Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Baqara : 187
اُحِلَّ لَكُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَآئِكُمْ١ؕ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ١ؕ عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَیْكُمْ وَ عَفَا عَنْكُمْ١ۚ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْهُنَّ وَ ابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ١۪ وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ١۪ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَى الَّیْلِ١ۚ وَ لَا تُبَاشِرُوْهُنَّ وَ اَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ١ۙ فِی الْمَسٰجِدِ١ؕ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَقْرَبُوْهَا١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ اٰیٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
اُحِلَّ : جائز کردیا گیا لَكُمْ : تمہارے لیے لَيْلَةَ : رات الصِّيَامِ : روزہ الرَّفَثُ : بےپردہ ہونا اِلٰى : طرف (سے) نِسَآئِكُمْ : اپنی عورتوں سے بےپردہ ہونا ھُنَّ : وہ لِبَاسٌ : لباس لَّكُمْ : تمہارے لیے وَاَنْتُمْ : اور تم لِبَاسٌ : لباس لَّهُنَّ : ان کے لیے عَلِمَ : جان لیا اللّٰهُ : اللہ اَنَّكُمْ : کہ تم كُنْتُمْ : تم تھے تَخْتَانُوْنَ : خیانت کرتے اَنْفُسَكُمْ : اپنے تئیں فَتَابَ : سو معاف کردیا عَلَيْكُمْ : تم کو وَعَفَا : اور در گزر کی عَنْكُمْ : تم سے فَالْئٰنَ : پس اب بَاشِرُوْھُنَّ : ان سے ملو وَابْتَغُوْا : اور طلب کرو مَا كَتَبَ : جو لکھ دیا اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے وَكُلُوْا : اور کھاؤ وَاشْرَبُوْا : اور پیو حَتّٰى : یہاں تک کہ يَتَبَيَّنَ : واضح ہوجائے لَكُمُ : تمہارے لیے الْخَيْطُ : دھاری الْاَبْيَضُ : سفید مِنَ : سے لْخَيْطِ : دھاری الْاَسْوَدِ : سیاہ مِنَ : سے الْفَجْرِ : فجر ثُمَّ : پھر اَتِمُّوا : تم پورا کرو الصِّيَامَ : روزہ اِلَى : تک الَّيْلِ : رات وَلَا : اور نہ تُبَاشِرُوْھُنَّ : ان سے ملو وَاَنْتُمْ : جبکہ تم عٰكِفُوْنَ : اعتکاف کرنیوالے فِي الْمَسٰجِدِ : مسجدوں میں تِلْكَ : یہ حُدُوْدُ : حدیں اللّٰهِ : اللہ فَلَا : پس نہ تَقْرَبُوْھَا : اس کے قریب جاؤ كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ : واضح کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ اٰيٰتِهٖ : اپنے حکم لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَّقُوْنَ : پرہیزگار ہوجائیں
روزوں کی راتوں میں تمہارے لیے اپنی عورتوں کے پاس جانا جائز کردیا گیا ہے وہ تمہاری پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو خدا کو معلوم ہے کہ تم (ان کے پاس جانے سے) اپنے حق میں خیانت کرتے تھے سو اس نے تم پر مہربانی کی اور تمہاری حرکات سے درگزر فرمائی اب (تم کو اختیار ہے کہ) ان سے مباشرت کرو اور جو چیز خدا نے تمہارے لیے لکھ رکھی ہے (یعنی اولاد) اس کو خدا سے طلب کرو اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری (رات کی) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے پھر روزہ (رکھ کر) رات تک پورا کرو اور جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو ان سے مباشرت نہ کرو یہ خدا کی حدیں ہیں ان کے پاس نہ جانا اسی طرح اپنی آیتیں لوگوں کے (سمجھانے کے) لئے کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ وہ پرہیزگار بنیں
(187) رات کو رمضان المبارک میں تمہارے لیے عورتوں سے جماع کرنا حلال کیا گیا ہے وہ عورتیں تمہارے لیے سکون کا باعث ہیں، اور تم ان کے لیے سکون کا باعث ہوعشاء کے بعد ہمبستری کرنے میں جو خیانت پیش آجائے اللہ تعالیٰ اس کو تم سے درگزر کرنے والا ہے اور اس پر تمہاری کسی قسم کی کوئی پکڑ نہیں جس وقت تمہارے لیے صبحت کرنا حلال کیا گیا ہے تم ان سے صحبت کرو اور نیک اولاد کے بارے میں جو چیز اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے اسے تلاش کرو یہ آیت کریمہ حضرت عمر فاروق ؓ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اور رات سے لے کر صبح صادق کی سفیدی ظاہر ہونے تک کھاؤ پیو اور پھر رات تک روزہ کو پورا کرو یہ آیت کریمہ حرملہ مالک بن عدی کے بارے میں اتری ہے۔ دن یا رات میں اعتکاف کی حالت میں ان سے ہم بستری نہ کرو، یہ ہم بستری اس وقت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے، لہٰذا اعتکاف ختم ہونے تک دن یا رات میں عورتوں سے ہم بستری نہ کرو، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس حکم کو بیان فرمایا ہے اسی طرح وہ اپنے دیگر احکام کو بیان فرماتا رہتا ہے تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچتے رہیں۔ یہ آیت کریمہ صحابہ کرام ؓ کی ایک جماعت حضرت علی ؓ بن ابی طالب اور عمار بن یاسر ؓ وغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ وہ مسجد میں اعتکاف کی حالت میں تھے، جب ان کو حاجت پیش آتی تو اپنی عورتوں کے پاس آتے اور ان سے صبحت کرتے اور پھر غسل کے بعد مسجد چلے جاتے اللہ تعالیٰ نے اس چیز سے ان کو منع کردیا۔ شان نزول : (آیت) ”احل لکم لیلۃ الصیام الرفث“۔ (الخ) امام احمد ؒ ، ابوداؤد ؒ اور امام حاکم ؒ ، نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ ؒ کے واسطہ سے حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت کی ہے کہ صحابہ کرام رات کو سونے سے پہلے کھاپی لیتے تھے اور بیویوں کے پاس چلے جایا کرتے تھے اور جب سو جاتے تو پھر ان تمام چیزوں سے رک جایا کرتے تھے۔ انصار میں سے قیس بن صرمہ نامیہ نامی ایک شخص نے عشاء کی نماز پڑھی اور سوگیا اور اس نے کچھ کھایا پیا نہیں مگر صبح کے وقت اس کی حالت بہت ہی خراب ہورہی تھی اور حضرت عمر ؓ سونے کے بعد عورتوں کے پاس بھی چلے جایا کرتے تھے چناچہ وہ شخص رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں گیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ احل لکم لیلۃ الصیام الرفث (الخ) کے نام نازل فرمائی یعنی صبح صادق تک تمام کام کرسکتے ہو پھر صبح صادق سے شام تک روزہ پورا کرو، یہ حدیث ابن ابی لیلیٰ سے مشہور ہے مگر انہوں نے معاذ بن جبل ؓ سے یہ حدیث نہیں سنی، اور اس حدیث کی تقویت کے لیے دوسرے شواہد موجود ہیں، چناچہ امام بخاری ؒ نے حضرت براء ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ صحابہ کرام ؓ میں سے جب کوئی شخص روزہ کی حالت میں افطار کے وقت سوجایا کرتا تھا تو پھر وہ رات کو اور اگلے دن شام تک کوئی چیز نہیں کھاتا تھا۔ اور قیس بن صرمہ انصاری روزہ دار تھے، افطار کے وقت وہ اپنی بیوی کے پاس آئے اور اس سے پوچھا کہ کھانے کو کچھ موجود ہے، اس نے بتایا کچھ نہیں، مگر میں جاکر تلاش کرتی ہوں اور قیس بن صرمہ سارا دن محنت کرتے تھے انہیں نیند آئی وہ سو گئے ان کی بیوی کچھ تلاش کرکے لائیں جب انھیں سوتا ہوا دیکھا تو کہنے لگیں افسوس تجھ پر، اگلے دن آدھا دن ہوا تو ان پر بےہوشی طاری ہوگئی، اس کا رسول اکرم ؓ سے ذکر کیا گیا، اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی جس سے صحابہ کرام ؓ بہت خوش ہوئے، نیز یہ آیت بھی نازل ہوئی (آیت) ”وکلوا واشربوا حتی“ (الخ) یعنی صبح صادق تک کھاؤ اور پیو۔ اور امام بخاری ؒ ہی نے حضرت براء سے روایت کیا ہے کہ جب روزوں کی فرضیت ہوئی، تو صحابہ کرام ؓ مکمل رمضان میں رات کو اپنی بیویوں کے پاس نہیں جایا کرتے تھے مگر کچھ حضرات ایسا کرلیا کرتے تھے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی کہ ”اللہ تعالیٰ کو اس چیز کی خبر تھی کہ تم خیانت کے گناہ میں اپنے آپ کو مبتلا کررہے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے تم پر عنایت فرمائی اور تم سے گناہ کو صاف کردیا۔“ اور امام احمد ؒ ، ابن جریر ؒ اور ابن ابی حاتم ؒ نے عبداللہ بن کعب ؒ کے ذریعہ سے کعب بن مالک سے روایت کی ہے کہ شروع میں لوگوں میں سے جب کوئی روزہ رکھتا تھا اور پھر شام کو وہ سوجایا کرتا تھا تو اس پر کھانا پینا اور عورتیں، سب چیزیں حرام ہوجایا کرتی تھیں جب تک کہ اگلے دن روزہ افطار کرلے، چناچہ ایک دن رات کو حضرت عمر فاروق ؓ رسول اکرم ﷺ سے بات چیت کرنے کے بعد اپنے گھر گئے اور اپنی بیوی سے صحبت کرنا چاہی وہ بولیں کہ وہ تو سو چکی ہیں، حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ میں تو ابھی تک نہیں سویا غرض کہ حضرت عمر ؓ نے ان سے صحبت کرلی اور حضرت کعب کے ساتھ بھی اسی قسم کا واقعہ پیش آیا، صبح ہوتے ہی حضرت عمر ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں تشریف لائے اور آپ کو پورا واقعہ عرض کیا اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح) فرمان الہی (آیت) ”من الفجر“۔ یعنی صبح صادق تک، امام بخاری ؒ نے سہل بن سعد ؒ سے روایت نقل کی ہے کہ یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے نمایاں ہوجائے اور (آیت) ”من الفجر“ کا لفظ نازل نہیں ہوا تو صحابہ کرام ؓ میں سے جب کوئی روزہ رکھنے کا ارادہ کرتا تو اپنے پیر میں کالا اور سفید ڈورا باندھ لیتا، اور پھر جب تک یہ دونوں ڈورے صاف نظر نہ آنے لگتے برابر کھاتا پیتا رہتا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے (آیت) ”من الفجر“ کا لفظ نازل فرمایا، اس وقت صحابہ کرام ؓ سمجھے کہ اس سے دن، رات ہے۔ فرمان الہی (آیت) ”ولا تباشروھن“۔ (الخ) ابن جریر ؒ نے قتادہ ؓ سے روایت کی ہے اعتکاف کی حالت میں اگر کوئی چاہتا تو مسجد سے نکلتا تھا اور پھر اپنی بیوی سے صحبت کرکے واپس چلا جاتا تھا، اس پر یہ آیت کریمہ اتری یعنی جب مسجدوں میں اعتکاف کی حالت میں موجود ہو اس حالت میں اپنی عورتوں سے ہم بستری نہ کرو، (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح)
Top