامہ، خاصہ، زمانی، مکانی، معنوی، یہاں معیت سے معیت بالنصرۃ مراد ہے، قَالُوْا المعِیَّۃُ ھُنَا مَعِیَّۃُ المعونَۃ۔ (المنار) ۔ اللہ تعالیٰ کی معیت عامہ تو کافر، مومن، فاسق، صالح، اپنے ہر بندے کے ساتھ ہے، وَھُوَ مَعَلُمْ اَیْنَمَا کُنْتُمْ یہاں یہ معیت عامہ مراد نہیں ہے بلکہ خصوصی معیت مراد ہے اسی معیت خاصہ کی طرف مفسر علام نے بالعون کہہ کر اشارہ کیا ہے، معیت خاصہ کے آثار، حفاظت، اعانت اور توجہ خاص ہیں، یہ اسی معیت الہٰی کا احساس و استحضار تھا جس نے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کو بےپناہ قوت و جرأت، بےخوفی کا مالک بنادیا تھا، اور حق یہ ہے کہ یقین معیت خاصہ سے بڑھ کر نہ کوئی روح کے لئے لذیذ غذا ہے اور نہ جراحت قلب کے لئے کوئی مرہم تسکین، یہی وہ تصور ہے کہ جو ہر ناگوار کو خوشگوار، اور ہر تلخ کو شیریں اور ہر زہر کو قند اور ہر مشکل کو آسان بنا دینے کے لئے کافی ہے۔
Top