Tafseer-Ibne-Abbas - An-Nisaa : 44
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یَشْتَرُوْنَ الضَّلٰلَةَ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ تَضِلُّوا السَّبِیْلَؕ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوْا : دیا گیا نَصِيْبًا : ایک حصہ مِّنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب يَشْتَرُوْنَ : مول لیتے ہیں الضَّلٰلَةَ : گمراہی وَيُرِيْدُوْنَ : اور وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ تَضِلُّوا : بھٹک جاؤ السَّبِيْلَ : راستہ
بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب سے حصہ دیا گیا تھا کہ وہ گمراہی کو خریدتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راستے سے بھٹک جاؤ
(44۔ 45) کیا کتاب میں ان لوگوں سے آگاہی نہیں ہوئی جن کو توریت کا کچھ علم دیا گیا، اور انہوں نے یہودیت کا اختیار کیا اور کیا دین اسلام چھوڑنا چاہتے ہیں، اللہ تعالیٰ منافقین اور یہودیوں سے بخوبی آگاہ ہے۔ شان نزول : الم تر الی الذین اوتو“۔ (الخ) ابن اسحاق ؒ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ علماء یہود میں سے رفاعہ بن زید جب رسول اللہ ﷺ سے گفتگو کرتا تو کہتا ”۔ ارعنا سمعک حتی“۔ (ادھر متوجہ ہوں تاکہ میں آپ کی بات سنوں) لیکن وہ یہ بات توہین وتحقیر آمیز انداز میں کہتا، پھر اسلام میں طعن وتشنیع کرتا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ الم تر الی الذین“۔ کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب کا ایک بڑا حصہ ملا ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح)
Top