Tafseer-e-Haqqani - Nooh : 13
مَا لَكُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلّٰهِ وَقَارًاۚ
مَا لَكُمْ : کیا ہے تم کو لَا تَرْجُوْنَ : نہیں تم امید رکھتے لِلّٰهِ : اللہ کے لیے وَقَارًا : کس وقار کی
تمہیں کیا ہوگیا جو تم اللہ کی عظمت نہیں سمجھتے
ترکیب : الوقار بمعنی التوقیر ترجون بمعنی تعتقدون وانما عبرعن الاعتقاد بالرجاء التابع لاونی الظن مبالغۃ وللہ اللام للتبین بیان للموقرو یمکن ان یکون صلۃ للوقار ‘ وقد خلقکم الجملۃ حال من الضمیر فی لکم اطوارا مختلفین حال من ضمیر فی خلقکم وقیل مفعول ثان لخلق بمعنی جعل قال اللیث الطور التارۃ یعنی حال بعد حال وقال ابن الانباری الطور الحال والھیئۃ وجمعۃ اطوار ‘ طباقا انتصابہ علی المصدریۃ یقال طابقہ طباقا ومطابقۃ اوحال بمعنی ذات طباقٍ فحذف ذات واقیم طباقا مقامہ نباتا منصوب علی انہ مفعول مطلق ولم یقل انباتاً کما یقتضیۃ الظاہر للدقیقۃ اللطیفۃ وھی انہ لوقال ابناتا کان صفۃ للہ تعالیٰ وھم لایعتقدونہ بل اکثر المادین بل کلھم یقولون اللہ لاینبتنا ولماقال نباتا صارصفۃ للنبات والنبات العجیب مشاہد محسوس یستدل بہ علی وجود الباری تعالیٰ شانہ فنباتا امامصدر علی حذف الزوائد ویسمیٰ اسم المصدرویجوزان یکون مصدر النبتم مقدر تقدیرہ انبتکم فنبتم نباتا حسنافیکون منصوبا بالمطاوع المقدرو عندالخلیل والزجاج ھو مصدر محمول علی المعنی لان معنی انبتکم جعلکم تنبتون نباتا وقیل المعنی اللہ انبت لکم من الارض النبات فعلی ھذا ھو مفعول بہ وعلی لا اول معنی انبتکم انشاء کم فاستعیر الانبات للانشاء لانہ اول علی الحدوث والتکون من الارض۔ فجاجا جمع فج وھوا لطریق الواسع ‘ سبلا جمع سبیل وھو مفعول فیہ۔ تفسیر : اس حکم برداری کا یہ ثمرہ ہوگا (1) یغفرلکم من ذنوبکم تمہارے گناہ بخش دے گا۔ بعض علماء کہتے ہیں من تبعیض کے لیے ہے۔ تب اس کے یہ معنی ہوں گے کہ کچھ گناہ بخش دے گا یعنی حقوق العباد معاف نہ ہوں گے، وہ ادا کرنے سے یا ان کے معاف کرنے سے معاف ہوتے ہیں۔ (2) ویؤخرکم الی اجل مسمٰی اور تم کو ایک معین مدت تک دنیا میں رہنے آرام کرنے دے گا، غارت و برباد نہ کرے گا جیسا معتوب لوگ کئے جاتے ہیں اور آخرکار یہ بھی کئے گئے مدت معین تک۔ اس لیے فرمایا کہ دنیا میں ہمیشہ کوئی نہیں ٹھہرتا اور نہ یہ ہمیشہ ٹھہرنے کا مقام ہے۔ کس لیے کہ ان اجل اللہ اذاجاء لایؤخر اللہ کا وعدہ جب آتا ہے تو ٹلتا نہیں۔ یعنی موت کا وقت معہود نہیں ٹلتا، باقی عقاب و عذاب میں گرفتار ہو کر فنا ہونا جو گناہوں پر ہوتا ہے نیکوکاری سے ٹل جاتا ہے۔ لوکنتم تعلمون اگر تم کو خبر ہے تو میری اطاعت کرو ایمان لائو، یا یہ کہ کاش وہ جانتے مگر وہ بدنصیب قوم برسوں بلکہ سینکڑوں برسوں کے سمجھانے پر بھی نہ مانی اور اس قدر عرصے میں عذاب نہ آنے سے اور بھی دلیر ہوگئی۔ تب حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب سے بطور مناجات عرض کرنا شروع کیا۔ قال رب انی دعوت قومی لیلاً ونہار افلم یزدھم دعائی الافرارا کہ اے رب ! میں نے اپنی قوم کو رات دن ہدایت کی طرف بلایا، وعظ و پند کیا، اس کام میں کوئی کمی نہیں کی مگر وہ اس سے اور بھی بھاگنے لگے۔ وانی کلما دعوتہم لتغفرلہم جعلوا اصابعہم فی اذانہم واستغشواثیا بہم واصروا واستکبروا استکبارا اور میں نے جب کبھی ان کو بلایا کہ تو انہیں معاف کر دے یعنی تیری طرف معافی کے لیے بلانا چاہا تو انہوں نے (1) اپنی انگلیاں کانوں میں ڈال لیں کہ کہیں میری بات سننے میں نہ آئے اور اسی پر بس نہیں کیا (2) بلکہ اپنے اوپر کپڑا ڈال لیا، منہ چھپا لیے کہ میری صورت بھی نہ دیکھیں یا یہ عداوت کرنے سے کنایہ ہے۔ کہتے ہیں کہ فلاں نے دشمن کا جامہ پہن لیا۔ ابن عباس ؓ کہتے ہیں اس لیے کپڑا ڈالتے تھے کہ پہچانے نہ جائیں اور ان کو پیغمبر نہ بلائے۔ (3) اور اپنے کفروبدکاری پر اڑ گئے ہرگز توبہ و ندامت نہیں کرتے۔ (4) اور بڑا غرور کرنے لگے اس پر بھی میں نے بس نہیں کی بلکہ ثم انی دعوتہم جہارا اس کے بعد بھی میں نے بآواز بلند ان کو بلایا۔ ثم انی اعلنت لہم پھر میں نے ان کو خبردار بھی کیا اور جتا دیا کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے تمہارے پاس پیغام لایا ہوں۔ واسررت لہم اسرارا اور مخفی طور پر بھی سمجھا دیا یعنی ہر طور سے بلایا اور نصیحت کی۔ استغفار کے فوائد : فقلت استغفروا ربکم کہ تم اور کسی سے نہیں بلکہ اپنے پرورش کرنے والے محسن اور مربی سے معافی مانگو۔ انہ کان غفارا کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ یرسل السماء علیکم مدرارا وہ (1) تم پر بارش برسا دے گا، قحط و گرانی کے عذاب سے نجات دے گا۔ لفظی معنی یہ ہوئے کہ وہ تم پر برستے ہوئے بادل بھیجے گا سماء سے مراد بادل ہے۔ (2) ویمددکم باموال و بنین اور تم کو مال اور اولاد میں ترقی دے گا۔ اولاد نہ کہا جس میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں کس لیے کہ لڑکیوں کی پیدائش سے وہ ناخوش ہوتے تھے اس لیے بنین کہا یعنی لڑکے دے گا۔ (3) ویعجل لکم جنات اور تمہارے لیے باغ تیار کر دے گا خوب میوے کھاؤ گے۔ (4) ویجعل لکم انہارا اور تمہارے لیے نہریں تیار کر دے گا۔ ان دنیا کی چیزوں کی طرف طبائع عامہ کی رغبت ہوتی ہے اور وہ قوم بھی انہیں پر فریفتہ تھی اس لیے معافی مانگنے پر ان چیزوں کا وعدہ دیا اور یہ وعدہ سچا تھا، طمع خام نہ تھی۔ اب بھی استغفار کی یہ خاصیت ہے کہ جو کوئی سچے دل سے اور عجزونیاز سے اپنے رب العالمین سے معافی مانگتا رہے گا اس کے مال و اولاد میں برکت ہوگی، قحط سالی رفع ہوگی، زمین کی پیداوار زیادہ ہوگی مجرب بات ہے۔ روایت : روایت ہے کسی نے حسن بصریٰ (رح) سے قحط سالی کی شکایت کی، فرمایا استغفار کر۔ ایک نے تنگدستی کا گلہ کیا، کسی اور نے نسل کی قلت کا شکوہ کیا۔ ایک اور نے کہا زمین کی پیداوار کم ہوتی ہے۔ سب کو آپ نے اللہ سے مغفرت مانگنے کا حکم دیا۔ ربیع بن صبیح نے کہا آپ سے لوگوں نے مختلف اغراض بیان کئے اور جدا جدا چیزیں چاہیں آپ نے سب کو استغفار کا ہی حکم دیا۔ حسن نے یہ آیت پڑھی۔ علمائے کرام فرماتے ہیں صرف زبان سے استغفر اللہ کہنا کافی نہیں بلکہ گناہوں سے باز آئے اور دل سے اور زبان کو پاک رکھے اور عجزونیاز اور خلوص دل سے استغفار کرے۔ دنیا میں اس کی یہ برکتیں ہیں آخرت میں جنت ہے۔ کس لیے کہ اہل جنت کی شان میں آیا ہے۔ وبالاسحارھم یستغفرون کہ صبح کے وقت خدا سے معافی مانگا کرتے تھے اور احادیث صحیحہ میں استغفار کے بہت سے فوائد بیان ہوئے ہیں۔ راقم الحروف بھی ہر صبح استغفر اللہ الذی لا الہ الاہوا الحی القیوم واتوب الیہ پڑھا کرتا ہے۔ مگر واہ رے بدنصیب قوم ! اس پر بھی نوح (علیہ السلام) کا کہنا نہ مانا جس پر ناچار ہو کر حضرت نوح ( علیہ السلام) نے ان سے کہا، مالکم لاترجون للہ وقارا کہ تمہیں کیا ہوگیا جو تم اللہ سے عزت و حرمت کی امید نہیں رکھتے، اپنے بتوں سے رکھتے ہو کہ فلاں عزت دے گا، فلاں مال دے گا۔ یہ بھی معنی ہوسکتے ہیں کہ تمہیں کیا ہوگیا جو تم اللہ کی توقیر و عزت نہیں خیال کرتے اور دل میں نہیں لاتے اوروں کی عزت و حرمت دل میں ہے مگر ہائے اللہ کی نہیں۔ جس لیے ان سے ڈرتے اور ان کی نذرونیاز کرتے ہو۔ دلیل توحید : نوح (علیہ السلام) نے اول توحید کا حکم دیا اس کے بعد اس کے ثبوت میں چند دلائل بیان فرمائے۔ پہلی دلیل : (1) وقدخلقکم اطوارا کہ اس نے تم کو طرح طرح سے بنایا، تم اول نطفہ تھے ‘ پھر علقہ ہوئے ‘ پھر مضغہ ہوئے ‘ پھر انسان بنے یا یہ کہ کسی کو امیر، کسی کو غریب، کسی کو خوبصورت، کسی کو بدصورت بنایا۔ پھر سب کا ڈھانچ ایک ہے مگر صورتیں جدا جدا۔ یہ نہ مادہ بےشعور کا کام ہے نہ طبیعت کی کاریگری ہے۔ آخر کوئی علیم وخبیر ہے کہ جس نے یہ بڑا کام کیا ہے۔ یہ بڑی مستحکم دلیل ہے جو انسان ہی کے حالات سے متعلق ہے اپنے آپ ہی میں غور کرے گا تو سینکڑوں نشان قدرت پائے گا۔ دلائلِ انفس کے بعد اب دلائلِ آفاق شروع کرتا ہے۔ دوسری دلیل : (1) الم تروا کیف خلق اللہ سبع سماوات طباقا کیا تم نہیں دیکھتے کہ اس نے کیسے سات آسمان اوپر تلے بنائے ؟ آسمانوں کے وجود پر کئی بار بحث ہوچکی ہے۔ سماوات اس کی قدرت کاملہ کا بڑا نمونہ ہیں۔ (2) وجعل القمر فیھن نورا وجعل الشمس سراجا کہ اس نے آسمانوں میں چاند کو روشنی اور سورج کو چراغ بنایا۔ آفتاب و ماہتاب کا فرق دہریوں اور مادیوں کو حیرت میں ڈال دینے والا ہے اور ناچار ایک حکیم علیم و قدیر کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ سوال 1 : چاند پہلے آسمان پر ہے، ساتویں میں نور ہونا کیونکر فرما دیا ؟ جواب : کبھی ایک چیز کو جو ایک جز خاص میں ہوتی ہے اس کا مجموعہ میں ہونا عرفاً بیان کردیا جاتا ہے کہتے ہیں بادشاہ ہندوستان میں ہے حالانکہ وہ اس کے ایک خاص جزو میں ہوتا ہے اسی طرح یہاں بیان فرمایا گیا۔ سوال 2: چاند نہ روشنی میں بڑھ کر ہے نہ جسم میں پھر اس کو تو نور فرمایا جو بڑھ کر بات ہے اور آفتاب کو چراغ اس میں کیا رمز ہے ؟ جواب : (1) آفتاب کی روشنی میں گرمی ہے جس طرح چراغ کی۔ اس لیے اس کو چراغ کہا۔ اور چاند میں یہ بات نہیں اس کو محض نور کہہ دیا۔ (2) ضوء جس کو چمک کہتے ہیں نور یعنی روشنی سے بڑھ کر ہے اس لیے آفتاب جو چمکتا ہوا ہے اس کو ضیا 1 ؎ اور سراج کہا کیونکہ چراغ میں چمک ہے اور اس چمک سے روشنی پیدا ہوتی ہے اس لیے ماہتاب کو روشنی فرمایا جو آفتاب کی چمک سے ہے۔ تیسری دلیل : پھر اول دلیل کی تشریح کرتے ہیں جو ایک طور سے نئی دلیل ہے۔ فقال واللہ انتبکم من الارض نباتا ثم یعیدکم فیہاو یخرجکم اخراجا کہ اللہ نے تم کو زمین سے اگایا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) جو سب بنی آدم کی اصل ہیں ان کا زمین سے بنانا اور اگانا ان کی اولاد کا اگانا یا یوں کہو کہ انسان منی سے بنتا ہے اور منی زمین کی غذائوں سے اور وہ غذائیں زمین سے اگتی ہیں اس لیے کہا جاتا ہے کہ انسان کو خاک سے اگایا مگر نباتا کے لفظ میں اس اگنے کی دلکش کیفیت کی طرف اجمالاً اشارہ ہے۔ اول کیسے پودے لہلہاتے ہوئے اگتے ہیں۔ لڑکپن کا نشوونما ‘ جوانی کی بہاریں کیا دلکش نظارہ ہوتا ہے، پھر رفتہ رفتہ کس طرح سوکھتے جاتے ہیں اور پھر خاک میں جا ملتے ہیں۔ ان باتوں کو وہ خود بھی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے تھے جب اس قدیر کی یہ قدرت کاملہ ثابت ہوگئی تو گویا حشر کے دن قبروں سے نکالنے پر قادر ہونا بھی ثابت کردیا۔ ان کے مقابلہ میں یہ کہنا بھی صحیح ہوگیا کہ حشر کے دن وہ پھر تم کو اس خاک میں سے نکالے گا اور لفظ اخراجا میں اس کی کیفیت خاص کی طرف اشارہ ہے جس کو حضرات انبیاء (علیہم السلام) نے بیان فرمایا ہے۔ اس دلیل میں انسان کی ابتداء اور انتہاء اور اس کی بےثباتی سب کچھ بیان کردی اور 1 ؎ ھو الذی جعل الشمس ضیاء والقمر نورا مسئلہ مبدء و معاد پورا ثبوت کردیا جو نبوت کا اہم کام تھا۔ چوتھی دلیل : (4) واللہ جعل لکم الارض بساطا کہ اللہ نے تمہارے لیے زمین کو فرش بنا دیا۔ نہ زیادہ سخت کیا نہ زیادہ نرم بلکہ رہنے ٹھہرنے ‘ چلنے پھرنے کے قابل۔ نہ یہ مادہ کا کام ہے نہ طبیعت اجسام کا نہ کسی اور کا بلکہ اس علیم و حکیم کا تسلکوا منہا سبلا فجاجا تاکہ تم کشادہ رستوں میں چلا کرو۔ اول دنیا کے گھر کے باشندے بیان فرمائے یعنی انسان اور ان کا بنانا بھی بتایا کہ کس طرح اور کس چیز سے پیدا ہوئے اور کب تک یہاں رہیں گے، آخر کیا ہوجائیں گے۔ پھر اس گھر کی چھت سبع سماوات بیان فرمائی کہ کس صناع نے کس حکمت کاملہ سے اس کو بنایا اور اس کو چاند و سورج سے منور کیا۔ رات میں ماہتاب اور دن میں آفتاب روشنی دیتے ہیں۔ کیسی عمدہ قندیلیں اس حکیم نے روشن کی ہیں اور ان میں نور کا کیا مادہ ڈالا ہے جو ہزاروں برسوں سے اسی طرح چلا آتا ہے اس کے بعد زمین کی کیفیت بیان فرمائی جو اس گھر کا فرش ہے جس سے یہ مقصود کہ دنیا کا گھر فرش اور چھت اور اس کے رہنے والے اسی نے بنائے ہیں پھر اور کسی کا کیا حق اور کون سا حصہ ہے جو اس کو بھی اس کے ساتھ پکارا جاتا ہے۔ سبلا فجاجا میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ کفروبدکاری کے رستے تنگ اور پرخار اور پرخطر ہیں ان پر نہ چلو، توحید و خدا پرستی کا وسیع رستہ ہے اس پر چلو تاکہ منزل سعادت کو پہنچو۔
Top