Tafseer Ibn-e-Kaseer - Al-An'aam : 156
اَنْ تَقُوْلُوْۤا اِنَّمَاۤ اُنْزِلَ الْكِتٰبُ عَلٰى طَآئِفَتَیْنِ مِنْ قَبْلِنَا١۪ وَ اِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِهِمْ لَغٰفِلِیْنَۙ
اَنْ : کہ تَقُوْلُوْٓا : تم کہو اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اُنْزِلَ : اتاری گئی تھی الْكِتٰبُ : کتاب عَلٰي : پر طَآئِفَتَيْنِ : دو گروہ مِنْ قَبْلِنَا : ہم سے پہلے وَاِنْ : اور یہ کہ كُنَّا : ہم تھے عَنْ : سے دِرَاسَتِهِمْ : ان کے پڑھنے پڑھانے لَغٰفِلِيْنَ : بیخبر
(اور اس لیے اتاری ہے) کہ (تم یوں نہ) کہو کہ ہم سے پہلے دو ہی گروہوں پر کتابیں اتری تھیں اور ہم ان کے پڑھنے سے (معذور اور) بےخبر تھے
لاف زنی عیب ہے دوسروں کو بھی نیکی سے روکنے والے بدترین انسان ہیں فرماتا ہے کہ اس آخری کتاب نے تمہارے تمام عذر ختم کردیئے جیسے فرمان ہے (وَلَوْلَآ اَنْ تُصِيْبَهُمْ مُّصِيْبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْهِمْ فَيَقُوْلُوْا رَبَّنَا لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَيْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰيٰتِكَ وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْن) 28۔ القصص :47) ، یعنی اگر انہیں ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے کوئی مصیبت پہنچتی تو کہہ دیتے کہ تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا کہ ہم تیرے فرمان کو مانتے۔ اگلی دو جماعتوں سے مراد یہود و نصرانی ہیں۔ اگر یہ عربی زبان کا قرآن نہ اترتا تو وہ یہ عذر کردیتے کہ ہم پر تو ہماری زبان میں کوئی کتاب نہیں اتری ہم اللہ کے فرمان سے بالکل غافل رہے پھر ہمیں سزا کیوں ہو ؟ نہ یہ عذر باقی رہا نہ یہ کہ اگر ہم پر آسان کتاب اترتی تو ہم تو اگلوں سے آگے نکل جاتے اور خوب نیکیاں کرتے۔ جیسے فرمان ہے آیت (لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَيْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰيٰتِكَ وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ) 47۔ القصص 28) ، یعنی مؤکد قسمیں کھا کھا کر لاف زنی کرتے تھے کہ ہم میں اگر کوئی نبی آجائے تو ہم ہدایت کو مان لیں۔ اللہ فرماتا ہے اب تو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ہدایت و رحمت بھرا قرآن بزبان رسول عربی آچکا جس میں حلال حرام کا بخوبی بیان ہے اور دلوں کی ہدایت کی کافی نورانیت اور رب کی طرف سے ایمان والوں کیلئے سراسر رحمت و رحم ہے، اب تم ہی بتاؤ کہ جس کے پاس اللہ کی آیتیں آجائیں اور وہ انہیں جھٹلائے ان سے فائدہ نہ اٹھائے نہ عمل کرے نہ یقین لائے نہ نیکی کرے نہ بدی چھوڑے نہ خود مانے نہ اوروں کو ماننے دے اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے ؟ اسی سورت کے شروع میں فرمایا ہے آیت (وَلَوْلَآ اَنْ تُصِيْبَهُمْ مُّصِيْبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْهِمْ فَيَقُوْلُوْا رَبَّنَا لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَيْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰيٰتِكَ وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ) 28۔ القصص :47) خود اس کے مخالف اوروں کو بھی اسے ماننے سے روکتے ہیں دراصل اپنا ہی بگاڑتے ہیں جیسے فرمایا آیت (اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ قَدْ ضَلُّوْا ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا) 4۔ النسآء :168) یعنی جو لوگ خود کفر کرتے ہیں اور راہ الٰہی سے روکتے ہیں انہیں ہم عذاب بڑھاتے رہیں گے۔ پس یہ لوگ ہیں جو نہ مانتے تھے نہ فرماں بردار ہوتے تھے جیسے فرمان ہے آیت (فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلّٰى) 75۔ القیامة :31) یعنی نہ تو نے مانا نہ نماز پڑھی بلکہ نہ مان کر منہ پھیرلیا۔ ان دونوں تفسیروں میں پہلی بہت اچھی ہے یعنی خود بھی انکار کیا اور دوسروں کا بھی انکار پر آمادہ کیا۔
Top