Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 14
وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّا١ۖۚ وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰى شَیٰطِیْنِهِمْ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا مَعَكُمْ١ۙ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ
وَإِذَا لَقُوا : اور جب ملتے ہیں الَّذِينَ آمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے قَالُوا : کہتے ہیں آمَنَّا : ہم ایمان لائے وَإِذَا : اور جب خَلَوْا : اکیلے ہوتے ہیں إِلَىٰ : پاس شَيَاطِينِهِمْ : اپنے شیطان قَالُوا : کہتے ہیں إِنَّا : ہم مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ إِنَّمَا : محض نَحْنُ : ہم مُسْتَهْزِئُونَ : مذاق کرتے ہیں
اور یہ لوگ جب مومنوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور جب اپنے شیطانوں میں جاتے ہیں تو (ان سے) کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور ہم (پیروان محمد سے) تو ہنسی کیا کرتے ہیں
وَاِذَا خَلَوْا اِلیٰ شَیٰطِیْنِھِمْ (الآیۃ) شیطان کا مادہ، شَطْنٌ ہے، معنی ہیں حق اور خیر سے بعید ہونا، شیطان عربی زبان میں پڑا مفہوم رکھتا ہے ہر سرکش اور بھڑکانے والے کو شیطان کہتے ہیں انسان جنات حتی کہ حیوانات پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے، کو اسم وصفی کے طور پر ابلیس کے ساتھ خاص ہے : ” کُلُّ عَاتٍ متمرّدٍ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنسِ وَالدَّوَابِّ شَیْطَانٌ“۔ (مجاز) حدیث شریف میں شیطان اور وسیع مفہوم میں آیا ہے چناچہ تنہا سفر کرنے والے کو شیطان کہا گیا ہے، یہاں شیطان سے مراد رؤساء یہود و مشرکین و منافقین ہیں، جن کے ایماء پر وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے تھے۔ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَھْزِءُوْنَ : استہزاء کے معنی تمسخر کرنے، مذاق اڑانے کے ہیں، مطلب یہ کہ عوام منافقین جب تنہائی میں اپنے سرداروں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ : ہم دل و جان سے آپ ہی کے ساتھ ہیں باقی مسلمانوں کو بیوقوف بنانے کے لئے ان کی سی کہہ دیتے ہیں۔
Top