Tafseer-e-Haqqani - As-Saff : 7
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ وَ هُوَ یُدْعٰۤى اِلَى الْاِسْلَامِ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ
وَمَنْ : اور کون اَظْلَمُ : بڑا ظالم ہے مِمَّنِ افْتَرٰى : اس سے جو گھڑے عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ : اللہ پر جھوٹ کو وَهُوَ يُدْعٰٓى : حالانکہ وہ بلایا جاتا ہو اِلَى الْاِسْلَامِ : اسلام کی طرف وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يَهْدِي : نہیں ہدایت دیتا الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم قوم کو
اور اس سے بڑھ کر بھی کوئی ظالم ہوسکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے حالانکہ وہ اسلام کی طرف بھی بلایا جا رہا ہو اور اللہ (ازلی) ظالم کو تو ہدایت نہیں کرتا
ترکیب : و یعطف الجملۃ اوللاستیناف۔ من مبتداء اظلم مع المفضل علیہ وصلۃ خبرہ وھو یدعٰی قراء لجمہورید عٰی من الدعاء مبنیا للمفعول و قریٔ من الادعاء مبنیا للفاعل وانماعدی بالی التضمین معنی الانتماء والا نتساب والجملۃ حال من فاعل افتری واللہ الجملۃ مقررۃ لمضمون ماقبلھا یریدون جملۃ مبنیۃ لغرضھم من الافتراء لیطفؤا منصوب بان مقدرۃ واللام مؤکدۃ مزیدۃ دخلت علی المفعول لان التقدیر یریدون ان یطفؤا (قال ابن عطیہ) والاطفاء الاخماد واصلہ فی النارواستیعرلما یجری مجرا ھامن الظہور والمرادمن النور القران اوالاسلام اوالنبی ﷺ فنور اللہ استعارۃ تصریحۃ والاطفاء ترشیح واللہ مبتداء متم نورہ الخ خبرہ قرا الجمہور متم نورہ بالاضافۃ وقریٔ بالتنوین واعرابھما ظاہر۔ وبالہدی حال من رسولہ لیظہرہ ای یغلبہ واللام متعلقہ بارسل الدین المرادبہ الجنس ای الادیان ولذاصح تاکیدہ بلکہ ولوا لجملۃ مقررۃ لماقبلھا۔ تفسیر : پہلے ذکر تھا کہ جب وہ رسول کہ جس کے آنے کی خبر چلی آتی تھی ان لوگوں کے پاس نشانیاں لے کر آیا تو اس کو جادو کہنے لگے۔ اب فرماتا ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کون ظالم اور جفاکار ہے کہ اللہ پر جھوٹ باندھے یعنی اس کی آیات کو سحر کہے اور اس کے لیے بیٹا اور جورو قرار دے حالانکہ اس کو کسی بری بات کی طرف نہیں بلایا جاتا بلکہ اسلام کی طرف۔ یہ جفاکار ‘ ہٹ دھرم لوگ ہدایت کا منہ نہیں دیکھیں گے محروم رہیں گے اور رہتے ہیں۔ توضیح :۔ دنیا میں جس قدر مذاہب موجود ہیں یا تھے خواہ ان کی اصل من اللہ تھی اور بعد میں لوگوں کے خیالات نے اس پر قلعی کر کے ان کی اصلی صورت بدل دی یا وہ سرے سے جاہلانہ خیالات اور اوہام باطلہ کا ایک مجموعہ تھا جب ان سب کو حقانی مذہب سے جس کو اسلام کہتے ہیں مقابلہ کر کے دیکھیں گے تو ان میں سینکڑوں جھوٹی اور خیالی آمیزشیں ملیں گی جن پر ان مذاہب کے مروجین نے خداوند تعالیٰ کی خوشنودی اور ناراضی اور نجات و عذاب کو منحصر کیا ہے یہی وہ خدا تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا ہے۔ عیسوی مذہب کو دیکھو۔ تثلیث اور کفارہ اور الوہیت مسیح اور اسی طرح عشائِ ربانی اور اصطباغ کا مسئلہ اور ان کے بعد پوپوں کے سینکڑوں ڈھکوسلے ایسے ہیں کہ جن پر وہ لوگ نجات کا مدار سمجھتے ہیں۔ اسی طرح ہنود نے گائے کی پرستش اور برہمابشن ہمیش کے سوا اور سینکڑوں غیرمرئی چیزوں کی الوہیت و نافع و ضار ہونے کی عقیدت اور خودکشی اور تغیرہیئت جو ان کے جوگیوں اور گشائیوں کا دستور ہے اور گوشت کا ترک اور بتوں کی پرستش اور سینکڑوں دورازقیاس افسانے جو ان کی کتابوں وید اور پرانوں کا سرمایہ ہے نجات اور مکتی اور سعادت دارین کا باعث اور نارائن کی خوشنودی کا سبب قرار دے رکھا ہے۔ اسی طرح عرب کے جاہلوں کے سینکڑوں غلط دستور اور بہت سے جھوٹے افسانے تھے جن کو مرضی الٰہی کا مدار بنا رکھا تھا۔ کہیں کہتے تھے کہ ہمارا فلاں بت قیامت کے روز ہم کو جہنم سے بچا لے گا اور فلاں کو رزق و ارزانی کا مختار کر رکھا ہے وغیرہ وغیرہ۔ افسوس اس انسان کی یہ محنت شاقہ اور یوں رائیگاں گویا پانی کی باڑ آخرت میں نجات کے بدلے عذاب کا باعث ہے۔ اس لیے اس رحیم کریم نے دنیا میں وہ رسول بھیجا جو اس اہم مسئلہ کو حل کر دے اور توہمات و تخیلات باطلہ کو دور کر کے مرضیاتِ الٰہی اور نجات وسعادت انسانی کا سیدھا رستہ دکھائے۔ چناچہ آنحضرت ﷺ نے یہ کام پورا کردیا اور اس سیدھے رستے کا نام خدا تعالیٰ نے اسلام رکھا جس کے ظاہری معنی خدا کی فرمانبرداری اور اس کے آگے گردن جھکانے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ پھر افسوس پر افسوس کہ جب اس گم گشتہ وادی توہمات کو اس سیدھے رستے کی طرف بلایا جاتا ہے تو اس کو نئی بات جان کو چونکتا ہے اور اس پرانے دستور مالوف کا چھوڑنا شاق جانتا ہے اگر اس کو خدا نے چراغ توفیق عطا کیا ہے تو وہ ادھر سیدھا چلا آتا ہے ورنہ اسی داعی کے مقابلے میں ان جھوٹے افسانوں اور تخیلات فاسدہ کو پیش کرتا ہے درحقیقت اس سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا اور اس کو ہدایت بھی نہیں ہوتی۔ یہ ہیں معنی ومن اظلم من افترٰی علی اللہ الکذب وھو یدعٰی الی الاسلام واللہ لایہدی القوم الظالمین کے اسی قدر پر بس نہیں بلکہ اپنے اس ناقص اور قابل ترک مذہب کے غالب کرنے کے لیے اس آسمانی طریقے کو جس کو پچھلا نبی دنیا میں لایا جو اس پر آشوب تاریکی اور پر خطر ظلمات کے لیے نور یعنی شمع ہے اس کو بجھانا بھی چاہتے ہیں یریدون لیطفؤا نور اللہ اور بجھانا بھی کا ہے سے بافواھھم اپنے منہ سے پھونکیں مار مار کر بافواھھم میں اشارہ ہے کہ وہ جو منہ سے من گھڑت افسانے بیان کرتے ہیں اسلام کے مقابل جس کو افتراء علی اللہ کہنا چاہیے ان منہ کی نکلی باتوں سے اسلام کو مٹانا چاہتے ہیں۔ پھر کیا وہ ان سے مٹ سکتا ہے ؟ کیونکہ واللہ متم نورہ ولوکرہ الکافرون۔ اللہ تو اپنی روشنی پوری ہی کر کے رہے گا اس کے منکر شپرہ چشم گونہ چاہیں۔ یہ بات صادق آئی اور اس آسمانی شمع پر جس کا کتاب یسعیاہ کے 41۔ 42۔ 61 بابوں میں اشارہ ہے۔ اس وقت کے مخالفوں کے پھونکے سے نہ بجھی بلکہ وہ خود جل جل کر مرگئے اور یہ شمع اس قدر روشن ہوتی گئی کہ تمام برعرب سے بھی اس کی روشنی نکل کر شام و ایران و خراسان و ممالیک یورپ و ایشیا و افریقہ تک پہنچی اور خلفائے راشدین ؓ کے عہد میں ان کی سچی کوششوں کی چمنی نے اس کو حفاظت میں رکھ کر اور بھی تیز کردیا، اندھوں نے رستہ پایا، راہ راست صاف دکھائی دینے لگی۔ ان کے بعد جو جو تندہوائیں اس پر چلیں وہ اہل تاریخ سے مخفی نہیں۔ باہمی قتال وجدال پھر حرب صلیب کا فتنہ کہ صدیوں تک تمام عیسائیوں نے مل کر زور مارا اور کوئی دقیقہ اس کے گل کرنے میں اٹھا نہیں رکھا مگر آخر وہی جل کر خاکستر ہوگئے۔ پھر چنگیز خانی مغلوں کا حملہ جس نے بغداد جیسے دار اسلام شہر کو نیست و نابود کر یا۔ اس کے کتب خانوں کی سیاہی سے دجلہ کا پانی سیاہ ہوا۔ مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہیں، تب بھی کچھ نہ ہوا۔ نہ قرآن میں ایک حرف کی کمی زیادتی ہوئی، نہ اصول اسلامیہ میں فرق آیا، نہ اس کے علوم مندرس ہوئے اور اب بھی مخالف کوئی کمی نہیں کر رہے اور برائے نام مسلمانوں نے بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ہے۔ کہیں نیچری بن کر اس پر حملہ کیا، کہیں تعزیہ پرستی، گور پرستی اور صدہارسم و رواج کو جزو اسلام بنا کر اس شمع کے گل کرنے کا کافی بندوبست کیا مگر کچھ نہیں ہوا۔ اب اس شمع کی روشنی امریکہ اور یورپ کے دور دراز ملکوں تک بھی جا پہنچی۔ چین و جاپان میں بھی پر توا ڈال دیا۔ یہ شمع چونکہ آسمانی شمع ہے اس کو کون بجھا سکتا ہے اس بات کو اس آیت میں یہ بیان فرماتا ہے۔ ھوالذی ارسل رسولہ بالہدٰی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کا۔ کہ اللہ نے دنیا میں اپنا رسول ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس کو سب دینوں پر غالب کرے یعنی ان غلط آمیزش کے مذہبوں کو بےرونق کرے۔ ایسا ہی کردیا کوئی مذہب بجز اسلام دنیا کے عقلمندوں کے نزدیک توہمات جاہلانہ سے پاک نہیں اور یوں بھی جہاں اس مذہب کے پاک اصول بیان کئے جائیں اور اس کے مقابلے میں دوسرے کے بھی تو یہی غالب آئے گا اور یہی وجہ ہے کہ ممالیک افریقہ میں اور دیگر بلاد میں بغیر کسی کوشش کے خودبخو داسلام پھیلتا جاتا ہے اور نصرانیت شکست کھاتی جاتی ہے۔ کوئی دن جاتا ہے کہ تمام دنیا کا مذہب اسلام ہوجائے گا اور اس کے سچے پیرویوں بھی مخالفوں پر غالب رہے اور رہیں گے۔ ولوکرہ المشرکون مشرکین عیسیٰ (علیہ السلام) کے پوجنے والے پادری اور بتوں اور عناصر کے پوجنے والے ہندوآریہ وغیرہ گو برا مانیں اور زبانی قیل و قال کریں اور اگر مگر کر کے باتیں بنائیں اور اسلام پر جھوٹے الزام لگائیں مگر کیا ہوتا ہے۔
Top