Tafseer Ibn-e-Kaseer - Al-Israa : 60
وَ اِذْ قُلْنَا لَكَ اِنَّ رَبَّكَ اَحَاطَ بِالنَّاسِ١ؕ وَ مَا جَعَلْنَا الرُّءْیَا الَّتِیْۤ اَرَیْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَ الشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِی الْقُرْاٰنِ١ؕ وَ نُخَوِّفُهُمْ١ۙ فَمَا یَزِیْدُهُمْ اِلَّا طُغْیَانًا كَبِیْرًا۠   ۧ
وَاِذْ : اور جب قُلْنَا : ہم نے کہا لَكَ : تم سے اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب اَحَاطَ : احاطہ کیے ہوئے بِالنَّاسِ : لوگوں کو وَمَا جَعَلْنَا : اور ہم نے نہیں کیا الرُّءْيَا : نمائش الَّتِيْٓ : وہ جو کہ اَرَيْنٰكَ : ہم نے تمہیں دکھائی اِلَّا : مگر فِتْنَةً : آزمائش لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَالشَّجَرَةَ : ور (تھوہر) کا درخت الْمَلْعُوْنَةَ : جس پر لعنت کی گئی فِي الْقُرْاٰنِ : قرآن میں وَنُخَوِّفُهُمْ : اور ہم ڈراتے ہیں انہیں فَمَا يَزِيْدُهُمْ : تو نہیں بڑھتی انہیں اِلَّا : مگر (صرف) طُغْيَانًا : سرکشی كَبِيْرًا : بڑی
جب ہم نے تم سے کہا کہ تمہارا پروردگار لوگوں کو احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اور جو نمائش ہم نے تمہیں دکھائی اس کو لوگوں کے لئے آرمائش کیا۔ اور اسی طرح (تھوہر کے) درخت کو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی۔ اور ہم انہیں ڈراتے ہیں تو ان کو اس سے بڑی (سخت) سرکشی پیدا ہوتی ہے
مقصد معراج اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے رسول ؑ کو تبلیغ دین کی رغبت دلا رہا ہے اور آپ کے بچاؤ کی ذمہ داری لے رہا ہے کہ سب لوگ اسی کی قدرت تلے ہیں، وہ سب پر غالب ہے، سب اس کے ماتحت ہیں، وہ ان سب سے تجھے بچاتا رہے گا۔ جو ہم نے تجھے دکھایا وہ لوگوں کے لیے ایک صریح آزمائش ہے۔ یہ دکھانا معراج والی رات تھا، جو آپ کی آنکھوں نے دیکھا۔ نفرتی درخت سے مراد زقوم کا درخت ہے۔ بہت سے تابعین اور ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ یہ دکھانا آنکھ کا دکھانا، مشاہدہ تھا جو شب معراج میں کرایا گیا تھا۔ معراج کی حدیثیں بہت پوری تفصیل کے ساتھ اس سورت کے شروع میں بیان ہوچکی ہیں۔ یہ بھی گزر چکا ہے کہ معراج کے واقعہ کو سن کے بہت سے مسلمان مرتد ہوگئے اور حق سے پھرگئے کیونکہ ان کی عقل میں یہ نہ آیا تو اپنی جہالت سے اسے جھوٹا جانا اور دین کو چھوڑ کر بیٹھے۔ ان کے برخلاف کامل ایمان والے اپنے یقین میں اور بڑھ گئے اور ان کے ایمان اور مضبوط ہوگئے۔ ثابت قدمی اور استقلال میں زیادہ ہوگئے۔ پس اس واقعہ کو لوگوں کی آزمائش اور ان کے امتحان کا ذریعہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے کردیا۔ حضور ﷺ نے جب خبر دی اور قرآن میں آیت اتری کہ دوزخیوں کو زقوم کا درخت کھلایا جائے گا اور آپ نے اسے دیکھا بھی تو کافروں نے اسے سچ نہ مانا اور ابو جہل ملعون مذاق اڑاتے ہوئے کہنے لگا لاؤ کجھور اور مکھن لاؤ اور اس کا زقوم کرو یعنی دونوں کو ملا دو اور خب شوق سے کھاؤ بس یہی زقوم ہے، پھر اس خوراک سے گھبرانے کے کیا معنی ؟ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد بنو امیہ ہیں لیکن یہ قول بالکل ضعیف اور غریب ہے۔ پہلے قول کے قائل وہ تمام مفسر ہیں جو اس آیت کو معراج کے بارے میں مانتے ہیں۔ جیسے ابن عباس مسروق، ابو مالک، حسن بصری وغیرہ۔ سہل بن سعید کہتے ہیں حضور ﷺ نے فلاں قبیلے والوں کو اپنے منبر پر بندروں کی طرح ناچتے ہوئے دیکھا اور آپ کو اس سے بہت رنج ہوا پھر انتقال تک آپ پوری ہنسی سے ہنستے ہوئے نہیں دکھائی دئے اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے۔ (ابن جریر) لیکن یہ سند بالکل ضعیف ہے۔ محمد بن حسن بن زبالہ متروک ہے اور ان کے استاد بھی بالکل ضعیف ہیں۔ خود امام ابن جریر ؒ کا پسندید قول بھی یہی ہے کہ مراد اس سے شب معراج ہے اور شجرۃ الزقوم ہے کیونکہ مفسرین کا اس پر اتفاق ہے۔ ہم کافروں کو اپنے عذابوں وغیرہ سے ڈرا رہے ہیں لیکن وہ اپنی ضد، تکبر، ہٹ دھرمی اور بےایمانی میں اور بڑھ رہے ہیں۔
Top