Tafseer Ibn-e-Kaseer - Al-Furqaan : 15
قُلْ اَذٰلِكَ خَیْرٌ اَمْ جَنَّةُ الْخُلْدِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ١ؕ كَانَتْ لَهُمْ جَزَآءً وَّ مَصِیْرًا
قُلْ : فرما دیں اَذٰلِكَ : کیا یہ خَيْرٌ : بہتر اَمْ : یا جَنَّةُ الْخُلْدِ : ہمیشگی کے باغ الَّتِيْ : جو۔ جس وُعِدَ : وعدہ کیا گیا الْمُتَّقُوْنَ : پرہیزگار (جمع) كَانَتْ : وہ ہے لَهُمْ : ان کے لیے جَزَآءً : جزا (بدلہ) وَّمَصِيْرًا : لوٹ کر جانے کی جگہ
پوچھو کہ یہ بہتر ہے یا بہشت جاودانی جس کا پرہیزگاروں سے وعدہ ہے۔ یہ ان (کے عملوں) کا بدلہ اور رہنے کا ٹھکانہ ہوگا
ابدی لذتیں اور مسرتیں اوپر بیان فرمایا ان بدکاروں کا جو ذلت و خواری کے ساتھ اوندھے منہ جہنم کی طرف گھیسٹے جائیں گے اور سر کے بل وہاں پھینک دئیے جائیں گے۔ بندھے بندھائے ہوں گے اور تنگ و تاریک جگہ ہوں گے، نہ چھوٹ سکیں نہ حرکت کرسکیں، نہ بھاگ سکیں نہ نکل سکیں۔ پھر فرماتا ہے بتلاؤ یہ اچھے ہیں یا وہ ؟ جو دنیا میں گناہوں سے بجتے رہے اللہ کا ڈر دل میں رکھتے رہے اور آج اس کے بدلے اپنے اصلی ٹھکانے پہنچ گئے یعنی جنت میں جہاں من مانی نعمتیں ابدی لذتیں دائمی مسرتیں ان کے لئے موجود ہیں عمدہ کھانے، اچھے بچھونے، بہترین سواریاں، پر تکلف لباس بہتر بہتر مکانات، بنی سنوری پاکیزہ حوریں، راحت افزا منظر، ان کے لئے مہیا ہیں جہاں تک کسی کی نگاہیں تو کہاں خیالات بھی نہیں پہنچ سکتے۔ نہ ان راحتوں کے بیانات کسی کان میں پہنچے۔ پھر ان کے کم ہوجانے، خراب ہوجانے، ٹوٹ جانے، ختم ہوجانے، کا بھی کوئی خطرہ نہیں اور نہ ہی وہاں سے نکالے جائیں نہ وہ نعمتیں کم ہوں۔ لازوال، بہترین زندگی، ابدی رحمت، دوامی کی دولت انہیں مل گئی اور ان کی ہوگئی۔ یہ رب کا احسان و انعام ہے جو ان پر ہوا اور جس کے یہ مستحق تھے۔ رب کا وعدہ ہے جو اس نے اپنے ذمے کرلیا ہے جو ہو کر رہنے والا ہے جس کا عدم ایفا ناممکن ہے، جس کا غلط ہونا محال ہے۔ اس سے اس کے وعدے کے پورا کرنے کا سوال کرو، اس سے جنت طلب کرو، اسے اس کا وعدہ یاد دلاؤ۔ یہ بھی اس کا فضل ہے کہ اس کے فرشتے اس سے دعائیں کرتے رہتے ہیں کہ رب العالمین مومن بندوں سے جو تیرا وعدہ ہے اسے پورا کر اور انہیں جنت عدن میں لے جا۔ قیامت کے دن مومن کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار تیرے وعدے کو سامنے رکھ کر ہم عمل کرتے رہے آج تو اپناوعدہ پورا کر۔ یہاں پہلے دوزخیوں کا ذکر کر کے پھر سوال کے بعد جنتیوں کا ذکر ہوا۔ سورة صافات میں جنتیوں کا ذکر کر کے پھر سوال کے بعد دوزخیوں کا ذکر ہوا کہ کیا یہی بہتر ہے یا زقوم کا درخت ؟ جسے ہم نے ظالموں کے لئے فتنہ بنا رکھا ہے جو جہنم کی جڑ سے نکلتا ہے جس کے پھل ایسے بدنما ہیں جیسے سانپ کے پھن دوزخی اسے کھائیں گے اور اسی سے پیٹ بھرنا پڑے گا پھر کھولتا ہوا گرم پانی پیپ وغیرہ ملا جلا پینے کو دیا جائے گا پھر ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ انہوں نے اپنے پاپ دادوں کو گمراہ پایا اور بےتحاشا ان کے پیچھے لپکنا شروع کردیا۔
Top