Tafseer-e-Jalalain - Al-Israa : 41
وَ لَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لِیَذَّكَّرُوْا١ؕ وَ مَا یَزِیْدُهُمْ اِلَّا نُفُوْرًا
وَ : لَقَدْ صَرَّفْنَا : البتہ ہم نے طرح طرح سے بیان کیا فِيْ : میں هٰذَا الْقُرْاٰنِ : اس قرآن لِيَذَّكَّرُوْا : تاکہ وہ نصیحت پکڑیں وَمَا : اور نہیں يَزِيْدُهُمْ : بڑھتی ان کو اِلَّا : مگر نُفُوْرًا : نفرت
اور ہم نے اس قرآن میں طرح طرح کی باتیں بیان کی ہیں تاکہ لوگ نصیحت پکڑیں مگر وہ اس سے اور بدک جاتے ہیں۔
آیت نمبر 41 تا 52 ترجمہ : ہم نے اس قرآن میں طرح طرح کی مثال اور وعدہ و عید بیان کرکے سمجھایا تاکہ لوگ سمجھیں نصیحت حاصل کریں، لیکن اس سے تو ان کی حق سے نفرت ہی بڑھتی گئی (اے محمد ﷺ ان سے کہو اگر اللہ کے ساتھ اور معبود بھی ہوتے جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں تو ابتک یہ لوگ عرش کے مالک اللہ کی طرف ضرور راہ ڈھونڈ نکالتے تاکہ اس سے جنگ کریں، جن شرکا کی یہ بات کرتے ہیں وہ ان سے پاک اور بہت بالا و برتر ہے ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے اس کی پاکی بیان کرتے ہیں اور ہر مخلوق حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کرتی ہے یعنی سبحان اللہ وبحمدہ کہتی ہے، لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھ سکتے اس لئے کہ وہ تمہاری زبان میں نہیں ہے بلاشبہ وہ بڑا بردبار اور بخشنے والا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ تمہاری سزا میں جلدی نہیں کرتا، اور جب تم قرآن کی تلاوت کرتے ہو تو ہم تمہارے اور آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے درمیان حجاب ساتر ڈالدیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ تم کو دیکھ نہیں سکتے اور (آئندہ آیت) اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی جس نے آپ ﷺ کو اچانک قتل کرنے کا ارادہ کیا، اور ان کے دلوں پر ایسا غلاف چڑھا دیتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں سمجھتے (یعنی) ایسا غلاف جو قرآن فہمی سے مانع ہوتا ہے، یعنی اس کو نہیں سمجھتا اور ان کے کانوں میں ثقل پیدا کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اس کو سنتے نہیں ہیں، اور جب تم قرآن میں اپنے ایک ہی رب کا ذکر کرتے ہو تو وہ اس سے نفرت سے منہ موڑ لیتے ہیں اور جب وہ کان لگا کر آپ کی قراءت استہزاء کیلئے سنتے ہیں تو ہمیں تب بھی معلوم ہے کہ وہ کیا سنتے ہیں، اور جب یہ آپس میں چپکے چپکے باتیں کرتے ہیں تب بھی، اور اِذ، ماقبل کے اذ سے بدل ہے، اور تب بھی کہ جب یہ ظالم آپس میں سرگوشی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تم تو ایک سحر زدہ شخص کی پیروی کرتے ہو (یعنی) ایسے شخص کی کہ جو مسحور اور مغلوب العقل ہے، دیکھو تو سہی آپ کے بارے میں کیسی کیسی مثالیں دیتے ہیں ؟ (یعنی) سحر زدہ اور کاہن اور شاعر کی مثال، اسی وجہ سے یہ لوگ ہدایت سے بھٹک رہے ہیں انھیں (خدا تک رسائی کا) راستہ نہیں ملتا اور منکرین بعث کہتے ہیں کہ کیا جب ہم ہڈی اور چورہ ہو کر رہ جائیں گے تو کیا ہم کو نئے سرے سے پیدا کیا جائیگا آپ ان سے کہہ دیجئے کہ تم یا لوہا یا کوئی ایسی مخلوق جو قبول حیات میں تمہارے خیال میں ہڈیوں اور ریزوں سے بھی بعید تر ہو، ہوجاؤ تو بھی تمہارے اندر وہ روح ڈال کر ہی رہے گا، تو وہ ضرور پوچھیں گے کہ وہ کون ہے جو ہم کو زندگی کی طرف لوٹائیگا (جواب میں) کہو، وہی جس نے پہلی بار تم کو پیدا کیا، حالانکہ تم کچھ نہیں تھے اسلئے کہ جو ابتداء پیدا کرنے پر قادر ہے وہ دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے بلکہ دوبارہ پیدا کرنا آسان تر ہے تو وہ تعجب سے آپ کی طرف سرمٹکائیں گے اور پوچھیں گے، اچھا تو، یہ دوبارہ زندہ ہونا، ہوگا کب ؟ تم کہو ہوسکتا ہے کہ وہ وقت قریب ہی آلگا ہو، جس روز وہ تمہیں اسرافین کی زبانی قبروں سے پکارے گا تو تم اس کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے قبروں سے نکل جاؤ گے اور کہا گیا ہے کہ لہ الحمد، کہتے ہوئے نکل آؤ گے جس منظر کو تم دیکھو گے اس کی ہولناکی کی وجہ سے تمہارا گمان یہ ہوگا کہ تم دنیا میں بہت کم مدت رہے۔ تحقیق و ترکیب و تفسیری فوائد قولہ : وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فی ھذا القرآن، واؤ عاطفہ ہے لام قسمیہ، صَرّفَ ، متعدد معنی کیلئے استعمال ہوتا ہے یہاں بَیِّنا واَوْضحنا کے معنی میں مستعمل ہے، اس کا مفعول محذوف ہے تقدیر عبارت یہ ہے ” وَلَقَدْ صَرَّفْنَا اَمْثالاً “۔ قولہ : ساترًا، اس میں اشارہ ہے کہ مفعول بمعنی فاعل ہے اسلئے کہ حجاب ساتر ہوتا ہے نہ کہ مستور۔ قولہ : ألفتک، بتثلیث الفاء القتل علی الغفلۃ، اچانک غفلت کی حالت میں قتل کردینا۔ قولہ : من ان یفھموا، اس میں اشارہ ہے کہ اِنْ مصدریہ ہے نہ کہ تفسیر یہ، مِن اَن یفھموا، میں من کا اضافہ یہ بتانے کے لئے کہ اَنْ یفقھوہ تقدیر من کے ساتھ اَکنّۃ کا صلہ ہے اور اَکنّۃ، مَنَعَ کے معنی کو مشتمل ہے، نہ یہ کہ أن یفقھوہ مفعول لہٗ ہے کہ حذف مضاف کی ضرورت ہو اور تقدیر عبارت یہ ہو ” کراھۃَ اَنْ یفقھوہُ “۔ قولہ : وَحْدَہٗ ، مصدر ہے موقع حال میں واقع ہے۔ قولہ : نفورًا مصدر ہے جو کہ ولّوا کا مفعول لہ واقع ہو رہا ہے۔ قولہ : اِذ یستمعون الخ اور اذھم نجویٰ یہ دونوں اَعْلَمُ کے ظرف ہیں۔ قولہ : قراءت ک، مضاف محذوف مان کر بتادیا کہ استماع کا مفعول قراءت محذوف سے اس لئے کہ ذات کا سننا محال ہے اور نہ ذات سننے کی چیز ہے۔ قولہ : مخدوعاً ، ای مسحوراً یعنی ایسا مسحور کہ سحر کی وجہ سے اس کی عقل زائل ہوگئی ہو۔ قولہ : رُفاتا، رُفات وہ شئ جو خشک ہو کر چورہ چورہ ہوجائے۔ قولہ : ینغضون انغاض (افعال) سے مضارع جمع مذکر غائب، وہ سر ہلاتے ہیں نَغْض (ض ن) اوپر سے نیچے کو سر ہلانا۔ تفسیر وتشریح ولقد صَرّفْنَا فی ھٰذا القرآن (الآ یۃ) طرح طرح سے بیان کرنے کا مطلب ہے، وعظونصیحت، دلائل وبینات، تر غیب وترہیب، اور مثال وو اقعات، غرض ہر طریقہ سے بار بار سمجھایا گیا ہے تاکہ وہ ہوش میں آئیں اور سمجھیں لیکن وہ کفرشرک کی تاریکیوں میں اس طرح پھنسے ہوئے ہیں کہ وہ حق جے قریب ہونے کے نجائے اس سے اور زیادہ دور ہوگئے ہیں، اس لئے کہ ان کا خیال ہے کہ یہ قرآن، جادو، کہانت اور شاعری ہے، ایسی حالت میں وہ اس قرآن سے کہاں راہ یاب ہوسکتے ہیں ؟ کیونکہ قرآن کی مثال بارش کی سی ہے، زرخیز زمین پر پڑے تو وہ بارش سے سرسبز و شاداب ہوجاتی ہے اور اگر سنگلاخ اور بنجر زمین پر پڑے تو خارو خس اگالی ہے اور اگر گندی زمین پر پڑے تو اس کی گندگی اور بدبو میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ قل لَوْکان۔۔۔۔ یقولون (الآیۃ) اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جس طرح ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ پر لشکر کشی کرکے غلبہ حاصل کرلیتا ہے، اسی طرح یہ دوسرے معبود بھی اللہ پر غلبہ کی کوئی تدبیر نکالتے، اور اب تک ایسا ہوا نہیں جبکہ ان معبودوں کو پوجتے ہوئے صدیاں گذر گئیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود ہی نہیں اور نہ کوئی با اختیار ہستی اور نہ کوئی نافع و ضار، مطلب یہ ہے کہ اگر معبود حقیقی کے علاوہ دیگر معبود حقیقی ہوتے تو وہ خود مالک عرش بننے کی کوشش کرتے اس لئے کہ چند ہستیوں کا خدائی میں شریک ہونا دو حال سے خالی نہیں ہوسکتا، یا تو وہ سب اپنی جگہ مستقل خدا ہوں یا ان میں سے ایک اصل خدا ہو اور باقی اس کے تابع، پہلی صورت میں یہ کسی طرح ممکن نہ تھا کہ یہ سب آزاد و خود مختار خدا، ہمیشہ ہر معاملہ میں ایک دوسرے کے ارادہ سے موافقت کرکے اس عظیم کائنات کے نظم کو اتنی مکمل ہم آہنگی ویکسانیت اور تناسب و توازن کے ساتھ چلا سکتے، ناگزیر تھا کہ ان کے منصوبوں اور ارادوں میں قدم قدم پر تصادم ہوتا اور ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہتا دوسری صورت تو بندہ کا ظرف، خدائی اختیارات تو درکنار خدائی کے ذرا سے وہم اور شائبہ تک کا تحمل نہیں کرسکتا۔ تسبح۔۔۔۔ (الآیۃ) کائنات میں انسانوں، فرشتوں اور جنوں کی تسبیح کا مطلب تو واضح ہے مذکورہ تینوں نوعوں کے علاوہ کی تسبیح کے بارے میں بعض علماء نے کہا ہے کہ ان کی تسبیح سے مراد تسبیح حالی ہے۔ مگر دوسرے اہل تحقیق علماء کا قول یہ ہے کہ تسبیح اختیاری تو صرف فرشتے اور مومن جن و انس کیلئے مخصوص ہے مگر تکوینی طور پر اللہ تعالیٰ نے کائنات کے ذرہ ذرہ کو تسبیح خواں بنا رکھا ہے مگر ان کی اس تکوینی اور غیر اختیاری تسبیح کو عام لوگ نہیں سنتے قرآن کریم کا ارشاد ہے ” ولکن لاتفقھونَ تسبیحَھُمْ “ اس سے معلوم ہوا کہ تمام کائنات کی تسبیح حالی نہیں بلکہ حقیقی ہے مگر ہمارے فہم و ادراک سے بالاتر ہے۔ کائنات کی ہر شئ تسبیح وتحمید میں مشغول ہے : کائنات کی ہر شئ اپنے اپنے انداز میں تسبیح وتحمید میں مصروف ہے گو ہم اس کو نہ سمجھ سکیں، اس کی تائید بعض آیات قرآنی سے بھی ہوتی ہے، حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بارے میں آتا ہے ” اِنّا سخرنا الجبالَ معہ یُسبّحنَ بالعشیِّ والاشراق “ (سورۂ ص) ہم نے پہاڑوں کو داؤد (علیہ السلام) کے تابع کردیا بس وہ شام اور صبح کو اس کے ساتھ اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں، بعض پتھروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” وَاِنَّ منھا لما یَھْبِطُ من خشیۃ اللہ “ (بقرہ) اور بعض (پتھر) اللہ تعالیٰ کے خوف کے مارے گرپڑتے ہیں۔ کھانے کا تسبیح پڑھنا : عبد اللہ بن مسعود بیان فرماتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے کہ انہوں نے کھانے کی تسبیح کی آواز سنی۔ اسطوانۂ حنانہ کا رونا : حدیث شریف میں آیا ہے کہ مسجد نبوی میں منبر بننے سے پہلے آپ کھجور کے ایک تنے سے ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے جب لکڑی کا منبر تیار ہوگیا تو اس تنے کو آپ نے چھوڑ دیا وہ تنا بچے کی طرف زور زور سے رونے لگا آپ کے تسلی دینے کے بعد خاموش ہوا۔ (بخاری شریف) پتھر کا آپ ﷺ کا سلام کرنا : مکہ میں ایک پتھر تھا جو رسول اللہ ﷺ کو سلام کیا کرتا تھا (مسلم شریف) صحیح مسلم میں حضرت جابر بن سمرہ کی روایت سے مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں مکہ کے اس پتھر کو پہچانتا ہوں کہ جو بعثت سے پہلے مجھے سلام کیا کرتا تھا اور میں اب بھی اسے پہچانتا ہوں بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس سے مراد حجر اسود ہے۔ (معارف) مذکورہ روایات کے بعد اس میں کیا بعد اور استحالہ رہ جاتا ہے کہ زمین و آسمان کی ہر چیز میں شعور و ادراک ہے، اور ہر چیز حقیقی طور پر اللہ کی تسبیح کرتی ہے۔ امام قرطبی نے فرمایا کہ اگر تسبیح سے مراد تسبیح حالی ہو تو مذکورہ آیت میں حضرت داؤد (علیہ السلام) کی کیا تخصیص ہوگی اس سے ظاہر یہی ہے کہ یہ تسبیح قولی تھی، جیسا کہ خصائص الکبری کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ کنکریوں کا تسبیح پڑھنا معجزہ نہیں وہ تو ہرحال میں اور ہر وقت عام ہے آنحضرت ﷺ کا معجزہ یہ تھا کہ آپ کے دست مبارک میں آنے کے بعد ان کی تسبیح اس طرح ہوگئی کہ عام لوگوں نے اپنے کانوں سے سنی۔ کیا پیغمبر پر جادو کا اثر ہوسکتا ہے : کسی نبی اور پیغمبر پر جادو کا اثر ہوجانا ایسا ہی ممکن ہے جیسا کہ کسی مرض کا اثر ہوجانا، اس لئے کہ انبیاء بشری خواص سے الگ نہیں ہوتے، جیسے ان کو زخم لگ سکتا ہے، بخار اور درد ہوسکتا ہے، قےؔ آسکتی ہے ایسے ہی جادو کا اثر بھی ہوسکتا ہے، اسلئے کہ وہ بھی خاص اسباب طبعیہ جنات وغیرہ کے اثر سے ہوتا ہے اور حدیث سے ثابت ہے کہ ایک مرتبہ آپ ﷺ پر جادو کا اثر ہوگیا تھا، آخری آیت میں جو کفار نے آپ کو مسحور کہا اور قرآن نے اس کی تردید کی اس کا حاصل یہ ہے کہ آپ کو مسحور کہنے کا مطلب مجنون کہنا تھا، اسی کی تردید قرآن نے فرمائی ہے اس لئے حدیث سحر اس آیت کے معارض نہیں ہے۔ واذا قرأت القرآن الخ آیات مذکورہ میں سے پہلی دوسری آیت میں جو مضمون آیا اس کا ایک خاص شان نزول ہے، جو قرطبی نے سعید بن جبیر سے نقل کیا ہے کہ جب قرآن میں سورة تبت یدا ابی لھب، نازل ہوئی جس میں ابولہب کی بیوی کی مذمت مذکور ہے تو اسکی بیوی آپ ﷺ کی مجلس میں گئی اس وقت حضرت ابوبکر صدیق مجلس میں موجود تھے اس کو آتے دیکھ کر آپ ﷺ سے صحابہ نے عرض کیا کہ آپ یہاں سے ہٹ جائیں تو بہتر ہے کیونکہ یہ عورت بڑی بد زبان ہے یہ ایسی باتیں کہے گی جس سے آپ کو تکلیف ہوگی آپ نے فرمایا نہیں اسکے اور میرے درمیان اللہ تعالیٰ پردہ حائل کردیں گے، چناچہ وہ آپ کی مجلس میں پہنچی مگر رسول اللہ ﷺ کو نہ دیکھ سکی، تو صدیق اکبر کو مخاطب ہو کر کہنے لگی کہ آپ کے ساتھی نے ہماری ہجو کی ہے، صدیق اکبر نے کہا واللہ وہ تو کوئی شعر ہی نہیں کتے جس میں عادۃً ہجو کی جاتی ہے تو وہ یہ کہتی ہوئی چلی گئی کہ تم بھی اسکی تصدیق کرنے والوں میں سے ہو، اس کے چلے جانے کے بعد صدیق اکبر نے عرض کیا، کیا اس نے آپ کو دیکھا نہیں آپ نے فرمایا جب تک وہ یہاں رہی میرے اور اس کے درمیان ایک فرشتہ پردہ کرتا رہا۔ (معارف) ۔ اَکِنَّۃ، کنان کی جمع ہے، ایسا پردہ جو دلوں پر پڑجائے، وَقْرٌ، گراں گوشی، ثقل سماعت، ڈاٹ، بہراپن، جو قرآن سننے سے مانع ہو مطلب یہ ہے کہ ان کے دل قرآن کے سمجھنے سے قاصر اور کان قرآن سن کر ہدایت قبول کرنے سے عاجز ہیں، اور اللہ کی توحید سے تو ان کو اتنی نفرت ہے کہ توحید کا نام سنتے ہی بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ وَقالواء اِذَا۔۔۔۔۔۔ لمبعوثون، مشرکین و کفار کا کہنا یہ تھا کہ اول تو مر کر دوبارہ زندہ ہونا ہی مشکل ہے اسلئے کہ مردہ جسم میں زندگی کی صلاحیت نہیں رہتی اور جب وہ جسم پھول پھٹ کر ریزہ ریزہ ہو کر منتشر بھی ہوجائے تو اس کے زندہ ہونے کو کون مان سکتا ہے، آپ ان کے جواب میں فرما دیجئے کہ تم تو ہڈیوں ہی کی حیات کو مستعبد سمجھتے ہو ہم کہتے ہیں کہ تم پتھر یا لوہا یا کوئی ایسی چیز جو تمہاری نظر میں حیات قبول کرنے میں پتھر اور لوہے سے بھی سخت ہو، ہو کر دیکھ لو، دیکھو کہ زندہ کئے جاتے ہو یا نہیں، پتھر اور لوہے کو بعید از حیات قرار دینا اس لئے ظاہر ہے کہ ان میں کسی وقت بھی حیات حیوانی نہیں آتی بخلاف ہڈیوں کے کہ ان میں پہلے کچھ وقت تک حیات رہ چکی ہے تو جب لوہے اور پتھر کو زندہ کرنا اللہ کے نزدیک مشکل نہیں تو اعضاء انسانی کو دوبارہ زندگی بخشنا کیا مشکل ہوگا۔
Top