Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Baqara : 102
وَ اتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰى مُلْكِ سُلَیْمٰنَ١ۚ وَ مَا كَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَ لٰكِنَّ الشَّیٰطِیْنَ كَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ١ۗ وَ مَاۤ اُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَیْنِ بِبَابِلَ هَارُوْتَ وَ مَارُوْتَ١ؕ وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰى یَقُوْلَاۤ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ١ؕ فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْهُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِهٖ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ زَوْجِهٖ١ؕ وَ مَا هُمْ بِضَآرِّیْنَ بِهٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ یَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّهُمْ وَ لَا یَنْفَعُهُمْ١ؕ وَ لَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰىهُ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ١ؕ۫ وَ لَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهٖۤ اَنْفُسَهُمْ١ؕ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
وَ اتَّبَعُوْا : اور انہوں نے پیروی کی مَا تَتْلُوْ : جو پڑھتے تھے الشَّيَاطِیْنُ : شیاطین عَلٰى : میں مُلْكِ : بادشاہت سُلَيْمَانَ : سلیمان وَمَا کَفَرَ : اور کفرنہ کیا سُلَيْمَانُ : سلیمان وَلَٰكِنَّ : لیکن الشَّيَاطِیْنَ : شیاطین کَفَرُوْا : کفر کیا يُعَلِّمُوْنَ : وہ سکھاتے النَّاسَ السِّحْرَ : لوگ جادو وَمَا : اور جو أُنْزِلَ : نازل کیا گیا عَلَى : پر الْمَلَکَيْنِ : دوفرشتے بِبَابِلَ : بابل میں هَارُوْتَ : ہاروت وَ مَارُوْتَ : اور ماروت وَمَا يُعَلِّمَانِ : اور وہ نہ سکھاتے مِنْ اَحَدٍ : کسی کو حَتَّی : یہاں تک يَقُوْلَا : وہ کہہ دیتے اِنَّمَا نَحْنُ : ہم صرف فِتْنَةٌ : آزمائش فَلَا : پس نہ کر تَكْفُر : تو کفر فَيَتَعَلَّمُوْنَ : سو وہ سیکھتے مِنْهُمَا : ان دونوں سے مَا : جس سے يُفَرِّقُوْنَ : جدائی ڈالتے بِهٖ : اس سے بَيْنَ : درمیان الْمَرْءِ : خاوند وَ : اور زَوْجِهٖ : اس کی بیوی وَمَا هُمْ : اور وہ نہیں بِضَارِّیْنَ بِهٖ : نقصان پہنچانے والے اس سے مِنْ اَحَدٍ : کسی کو اِلَّا : مگر بِاِذْنِ اللہِ : اللہ کے حکم سے وَيَتَعَلَّمُوْنَ : اور وہ سیکھتے ہیں مَا يَضُرُّهُمْ : جو انہیں نقصان پہنچائے وَلَا يَنْفَعُهُمْ : اور انہیں نفع نہ دے وَلَقَدْ : اور وہ عَلِمُوْا : جان چکے لَمَنِ : جس نے اشْتَرَاهُ : یہ خریدا مَا : نہیں لَهُ : اس کے لئے فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں مِنْ خَلَاقٍ : کوئی حصہ وَلَبِئْسَ : اور البتہ برا مَا : جو شَرَوْا : انہوں نے بیچ دیا بِهٖ : اس سے اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ کو لَوْ کَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : کاش وہ جانتے ہوتے
اور ان (ہزلیات) کے پیچھے لگ گئے جو سلیمان کے عہد سلطنت میں شیاطین پڑھا کرتے تھے، اور سلیمان نے مطلق کفر کی بات نہیں کی بلکہ شیطان ہی کفر کرتے تھے کہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور ان باتوں کے بھی (پیچھے لگ گئے) جو شہر بابل میں دو فرشتوں (یعنی) ہاروت اور ماروت پر اتری تھیں۔ اور وہ دونوں کسی کو کچھ نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو (ذریعہ) آزمائش ہیں تم کفر میں نہ پڑو۔ غرض لوگ ان سے ایسا (جادو) سیکھتے جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں۔ اور خدا کے حکم کے سوا وہ اس (جادو) سے کسی کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے تھے۔ اور کچھ ایسے (منتر) سیکھتے جو ان کو نقصان ہی پہنچاتے اور فائدہ کچھ نہ دیتے اور وہ جانتے تھے کہ جو شخص ایسی چیزوں (یعنی سحر اور منتر وغیرہ) کا خریدار ہوگا اس کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں اور جس چیز کے عوض انہوں نے اپنی جانوں کو بیج ڈالا وہ بری تھی، کاش وہ (اس بات کو) جانتے
(102) شیطانوں نے حضرت سلیمان ؑ کی حکومت و ریاست ختم کرنے کے لیے جو چالیس روز تک جادو منتر کیا تھا، اس پر ان لوگوں نے عمل کیا، حضرت سلیمان ؑ نے کسی قسم کا کوئی جادومنتر نہیں لکھا تھا، شیاطین تھا (ابوالعالیہ کے قول کے مطابق اور صحیح قول یہ ہے) کہ یہ شیاطین اس جادو کی بھی تعلیم دیتے تھے جو ان دونوں فرشتوں کو بطور الہام کے آتا تھا، یہ دونوں فرشتے کسی کو جادو نہیں سکھاتے تھے یہاں تک کہ پہلے اس سے کہہ نہ دیتے تھے کہ ہم اس چیز سے لوگوں کی آزمایش کرتے ہیں تاکہ ہم پر عذاب خداوندی کی سختی نہ ہو لہٰذا تو اسے نہ سیکھ اور نہ اس پر عمل کر، مگر یہ لوگ بغیر ان کی تعلیم کے ایسی چیز حاصل کرتے تھے جس کے ذریعے خاوند اور بیوی ایک دوسرے سے بیزار ہوجائیں اور یہ لوگ جادو اور اس کی تفریق کرانے سے اللہ تعالیٰ کے ارادہ اور مشیت کے بغیر کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے، اور شیاطین و یہودی اور جادوگر ایک دوسرے کو اس قسم کا جادو سکھاتے تھے جو آخرت کے لیے نقصان کا باعث بنے اور دنیا وآخرت میں اس سے کسی قسم کا فائدہ نہ حاصل ہو، ان فرشتوں نے ایک قول کے مطابق ان یہودیوں نے اپنی کتابوں میں یا ان شیاطین نے یہ بات روز روشن کی طرح جان لی تھی کہ جو شخص جادو منتر کرے گا اس کے لیے جنت میں کسی قسم کا کوئی حصہ نہ ہوگا اور یہ بہت ہی بری چیز ہے جس کو یہودیوں نے اپنے لیے اچھا سمجھا ہے لیکن یہ اس کو نہیں سجھ رہے یہ بھی تفسیر کی گئی ہے کہ یہ اپنی کتابوں میں اس کی برائی سے واقف ہیں۔ شان نزول : (آیت) ”واتبعو ما تتلوالشیطین“۔ (الخ) ابن جریر ؒ نے شہر بن خوشب سے روایت کیا ہے کہ یہودی کہتے تھے محمد ﷺ کو دیکھو حق بات کو باطل باتوں کے ساتھ ملانے میں ، (سلیمان علیہ السلام) کا ذکر انبیاء کرام کے ساتھ کرتے ہیں کیا وہ جادوگر نہیں تھے جو ہوا پر سوار رہتے تھے، اس پر اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا آیت نازل فرمائی اور ابن ابی حاتم ؒ نے ابو العالیہ ؒ سے روایت کیا ہے کہ یہودیوں نے توریت کی باتوں میں سے کسی زمانہ کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے پوچھا اور یہودی آپ ﷺ سے کسی چیز کے بارے میں کہیں پوچھا کرتے تھے مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ آپ پر اس کے بارے میں جو کچھ ان یہودیوں نے آپ ﷺ سے پوچھا تھا وحی نازل فرما دیتا تھا، جب یہودیوں نے یہ دیکھا تو آپس میں کہنے لگے کہ یہ تو (یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو باتیں ہمارے پاس نازل شدہ ہیں ان سے بہت زیادہ جاننے والے ہیں لہٰذا ان سے جادو کے متعلق سوالات و اعتراضات کریں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت شریفہ نازل فرمائی۔ (آیت) ”واتبوما تتلوالشیطین (الخ)۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح)
Top