Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 130
وَ مَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّةِ اِبْرٰهٖمَ اِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهٗ١ؕ وَ لَقَدِ اصْطَفَیْنٰهُ فِی الدُّنْیَا١ۚ وَ اِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ
وَمَنْ : اور کون يَرْغَبُ : منہ موڑے عَنْ مِلَّةِ : دین سے اِبْرَاهِيمَ : ابراہیم اِلَّا مَنْ : سوائے اس کے سَفِهَ : بیوقوف بنایا نَفْسَهُ : اپنے آپ کو وَ لَقَدِ : اور بیشک اصْطَفَيْنَاهُ : ہم نے اس کو چن لیا فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَاِنَّهُ : اور بیشک فِي الْآخِرَةِ : آخرت میں لَمِنَ : سے الصَّالِحِينَ : نیکو کار
اور ابراہیم کے دین سے کون روگردانی کرسکتا ہے بجز اس کے جو نہایت نادان ہو ؟ ہم نے ان کو دنیا میں بھی منتخب کیا تھا اور آخرت میں بھی وہ (زمرہ) صلحاء میں ہوں گے
آیت نمبر 130 تا 136 ترجمہ : اور کون ہے ؟ یعنی کوئی نہیں جو بےرغبتی کرے ملت ابراہیمی سے کہ اس کو ترک کر دے مگر وہی جس نے اپنے آپ کو بیوقوف بنا لیا (یعنی بیوقوف محض ہو) (اور) اس بات سے ناواقف ہو کہ وہ اللہ کی مخلوق ہے، اور یہ کہ اس پر اللہ کی عبادت واجب ہے، یا یہ معنی ہیں کہ اس نے اپنے نفس کی تحقیر کی ہے، اور اس کو ذلیل کر رکھا ہے، ہم نے تو اسے دنیا میں بھی رسالت اور دوستی کے لئے منتخب کرلیا ہے، اور بلاشبہ وہ آکرت میں بھی ان صالحین میں ہوگا جن کے لئے مراتب عالیہ ہیں اور اس وقت کو یاد کرو کہ جب اس سے اس کے رب نے کہا سرتسلیم خم کر دے یعنی اللہ کا فرمانبردار ہوجا اور اپنے دین کو اس کے لئے خالص کر، تو اس نے فوراً ہی کہا میں نے رب العالمین کے سامنے سرتسلیم خم کردیا، اور اسی طریقے پر چلنے کی ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو ہدایت کی اور ایک قراءت میں اَوْصٰی ہے، اور یعقوب نے (بھی) اپنے بیٹوں کو اسی کی وصیت کی، کہا : اے میرے بچو ! اللہ نے تمہاری لئے یہی دین اسلام پسند کیا ہے، لہٰذا مرتے دم تک مسلم ہی رہنا ترک اسلام سے منع فرمایا اور مرتے دم تک اس پر ثابت قدم رہنے کا حکم فرمایا، اور جب یہود نے نبی ﷺ سے کہا : کیا آپ کو یہ معلوم نہیں کہ یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے انتقال کے روز اپنی اولاد کو یہودیت کی وصیت کی تھی (تو یہ آیت) نازل ہوئی، کیا تم اس وقت موجود تھے کہ جب یعقوب (علیہ السلام) (اس دنیا سے) رخصت ہو رہے تھے، یہ اِذْ ، سابقہ اِذْ سے بدل ہے، اس (یعقوب) نے (انتقال کے وقت) اپنے بچوں سے پوچھا تم میرے بعد یعنی میرے انتقال کے بعد کسی کی بندگی کروگے ؟ جواب دیا : ہم اسی ایک خدا کی بندگی کریں گے، جو آپ کے آباء ابراہیم اور اسماعیل اور اسحٰق کا معبود ہے، اور اسماعیل (علیہ السلام) کو آباء میں شمار کرنا تغلیباً ہے، اور اس لئے بھی کہ چچا بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے، اِلٰھًا واحِد ًا، اِلٰھکَ سے بدل ہے اور ہم اس کے فرمانبردار ہیں، اور اَمْ بمعنی ہمزہ انکاری ہے، یعنی تم (یعقوب) کی موت کے وقت حاضر نہیں تھے، تو تم اس کی طرف ایسی بات کی نسبت کیوں کرتے ہو جو اس کی شایان شان نہیں ہے ؟ وہ ایک جماعت تھی جو گزر گئی تلک مبتداء اور اشارہ ابراہیم ارور یعقوب اور ان کے بیٹوں کی طرف ہے، اور (تلک) کو خبر ہے مؤنث ہونے کی وجہ سے مؤنث لائے ہیں، جو اعمال انہوں نے کئے ان کے لئے ہیں، یعنی اس کی جزاء ان کے لئے ہے یہ (جملہ) مستانفہ ہے اور جو تم کرو گے اس کو جزا تم کو ملے گی، خطاب یہودیوں کو ہے ان کے اعمال کے بارے میں تم سے سوال نہیں کیا جائے گا، جیسا کہ ان سے تمہارے اعمال کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا، جملہ ماقبل کی تاکید ہے، یہود کہتے ہیں، یہودی جو جاؤ، ہدایت پا جاؤ گے اور نصاریٰ کہتے ہیں نصرانی ہوجاؤ ہدایت پاؤ گے، اَوْ تفصیل کے لئے ہے، اول (قول) کے قائل مدینہ کے یہود ہیں اور ثانی (قول) کے قائل نجران کے نصاریٰ ہیں، آپ ان سے کہہ دیجئے ہم تو ملت ابراہیم کی اتباع کریں گے، جس میں کجی کا نام نہیں (حنیفا) ابراہیم سے حال ہے، حال یہ کہ وہ تمام ادیان (باطلہ) سے دین مستقیم کی جانب مائل ہونے والے ہیں، اور ابراہیم مشرکوں میں سے نہ تھے، کہو ! یہ مومنین کو خطاب ہے ہم تو اللہ پر ایمان لائے اور جو ہماری طرف نازل کیا گیا ہے، قرآن (اس پر ایمان لائے) اور ان دس صحیفوں پر ایمان رکھتے ہیں جو ابراہیم (علیہ السلام) پر نازل ہوئے اور اسماعیل (علیہ السلام) پر اور اسحٰق پر اور یعقوب (علیہ السلام) پر اور اس کی اولاد پر نازل ہوئے اور جو عطا کیا گیا موسیٰ (علیہ السلام) کو یعنی تورات اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو یعنی انجیل اور جو کتابیں اور آیتیں ان کو عطا کی گئیں ان کے رب کی جانب سے (ایمان رکھتے ہیں) بایں طور کہ ہم ان میں سے کسی میں بھی تفریق نہیں کرتے یہود و نصاریٰ کے مانند کہ بعض پر ایمان لائیں اور بعض کا انکار کریں، ہم تو اللہ تعالیٰ کے مطیع ہیں۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : وَمَنْ اَی لا یَرْغبُ ، مَن استفہام انکاری مبتداء ہے، یَرْغَبُ خبر، اس کے اندر ضمیر ہے جو مَن کی طرف راجع ہے۔ قولہ : دین السلام اس میں اشارہ ہے کہ الدِّین میں الف لام عہد کا ہے اور دلیل فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ہے۔ قولہ : نھی عَن ترک الاسلامِ اس سے ایک سوال کا جواب مقصود ہے۔ سوال : فَلَاتَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنَتُمْ مُّسْلِمُوْنَ میں بظاہر موت سے نہی معلوم ہوتی ہے جو کہ بندہ کے اختیار میں نہیں۔ جواب : موت سے نہی نہیں ہے بلکہ ترک اسلام سے نہی ہے اس لئے کہ جب مقید پر نفی داخل ہوتی ہے تو قید کی نفی ہوتی ہے، اس لئے اگرچہ نہی موت پر داخل ہے اور مدخول نہی ہی مقصود عن النھی ہوتا ہے مگر چونکہ مدخول نہی اختیاری نہیں ہے اس لئے قید کی نہی مراد ہے۔ قولہ : اَمَرَ بالثباتِ علیہ اس عبارت سے یہ فائدہ ہے کہ نفس ایمان تو ان کو حاصل تھا، لہٰذا اس کے حاصل کرنے کا کوئی مطلب نہیں ہے، بلکہ اسلام پر دوام مراد ہے۔ قولہ : بمنزلۃ الاب، اَلعَمُّ صنوُ اَبیہِ ۔ (الحدیث) قولہ : والجملۃ تاکید لما قبلہ یہ تکرار کے فائدہ کا بیان ہے۔ قولہ : کُوْنُوْا ھُوْدًا اَوْ نَصَارٰی، اَو تنویع مقال کے لئے ہے نہ کہ تخییر کے لئے، اس لئے کہ ہر فریق ایک دوسرے کی تکفیر کرتا ہے۔ قولہ : قائل الاول الیھود اس اضافہ کا مقصد ایک اعتراض کو دفع کرنا ہے۔ اعتراض : کونوا ھودًا اونصاریٰ میں تناقض ہے، اللہ تعالیٰ کے قول لیست الیھود علیٰ شئ الخ سے۔ جواب : کا ماحصل یہ ہے کہ دونوں کے قائل مختلف ہیں لہٰذا کوئی تناقض نہیں ہے۔ قولہ : حال من ابراھیم یعنی حنیفًا ابراہیم سے حال ہے، حالانکہ مضاف الیہ سے حال واقع ہونا درست نہیں ہے، اس لئے کہ اصل مضاف کی جگہ رکھنا درست ہو تو مضاف الیہ سے بھی حال واقع ہونا درست ہوتا ہے، یہاں ایسا ہی ہے اس لئے کہ ابراہیم کو ملۃ کی جگہ رکھنے کے بعد بھی مطلب صحیح رہتا ہے۔ تفسیر و تشریح شان نزول : وَمَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّۃِ اِبْرَاھِیْمَ (س) رَغَبًا توقع کرنا، صلہ جب عَنْ ہو تو اعراض و بےرخی کرنا جیسا کہ یہاں مستعمل ہے، اور اگر صلہ الٰی یا فی ہو تو مائل ہونا، رغبت کرنا۔ روایت کیا گیا ہے کہ عبد اللہ بن سلام نے اپنے بھتیجوں سلمہ اور مہاجر کو اسلام کی دعوت دی اور کہا کہ تم بخوبی جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تورات میں فرمایا ہے کہ میں اولاد اسماعیل میں ایک نبی مبعوث کرنے والا ہوں جس کا نام احمد ہوگا، جو اس پر ایمان لائے گا وہ ہدایت یافتہ ہوگا اور جو ایمان نہ لائے گا وہ ملعون ہوگا، چناچہ سلمہ ایمان لے آئے مگر مہاجر نے انکار کردیا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (روح البیان) یہاں اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی وہ عظمت و فضیلت بیان فرما رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا و آخرت میں عطا فرمائی ہے، اور یہ بھی وضاحت فرما دی کہ ملت ابراہیم سے اعراض و بےرخی بیوقوفوں ہی کا کام ہے، کسی عقلمند سے اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
Top