Tafseer-Ibne-Abbas - Al-An'aam : 91
وَ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖۤ اِذْ قَالُوْا مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلٰى بَشَرٍ مِّنْ شَیْءٍ١ؕ قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ الَّذِیْ جَآءَ بِهٖ مُوْسٰى نُوْرًا وَّ هُدًى لِّلنَّاسِ تَجْعَلُوْنَهٗ قَرَاطِیْسَ تُبْدُوْنَهَا وَ تُخْفُوْنَ كَثِیْرًا١ۚ وَ عُلِّمْتُمْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوْۤا اَنْتُمْ وَ لَاۤ اٰبَآؤُكُمْ١ؕ قُلِ اللّٰهُ١ۙ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِیْ خَوْضِهِمْ یَلْعَبُوْنَ
وَمَا : اور نہیں قَدَرُوا : انہوں نے قدر جانی اللّٰهَ : اللہ حَقَّ : حق قَدْرِهٖٓ : اس کی قدر اِذْ قَالُوْا : جب انہوں نے کہا مَآ : نہیں اَنْزَلَ : اتاری اللّٰهُ : اللہ عَلٰي : پر بَشَرٍ : کوئی انسان مِّنْ شَيْءٍ : کوئی چیز قُلْ : آپ کہ دیں مَنْ : کس اَنْزَلَ : اتاری الْكِتٰبَ : کتاب الَّذِيْ : وہ جو جَآءَ بِهٖ : لائے اس کو مُوْسٰي : موسیٰ نُوْرًا : روشنی وَّهُدًى : اور ہدایت لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے تَجْعَلُوْنَهٗ : تم نے کردیا اس کو قَرَاطِيْسَ : ورق ورق تُبْدُوْنَهَا : تم ظاہر کرتے ہو اس کو وَتُخْفُوْنَ : اور تم چھپاتے ہو كَثِيْرًا : اکثر وَعُلِّمْتُمْ : اور سکھایا تمہیں مَّا : جو لَمْ تَعْلَمُوْٓا : تم نہ جانتے تھے اَنْتُمْ : تم وَلَآ : اور نہ اٰبَآؤُكُمْ : تمہارے باپ دادا قُلِ : آپ کہ دیں اللّٰهُ : اللہ ثُمَّ : پھر ذَرْهُمْ : انہیں چھوڑ دیں فِيْ : میں خَوْضِهِمْ : اپنے بیہودہ شغل يَلْعَبُوْنَ : وہ کھیلتے رہیں
اور ان لوگوں کے خدا کی قدر جیسی جاننی چاہئے تھی نہ جانی۔ جب انہوں نے کہا کہ خدا نے انسان پر (وحی اور کتاب وغیرہ) کچھ بھی نازل نہیں کیا۔ کہو کہ جو کتاب موسیٰ ؑ لے کر آئے تھے اسے کس نے نازل کیا تھا جو لوگوں کے لئے نور اور ہدایت تھی۔ اور جسے تم نے علیٰحدہ علیٰحدہ اوراق (پر نقل) کر رکھا ہے۔ ان (کے کچھ حصّے) کو تو ظاہر کرتے ہو اور اکثر کو چھپاتے ہو۔ اور تم کو وہ باتیں سکھائی گئیں جنکو نہ تم جانتے تھے اور نہ تمہارے باپ دادا۔ کہہ دو (اس کتاب) خدا ہی نے (نازل کیا تھا) پھر انکو چھوڑ دو کہ اپنی بیہودہ بکواس میں کھیلتے رہیں۔
(91) ان منکر لوگوں نے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی قدر پہچاننا واجب تھی دیسی قدر نہ پہچانی اور کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام میں سے کسی پر کوئی کتاب نازل نہیں کی، یہ آیت مالک بن صیف یہودی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اس نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بشر پر کوئی کتاب نازل نہیں کی۔ اے محمد ﷺ آپ مالک سے فرمائیے یہ تو بتا کہ وہ کتاب کس نے نازل کی ہے جس کو موسیٰ ؑ لائے تھے جو خود بھی نور اور روشنی ہے اور لوگوں کی ہدایت کا سبب ہے جس کو تم نے اپنی اغراض کے تحت مختلف اوراق میں لکھ چھوڑا ہے، ان میں سے بہت سی باتوں کو جن میں رسول اکرم ﷺ کی نعت وصفت نہیں ہے، ظاہر کرتے ہو اور بہت سی ان باتوں کو جن میں آپ کی نعت وصفت ہے چھپاتے ہو۔ اور کتاب میں بہت سی ایسی باتوں کی تعلیم دی گئی، مثلا احکام وحدود حلال و حرام اور رسول اکرم ﷺ کی تعریف وصفت جن کی اس سے پہلے تمہیں اور تمہارے بڑوں کو کچھ بھی خبر نہیں تھی، سو اگر یہ آپ کو جواب میں کہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نازل کی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ آپ ان سے فرما دیجیے کہ یہ کتاب حق بھی اللہ تعالیٰ نے نازل کی ہے اور اس کے بعد ان کو ان کے بیہودہ مشغلہ تکذیب وگمراہی میں لگا رہنے دیجیے۔ شان نزول : (آیت) ”وما قدرو اللہ“۔ (الخ) ابن ابی حاتم ؒ نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا ہے کہ مالک بن صیف نام ایک یہودی نے آکر رسول اکرم ﷺ سے مخاصمہ کرنا شروع کردیا، رسول اکرم ﷺ نے اس سے فرمایا کہ میں تجھے اس ذات کی قسم دے کر دریافت کرتا ہوں جس نے توریت حضرت موسیٰ ؑ پر نازل کی ہے کیا تو نے توریت میں یہ دیکھا کہ اللہ تعالیٰ موٹی آدمی سے بغض فرماتے ہیں اور وہ خود موٹا تھا یہ سن کر غصہ میں آگیا اور کہنے لگا اللہ تعالیٰ نے کسی بشر پر کوئی چیز نازل نہیں کی تو اس سے اس کے ساتھیوں نے کہا کہ تیرا منہ کالا ہو۔ (یعنی تو رسوا ہو) اس کا مطلب ہے کہ نہ حضرت موسیٰ پر کوئی کتاب نازل ہوئی، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ان منکروں نے اللہ تعالیٰ کی جیسی قدر پہچاننا واجب تھی ویسی قدر نہیں پہچانی، یہ روایت مرسل ہے۔ اور ابن جریر ؒ نے اسی طرح عکرمہ ؓ سے روایت نقل کی ہے اور دوسری حدیث سورة نساء میں گزر چکی ہے۔ اور ابن جریر ؒ نے ابن ابی طلحہ ؓ کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ یہودی کہنے لگے اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ نے آسمان سے کوئی کتاب نازل نہیں کی، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
Top