Tafseer-Ibne-Abbas - An-Nisaa : 101
وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ١ۖۗ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ اِنَّ الْكٰفِرِیْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا
وَاِذَا : اور جب ضَرَبْتُمْ : تم سفر کرو فِي الْاَرْضِ : ملک میں فَلَيْسَ : پس نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَنْ : کہ تَقْصُرُوْا : قصر کرو مِنَ : سے الصَّلٰوةِ : نماز اِنْ : اگر خِفْتُمْ : تم کو ڈر ہو اَنْ : کہ يَّفْتِنَكُمُ : تمہیں ستائیں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) اِنَّ : بیشک الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) كَانُوْا : ہیں لَكُمْ : تمہارے عَدُوًّا مُّبِيْنًا : دشمن کھلے
اور جب تم سفر کو جاؤ تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کم کر کے پڑھو بشرطیکہ تم کو خوف ہو کہ کافر لوگ تم کو ایذا دیں گے بیشک کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں
(101) سفر کی حالت میں رباعی (چار رکعتوں والی) نماز میں قصر کردینے میں کوئی گناہ نہ سمجھو اور اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ نماز کی حالت میں کفار تمہیں قتل کردیں گے کیوں کہ وہ کھلے دشمن ہیں تو اس طرح نماز خوف ادا کرو، جس طرح کہ اللہ نے بتلائی ہے۔ شان نزول : (آیت) ”واذا ضربتم فی الارض فلیس علیکم“۔ (الخ) ابن جریر ؒ نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے کہ بنی نجار نے رسول اکرم ﷺ سے دریافت کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم سفر میں کس طرح نماز پڑھیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا یعنی جب تم سفر کرو سو تمہیں اس میں کوئی گناہ نہیں ہوگا کہ تم نماز کو کم کردو۔ اس کے بعد وحی بند ہوگئی پھر جب ایک سال کے بعد رسول اکرم ﷺ نے جہاد کیا اور ظہر کی نماز پڑھی تو مشرکین نے کہا کہ اس وقت محمد ﷺ اور ان کے ساتھیوں پر پیچھے کی جانب سے حملہ کرنے کا یہ مناسب موقع ہے تو پھر کیوں نہ زبردست قسم کا حملہ کردیں تو ان میں سے کسی نے کہا ان لوگوں کے مجاہدین کی اتنی جماعت ان کی حفاظت میں بھی کھڑی ہے۔ اس پر دونوں نمازوں کے درمیان اللہ تعالیٰ نے (آیت) ”ان خفتم“۔ سے لے کر ”عذابا مھینا“۔ تک یہ آیات نازل فرمائیں، چناچہ اس وقت نماز خوف کا حکم نازل ہوگیا۔
Top