Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Israa : 90
وَ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْۢبُوْعًاۙ
وَقَالُوْا : اور وہ بولے لَنْ نُّؤْمِنَ : ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے لَكَ : تجھ پر حَتّٰى : یہانتک کہ تَفْجُرَ : تو رواں کردے لَنَا : ہمارے لیے مِنَ الْاَرْضِ : زمین سے يَنْۢبُوْعًا : کوئی چشمہ
اور کہنے لگے کہ ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ (عجیب و غریب باتیں نہ دکھاؤ یعنی یا تو) ہمارے لئے زمین میں سے چشمہ جاری کردو۔
(90) اور عبداللہ بن امیہ مخزومی اور اس کے ساتھی یوں کہتے ہیں کہ ہم آپ کی ہر گزتصدیق نہیں کریں گے جب تک کہ آپ ہمارے لیے سرزمین مکہ میں چشمے اور نہریں نہ جاری کردیں۔ شان نزول : (آیت) ”۔ وقالوا لن نؤمن لک“۔ (الخ) ابن جریر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بواسطہ ابن اسحاق شیخ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ عکرمہ ؓ ، حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے، فرماتے ہیں کہ عتبہ، شیبہ، ابوسفیان اور عبدالدار کا ایک شخص اور ابوالبختری، اسود بن مطلب، ربیعۃ بن اسود، ولید بن مغیرہ، ابوجہل عبداللہ بن امیہ، امیہ بن خلف، عاص بن وائل، منبیہ بن حجاج منبہ بن الحجاج، ان سب نے باہم جمع ہو کر رسول اکرم ﷺ سے کہا کہ آپ اپنی قوم میں جو بات لے کر آئے ہیں، ہمارے علم میں عرب میں سے کوئی بھی ایسی بات لے نہیں آیا، تم نے آباؤ اجداد کو برا کہا دین کو عیب لگایا اور نوعمروں کو بیوقوف بنایا، بتوں کو گالیاں دیں اور جماعت میں تفرقہ ڈالا، سو کوئی برائی ایسی نہیں ہے جو تم نے ہمارے اور اپنے درمیان نہ کی ہو، اگر تم یہ باتیں مال حاصل کرنے کے لیے کرتے ہو تو ہم اپنے مال تمہارے لیے جمع کردیتے ہیں تاکہ تم سب سے زیادہ مالدار ہوجاؤ، اور اگر تم ہمارے اندر عزت اور شرافت چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنا سردار بنادیتے ہیں اور اگر تمہارے پاس یہ لانے والا جو کچھ لے کر آتا ہے کوئی جن ہے کہ جس کا تم پر غلبہ ہوگیا تو ہم آپ کا علاج کرانے اور اس سے آپ کو چھٹکارا دلانے کے لیے اپنے اموال خرچ کرتے ہیں یہ سن کر رسول اکرم ﷺ نے فرمایا جو کچھ تم کہہ رہے ہو ان میں سے میرے اندر کوئی بھی بات نہیں، اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے اور میرے اور میرے اوپر کتاب نازل کی ہے اور مجھے اس بات کا حکم دیا ہے کہ میں تمہیں خوشخبری سناؤں اور ڈراؤں یہ سن کر یہ لوگ بولے کہ اگر آپ ہماری پیشکش کو نہیں قبول کرتے تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ تمام شہروں میں ہمارے شہر سے زیادہ تنگ اور کوئی شہر نہیں اور نہ ہم سے کم مال والا اور تنگ معیشت والا اور کوئی ہے تو آپ ہمارے لیے اپنے اس پروردگار سے دعا کیجیے کہ جس نے آپ کو بھیجا ہے کہ وہ ہم سے ان پہاڑوں کو چلا کر دور کر دے جن سے ہم پر تنگی ہورہی ہے اور ہمارے لیے ہمارے شہروں کو کشادہ کر دے۔ اور اس میں شام اور عراق کی طرح نہریں جاری کر دے اور ہمارے جو آباؤ اجداد مرچکے ہیں، ان کو ہمارے لیے زندہ کر دے اور اگر تم ایسا نہیں کرسکتے تو اپنی باتوں کی تصدیق کرانے کے لیے اپنے پروردگار سے ایک فرشتہ کی درخواست کراؤ جو آکر تمہاری تصدیق کرے اور ہمارے باغات اور خزانے اور سونے چاندی کے محلات تعمیر کر دے تاکہ جس چیز کی تلاش میں ہم آپ کو دیکھیں اس پر آپ کی مدد کرسکیں کیوں کہ ہم آپ کو بازاروں میں کھڑا ہوا اور روزی کی تلاش کرتا ہوا دیکھتے ہیں اور اگر آپ ایسا کرسکتا ہے کیوں کہ ہم تو جب کہ آپ ان باتوں میں سے کوئی بات نہ پوری کریں ہرگز آپ پر ایمان نہیں لائیں گے یہ سن کر رسول اکرم ﷺ ان لوگوں کے درمیان سے اٹھ کھڑے ہوئے تو آپ کے ساتھ عبداللہ بن ابی امیہ بھی کھڑا ہوا اور کہنے لگا اے محمد ﷺ آپ کی قوم نے آپ کے سامنے کئی باتیں رکھیں، مگر آپ نے ان میں سے ایک بھی قبول نہیں کی پھر انہوں نے اپنی ذات کے لیے کچھ باتوں کی درخواست کی تاکہ ان کے ذریعے سے آپ کا اللہ تعالیٰ کے یہاں جو مقام سے اس کو پہچان لیں اگر آپ نے ایسا بھی نہیں کیا پھر جس عذاب سے آپ ان کو ڈراتے ہیں، اس عذاب کے جلدی نازل ہونے کی انہوں نے درخواست کی، اللہ تعالیٰ کی قسم میں تو ہرگز آپ پر ایمان نہیں لاؤں گا جب تک کہ آپ آسمان پر چڑھنے کے لیے ایک سیڑھی نہ بنائیں پھر آپ اس پر چڑھیں اور میں آپ کو خود دیکھوں اور جب آپ وہاں سے آئیں اور آپ کے ساتھ ایک تحریر ہو اور مزید یہ کہ آپ کے ساتھ چار فرشتے ہوں جو آپ کے دعوے کی گواہی دیں کہ آپ اپنے دعوے میں سچے ہیں۔ یہ سن کر رسول اکرم ﷺ وہاں سے غمگین ہو کر چل دیئے چناچہ اللہ تعالیٰ نے جو عبداللہ بن ابی امیہ نے آپ سے کہا تھا، اسی کے قول کو براہ تردید آپ نازل کردیا اور سعید بن منصور رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی سنن میں (آیت) ”وقالوا لن نؤمن لک“۔ کی تفسیر میں حضرت سعید بن جبیر کا قول روایت کیا ہے کہ یہ آیت مبارکہ عبداللہ بن ابی امیہ کے بارے نازل ہوئی ہے، امام سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ مرسل صحیح اور اس سے پہلے والی روایت کے لیے شاہد ہے اس کی سند میں جو ابہام ہے اس کا اس مرسل سے انجبار ہوگیا۔
Top