Tafseer-e-Jalalain - Al-Israa : 94
وَ مَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یُّؤْمِنُوْۤا اِذْ جَآءَهُمُ الْهُدٰۤى اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْۤا اَبَعَثَ اللّٰهُ بَشَرًا رَّسُوْلًا
وَمَا : اور نہیں مَنَعَ : روکا النَّاسَ : لوگ (جمع) اَنْ يُّؤْمِنُوْٓا : کہ وہ ایمان لائیں اِذْ : جب جَآءَهُمُ : ان کے پاس آگئی الْهُدٰٓى : ہدایت اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اَبَعَثَ : کیا بھیجا اللّٰهُ : اللہ بَشَرًا : ایک بشر رَّسُوْلًا : رسول
اور جب لوگوں کے پاس ہدایت آگئی تو ان کو ایمان لانے سے اس کے سوا کوئی چیز مانع نہ ہوئی کہ کہنے لگے کیا خدا نے آدمی کو پیغمبر کر کے بھیجا ہے ؟
آیت نمبر 94 تا 100 ترجمہ : لوگوں کے پاس ہدایت پہنچنے کے بعد ایمان سے روکنے والا منکرین کا ان سے صرف یہی کہنا رہا کہ کیا انسان ہی کو رسول بنا کر بھیجا، اور فرشتہ کو نہ بھیجا، آپ کہہ دیں کہ اگر زمین میں فرشتے چلتے پھرتے اور رہتے بستے ہوتے تو ہم بھی ان کے پاس کسی آسمانی فرشتے کو رسول بنا کر بھیج دیتے اس لئے کہ قوم کے پاس ان ہی کی جنس کا رسول بھیجا جاتا ہے تاکہ ان کیلئے اس کی گفتگو اور افہام و تفہیم ممکن ہو، آپ کہہ دیجئے کہ میرے اور تمہارے درمیان میری صداقت پر اللہ کا گواہ ہونا کافی ہے وہ اپنے بندوں (کے حالات) سے خوب آگاہ ہے، اور بخوبی دیکھنے والا ہے (یعنی) ان کے پوشیدہ اور ظاہر تمام حالات سے واقف ہے، اور اللہ جس کی رہنمائی کرے وہ ہدایت یافتہ ہے اور جسے وہ راہ سے بھٹکا دے ناممکن ہے کہ تو ان کے مددگار پائے جو ان کی رہنمائی کریں ایسے لوگوں کو ہم قیامت کے دن منہ کے بل گھسیٹ کر جمع کریں گے حال یہ کہ وہ اندھے گو نگے، بہرے ہوں گے ان کی اس بات کی سزا ہے کہ ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا اور جب وہ بجھنے لگے گی تو ہم اس کو مزید بھڑکا دیں گے وہ مزید شعلہ زن اور مشتعل ہونے لگے گی یہ ان کی اس باگت کی سزا ہے کہ انہوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا اور منکرین نے کہا، کیا جب ہم ہڈی رہ جائیں گے اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گے تو کیا ہم کو نئے سرے سے پیدا کرکے اٹھایا جائیگا، کیا انہوں نے اس بات میں غور نہیں کیا کہ بلاشبہ وہ اللہ جس نے آسمانوں اور زمین کو ان کی عظمت کے باوجود پیدا کیا (وہ) اس پر قادر ہے کہ جسے صغیر انسانوں کو پیدا کرے اسی نے ان کیلئے موت اور بعث کا ایک وقت مقرر کردیا ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے، لیکن ظالم لوگ انکار کئے بغیر رہتے ہی نہیں ہیں، آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اگر تم میرے رب کی رحمت رزق اور بارش کے خزانوں کے مالک ہوتے تو تم خرچ ہوجانے کے اندیشہ سے اس میں بخیلی کرتے یعنی خرچ کرنے سے ختم ہونے کے خوف سے کہ پھر تم محتاج ہوجاؤ گے اور انسان ہے ہی تنگ دل۔ تحقیق و ترکیب و تفسیری فوائد قولہ : ای قولھم اس میں اشارہ ہے کہ أن مصدریہ ہے، یعنی ان کیلئے قرآن اور آپ ﷺ پر ایمان لانے کے بارے میں کوئی شبہ اور کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی سوائے منکرین بعث کے جو مومنین سے یہ کہتے ہیں کہ کیا اللہ کو رسول بنا کر بھیجنے کیلئے انسان ہی رہ گیا تھا۔ قولہ : مطمئنین اسم فاعل جمع مذکر منصوب، وطن بنانے والے، قیام کرنے والے۔ قولہ : لَوْ انتم۔ سوال : لَوْ شرطیہ ہمیشہ فعل پر داخل ہوتا ہے مگر یہاں اسم پر داخل ہے۔ جواب : انتم سے پہلے فعل محذوف ہے اور مابعد کا فعل اس کی تفسیر کر رہا ہے تقدیر عبارت یہ ہے لَوْ تملکون انتم تملکون خزائنَ رحمۃ ربی، انتم، تملکون کے اندر ضمیر فاعل کی تاکید ہے یہ ما اضمر عاملہ کے قبیل سے ہے۔ تفسیر و تشریح ما منع الناس الخ، عام مشرکین کا خیال تھا کہ اللہ کا رسول بشر نہیں ہوسکتا، کیونکہ وہ تو ہماری طرح ضروریات انسانی کا عادی ہوتا ہے پھر اس کو ہم پر کیا فوقیت حاصل ہوگی کہ ہم اسے اللہ کا رسول سمجھیں اور اپنا مقتدا بنالیں آج کل کے اہل بدعت کا آپ ﷺ کی بشریت سے انکار کرنے میں بھی یہی جذبہ کار فرما ہے یعنی جس طرح مشرکین رسالت اور بشریت میں منافات سمجھتے تھے اسی طرح یہ لوگ بھی بشریت اور رسالت میں تضاد و تنافی سمجھتے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ مشرکین آپ کی بشریت کے قائل ہونے کی وجہ سے رسالت کی نفی کرتے اور آج کل کے اہل زیغ و ضلال آپ کی رسالت کے قائل ہونے کی وجہ سے آپ کی بشریت کی نفی کرتے ہیں۔ مشرکین مکہ کے سوال کا جواب قرآن نے یہ دیا ہے کہ اللہ کا رسول جن لوگوں کی جانب بھیجا جائے وہ ان ہی کی جنس سے ہونا ضروری ہے اگر مبعوث الیہم انسان ہیں تو مبعوث کا بھی انسان ہونا ضروری ہے اسلئے کہ غیر جنس سے باہم مناسبت نہیں ہوتی اور بلا مناسبت کے رشد و ہدایت کا فائدہ نہیں ہوتا اگر انسانوں کی طرف کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیج دیا جائے جو نہ بھوک کو جانتا ہے نہ پیاس کو نہ جنسی خواہشات کو اور نہ سردی گرمی کے احساس کو اور نہ اس کو کبھی محنت اور تکان لاحق ہوتی ہے، تو وہ انسانوں سے بھی ایسے عمل کی توقع رکھتا انسانوں کی کمزوری و مجبوری کا احساس نہ کرتا اسی طرح انسان جب یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تو فرشتہ ہے ہم ان کے کاموں کے نقل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو ان کی اتباع کیسے کریں گے رشد و ہدایت کا فائدہ اور اصلاح صرف اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ اللہ کا رسول جنس بشر سے ہو جو تمام انسانی جذبات اور خواہشات کا حامل ہو، مگر ساتھ ہی اس کو ایک شان ملکیت بھی حاصل ہوتا کہ عام انسانوں اور فرشتوں کے درمیان واسطہ اور رابطہ کا کام کرسکے وحی لانے والے فرشتوں سے وحی حاصل کرے اور اپنے ہم جنس انسانوں کو پہنچا دے۔ قل لو۔۔۔ ربی (الآیۃ) اس آخری آیت میں جو یہ ارشاد ہوا ہے کہ اگر تم لوگ اللہ کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوجاؤ تو تم بخل کرو گے، کسی کو نہ دو گے اس خطرہ سے کہ اگر لوگوں کو دیتے رہے تو یہ خزانہ ختم ہوجائیگا اگرچہ رحمت کا خزانہ ختم ہونے والا نہیں، مگر انسان اپنی طبیعت سے تنگ دل اور کم حوصلہ واقع ہوا ہے اس کو فراخی کے ساتھ لوگوں کو دینے کا حوصلہ نہیں ہوتا، اس میں خزائن رحمت ربی سے عام مفسرین نے مال اور دولت کے خزانے مراد لئے ہیں اور اس کا ربط ما سبق سے یہ ہے کہ کفار مکہ نے اس کی فرمائش کی تھی کہ اگر آپ واقعی نبی ہیں تو آپ مکہ کے اس خشک ریگستان میں نہریں جاری کرکے اس کو سرسبز باغات میں تبدیل کردیں جیسا کہ ملک شام کا خطہ ہے جس کا جواب پہلے آچکا ہے کہ تم نے مجھے گویا خدا ہی سمجھ لیا، کہ خدائی اختیارات کا مجھ سے مطالبہ کر رہے ہو میں تو صرف ایک رسول ہوں خدا نہیں کہ جو چاہوں کردوں۔ حضرت حکیم الامت تھانوی (رح) تعالیٰ نے بیان القرآن میں اس جگہ رحمت رب سے مراد نبوت و رسالت اور خزائن سے مراد کمالات نبوت لئے ہیں اس تفسیر کے مطابق اس کا ربط آیات سابقہ سے یہ ہوگا کہ تم نبوت و رسالت کے لئے بےسروپا اور بیہودہ مطالبات کر رہے ہو اس کا حاصل یہ ہے کہ میری نبوت کو ماننا نہیں چاہتے تو کیا پھر تمہاری خواہش یہ ہے کہ نبوت کا نظام تمہارے ہاتھوں میں دیدیا جائے جس کو تم چاہو نبی بنالو، اگر ایسا کرلیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم کسی کو بھی نبوت و رسالت نہ دو گے بخل کرکے بیٹھ جاؤ گے۔ (معارف)
Top