Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Baqara : 189
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِ١ؕ قُلْ هِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَ الْحَجِّ١ؕ وَ لَیْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُهُوْرِهَا وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰى١ۚ وَ اْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِهَا١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
يَسْئَلُوْنَكَ : وہ آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے الْاَهِلَّةِ : نئے چاند قُلْ : آپ کہ دیں ھِىَ : یہ مَوَاقِيْتُ : (پیمانہ) اوقات لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَالْحَجِّ : اور حج وَلَيْسَ : اور نہیں الْبِرُّ : نیکی بِاَنْ : یہ کہ تَاْتُوا : تم آؤ الْبُيُوْتَ : گھر (جمع) مِنْ : سے ظُهُوْرِھَا : ان کی پشت وَلٰكِنَّ : اور لیکن الْبِرَّ : نیکی مَنِ : جو اتَّقٰى : پرہیزگاری کرے وَاْتُوا : اور تم آؤ الْبُيُوْتَ : گھر (جمع) مِنْ : سے اَبْوَابِهَا : ان کے دروازوں سے وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : کامیابی حاصل کرو
(اے محمد ﷺ لوگ تم سے نئے چاند کے بارے میں دریافت کرتے ہیں (کہ گھٹتا بڑھتا کیوں ہے) کہہ دو کہ وہ لوگوں کے (کاموں کی میعادیں) اور حج کے وقت معلوم ہونے کا ذریعہ ہے اور نیکی اس بات میں نہیں کہ (احرام کی حالت میں) گھروں میں ان کے پچھواڑے کی طرف سے آؤ بلکہ نیکو کار وہ ہے جو پرہیزگار ہو اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو تاکہ نجات پاؤ
(189) چاند میں کمی اور زیادتی کس وجہ سے ہوتی ہے، اس کے متعلق لوگ پوچھتے ہیں تو اے محمد ﷺ آپ فرما دیجیے کہ یہ لوگوں کے لیے علامتیں ہیں تاکہ ان کے حساب سے اپنے قرضوں کو ادا کریں اور اپنی عورتوں کی عدت کا حساب رکھیں اور روزے رکھنے اور کھولنے کا حساب لگائیں، اور حج کا وقت معلوم کریں یہ آیت کریمہ حضرت معاذ بن جبل ؓ کے متعلق نازل ہوئی، جس وقت انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس چیز کے بارے میں پوچھا تھا۔ احرام کی حالت میں مکانوں کے اندر پیچھے کی طرف سے آنے میں کوئی تقوی اور نیکی نہیں، احرام میں نیکی تو شکار اور دیگر ممنوع چیزوں سے بچنا ہے، اپنے گھروں میں ان ہی دروازوں سے آؤ جن سے تم ہمیشہ نکلتے اور داخل ہوتے رہتے ہو اور احرام کی حالت میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو تاکہ اللہ تعالیٰ کے غصہ اور عذاب سے نجات پاسکو، ہو یہ آیت کریمہ کنانہ اور خزاعہ میں سے اصحاب رسول اللہ ﷺ کے متعلق نازل ہوئی ہے کہ وہ احرام کی حالت میں اپنے گھروں میں جیسا کہ جاہلیت کے زمانہ میں کیا کرتے تھے، پچھلی طرف سے یا ان کی چھتوں پر سے داخل ہوتے تھے۔ شان نزول : (آیت) ”یسئلونک عن الاھلۃ“ (الخ) ابن ابی حاتم ؒ نے عکرمہ ؒ کے واسطہ سے حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے چاند کے بارے میں معلوم کیا اس پر یہ آیت اتری اور ابن ابی حاتم ؒ نے ابوالعالیہ ؒ سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ ہمیں یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ ، اللہ تعالیٰ نے چاند کو کیوں پیدا کیا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ ابونعیم ؒ اور ابن عساکر ؒ نے تاریخ دمشق میں سدی صیغر ؒ ، کلبی ؒ ، ابوصالح ؒ کے حوالہ سے حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ معاذ بن جبل ؓ اور ثعلبۃ بن غنمہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ کیا بات ہے کہ شروع میں چاند باریک دیکھائی دیتا ہے پھر بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ مکمل ہوجاتا ہے اور رکتا ہے اور گھومتا ہے، اور پھر کم اور باریک ہوتا رہتا ہے، حتی کہ پھر پہلی حالت پر آجاتا ہے، اور ایک حالت پر باقی نہیں رہتا اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ آپ سے چاند کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ فرمان الہی : (آیت) ”ولیس البر“۔ (الخ) امام بخاری ؒ نے حضرت براء ؒ سے روایت کیا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں جب لوگ احرام باندھتے تو اپنے گھروں میں پشت کی طرف سے داخل ہوتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی کہ اس میں کوئی بڑائی اور فضیلت نہیں کہ اپنے گھروں میں پیچھے کی طرف سے داخل ہوجاؤ۔ اور ابن ابی حاتم ؒ اور امام حاکم ؒ نے حضرت جابر ؓ سے یہ روایت کی ہے کہ قریش حمس کے ساتھ پکارے جاتے تھے اور وہ احرام کی حالت میں دروازوں سے اندر جاتے تھے اور انصار اور تمام عرب حالت احرام میں دروازہ سے نہیں جاتے تھے، ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ ایک باغ میں تشریف رکھتے تھے، اچانک آپ ﷺ اس باغ کے دروازے سے نکلے اور آپ ؓ کے ساتھ قطبۃ بن عامر انصاری ؓ بھی نکلے صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ قطبۃ بن عامر ایک تاجر آدمی ہے اور یہ آپ ﷺ کے ساتھ باغ کے درازہ سے نکلا ہے، حضور اکرم ﷺ نے اس سے فرمایا کہ تو نے ویسا کام کیوں کیا جو میں نے کیا ہے ؟ وہ کہنے لگا کہ میں نے آپ ﷺ کو جو کرتے دیکھا وہی کیا، آپ نے فرمایا کہ میں تو احمس شخص ہوں اس نے عرض کیا کہ میرا دین وہی ہے جو آپ ﷺ کا دین ہے اس پر حق تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ (آیت) لیس البر (الخ) اتاری۔ اور ابن جریر ؒ نے عوفی ؒ کے حوالہ سے حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ سے اسی طرح روایت کی ہے ، اور ابوداؤد طیالسی ؒ نے اپنی مسند میں براء ؒ سے روایت کیا ہے کہ انصار جب سفر سے واپس ہوتے تو ان میں سے کوئی بھی اپنے گھر کے دروازہ سے داخل نہ ہوتا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ اتاری اور عبد بن حمید نے قیس بن حبشہ ؒ سے روایت کیا ہے کہ لوگ جب احرام باندھتے تو اپنے گھر میں دروازہ کی طرف سے داخل نہ ہوتے تھے اور حمس والے ایسا نہیں کرتے تھے، چناچہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ ایک باغ میں گئے ہوئے تھے، اور پھر اس باغ کے دروازہ سے باہر نکلے تو آپ کے ساتھ ایک آدمی ہوگیا جس کو رفاعہ بن تابوت کہا جاتا تھا اور وہ قبیلہ حمس میں سے نہیں تھا صحابہ کر امرضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ رفاعہ منافق ہوگیا۔ آپ نے رفاعہ سے فرمایا کہ تو نے ایسا کیوں کیا تو وہ کہنے لگا کہ میں نے آپ کی اتباع کی، آپ نے فرمایا کہ میں تو قبیلہ حمس میں سے ہوں تو ہم سب کا دین تو ایک ہی ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ”ولیس البر“ (الخ) واحدی ؒ نے کلبی ؒ اور ابوصالح ؒ کے حوالہ سے حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت صلح حدیبیہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس کا واقعہ یہ ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کو بیت اللہ میں جانے سے روک دیا گیا تھا پھر آپ ﷺ نے مشرکین مکہ سے اس بات پر صلح کرلی کہ اگلے سال آکر عمرہ قضا کرلیں گے، جب آئندہ سال ہوا تو آپ ﷺ نے اور آپ کے صحابہ کرام ؓ نے عمرہ قضا کی تیاری کی اور اس بات کا خوف پیدا ہوا کہ کہیں کفار وعدہ خلافی نہ کریں اور پھر مسجد حرام میں داخل ہونے سے روک دیں اور جنگ کریں اور صحابہ کرام ؓ کو حج کے مہینوں میں قتال پسند نہیں تھا۔ (یعنی دین اسلام میں اس کی اجازت نہ تھی) اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری اور ابن جریر ؒ نے قتادہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ ذی قعدہ کے مہینے میں عمرے کا احرام باندھ کر اور قربانی کا جانور اپنے ساتھ لے کر روانہ ہوئے، جب مقام حدیبیہ پر پہنچے تو مشرکین نے آپ کو آگے جانے سے روک لیا، رسول اکرم ﷺ نے مشرکین مکہ سے اس بات پر صلح کرلی کہ اس سال ہم واپس چلے جاتے ہیں اور اگلے سال عمرہ قضا کرلیں گے جب آئندہ سال ہوا تو ذی قعدہ کے مہینے میں رسول اکرم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ عمرے کا احرام باندھ کر مکہ مکرمہ روانہ ہوئے اور تین راتوں تک وہاں ٹھہرے اور مشرکین کو اس بات پر فخر تھا کہ انہوں نے حضور ﷺ کو واپس کردیا اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ سارا واقعہ بیان کیا اور حضور اکرم ﷺ کو مکہ مکرمہ میں اسی مہینے کے اندر داخل فرما دیا جس مہینے میں کفار نے آپ کو واپس کیا تھا، چناچہ اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا (آیت) ”الشھرالحرام بالشھرالحرام (الخ) یعنی حرمت والا مہینہ ہے بعوض حرمت والے مہینہ کے اور یہ حرمتیں تو عوض ومعاوضہ کی چیزیں ہیں۔
Top