Tafseer-Ibne-Abbas - Az-Zumar : 67
وَ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ١ۖۗ وَ الْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ السَّمٰوٰتُ مَطْوِیّٰتٌۢ بِیَمِیْنِهٖ١ؕ سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
وَمَا قَدَرُوا : اور انہوں نے قدر شناسی نہ کی اللّٰهَ : اللہ حَقَّ : حق قَدْرِهٖ ڰ : اس کی قدر شناسی وَالْاَرْضُ : اور زمین جَمِيْعًا : تمام قَبْضَتُهٗ : اس کی مٹھی يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت وَالسَّمٰوٰتُ : اور تمام آسمان مَطْوِيّٰتٌۢ : لپٹے ہوئے بِيَمِيْنِهٖ ۭ : اس کے دائیں ہاتھ میں سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک ہے وَتَعٰلٰى : اور برتر عَمَّا : اس سے جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک کرتے ہیں
اور انہوں نے خدا کی قدر شناسی جیسی کرنی چاہیے تھی نہیں کی اور قیامت کے دن تمام زمین اس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اسکے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوں گے اور وہ ان لوگوں کے شرک سے پاک اور عالیشان ہے
اور ان لوگوں نے اللہ کی کچھ عظمت نہ کی جیسے عظمت کرنی چاہیے تھی۔ چناچہ بکواس کرنے لگے کہ نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بند ہے اور ذلیل و خوار مالک بن صیف یہودی کہنے لگا کہ معاذ اللہ اللہ تعالیٰ محتاج ہے ہم سے قرض مانگتا ہے حالانکہ ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوں گے او اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں۔ اس کی ذات یہودیوں کی باتوں سے پاک و برتر ہے۔ شان نزول : وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ (الخ) امام ترمذی نے تصحیح کے ساتھ حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ ایک یہودی کا رسول اکرم کے پاس سے گزر ہوا وہ کہنے لگا اے ابو القاسم اس چیز کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ آسمانوں کو اپنی اس انگلی پر اور زمینوں کو اس پر اور پانی کو اس پر اور پہاڑوں کو اس پر رکھے گا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ابن ابی حاتم نے حسن سے روایت کیا ہے کہ یہودیوں نے آسمان و زمین اور فرشتوں کی پیدائش کے بارے میں غور کرنا شروع کیا جب اس چیز سے فارغ ہوئے تو اس کا اندازہ لگانے لگے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی کچھ عظمت نہ کی۔ اور سعید بن جبیر سے روایت کیا ہے کہ یہودیوں نے پروردگار کی صفت کے بارے میں گفتگو شروع کی تو وہ ایسی باتیں تھیں جن کو جانتے بھی نہ تھے اور نہ دیکھی بھالی ہوئی تھیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اور ابن المنذر نے ربیع بن انس سے روایت کیا ہے کہ جس وقت یہ آیت وسع کرسیہ السموت والارض نازل ہوئی اس وقت لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ کرسی کی تو صفت یہ ہے اور عرش کی کیا ہے اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔
Top