Tafseer-Ibne-Abbas - An-Nisaa : 94
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَتَبَیَّنُوْا وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰۤى اِلَیْكُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا١ۚ تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١٘ فَعِنْدَ اللّٰهِ مَغَانِمُ كَثِیْرَةٌ١ؕ كَذٰلِكَ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَیْكُمْ فَتَبَیَّنُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِذَا : جب ضَرَبْتُمْ : تم سفر کرو فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ فَتَبَيَّنُوْا : تو تحقیق کرلو وَلَا : اور نہ تَقُوْلُوْا : تم کہو لِمَنْ : جو کوئی اَلْقٰٓى : دالے (کرے) اِلَيْكُمُ : تمہاری طرف السَّلٰمَ : سلام لَسْتَ : تو نہیں ہے مُؤْمِنًا : مسلمان تَبْتَغُوْنَ : تم چاہتے ہو عَرَضَ : اسباب (سامان) الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی فَعِنْدَ : پھر پاس اللّٰهِ : اللہ مَغَانِمُ : غنیمتیں كَثِيْرَةٌ : بہت كَذٰلِكَ : اسی طرح كُنْتُمْ : تم تھے مِّنْ قَبْلُ : اس سے پہلے فَمَنَّ : تو احسان کیا اللّٰهُ : اللہ عَلَيْكُمْ : تم پر فَتَبَيَّنُوْا : سو تحقیق کرلو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے بِمَا : اس سے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو خَبِيْرًا :خوب باخبر
مومنو ! جب تم خدا کی راہ میں باہر نکلا کرو تو تحقیق سے کام لیا کرو اور جو شخص تم سے سلام علیک کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو اور اس سے تمہاری غرض یہ ہو کہ دنیا کی زندگی کا فائدہ حاصل کرو سو خدا کے پاس بہت سی غنیمتیں ہیں تم بھی تو پہلے ایسے ہی تھے پھر خدا نے تم پر احسان کیا تو (آئندہ) تحقیق کرلیا کرو اور جو عمل تم کرتے ہو خدا کو سب کی خبر ہے
(94) یہ آیت اسامہ بن زید ؓ کے بارے میں نازل ہوئی جب کہ انہوں نے لڑائی میں مرد ان بن نھیک فراری کو (غلط فہمی کی بنا پر) کافر سمجھ کر مار دیا تھا اور یہ مومن تھے، چناچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جہاد میں کسی کے اس طرح مل جانے پر تحقیق کرلیا کرو تاکہ معلوم ہوجائے کہ کون مومن ہے اور کون کافر اور جو تمہارے سامنے کلمہ طیبہ پڑھ لیا کرے یا جہاد میں مسلمانوں کے طریقہ پر سلام کرلیا کرے تو اسے مال غنیمت کی امید میں کافر سمجھ کر قتل مت کرو۔ اللہ کی ہاں اسے شخص کے لیے جو کسی مسلمان کے قتل سے کنارہ کش ہو، بہت بڑا ثواب ہے۔ ہجرت سے پہلے تم بھی ایک زمانہ میں اپنی قوم میں مسلمانوں اور رسول اکرم ﷺ سے کلمہ طیبہ پڑھ کر امن حاصل کیا کرتے تھے، پھر ہجرت کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا، لہٰذا مسلمانوں کے قتل نہ کرنے پر جمے رہو اور اپنی پچھلی حالت پر غور کرو۔ شان نزول : (آیت) ”یایھا الذین امنوا اذا ضربتم“۔ (الخ) امام بخاری ؒ ، ترمذی ؒ اور حاکم وغیرہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے بنی سلیم کے ایک آدمی کا گزر صحابہ کرام ؓ کی جماعت پر سے ہوا۔ وہ اپنی بکریاں لے کر جارہا تھا، اس نے صحابہ کرام ؓ کو سلام کیا، صحابہ کرام ؓ میں سے چند ایک نے کہا کہ اس نے اس لیے سلام کیا ہے۔ (یعنی کوئی مسلمان تمہارے ہاتھوں غلط فہمی سے بھی نہ مارا جائے، تم صرف برسر مقابلہ یا فتنہ گر کافروں کو ہی قتل کرو، جو ظاہرا بھی کسی وجہ سے کلمہ پڑھ لے تو بنا تحقیق وتفتیش اس پر ہاتھ نہ اٹھاؤ) (مترجم) تاکہ ہم اس سے کسی قسم کا کوئی تعرض نہ کریں، چناچہ صحابہ کرام ؓ نے اس کو پکڑ کر کفر کے شبہہ میں قتل کردیا اور اس کی بکریاں رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں لے کر آئے، اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ ایمان والو جب تم جہاد کے لیے روانہ ہو، الخ۔ اور بزاز نے ابن عباس ؓ سے دوسرے طریقہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ایک چھوٹا سا لشکر روانہ کیا، اس میں مقداد بھی تھے، جب یہ لوگ کافروں کی قوم کے پاس آئے تو وہ سب متفرق ہوگئے اور ایک آدمی باقی رہ گیا، جس کے پاس بہت مال تھا وہ صحابہ کرام ؓ کو دیکھ کر کہنے لگا، اشھد ان الا الا اللہ“۔ اسکی ظاہری حالت زبان حال اسلام سے مناسبت نہ رکھتی تھی اس لیے اسے کافر ہی سمجھتے ہوئے مقداد نے قتل کردیا۔ رسول اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ قیامت کے دن کلمہ لا الہ الا اللہ“۔ کے مقابلے میں کیا جواب دو گے اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اور امام احمد اور طبرانی وغیرہ نے عبداللہ بن ابی الدرداء اسلمی ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ انھیں رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کی ایک جماعت میں بھیجا جس میں ابوقتادہ اور محکم بن جثامہ بھی تھے، ہمارے پاس سے عامر بن احبط اشجعی گزرے، انہوں نے ہمیں سلام کیا، محکم نے اس سلام کو ان کا حیلہ سمجھا اور اسے کافر گردانتے ہوئے ان پر حملہ کیا اور ان کو قتل کردیا۔ جب ہم رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور آپ ﷺ کو واقعہ کی اطلاع دی تو ہمارے بارے میں قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی۔ ابن جریر ؒ نے ابن عمر ؓ سے اسی طرح روایت نقل کی ہے اور ثعلبی نے بواسطہ کلبی، ابوصالح، ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے، کہ مقتول کا نام مرداس بن لہیک تھا اور یہ اہل فدک سے تھے اور قاتل کا نام اسامۃ بن زید ؓ تھا اور اس لشکر کے امیر غالب بن فضالۃ تھے کیوں کہ مرداس ؓ کی قوم جب شکست کھاگئی تو صرف مرداس باقی رہ گئے اور یہ اپنی بکریوں کو ایک پہاڑ پر سے لے جارہے تھے جب صحابہ کرام ؓ ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے کلمہ طیبہ پڑھا اور کہا اسلام علیکم مگر اسامۃ بن زید نے غلط فہمی سے ان کو قتل کردیا، جب صحابہ کرام ؓ مدینہ منورہ آئے، تب یہ آیت نازل ہوئی ، نیز ابن جریر ؒ نے سدی ؒ اور عبد نے قتادہ ؒ کے واسطہ سے اسی طرح روایت نقل کی ہے اور ابن ابی حاتم ؒ نے بواسطہ ابن بعیعہ، ابو زبیر، جابر ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ جو اطاعت ظاہر کرے اسے یہ نہ کہہ دیا کرو کہ تم مومن نہیں مرداس ؓ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، یہ روایت حسن ہے، ابن مندہ نے جزء بن حدرجان ؓ سے روایت کیا ہے کہ میرے بھائی قداد ؓ یمن سے رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں آئے، راستہ میں انھیں رسول اکرم ﷺ کے ایک لشکر کا سامنا ہوا انہوں نے لشکر سے کہا کہ میں مسلمان ہوں مگر لشکر نے کچھ قرائن کے سبب اس بات کو درست خیال نہ کیا اور ان کو قتل کردیا۔ مجھے اس چیز کی اطلاع ملی میں رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں فورا روانہ ہوا، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، نبی اکرم ﷺ نے مجھے میرے بھائی کی دیت دی۔
Top