Tafseer-e-Jalalain - Al-Israa : 53
وَ قُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ١ؕ اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَهُمْ١ؕ اِنَّ الشَّیْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا
وَقُلْ : اور فرما دیں لِّعِبَادِيْ : میرے بندوں کو يَقُوْلُوا : وہ کہیں الَّتِيْ : وہ جو ھِيَ : وہ اَحْسَنُ : سب سے اچھی اِنَّ : بیشک الشَّيْطٰنَ : شیطان يَنْزَغُ : فساد ڈالتا ہے بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان اِنَّ : بیشک الشَّيْطٰنَ : شیطان كَانَ : ہے لِلْاِنْسَانِ : انسان کا عَدُوًّا : دشمن مُّبِيْنًا : کھلا
اور میرے بندوں سے کہہ دو کہ (لوگوں سے) ایسی باتیں کہا کریں جو بہت پسندیدہ ہوں کیونکہ شیطان (بری باتوں سے) ان میں فساد ڈلوا دیتا ہے۔ کچھ شک نہیں کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔
آیت نمبر 53 تا 60 ترجمہ : اور میرے مومن بندوں سے کہہ دو کہ کفار سے اچھی بات کہو بلاشبہ شیطان ان کے درمیان فساد ڈلواتا ہے، یقیناً شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے، یعنی اس کی عداوت بالکل ظاہر ہے، اور وہ کلمہ جو بہتر ہے وہ یہ کہ ” تمہارا رب تمہارے بارے میں تمہاری بہ نسبت بہت زیادہ جانتا ہے، اگر وہ چاہے تو توبہ اور ایمان کے ذریعہ تمہارے اوپر رحم فرمائے یا اگر تم کو عذاب دینا چاہے تو تم کو کفر پر موت دے کر تم کو عذاب دے اور ہم نے آپ کو ان کا ذمہ دار بنا کر نہیں بھیجا کہ آپ ان کو ایمان پر مجبور کریں اور یہ حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہے، اور وہ آسمانوں اور زمین کی مخلوقات کے بارے میں بخوبی جانتا ہے اور ان کے احوال کے مطابق جو چاہتا ہے ان کے ساتھ خاص کرتا ہے، اور یقیناً ہم نے بعض نبیوں کو بعض پر فضیلت دی ہے ان میں سے ہر ایک کو ایک مخصوص فضیلت دے کر، مثلاً موسیٰ (علیہ السلام) کو شرف ہم کلامی بخش کر، اور ابراہیم (علیہ السلام) کو دوستی کا مرتبہ عطا کرکے اور محمد ﷺ کو ان دونوں پر سفر اسراء کے ذریعہ (فضیلت دیکر) اور داؤد (علیہ السلام) کو ہم نے زبور عطا کی آپ ﷺ ان سے کہہ دو کہ جن کو تم اس کے علاوہ معبود سمجھتے ہو مثلاً ملائکہ اور عیسیٰ اور عزیر ان کا پکارو لیکن وہ نہ تو تم سے کسی تکلیف کو دور کرسکتے ہیں اور نہ (بدل کر) کسی دوسرے پر ڈال سکتے ہیں اور جنہیں یہ لوگ معبود سمجھ کر پکارتے ہیں وہ خود طاعت کے ذریعہ اپنے رب سے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں سے کون ہے جو اس کے زیادہ قریب ہوجائے ؟ تو غیر اقرب کا کیا حال ہوگا ؟ (ایّھم) یتبعون کے واؤ سے بدل ہے یعنی جو اس کے قریب ہے وہ (قریب تر ہونے کا) وسیلہ تلاش کرتا ہے اور وہ اس کی رحمت کے امیدوار اور دوسروں کے مانند اسکے عذاب سے ترساں رہتے ہیں تو پھر یہ لوگ ان کو معبود ہونے کی حیثیت سے کیوں پکارتے ہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ تیرے رب کا عذاب ہے ہی ڈرنے کے لائق اور کوئی بستی ایسی نہیں مراد بستی والے ہیں کہ ہم اس کو موت کے ذریعہ قیامت سے پہلے ہلاک نہ کردیں یا قتل وغیرہ کے ذریعہ اس کو سخت عذاب نہ دیں، یہ لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے ہمیں نشانات یعنی اہل مکہ کے فرمائشی معجزات بھیجنے سے صرف اس بات نے روک رکھا ہے کہ جب ہم نے ان (فرمائشی معجزوں) کو بھیجا تھا تو ان کو پہلے لوگوں نے جھٹلا دیا تھا اور اگر ہم ان کے فرمائشی معجزے ان کے پاس بھیجتے تو یہ بھی ان کو جھٹلاتے جس کی وجہ سے مستحق ہلاکت ہوجاتے اور ہم محمد ﷺ کے مشن کو پورا کرنے کیلئے ان کو مہلت کا حکم دے چکے ہیں اور ہم نے ثمودیوں کو واضح معجزہ کے طور پر اونٹنی عطا کی تو انہوں نے اس پر ظلم کیا (یعنی اس کی) ناشکری کی تو وہ ہلاک کر دئیے گئے، اور ہم تو لوگوں کو دھمکانے ہی کیلئے نشانیان معجزات بھیجتے ہیں تاکہ وہ ایمان لے آئیں اور یاد کرو جب ہم نے آپ سے فرمایا تھا کہ بلاشبہ تیرے رب نے لوگوں کا علم اور قدرت کے اعتبار سے احاطہ کر رکھا ہے تو وہ اس کے قبضہ میں ہیں، آپ ان کو تبلیغ کرتے رہیے اور کسی کا خوف نہ کیجئے، وہ تمہاری ان سے حفاظت کرے گا، رات کے سفر میں جو کچھ ہم نے آپ کو بچشم سر دکھایا وہ اہل مکہ کیلئے محض آزمائش ہے اس لئے کہ انہوں نے اس کی تکذیب کردی اور جب ان کو (واقعہ کی) خبر دی گئی تو بعض (ضعیف الایمان) ان میں سے مرتد ہوگئے اور اس درخت کو بھی کہ جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے اور وہ زقوم (تھوہر) کا درخت ہے کہ جو جہنم کے نچلے طبقہ میں اگا ہے اس کو بھی ہم نے ان کیلئے آزمائش بنادیا جبکہ انہوں نے کہا آگ تو درخت کو جلا دیتی ہے تو پھر اس کو کس طرح اگائے گی، ہم ان کو اس کے ذریعہ ڈرا رہے ہیں مگر ہمارا ڈرانا انھیں (اور) بڑی سرکشی پر ابھار رہا ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : الکلمۃ التی ھِیَ احسن، اَلّتی اسم موصول ھِیَ مبتداء احسن اس کی خبر مبتداء خبر سے مل کر جملہ ہو کر صلہ، موصول صلہ سے مل کر صفت الکلمۃ محذوف کی، موصوف صفت سے مل کر مقولہ۔ قولہ : یقولوا کا، مفسر علام نے الکلمۃ محذوف مان کر اَلَّتی کی وجہ تانیث کی طرف اشارہ کردیا۔ قولہ : ھِیَ ربکم اعلم الخ الکلمۃ التیھی احسن کی تفسیر ہے، اور درمیان میں جملہ معترضہ ہے، لہٰذا مفسر اور مفسر کے درمیان فصل کا اعتراض ختم ہوگیا۔ قولہ : بما شاء ای بالنبوۃ وغیرھا۔ قولہ : وآتینا داؤد زبوراً ، اس میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی فضیلت اس وجہ سے ہے کہ ان پر بذریعہ وحی زبور نازل کی گئی نہ کہ ان کے ملک و مال کی وجہ سے۔ قولہ : اولئک الذین یدعون ھم، اولئک اسم اشارہ موصوف، الّذین اسم موصول، یدعون فعل بافاعل ھم ضمیر صلہ مفعول محذوف آلھۃً ، ھم سے تمیز، یدعون اپنے فاعل اور مفعول سے مل کر صلہ، موصول صلہ سے مل کر جملہ ہو کر اولئک موصوف کی صفت موصوف صفت سے مل کر مبتداء یبتغون الی ربھم الوسیلۃ جملہ ہو کر مبتداء کی خبر۔ دوسری ترکیب : اولئک مبدل منہ اور الذین یدعون بدل، بدل مبدل منہ سے مل کر مبتداء اور یبتغون جملہ ہو کر اس کی خبر۔ قولہ : اَیُّھُمْ ، اقرَبُ ، مبتداء خبر ہیں، اور یہ بھی درست ہے کہ اَیُّھُمْ یبتغون کی ضمیر سے بدل ہو، ای یبتغی مَنْ ھو اقرب الیہ تعالیٰ الوسیلۃَ فکیف من دونہ : مفسر علام سیوطی نے یہی ترکیب اختیار کی ہے۔ قولہ : مبصِرۃ، مبصِرَۃً آیۃ موصوف محذوف کی صفت ہے نہ کہ الناقۃ کی لہٰذا موصوف و صفت میں عدم مطابقت کا اعتراض ختم ہوگیا۔ قولہ : عیانا، اس میں اشارہ ہے کہ رؤیا معنی میں رویت بصری کے ہے۔ قولہ : الشجرۃ، اس کا عطف الرؤیا پر ہے، یعنی ہم نے دونوں کو وجہ آزمائش بنایا۔ قولہ : الشجرۃ الملعونۃ، اس میں مجاز ہے یعنی لعنت شجر پر نہیں بلکہ شجر کے کھانے والے پر ہوگی اسلئے کہ شجر پر لعنت کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ تفسیر و تشریح بدزبانی اور تلخ کلامی کفار کے ساتھ بھی جائز نہیں : زبان کی ذرا سی بےاعتدالی سے شیطان جو تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے تمہارے درمیان فساد ڈلوا سکتا ہے، آپس میں گفتگو کرتے وقت زبان کو احتیاط سے استعمال کریں، زبان سے اچھے اور مہذب کلمات نکالیں شیریں کلامی اور نرم گفتاری سے انسان دشمن کے دل کو بھی جیت سکتا ہے، اگر کفار و مشرکین اور اہل کتاب سے گفتگو کی ضرورت پیش آئے تو ان سے بھی مشفقانہ اور نرم لہجے میں گفتگو کریں، زبان کی ذرا سی بےاحتیاطی کفار و مشرکین کے دلوں میں تمہارے لئے زیادہ بغض وعناد پیدا کرسکتی ہے، گالی گلوچ اور سخت کلامی سے نہ کوئی قلعہ فتح ہوتا ہے اور نہ کسی کو ہدایت ہوتی ہے اس لئے اس سے منع کیا گیا ہے۔ شان نزول : امام قرطبی نے فرمایا کہ یہ آیت حضرت عمر ؓ کے ایک واقعہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی ایک مرتبہ ایک شخص نے حضرت عمر ؓ کو گالی دی اسکے جواب میں حضرت عمر ؓ نے بھی اس کو سخت جواب دیا اور اس کے قتل کا ارادہ کیا اس کے نتیجے میں دو قبیلوں کے درمیان جنگ چھڑ جانے کا خطرہ پیدا ہوگیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ولقد فضلنا۔۔۔۔۔۔ بعض، یہ مضمون تلک الرسل فضلنا بعضھم علی بعض میں بھی گذر چکا ہے اسی مضمون کو یہاں کفار مکہ کے جواب میں دہرایا گیا ہے، جو کہتے تھے کہ کیا اللہ کو رسالت کیلئے یہی (محمد ﷺ ملا تھا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کسی کو رسالت و نبوت کیلئے منتخب کرنا اور کسی نبی کو دوسرے نبی پر فضیلت دینا یہ اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ قل ادعوا۔۔۔ الخ، اس آیت میں من دونہ سے مراد فرشتوں اور بزرگوں کے وہ مجسمے ہیں جن کی وہ بندگی کیا کرتے تھے، یا حضرت عزیز و مسیح (علیہما السلام) ہیں جنہیں یہودی اور عیسائی ابن اللہ کہتے اور انھیں صفات الوہیت کا حامل مانتے تھے یا وہ جنات ہیں جن کی مشرکین عبادت کرتے تھے، اسلئے اس آیت میں بتلایا جا رہا ہے کہ یہ تو خود اپنے رب کا قرب حاصل کرنے کی جستجو میں رہتے ہیں اور اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ وما منعنا أن۔۔۔۔ الالون، یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب کفار مکہ نے مطالبہ کیا کہ کوہ صفا کو سونے کا بنادیا جائے یا مکہ کے پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہٹا دیا جائے، تاکہ وہاں کاشت ہو سکے، اس پر اللہ تعالیٰ نے جبرئیل (علیہ السلام) کے ذریعہ پیغام بھیجا کہ ان کے مطالبات ہم پورے کرنے کیلئے تیار ہیں لیکن اس کے بعد بھی وہ ایمان نہ لائے تو ان کو ہلاکت یقینی ہے، اور پھر انھیں مہلت نہیں دی جائے گی، نبی ﷺ نے بھی اس بات کو پسند فرمایا کہ ان کا مطالبہ پورا نہ کیا جائے تاکہ یہ یقینی ہلاکت سے بچ جائیں۔ وما جعلنا۔۔۔۔۔ للناس، صحابہ اور تابعین نے اس رؤیا کی تعبیر رویت بصری سے کی ہے، اور مراد اس سے معراج کا واقعہ ہے جو کمزور ایمان والوں کیلئے فتنے کا باعث بن گیا، جس کی وجہ سے وہ مرتد ہوگئے، اور درخت سے مراد زقوم (تھوہر) کا درخت ہے جس کا مشاہدہ نبی ﷺ نے شب معراج جہنم میں کیا، الملعونۃ سے مراد کھانے والوں پر لعنت ہے۔
Top