Tafseer-e-Jalalain - Al-Hijr : 61
فَلَمَّا جَآءَ اٰلَ لُوْطِ اِ۟لْمُرْسَلُوْنَۙ
فَلَمَّا : پس جب جَآءَ : آئے اٰلَ لُوْطِ : لوط کے گھر والے الْمُرْسَلُوْنَ : بھیجے ہوئے (فرشتے)
پھر جب فرشتے لوط کے گھر گئے
آیت نمبر 61 تا 79 ترجمہ : پھر جب یہ فرستادے آل لوط یعنی لوط (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو لوط (علیہ السلام) نے ان سے کہا تم لوگ اجنبی معلوم ہوتے ہو، میں تم کو نہیں پہچانتا، فرشتوں نے جواب دیا، نہیں، بلکہ ہم تمہارے پاس وہی چیز لے کر آئے ہیں جس (کے آنے) میں تمہاری قوم شک کر رہی تھی اور وہ عذاب ہے، اور ہم تمہارے پاس صریح حق لے کر آئے ہیں اور ہم اپنی بات میں بالکل سچے ہیں، اب تم رات کے کسی حصہ میں اپنے اہل کو لے کر نکل جانا، اور تم ان کے پیچھے رہنا، یعنی ان کے پیچھے (پیچھے) چلنا، اور تم میں سے کوئی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے تاکہ اس عظیم ہولناک (عذاب) کو نہ دیکھے جو ان پر نازل ہو رہا ہو، اور جہاں جانے کا تمہیں حکم دیا گیا ہے اور وہ شام ہے (سیدھے) چلے جاؤ اور ہم نے انھیں اپنا یہ فیصلہ پہنچا دیا اور وہ یہ کہ صبح ہوتے ہوتے ان کی جڑیں کاٹ دی جائیں گی (مصبحین) حال ہے، یعنی صبح ہوتے ہوتے ان کی جڑیں اکھاڑ دی جائیں گی، اور شہر والے (یعنی) سدوم کے باشندے اور وہ لوط (علیہ الصلوٰۃ والسلام) کی قوم کے لوگ تھے، جب ان کو یہ خبر ملی کہ لوط (علیہ السلام) کے گھر میں خوبصورت امرد (بےریش) لڑکے ہیں حالانکہ وہ فرشتے تھے (یستبشرون) حال ہے، ان کے ساتھ بدفعلی کی خواہش کرتے ہوئے خوش ہوتے ہوئے آئے، لوط (علیہ السلام) نے کہا (بھائیو) یہ میرے مہمان ہیں تم مجھے ان کے بارے میں رسوا نہ کرو اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور ان کے ساتھ بدفعلی کا ارادہ کرکے میری فضیحت نہ کرو وہ کہنے لگے کیا ہم نے تم کو دنیا بھر کی ٹھکیداری یعنی ان کی مہمان نوازی کرنے سے منع نہیں کیا لوط (علیہ السلام) نے کہا اگر تمہیں قضاء شہوت کرنی ہی ہے تو یہ میری بیٹیاں موجود ہیں ان سے نکاح کرلو، اللہ تعالیٰ نے فرمایا تیری عمر کی قسم یہ آپ ﷺ کو خطاب ہے یعنی تیری زندگی کی قسم، وہ تو اپنی بدمستی میں بھٹک رہے تھے آخر صبح ہوتے ہوتے ان کو ایک چیخ نے (یعنی) جبرائیل (علیہ السلام) کی چیخ نے پکڑ لیا یعنی سورج طلوع ہونے کے وقت بالآخر ہم نے اس شہر کو تہ وبالا کردیا اس طریقہ پر کہ ان بستیوں کو جبرائیل (علیہ السلام) نے اوپر کی طرف اٹھایا اور زمین پر پلٹ کر پھینک دیا اور ان لوگوں پر کنکریلے پتھر برسائے یعنی آگ میں پکی ہوئی مٹی کے پتھر بلاشبہ ان مذکورہ (واقعات) میں اہل بصیرت عبرت حاصل کرنے والوں کیلئے خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر دلالت کرنے والی نشانیاں ہیں اور قوم لوط کی یہ بستیاں قریش کے شام جانے والی شاہراہ پر واقع تھیں اور (ابھی تک) ان کے نشانات مٹے نہیں تھے تو کیا یہ لوگ ان سے نصیحت حاصل نہیں کرتے بیشک اس (مذکور) میں مومنین کیلئے عبرت ہے اور ان مخففہ ہے یعنی انہ کان اور اصحاب ایکہ کہ وہ (ایکہ) مدین کے قریب کہ وہ شعیب (علیہ السلام) کی قوم تھی ایک جھاڑی تھی یہ بھی حضرت شعیب (علیہ السلام) کی تکذیب کی وجہ سے بڑے ظالم تھے جن سے ہم نے انتقام لے ہی لیا کہ ہم نے ان کو سخت گرمی کے ذریعہ ہلاک کردیا اور یہ دونوں یعنی قوم لوط کی بستیاں اور ایکہ شاہراہ پر واقع تھیں کیا یہ اہل مکہ ان سے عبرت حاصل نہیں کرتے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : ای لوطا، اس میں اشارہ ہے کہ آل لوط سے صرف لوط (علیہ السلام) مراد ہیں اسلئے کہ اللہ تعالیٰ کے قول ” ولقد جاءت رسلنا لوطا “ سے بھی یہی مفہوم ہے۔ قولہ : لا اعرفکم، تم انجان ہو اسلئے کہ نہ تو تم مقامی ہو ورنہ میں تم کو ضرور پہچانتا، اور نہ تم مسافر معلوم ہوتے ہو اسلئے کہ تمہارے اوپر سفر کی کوئی علامت نہیں ہے۔ قولہ : اوحینا، یہ اس سوال کا جواب ہے کہ قضینا کا صلہ الی نہیں آتا حالانکہ یہاں صلہ، الی استعمال ہوا ہے جواب یہ ہے کہ قضینا، اوحینا کے معنی کو متضمن ہے اور اوحینا کا صلہ الی آتا ہے۔ قولہ : ذلک الامر یہ مبہم ہے، اس کی تفصیل، أن دابر ھٰؤلاء مقطوع مصبحین سے کی ہے۔ قولہ : حال یعنی ھؤلاء سے حال ہے اور بعض حضرات نے مقطوع کی ضمیر سے حال قرار دیا ہے اور مقطوع معنی میں مقطوعین کے ہوگا۔ قولہ : مردا یہ امرد کی جمع ہے، بےریش نوجوان کو کہتے ہیں۔ قولہ : حال یعنی یستبشرون، اہل المدینہ سے حال ہے نہ کہ صفت اسلئے کہ جملہ نکرہ ہونے کی وجہ سے معرفہ کی صفت واقع نہیں ہوسکتا۔ قولہ : عن اضافتھم، ای ضیافتھم، میزبانی کرنا۔ قولہ : یترددون ای یتحیرون فکیف یسمعون نصیحتک۔ قولہ : وقت شروق الشمس عذاب کی ابتداء طلوع فجر کے وقت ہوئی اور تکمیل حضرت جبرائیل کی چیخ کے ذریعہ طلوع شمس کے وقت ہوئی لہٰذا کوئی مضافات نہیں ہے۔ قولہ : تندرس، اندراس، خراب شدن، مٹنا۔ قولہ : طریق، اس میں اشارہ ہے کہ امام سے یہاں معروف معنی مراد نہیں ہیں ای ما یؤتم بہ بلکہ یہاں راستہ مراد ہے اسلئے کہ راستہ کی بھی مسافر اقتداء کرتا ہے راستہ جدھر جاتا ہے مسافر بھی اسی طرف جاتا ہے۔ قولہ : متوسمین، متوسم اسم فاعل کی جمع ہے (تفعل) تو سم مصدر ہے، اہل فراست، گہرائی سے دیکھنے والے وسم مادہ ہے، علامت۔ تفسیر و تشریح فلما جاء۔۔۔۔ ، یہاں بات بہت مختصر بیان ہوئی ہے سورة ہود میں اس واقعہ کو مفصل بیان کیا گیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان فرستادوں کی آمد سے حضرت لوط (علیہ السلام) بہت گھبرائے اور ان کو دیکھتے ہی اپنے دل میں کہنے لگے آج بڑا سخت دن آیا ہے، اس کی وجہ یہ تھی کہ فرشتے نہایت ہی خوبصورت لڑکوں کی شکل میں حضرت لوط (علیہ السلام) کے یہاں آئے تھے اور حضرت لوط (علیہ السلام) اپنی قوم کی بدکرداری سے واقف تھے، مہمانوں کو واپس بھی نہیں کیا جاسکتا تھا اور انھیں بدمعاشوں سے بچانا بھی مشکل تھا۔ وجاء اھل۔۔۔۔ ، ادھر تو لوط (علیہ السلام) کے گھر میں قوم کی ہلاکت کا فیصلہ ہو رہا تھا، ادھر قوم لوط کو پتہ چلا کہ لوط (علیہ السلام) کے گھر چند خوش شکل نوجوان مہمان آئے ہیں تو وہ اپنی امرد پرستی کی وجہ سے بہت خوش ہوئے اور حضرت لوط (علیہ السلام) کے گھر پر چڑھ آئے اور ان نوجوان کو سپرد کرنے کا مطالبہ کیا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی اور اپنی رسوائی اور بےعزتی کے حوالہ سے بہت کچھ کہا مگر ان کی سمجھ میں کچھ نہ آیا اسلئے کہ وہ اپنی بدمستی اور شہوت پرستی کے جوش میں شراب کے نشے کی مانند دھت تھے۔ وانھا لبسبیل مقیم، سبیل مقیم سے شاہ راہ مراد ہے یعنی قوم لوط کی بستیاں مدینہ سے شام جاتے ہوئے راستہ میں پڑتی تھیں ہر آنے جانے والا ان بستیوں سے گذرتا تھا، کہتے ہیں کہ یہ پانچ بستیاں تھیں ان کا مرکزی مقام سدوم تھا۔ وان اصحاب الایکۃ لظٰلمین، ایکہ گھنے درخت کو کہتے ہیں چونکہ یہ لوگ زراعت پیشہ تھے اور جانور بھی بکثرت رکھتے تھے اسلئے یہ لوگ اس آب وگیاہ والے مقام پر رہتے تھے، کہا گیا ہے کہ اس سے مراد قوم شعیب ہے ان کا زمانہ لوط (علیہ السلام) کے بعد ہے ان کا علاقہ حجاز اور شام کے درمیان قوم لوط کی بستیوں کے قریب ہی تھا۔
Top