Tafseer-Ibne-Abbas - An-Nisaa : 90
اِلَّا الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ اِلٰى قَوْمٍۭ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ مِّیْثَاقٌ اَوْ جَآءُوْكُمْ حَصِرَتْ صُدُوْرُهُمْ اَنْ یُّقَاتِلُوْكُمْ اَوْ یُقَاتِلُوْا قَوْمَهُمْ١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَسَلَّطَهُمْ عَلَیْكُمْ فَلَقٰتَلُوْكُمْ١ۚ فَاِنِ اعْتَزَلُوْكُمْ فَلَمْ یُقَاتِلُوْكُمْ وَ اَلْقَوْا اِلَیْكُمُ السَّلَمَ١ۙ فَمَا جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ عَلَیْهِمْ سَبِیْلًا
اِلَّا : مگر الَّذِيْنَ : جو لوگ يَصِلُوْنَ : مل گئے ہیں (تعلق رکھتے ہیں اِلٰى : طرف (سے) قَوْمٍ : قوم بَيْنَكُمْ : تمہارے درمیان وَبَيْنَھُمْ : اور ان کے درمیان مِّيْثَاقٌ : عہد (معاہدہ) اَوْ : یا جَآءُوْكُمْ : وہ تمہارے پاس آئیں حَصِرَتْ : تنگ ہوگئے صُدُوْرُھُمْ : ان کے سینے (ان کے دل) اَنْ : کہ يُّقَاتِلُوْكُمْ : وہ تم سے لڑیں اَوْ : یا يُقَاتِلُوْا : لڑیں قَوْمَھُمْ : اپنی قوم سے وَلَوْ : اور اگر شَآءَ اللّٰهُ : چاہتا اللہ لَسَلَّطَھُمْ : انہیں مسلط کردیتا عَلَيْكُمْ : تم پر فَلَقٰتَلُوْكُمْ : تو یہ تم سے ضرور لڑتے فَاِنِ : پھر اگر اعْتَزَلُوْكُمْ : تم سے کنارہ کش ہوں فَلَمْ : پھر نہ يُقَاتِلُوْكُمْ : وہ تم سے لڑیں وَ : اور اَلْقَوْا : ڈالیں اِلَيْكُمُ : تمہاری طرف السَّلَمَ : صلح فَمَا جَعَل : تو نہیں دی اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے عَلَيْهِمْ : ان پر سَبِيْلًا : کوئی راہ
مگر جو لوگ ایسے لوگوں سے جا ملے ہوں جن میں اور تم میں (صلح کا) عہد ہو یا اس حال میں کہ ان کے دل تمہارے ساتھ یا اپنی قوم کے ساتھ لڑنے سے رک گئے ہوں تمہارے پاس آجائیں (تو احتراز ضرور نہیں) اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر غالب کردیتا تو وہ تم سے ضرور لڑتے پھر اگر وہ تم سے (جنگ کرنے سے) کنارہ کشی کریں اور لڑیں نہیں اور تمہاری طرف صلح (کا پیغام) بھیجیں تو خدا نے تمہارے لئے ان پر (زبردستی کرنے کی) کوئی سبیل مقرر نہیں کی
(90) اور اگر وہ ایمان اور ہجرت سے اعراض کریں تو ہر حالت میں ان کو پکڑو اور قتل کرو اور ان کو کسی سطح پر بھی اپنی ساتھی اور مددگار مت بناؤ ، مگر ان دس منافقین میں سے جو ہلال بن عویمر اسلمی کی قوم کے ساتھ جاملے ہیں کہ جن سے تمہارا عہد و صلح ہے یا ہلال بن عویمر کی قوم تمہارے پاس ایسی حالت میں آئے کہ ان کا دل عہد کی بنا پر تم سے اور اپنی قوم سے قرابت کی وجہ سے لڑنے پر آمادہ نہ ہو تو انکا معاملہ جدا ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو فتح مکہ کے دن ہلال بن عویمر کی قوم کو تم پر مسلط کردیتا اور وہ اپنی قوم کے ساتھ تم سے لڑتے اور اگر وہ تم سے دور رہیں اور فتح مکہ کے دن اپنی قوم کے ساتھ ہو کر تم سے نہ لڑیں اور تم سے صلح اور سلامتی رکھیں، تو پھر ایسی حالت میں ان کو قتل وقید کرنے کی کوئی اجازت نہیں۔ شان نزول : (آیت) ”الا الذین یصلون الی قوم“۔ (الخ) ابن ابی حاتم ؒ اور ابن مردویہ ؒ نے حسن ؓ سے روایت کیا ہے کہ سراقہ بن مالک مدلجی نے ان سے بیان کیا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کو بدر واحد کے کفار پر غلبہ حاصل ہوگیا اور اطراف کے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا، (سراقہ بیان کرتے ہیں) تو مجھے یہ اطلاع ملی کہ رسول اللہ ﷺ میری قوم بنی مدلج کی طرف حضرت خالد بن ولید کو بھیج رہے ہیں اور میں اس حوالے سے بات کرنے کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں آپ کو رب کی قسم دیتا ہوں مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ آپ میری قوم کی طرف خالد ؓ کو روانہ کررہے ہیں اور میری مرضی یہ ہے کہ ابھی آپ ان کو رہنے دیں کیوں کہ اگر آپ کی قوم اسلام لے آئے گی تو وہ سب اسلام لے آئیں گے اور اسلام میں داخل ہوجائیں گے اور اگر انہوں نے اسلام قبول نہ کیا تو آپ کی قوم کا غلبہ ان کے اوپر سود مند نہ ہوگا، یہ سن کر رسول اکرم ﷺ نے حضرت خالد ؓ کا ہاتھ کر فرمایا سراقہ کے ساتھ جاؤ اور جو ان کی مرضی ہو ویسا کرو۔ چناچہ اسی صلحہ نامہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی، (آیت) ”الا الذین یصلون“۔ (الخ)۔ مگر جو لوگ ایسے ہیں جو کہ ایسے لوگوں سے جاملتے ہیں الخ چناچہ جو شخص ان کے پاس چلا جاتا تھا وہ بھی ان کے عہد میں شریک ہوجاتا تھا۔ اور ابن ابی حاتم ؒ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت ہلال بن عویمر اسلمی ؒ ، سراقہ بن مالک مدلجی ؒ اور بنی جذیمہ بن عامر بن عبد مناف کے بارے میں نازل ہوئی ہے، نیز مجاہد سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت ہلال بن عویمر اسلمی کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیوں کہ ان کے اور مسلمانوں کے درمیان عہد وصلح تھی اور ان کی قوم کے کچھ لوگوں نے اس عہد وصلح کے خلاف کرنا چاہا تھا تو انہوں نے اس بات کو اچھا نہیں سمجھا کہ اپنا عہد و پیمان توڑ کر مسلمانوں کے ساتھ قتال کیا جائے اور پھر جواب اسی طرح ان کی قوم کے ساتھ بھی قتال ہو۔
Top