Tafseer-Ibne-Abbas - An-Nisaa : 78
اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا یُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ كُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَةٍ١ؕ وَ اِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ یَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ١ۚ وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِكَ١ؕ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ١ؕ فَمَالِ هٰۤؤُلَآءِ الْقَوْمِ لَا یَكَادُوْنَ یَفْقَهُوْنَ حَدِیْثًا
اَيْنَ مَا : جہاں کہیں تَكُوْنُوْا : تم ہوگے يُدْرِكْكُّمُ : تمہیں پالے گی الْمَوْتُ : موت وَلَوْ كُنْتُمْ : اور اگرچہ تم ہو فِيْ بُرُوْجٍ : برجوں میں مُّشَيَّدَةٍ : مضبوط وَاِنْ : اور اگر تُصِبْھُمْ : انہیں پہنچے حَسَنَةٌ : کوئی بھلائی يَّقُوْلُوْا : وہ کہتے ہیں هٰذِهٖ : یہ مِنْ : سے عِنْدِ اللّٰهِ : اللہ کے پاس (طرف) وَاِنْ : اور اگر تُصِبْھُمْ : انہیں پہنچے سَيِّئَةٌ : کچھ برائی يَّقُوْلُوْا : وہ کہتے ہیں هٰذِهٖ : یہ مِنْ : سے عِنْدِكَ : آپ کی طرف سے قُلْ : کہ دیں كُلٌّ : سب مِّنْ : سے عِنْدِ اللّٰهِ : اللہ کے پاس (طرف) فَمَالِ : تو کیا ہوا هٰٓؤُلَآءِ : اس الْقَوْمِ : قوم لَا يَكَادُوْنَ : نہیں لگتے يَفْقَهُوْنَ : کہ سمجھیں حَدِيْثًا : بات
(اے جہاد سے ڈرنے والو !) تم کہیں رہو موت تو تمہیں آ کر رہیں گی خواہ بڑے بڑے محلوں میں رہو اور اگر ان کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو (اے محمد تم سے) کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے تو (اے محمد تم سے) کہتے ہیں کہ یہ (گزند) آپ کی وجہ سے (ہمیں پہنچا) ہے کہہ دو کہ (رنج و راحت) سب اللہ ہی کی طرف سے ہے ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے ؟
(78) اے گروہ مومنین اور اے منافقین خواہ تم خشکی میں ہو یا تری میں، سفر میں ہو یا حضر میں خواہ مضبوط قلعوں میں ہی کیوں نہ ہوں، موت سے بچاؤ کی کوئی صورت نہیں موت ضرور آئے گی، یہود اور منافقین کہتے تھے کہ جب سے رسول اکرم ﷺ اور ان کے اصحاب مدینہ منورہ آئے ہیں ہمارے پھلوں اور کھیتوں میں کمی ہو وہی ہے، اللہ تعالیٰ ان کا قول نقل کرکے ان کی تردید فرماتے ہیں۔ یعنی اگر منافقین اور یہودیوں کو پیداوار اور بارش کی بہتات نظر آتی ہے تو بذعم خود کہنے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اندر نیکی دیکھتا ہے اور اگر قحط اور تنگی اور نرخ وغیرہ میں گرانی ہوتی ہے تو العیاذ باللہ رسول اکرم ﷺ اور صحابہ کرام سے شگون لیتے ہوئے انکی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اے محمد ﷺ آپ ان یہودیوں اور منافقین سے فرما دیجیے کہ فراخی اور تنگی یہ سب اللہ کے خاص قانون اور اس کی حکمت ہے انکو کیا ہوا کہ یہ بات بھی نہیں سمجھتے محمد ﷺ آپ کو جو کچھ فراخی پیداوار کی کثرت اور نرخ میں کمی آتی ہے۔ ، یہ سب اللہ تعالیٰ کے انعامات ہیں۔ اس مقام پر مخاطب رسول اکرم ﷺ ہیں مگر مراد تمام انسان ہیں اور جب آپ کو قحط سالی اور تنگی اور نرخ کی گرانی کا سامنا ہوتا ہے، یہ آپ کے نفس کی پاکیزگی کی وجہ سے ہے کہ اس آزمایش کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی جانب سے اہل ایمان کے نفس کو پاک کیا جاتا ہے۔
Top