Tafseer-e-Jalalain - Al-Hijr : 16
وَ لَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّ زَیَّنّٰهَا لِلنّٰظِرِیْنَۙ
وَلَقَدْ جَعَلْنَا : اور یقیناً ہم نے بنائے فِي : میں السَّمَآءِ : آسمان بُرُوْجًا : برج (جمع) وَّزَيَّنّٰهَا : اور اسے زینت دی لِلنّٰظِرِيْنَ : دیکھنے والوں کے لیے
اور ہم ہی نے آسمان میں برج بنائے اور دیکھنے والوں کیلئے اس کو سجا دیا۔
آیت نمبر 16 تا 25 ترجمہ : اور بیشک ہم نے آسمان میں بڑے بڑے بارہ برج بنائے (1) حمل (2) ثور (3) جوزاء (4) سرطان (5) اسد (6) سنبلہ (7) میزان (8) عقرب (9) قوس (10) جدی (11) دلو (12) حوت، یہ سات سیاروں کی بارہ منزلیں ہیں مریخ کیلئے حمل اور عقرب ہیں اور زہرہ کیلئے ثور اور میزان ہیں اور عطارد کیلئے جو ازء اور سنبلہ ہیں اور قمر کیلئے سرطان ہے اور شمس کیلئے اسد ہے، اور مشتری کیلئے قوس اور حوت ہیں اور ہم نے آسمان کو دیکھنے والوں کیلئے تاروں سے سجایا اور آسمانوں کو ہم نے ستاروں کے ذریعہ ہر شیطان مردود سے محفوظ کیا، الایہ کہ کوئی چوری سے سن بھاگے تو اس کے تعاقب میں ایک روشن ستارہ ہوتا ہے، (جو) اس کو جلا ڈالتا ہے یا بیندھ ڈالتا ہے یا بدحواس بنا دیتا ہے اور ہم نے زمین کو پھیلایا اور اس میں ہم نے نہ ہلنے والے پہاڑ ثبت کر دئیے تاکہ زمین اپنے باشندوں کو لے کر (اضطرابی) حرکت نہ کرے اور ہم نے اس میں ہر چیز ایک مقررہ اندازہ سے اگائی، اور ہم نے تمہارے لئے معاش کے سامان پیدا کئے (معایش) یاء کے ساتھ ہے اور وہ سامان پھل اور غلے ہیں، اور تمہارے لئے وہ چیزیں بھی بنائیں جن کو تم (حقیقت میں) روزی نہیں دیتے اور وہ غلام اور چوپائے اور مویشی ہیں ان کو (درحقیقت) اللہ روزی دیتا ہے، اور جتنی بھی چیزیں ہیں ان کے خزانے ہمارے پاس ہیں من زائدہ ہے یعنی ان خزانوں کے سرچشمے (ہمارے پاس ہیں) اور ہم ہر چیز کو مصلحت کے مطابق مقررہ انداز سے اتارتے ہیں اور ہم ہی بھر دینے والی ہواؤں کو چلاتے ہیں جو بادلوں کو (پانی سے) بھر دیتی ہیں جس کی وجہ سے بادل پانی سے بھر جاتے ہیں، ہم بادلوں سے پانی برساتے ہیں اور وہ پانی تمہیں پلاتے ہیں، اور تم اس کا ذخیرہ کرنے والے نہیں تھے، یعنی اس کے خزانے تمہارے قدرت میں نہیں ہیں اور بلاشبہ ہم ہی جلاتے ہیں اور مارتے ہیں اور (بالآخر) ہم ہی وارث ہیں، باقی رہنے والے ہیں کہ تمام مخلوق کے وارث ہوں گے، اور تمہارے پیش رو ہمارے علم میں ہیں یعنی اولاد آدم میں سے جو مخلوق آگے جاچکی ہے وہ ہمارے علم میں ہے، اور پس ماندگان بھی ہمارے علم میں ہیں (یعنی) قیامت تک بعد میں آنے والے اور یقیناً آپ کا رب تمام انسان کو جمع کر دے گا یقیناً وہ اپنی صنعت میں باحکمت (اور) اپنی مخلوق کے بارے میں باخبر ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : بروجا، بروج، برج کی جمع ہے جس کے معنی ظہور کے ہیں اسی معنی میں تبرج ہے عورت کے اظہار زینت کو کہتے ہیں، یہاں آسمان کے ستاروں کو برج کہا گیا ہے اس لئے کہ وہ بھی بلند اور ظاہر ہوتے ہیں، اور بعض مفسرین کا خیال ہے کہ سبع سیارہ کی بارہ منزلوں کا نام برج ہے علم ہیئت میں یہی مراد ہے۔ قولہ : المریخ، یہ سبع سیارہ کا بیان ہے۔ قولہ : المریخ ولہ الحمل والعقرب، حمل اور عقرب کے مریخ کی منزل ہونے کا مطلب ہے کہ مریخ ان دونوں منزلوں میں داخل ہوتا ہے اور کتب تفاسیر اور حکمت میں جو یہ درج ہے کہ بارہ برج شمس کے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ شمس ان کی محاذات میں واقع ہوتا ہے نہ یہ کہ شمس ان میں داخل ہوتا ہے دیگر سیاروں کا بھی یہی حال ہے لہٰذا دونوں نظریوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ قولہ : مرجوم، اس میں اشارہ ہے کہ فعیل بمعنی مفعول ہے۔ قولہ : لکن، الا کی تفسیر لکن سے کرکے اشارہ کردیا کہ استثناء منقطع ہے اسلئے کہ استراق جنس حفظ سے نہیں ہے۔ قولہ : خطفہ، استرق کی تفسیر خطفہ سے کرکے اعتراض کا جواب دینا مقصود ہے، اعتراض یہ ہے کہ سمع ایک صفت ہے جو سامع کے ساتھ قائم ہے لہٰذا اس کا انتقال ممکن نہیں ہے، لہٰذا استرق السمع کا کیا مطلب ہے ؟ جواب : استرق بمعنی الاختلاس سرا یعنی چپکے سے اچک لینا اور یہ بطور تشبیہ کے ہے لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں۔ قولہ : نحقہ، اتبعہ کی تفسیر لحقہ سے کرکے اشارہ کردیا کہ افعال بمعنی مجرد لازم ہے لہٰذا معنی درست ہیں۔ قولہ : یخبلہ یہ خبل سے ہے اس کے معنی ہیں بدحواس کرنا، باؤلا بنانا، شیطان سہاب کی مارے سے بدحواس ہو کر غول یعنی جنگلی بھوت ہوجاتا ہے جو لوگوں کو جنگل میں ڈراتا ہے اور بہکاتا ہے۔ قولہ : وجعلنا لکم، اس میں اشارہ ہے کہ من لستم کا عطف معایش پر ہے لہٰذا یہ شبہ ختم ہوگیا کہ من لستم کا عطف لکم کی ضمیر مجرور پر ہے اور ضمیر مجرور پر عطف بغیر اعادۂ جار درست نہیں ہے۔ تفسیر و تشریح ” برج “ عربی زبان میں قلعے، قصر اور مستحکم عمارت کو کہتے ہیں، قدیم علم ہیئت میں برج کا لفظ اصطلاحا ان بارہ منزلوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جن پر سورک کے مدار کو تقسیم کیا گیا ہے اس وجہ سے بعض مفسرین نے یہ سمجھا کہ قرآن کا اشارہ بھی انہی برجوں کی طرف ہے بعض دیگر مفسرین نے اس سے سیارے مراد لئے ہیں، وجعلنا فی السماء بروجا، یہاں آسمان کے تاروں کو برج کہا گیا ہے کیونکہ وہ بھی بلند اور ظاہر ہوتے ہیں، بعض نے کہا ہے کہ بروج سے مراد شمس و قمر اور دیگر سیاروں کی منزلیں ہیں جو ان کے لئے مقرر ہیں، سیارے سات ہیں اور ان کی مزلیں بارہ ہیں تقسیم اس طرح ہے شمس و قمر کیلئے ایک ایک منزل ہے اور باقی پانچ کے لئے دو دو منزلیں ہیں اس طرح سات سیاروں پر بارہ منزلیں تقسیم ہیں۔ حفظناھا۔۔۔۔۔۔ رجیم، رجیم، مرجوم کے معنی میں ہے رجم کے معنی سنگسار کرنے کے ہیں شیطان کو رحیم اس لئے کہا جاتا ہے کہ جب وہ آسمان کی طرف جانے کی کوشش کرتا ہے تو آسمانی شہاب ثاقب ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں، رجیم ملعون کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ ایک اشکال اور اس کا جواب : یہاں ایک قوی اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فضائے آسمانی میں شہابوں کا وجود اور ان کا ٹوٹنا کوئی نئی بات نہیں ہے یہ ہمیشہ ہوتا رہا ہے، آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے بھی اور بعد میں بھی، اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے، تو پھر اس کا کیا مطلب ہے کہ شہاب ثاقب شیاطین کو مارنے کیلئے پیدا ہوئے ہیں جو کہ عہدنبوی کی خصوصیت ہے، فلاسفہ کا خیال ہے کہ آفتاب کی گرمی سے جو دھنی اجزاء زمین سے اٹھتے ہیں ان میں آتش گیر مادہ بھی ہوتا ہے اوپر جا کر جب ان کو مزید گرمی ملتی ہے تو وہ سلگ اٹھتے ہیں دیکھنے والوں کو محسوس ہوتا ہے کہ ستارہ ٹوٹا۔ جواب : جواب یہ ہے کہ ان دونوں باتوں میں کوئی تعارض و اختلاف نہیں زمین سے اٹھنے والے بخارات مشتعل ہوجائیں یہ بھی ممکن ہے اور یہ بھی بعید نہیں کہ کسی تارے یا سیارے سے کوئی شعلہ نکل کر گرے بعثت نبوی سے پہلے ان شعلوں سے کوئی خاص کام نہیں لیا جاتا تھا، آنحضرت ﷺ کی بعثت کے بعد ان شہابی شعلوں سے یہ کام لیا گیا کہ شیاطین جو فرشتوں کی باتیں چوری سے سننا چاہیں ان کو شعلوں سے مارا جائے۔ (علامہ آلوسی نے بھی یہی توجیہ فرمائی ہے) ۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں بروایت ابن عباس خود آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ ایک شب آپ ﷺ صحابہ کی مجلس میں تشریف فرما تھے کہ ایک ستارہ ٹوٹا آپ نے لوگوں سے دریافت فرمایا کہ تم زمانۂ جاہلیت میں اس ستارہ ٹوٹنے کو کیا سمجھتے تھے ؟ لوگوں نے جواب دیا ہم یہ سمجھا کرتے تھے کہ دنیا میں کوئی بڑا حادثہ رونما ہونے والا ہے، یا تو کوئی بڑا شخص پیدا ہونے والا ہے یا مرنے والا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا یہ لغو خیال ہے اس کا کسی کے مرنے جینے سے کوئی تعلق نہیں، یہ شعلے تو شیاطین کو دفع کرنے کے لئے پھینکے جاتے ہیں۔ وجعلنا لکم فیھا معایش، اس سے مراد نوکر چاکر، غلام اور جانور ہیں، یعنی جانوروں کو تمہارے تابع کردیا جن پر تم سواری بھی کرتے ہو اور بار برداری بھی اور بعض کو ان میں سے ذبح کرکے کھاتے بھی ہو، یہ اگرچہ تمہارے ماتحت ہیں اور تم ان کے چارہ خوراک وغیرہ کا انتظام بھی کرتے ہو لیکن حقیقت میں ان کا رازق اللہ تعالیٰ ہے تم نہیں ہو۔
Top