Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Israa : 45
وَ اِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَیْنَكَ وَ بَیْنَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًاۙ
وَاِذَا : اور جب قَرَاْتَ : تم پڑھتے ہو الْقُرْاٰنَ : قرآن جَعَلْنَا : ہم کردیتے ہیں بَيْنَكَ : تمہارے درمیان وَبَيْنَ : اور درمیان الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے بِالْاٰخِرَةِ : آخرت پر حِجَابًا : ایک پردہ مَّسْتُوْرًا : چھپا ہوا
اور جب تم قرآن پڑھا کرتے ہو تو ہم تم میں اور ان لوگوں میں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے حجاب پر حجاب کردیتے ہیں
(45) اور جب آپ مکہ مکرمہ میں قرآن کریم پڑھتے ہیں تو ہم آپ کے اور ابوجہل کے درمیان جو کہ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ایک پردہ حائل کردیتے ہیں اور ان کے دلوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں تاکہ وہ حق بات کو نہ سمجھ سکیں اور ان کے کانوں میں ڈاٹ دے دیتے ہیں۔ شان نزول : (آیت) ”۔ واذا قرأت القران جعلنا بینک“۔ (الخ) ابن منذر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ابن شہاب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مشرکین قریش کے سامنے قرآن کریم ﷺ کی تلاوت کرتے اور ان کو کتاب اللہ کی طرف بلاتے تو وہ کہتے کہ یہ ہمیں مائل کرنا چاہتے ہیں جس کی طرف یہ ہمیں بلا رہے ہیں اس سے ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور ہمارے کانوں میں ڈاٹ ہے اور ہمارے اور تمہارے درمیان پردہ حائل ہے چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں ان ہی کے اقوال روایت کردیے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ”واذا قرأت القران جعلنا بینک“۔ (الخ) یعنی جب آپ قرآن کریم پڑھتے ہیں تو ہم آپ کے اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، ان کے درمیان ایک پردہ حائل کردیتے ہیں۔
Top