Tafseer-e-Jalalain - Al-Hijr : 45
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍؕ
اِنَّ : بیشک الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار فِيْ : میں جَنّٰتٍ : باغات وَّعُيُوْنٍ : اور چشمے
جو متقی ہیں وہ باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔
آیت نمبر 45 تا 60 ترجمہ : (شرک و کفر سے) بچنے والے (متقی) باغوں اور چشموں میں ہوں گے جو باغوں میں جاری ہوں گے، ان سے کہا جائیگا ہر گھبراہٹ سے سلامتی اور امن کے ساتھ اس میں داخل ہوجاؤ، (یعنی) حال یہ کہ تم ہر خطرہ سے سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ، یا سلام کے ساتھ، یعنی سلام کرو اور داخل ہوجاؤ، ان کے دلوں میں جو تھوڑی بہت کھوٹ کپٹ ہوگئی ہم اس کو نکالدیں گے وہ آپس میں بھائی بھائی بن کر مسہریوں پر آمنے سامنے بیٹھیں گے (اخوانا) ھم ضمیر سے ھال ہے (متقابلین) بھی اخوانا سے حال ہے یعنی کوئی کسی کی گدی (پشت) کو نہ دیکھے گا، اسلئے کہ ان کے تخت دائرہ کی شکل میں ہوں گے، نہ وہاں انھیں کسی مشقت سے پالا پڑے گا اور نہ وہ وہاں سے کبھی نکالے جائیں گے اے محمد میرے بندوں کو بتادو کہ میں مومنوں کیلئے درگذر کرنے والا اور ان پر بہت مہربان ہوں (اور ساتھ ہی یہ بھی بتادو کہ) نافرمانوں کیلئے میرے عذاب بڑے دردناک ہیں، اور انہیں ابراہیم (علیہ السلام) کے مہمانوں کا قصہ بھی سنا دو اور وہ (مہمان) بارہ یا دس یا تین فرشتے تھے ان میں جبرائیل (علیہ السلام) بھی تھے جب وہ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئے اور ان کو سلام کیا یعنی انہوں نے لفظ سلاما کہا، جب ان کے سامنے ابراہیم (علیہ السلام) نے کھانا پیش کیا اور انہوں نے نہ کھایا تو ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا، ہمیں تو تم سے ڈر لگتا ہے انہوں نے کہا ڈرو نہیں ہم تیرے رب کے فرستادے ہیں ایک ذی علم فرزند کی آپ کو خوشخبری دیتے ہیں یعنی زیادہ علم والے فرزند کی، وہ فرزند اسحاق ہیں جیسا کہ سورة ہود میں ذکر کیا گیا، (ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کیا تم بڑھا پالاحق ہونے کی حالت میں مجھے لڑکے کی خوش خبری دے رہے ہو ؟ ! (علی ان الخ) حال ہے یعنی حال یہ ہے کہ مجھے بڑھاپا لاحق ہوگیا ہے یہ خوش خبری تم کس بنا پردے رہو ہو ؟ استفہام تعجبی ہے، فرشتوں نے جواب دیا ہم آپ بالکل سچی خوش خبری سنادی ہے ہیں، لہذا آپ مایوس ہونے والوں میں نہ ہوں ، (ابراہیم (علیہ السلام) نے) فرمایا اپنے رب کی رحمت سے تو صرف گمراہ کافر لوگ ہی ناامید ہوتے ہیں (یقنط) نون کے کسرہ اور اس کے فتحہ کے ساتھ ہے، ابراہیم (علیہ السلام) نے دریافت کیا اے (خدائی) فرستادو آپ کس مہم پر تشریف لائے ہو وہ بولے ہم ایک مجرم کافر قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں یعنی قوم لوط کی جانب ان کو ہلاک کرنے کیلئے، صرف لوط (علیہ السلام) کے گھر والے مستثنیٰ ہیں، ہم ان سب کو ان کے ایمان کی وجہ سے بچا لیں گے سوائے اس کی بیوی کے جس کے لئے (اللہ فرماتا ہے) کہ ہم نے مقدر کردیا ہے کہ وہ پیچھے رہنے والوں میں شامل رہے گی یعنی اپنے کفر کی وجہ سے عذاب میں پھنسنے والوں میں رہے گی۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : سالمین، سلام کی تفسیر سالمین سے کرنے کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : یہ ہے کہ سلام مصدر ہے اس کا حمل ھا، ضمیر پر درست نہیں ہے اسلئے کہ ضمیر سے مراد جنت ہے جو ذات ہے اور مصدر کا حمل ذات پر درست نہیں ہوتا۔ جواب : یہ ہے کہ مصدر بتاویل مشتق سالمین ہو کر حال ہے لہٰذا حمل درست ہے۔ قولہ : مع سلام اس میں اشارہ ہے کہ بسلام میں باء بمعنی مع ہے نہ کہ سببیہ۔ قولہ : ای سلموا ای سلم علیکم الملائکۃ۔ قولہ : ادخلوا۔ سوال : ادخلوا مقدر ماننے کی کیا ضرورت پیش آئی ؟ جواب : اس مٰن اشارہ ہے آمنین ادخلوا کی ضمیر سے حال ثانیہ ہے نہ کہ بسلام سے اسلئے کہ عمل میں اصل فعل ہے نہ کہ مصدر۔ قولہ : حال من، ھم، یعنی اخوانا، ھم سے حال ہے نہ کہ صفت سے۔ سوال : حال مضاف سے ہوا کرتا ہے نہ کہ مضاف الیہ سے اور یہاں اخوانا، ھم ضمیر سے حال واقع ہے جو کہ مضاف الیہ ہے۔ جواب : مضاف الیہ جب مضاف کا جز ہو تو حال واقع ہونا درست ہوتا ہے یہاں چونکہ مجاف الیہ مضاف کا بعض ہے لہٰذا حال واقع ہونا درست ہے اور ادخلوا کی ضمیر سے ھال واقع ہونا بھی درست ہے اور متقابلین، اخوانا سے بھی حال واقع ہوسکتا ہے جبکہ اخوانا متصافین یا متحابین کے معنی میں ہو اور اخوانا کی صفت بھی واقع ہوسکتا ہے۔ قولہ : کما ذکر فی الھود ای فبشرنھا باسحٰق۔ قولہ : بکسر النون ای من باب ضرب، وبفتح النون ای من باب فتح۔ تفسیر و تشریح ان المتقین۔۔۔ (الآیۃ) قرآن کریم کا ایک خاص اسلوب بیان ہے کہ وہ متقابلین کو بیان کرتا ہے تاکہ دونوں کا فرق خوب واضح ہوجائے یہاں وہی اسلوب اختیار کیا ہے پچھلی آیتوں میں جہنم اور اہل جہنم کا ذکر تھا اب اسکے بعد جنت اور اہل جنت کا تذکرہ ہے تاکہ جنت کی رغبت اور دوزخ سے نفرت پیدا ہو، اور متقین سے مراد وہ لوگ ہیں جو کفر و شرک سے بچتے رہے اور بعض کے نزدیک وہ اہل ایمان مراد ہیں جو ہر قسم کے معاصی سے بچتے رہے غرضیکہ اسمیں وہ سب لوگ داخل ہیں جو شیطان کی پیروی سے بچے رہے ہوں اور انہوں نے اللہ سے ڈرتے ہوئے عبدیت کی زندگی گزاری ہو۔ متقی اور پرہیزگار لوگ ہر حزن و ملال سے بیخوف اور ہر مصیبت و آفت سے مامون اور ہر تعب و مشقت سے محفوظ سلامتی کیساتھ آپس میں مبارک بادی دیتے ہوئے اور سلامتی کی دعائیں دیتے اور لیتے ہوئے اور خود ذات خداوندی کی طرف سے دائمی سلامتی کا اعلان سنتے ہوئے جنت میں داخل ہوں گے۔ ونزعنا ما فی۔۔۔۔۔ متقابلین، یعنی جن لوگوں کے درمیان آپس کی غلط فہمیوں کی بنا پر دنیا میں اگر کچھ رنجشیں اور کدورتیں رہی ہوں گی تو جنت میں داخل ہوتے وقت وہ دور کردی جائیں گی اور ان کے دل آپس میں ایک دوسرے کیلئے بالکل صاف شفاف کر دئیے جائیں گے۔ اسی آیت کو پڑھ کر حضرت علی نے فرمایا تھا، کہ مجھے امید ہے کہ اللہ میرے اور طلحہ اور زبیر کے درمیان بھی صفائی کرا دے گا۔ جب عبد اللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ اہل جنت جب جنت میں داخل ہوں گے تو سب سے پہلے ان کے سامنے پانی کے دو چشمے پیش کئے جائیں گے پہلے چشمے سے جب وہ پانی پئیں گے تو ان سب کے دلوں سے باہمی رنجش و کدورت جو کبھی دنیا میں پیش آئی تھی اور طبعی طور پر اس کا اثر آخرت تک موجود رہا وہ سب دھل جائے گا اور سب کے دلوں میں باہمی محبت و الفت پیدا ہوجائیگی کیونکہ باہمی رنجش بھی ایک تکلیف اور عذاب ہے اور جنت ہر تکلیف سے پاک رہے۔ کینہ کے ہوتے ہوئے جنت میں داخل نہ ہونے کا مطلب : حدیث میں وارد ہے کہ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی کسی مسلمان کی طرف سے کینہ ہوگا وہ جنت میں نہ جائیگا، اس سے مراد وہ کینہ ہے جو دنیوی غرض سے اور اپنے قصد و اختیار سے ہو اور اس کی وجہ سے یہ شخص اس کے درپے رہے کہ جب موقع ملے اپنے دشمن کو تکلیف اور نقصان پہنچائے، طبعی انقباض جو خاصۂ بشری اور غیر اختیاری ہے وہ اس میں داخل نہیں، اسی طرح جو کسی شرعی بنیاد پر مبنی ہو، وہ بھی اس کینہ اور بغض میں داخل نہیں۔ قال انا منکم وجلون الخ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ان فرشتوں سے ڈر اس لئے محسوس ہوا کہ انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تیار کیا ہوا کھانا نہیں کھایا، اور عرب میں یہ بات مشہور تھی کہ اگر آنے والا مہمان میزبان کے یہاں کھانا نہ کھائے تو سمجھا جاتا تھا کہ آنے والے مہمان کی نیت اچھی نہیں ہے، اس کا تکلیف پہنچانے کا ارادہ ہے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کوئی غیب کا علم تو تھا نہیں کہ وہ سمجھ جاتے کہ انسانی شکل میں آنے والے فرشتے ہیں اور ان کیلئے کھانا تیار نہ کرائے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انبیاء کو غیب کا علم نہیں ہوتا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بڑھاپے کی عمر میں اولاد ہونے پر جو تعجب اور حیرت تھی وہ صرف اپنے بڑھاپے اور ضعف کی وجہ سے تھی نہ یہ کہ وہ خدا کی رحمت سے ناامید یا خدانخواستہ ان کو خدا کی قدرت میں شک تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرشتوں کی گفتگو سے اندازہ لگایا کہ یہ صرف اولاد کی بشارت دینے ہی نہیں آئے بلکہ ان کی آمد کا اصل مقصد کچھ اور ہے چناچہ ان سے پوچھا، فما خطبکم ایھا المرسلون ؟
Top