Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Baqara : 174
اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْتُمُوْنَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ الْكِتٰبِ وَ یَشْتَرُوْنَ بِهٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا١ۙ اُولٰٓئِكَ مَا یَاْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ اِلَّا النَّارَ وَ لَا یُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ لَا یُزَكِّیْهِمْ١ۖۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يَكْتُمُوْنَ : چھپاتے ہیں مَآ اَنْزَلَ : جو اتارا اللّٰهُ : اللہ مِنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب وَيَشْتَرُوْنَ : اور وصول کرتے ہیں وہ بِهٖ : اس سے ثَمَنًا : قیمت قَلِيْلًا : تھوڑی اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ مَا يَاْكُلُوْنَ : نہیں کھاتے فِيْ : میں بُطُوْنِهِمْ : اپنے پیٹ (جمع) اِلَّا : مگر (صرف) النَّارَ : آگ وَلَا : اور نہ يُكَلِّمُهُمُ : بات کرے گا اللّٰهُ : اللہ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن وَلَا : اور نہ يُزَكِّيْهِمْ : انہیں پاک کرے گا وَلَهُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
جو لوگ (خدا کی) کتاب سے ان (آیتوں اور ہدایتوں) کو جو اس نے نازل فرمائی ہیں چھپاتے اور ان کے بدلے تھوڑی سی قیمت (یعنی دنیاوی منفعت) حاصل کرتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں محض آگ بھرتے ہیں ایسے لوگوں سے خدا قیامت کے دن کلام نہ کرے گا اور نہ ان کو (گناہوں سے) پاک کرے گا اور ان کے لیے دکھ دینے والا عذاب ہے
(174۔ 175) یہ اہل کتاب حضور اکرم ﷺ کی توصیف وتعریف لوگوں سے چھپاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کی کتاب میں بیان کی ہے اور اس چھپانے پر معمولی سا معاوضہ لیتے ہیں یہ آیت کعب بن اشرف، حی بن اخطب اور جدی بن اخطب کے بارے میں اتری ہے۔ حرام کے علاوہ ان لوگوں کے شکموں میں اور کوئی چیز نہیں جاتی، اور ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ آگ کے علاوہ ان کے پیٹوں میں قیامت کے دن اور کوئی چیز نہیں جائے گی اور نہ یہ گناہوں سے پاک ہوں گے اور نہ ہی ان کی کسی قسم کی تعریف کی جائے گی اور ان کو ایسا دردناک عذاب ملے گا کہ اس کی سختی ان کے دلوں تک پہنچ جائے گی ان لوگوں نے ایمان کے بدلے کفر اور اسلام کے بدلے یہودیت کو خرید لیا ہے۔ اور ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ جن چیزوں سے جنت ملتی ہے ان کی بجائے انہوں نے ایسی چیزوں پر عمل کیا ہے جو دوزخ میں جانے کا باعث ہیں، یہ لوگ دوزخ کیلیے کس قدر دلیر ہیں، اور ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ دوزخ کمانے پر ان لوگوں کو اس قدر کس چیز نے دلیر وبہادر بنا دیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کس بنا پر یہ لوگ اہل جہنم کا کام کرتے ہیں۔ شان نزول : (آیت) ”ان الذین یکتمون“ (الخ) ابن جریر ؒ نے عکرمہ ؒ سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت کریمہ (آیت) ان الذین یکتمون (الخ) اور وہ آیت جو کہ سورة آل عمران میں ہے (آیت) ”ان الذین یشترون“۔ یہ دونوں آیات یہودیوں کے متعلق نازل ہوئی ہیں۔ اور ثعلبی ؒ نے بواسطہ کلبی ؒ ، ابو صالح ؒ ، حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ہے کہ یہ آیت کریمہ یہودیوں کے علماء اور ان کے رؤسا کے متعلق نازل ہوئی ہے کیوں کہ وہ اپنے غریبوں سے ہدیہ اور تحفے لیا کرتے تھے اور اس بات کی امید رکھتے تھے کہ نبی اکرم ﷺ ان ہی میں سے نازل ہوں گے، جب رسول اکرم ﷺ ان کے علاوہ دوسروں میں تشریف لے آئے تو انھیں اپنی ریاست کے زوال اور اپنے تحائف کے ختم ہوجانے کا ڈر ہوا، تو انہوں نے رسول اکرم ﷺ کے اوصاف میں (جو کہ توریت میں بیان کیے گئے تھے) تبدیلی کردی اور پھر وہ تبدیل شدہ اوصاف اپنی قوم کے سامنے بیان کرنے لگے اور بولے کہ وہ نبی جو اخیر زمانہ میں مبعوث ہوں گے، ان کی یہ صفت ہے یہ اوصاف ان نبی کریم ﷺ میں نہیں پائے جاتے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ (آیت) ”ان الذین یکتمون“ الخ نازل فرمائی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح)
Top