Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Haqqani - As-Saff : 5
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ لِمَ تُؤْذُوْنَنِیْ وَ قَدْ تَّعْلَمُوْنَ اَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ١ؕ فَلَمَّا زَاغُوْۤا اَزَاغَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ
وَاِذْ
: اور جب
قَالَ مُوْسٰى
: کہا موسیٰ نے
لِقَوْمِهٖ
: اپنی قوم سے
يٰقَوْمِ لِمَ تُؤْذُوْنَنِيْ
: اے میری قوم کیوں تم مجھ کو اذیت دیتے ہو
وَقَدْ تَّعْلَمُوْنَ
: حالانکہ تحقیق تم جانتے ہو
اَنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ
: بیشک میں اللہ کا رسول ہوں
اِلَيْكُمْ
: تمہاری طرف
فَلَمَّا زَاغُوْٓا
: پھر جب وہ ٹیڑے ہوئے
اَزَاغَ اللّٰهُ
: ٹیڑھا کردیا اللہ نے
قُلُوْبَهُمْ
: ان کے دلوں کو
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
لَا يَهْدِي
: نہیں ہدایت دیتا
الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ
: فاسق قوم کو
اور (یاد کرو) جبکہ موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے قوم ! تم مجھے کس لیے ستاتے ہو حالانکہ تم جانتے ہو کہ میں تمہارے پاس اللہ کا بھیجا ہوا آیا ہوں۔ پھر جب وہ ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کردیے اور اللہ (ازلی) بدکار قوم کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
ترکیب : واذ منصوب علی المفعولیۃ باضماراذکر۔ والجملۃ مستانفہ مقررۃ لماقبلھا من شناعۃ ترک التقال یا قوم بیان لقولہ قال وقدتعلمون الجملہ حال مؤکدلانکار الایذاء والتقدیر ای توذوننی عالمین علما قطعیا انی رسول اللہ وقد لتحقیق العلم وصیغۃ المضارع للد لالۃ علی استمرارہ۔ واللہ الخ اعتراض تدییلی مقرر لمضمون ماقبلہ من الازاغۃ واذقال عیسیٰ امامعطوف علی اذالاولیٰ معمول لعاملھا وامامعمول لمضمر معطوف علی عاملھا۔ مصدقا حال موکدۃ والعامل فیھا رسول ادبادل علیہ الکلام و مبشرًا حال ایضاً ای ارسلت الیکم حال کونی مصدقا لماتقدمنی من التوراۃ ومبشرا برسول یاتی من بعدی۔ اسمہ الجملۃ فی موضع خبرنعتاً لرسول اوفی موضع نصب حالامن الضمیر فی یاتی۔ تفسیر : پہلے بعض لاف زنوں کی برائی بیان ہوئی تھی اور اللہ کی راہ میں ثابت قدم ہو کر مخالفان راہ راست کے مقابلے کا حکم تھا۔ وہ لاف زن جن کو بسبب ظاہری ایمان کے مومن کے لفظ سے تعبیر کیا دراصل منافق تھے۔ وہ علاوہ لاف زنی کے پیغمبر (علیہ السلام) کی جناب میں اور نیز مخلصین اہل ایمان کے حق میں بدگمانی اور تمسخر بھی کیا کرتے تھے اور ایذائیں بھی دیا کرتے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺ کو تسلی دیتا ہے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں، موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی باوجود صدہا معجزات دیکھنے کے اس کی قوم نے ایذائیں دیں اور اس پاکباز بندے نے سہیں۔ اس لیے فرمایا واذقال موسیٰ لقومہ یا قوم لم تؤذوننی وقدتعلمون انی رسول اللہ الیکم کہ یاد کرو جبکہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کی پے در پے ایذائوں کے بعد ان سے یہ کہا کہ اے قوم ! مجھے کس لیے ستاتے ہو حالانکہ تم جانتے ہو کہ میں تمہارے پاس خدا کا بھیجا ہوا آیا ہوں یوں بھی کسی ہادی اور خیرخواہ قوم کو ستانا برا ہے مگر جبکہ اس بدنصیب قوم کو یقین ہوجائے کہ یہ اللہ کے رسول ہمارے پاس آئے ہیں تو اور بھی برا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم بنی اسرائیل تھی آپ کے صدہا معجزات اس قوم نے مصر میں بھی دیکھے تھے۔ قلزم سے خشکی سے پار لے جانا اور فرعونیوں کا اسی رستے میں غرق ہونا اور نیز فرعون کی قید سے آزاد ہونا اور یدبیضا اور عصٰی اور پتھر میں سے پانی نکلنا، ابر کا سایہ کرنا، من وسلویٰ نازل ہونا وغیرہ سینکڑوں معجزے دیکھے تھے جن سے ان کو آپ کے رسول ہونے کا یقین کامل تھا مگر جبلی شرارت اور ازلی بدبختی سے مجبور تھے پھر بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو طرح طرح سے ستاتے تھے۔ کہیں بچھڑا پوجنے لگے، کہیں قارح وغیرہ ایک جماعت نے موسیٰ (علیہ السلام) سے ہارون (علیہ السلام) کی امامت کی بابت سخت جھگڑا کیا۔ ایک بار عمالیق کے مقابلے کے وقت پھرگئے کہ ہم سے نہیں لڑا جاتا۔ کہیں سفر کی صعوبتوں پر ناخوش ہو کر مصر کی ترکاریاں یاد کر کے موسیٰ (علیہ السلام) کے حق میں سینکڑوں ناشائستہ باتیں کہنے لگے (ازتوریت) اس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ مجھے کس لیے ستاتے ہو۔ آنحضرت ﷺ کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کمال درجے کی مشابہت نبوت میں تھی جیسا کہ توریت سفراستثناء کے اٹھارویں باب اور قرآن مجید کی اس آیت سے ظاہر ہے۔ اناارسلنا الیکم رسولا شاھدًا علیکم کما ارسلنا الی فرعون رسولا۔ اس لیے اس بارے میں خاص حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ یاد دلایا ورنہ اور بہت نبیوں کو ان کی قوم نے ایذائیں دی ہیں۔ کس نبی کے رستے میں قوم نے پھول بچھائے ہیں ؟ بلکہ کانٹے ڈالے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت کا جس طرح ان کی قوم کو یقین کامل تھا اسی طرح آنحضرت ﷺ کی رسالت بھی کسی ہوشمند کی نظر غائر میں مخفی نہ تھی۔ قطع نظر آیات معجزات کے آپ کی سیرت و صورت پاک بھی ایک اعجاز تھی اس کے سوا سب سے اخیر نبی بنی اسرائیل حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آپ کے ظاہر ہونے کی خبر دے چکے تھے اس لیے اس کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت اور نیز خاص ان کا معاملہ بھی ذکر کرتا ہے کہ بنی اسرائیل نے ان کے ساتھ صدہا معجزات و آیات دیکھ کر کیا سلوک کیا ؟ یہ دو نبی حضرت موسیٰ و حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) موجودہ دنیا کے مسلم الثبوت نبی تھے پھر ان کے ساتھ ایذاء اور نافرمانی کا برتاؤ جو ان کی قوم نے کیا ان کی رسالت میں کوئی نقص نہیں پیدا کرتا تو آپ کی شان میں چند منافقوں کا ایذا دہ معاملہ کیا نقص پیدا کرسکتا ہے ؟ پھر جب وہ ٹیڑھے ہوئے تو قضاء وقدر نے ان کے دل بھی ٹیڑھے کردیے۔ بدکام کے کرتے کرتے بدی کا ملکہ اور دل میں کجی پیدا ہوجاتی ہے یہی اللہ کا ٹیڑھا کرنا ہے اور پھر ہدایت بھی نہیں ہوتی اور یہی مراد ہے اس سے کہ اللہ بدقوم کو ہدایت نہیں دیتا۔ یا یوں کہو ازلی بدکاروں کو جو علم الٰہی میں ہمیشہ کے لیے بدکار قرار پا چکے ہیں ہدایت نہیں ورنہ عارضی سینکڑوں بدکاروں کو ہدایت ہوتی ہے اور انہیں کی ہدایت کے لیے قرآن اور نبی (علیہم السلام) آئے بیمار کو حکیم کی زیادہ ضرورت ہے۔ فقال اذقال عیسیٰ بن مریم یا بنی اسرائیل انی رسول اللہ الیکم اور یاد کرو جبکہ عیسیٰ مریم کے بیٹے نے بنی اسرائیل سے کہا کہ میں خدا کی طرف سے تمہارے پاس رسول اور پیغام پہنچانے کو بھیجا گیا ہوں۔ فائدہ : عیسیٰ (علیہ السلام) کو قرآن میں اکثر جگہ ابن مریم کے لفظ سے یاد کیا ہے تاکہ زمانہ موجود کے عیسائیوں کا وہ خیال رد ہوجائے کہ عیسیٰ اللہ کے بیٹے ہیں۔ اس میں اشارہ ہے کہ وہ اللہ کے نہیں بلکہ مریم [ کے بیٹے ہیں۔ (2) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے باوجودیکہ شام میں اور قومیں بھی تھیں مگر خاص بنی اسرائیل یعنی یہود سے کہا کہ میں تمہاری طرف بھیجا گیا ہوں۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تمام جہان کے لیے نبی بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے بلکہ خاص بنی اسرائیل کے لیے گویا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دین کے مصلح اور کامل کرنے والے تھے۔ (انجیل متی باب دسواں درس پانچواں) ۔ (3) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے یا قوم نہ کہا بلکہ یابنی اسرائیل کہا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تو بنی اسرائیل اپنا ہم قوم سمجھتے تھے برخلاف حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے کہ ان کا دنیا میں کوئی باپ نہ تھا ہاں ان کی ماں مریم ضرور اسرائیل کے خاندان سے تھیں اور اولاد کا نسب باپ کی جانب منسوب ہوتا ہے نہ ماں کی طرف۔ اس لیے بنی اسرائیل ان کو اپنی قوم سے شمار کرنے میں کلام کرتے تھے۔ اناجیل میں جو ابن دائود کے لقب سے حضرت کو یاد کیا گیا ہے یہ ان کے معتقدین خاصہ کا کام ہے۔ (4) عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی نبوت کے ثبوت یا اظہار میں علاوہ معجزات و آیات بینات کے دو باتیں کہیں۔ اول مصدقًا لمابین یدی من التوراۃ کہ میں اپنے سے پہلی کتابوں کی یعنی توریت کی تصدیق کرتا ہوں۔ یہی مضمون انجیل متیٰ کے پانچویں باب سترھویں جملے میں ہے۔ ” یہ خیال مت کرو کہ توریت یا نبیوں کی کتاب منسوخ کرنے آیا ہوں۔ میں منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے کو آیا ہوں کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان و زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا شوشہ توریت کا ہرگز نہ مٹے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو۔ “ انتہٰی۔ جن لوگوں میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نبی ہو کر آئے تھے وہ توریت کو مانتے تھے پھر آپ کا اس کی تصدیق کر کے معجزات دکھانا ‘ عمدہ تعلیم دینا ان لوگوں کے لیے صاف نبوت پر یقین دلانے والا امر تھا اور کوئی وجہ سرتابی اور سرکشی کی نہ تھی مگر ازلی بدبختی مانع آئی۔ فائدہ : حضرت مسیح (علیہ السلام) تو توریت کی بابت یہ فرمائیں اور نیک کاموں پر پابند ہونے کی تاکید کریں اور پولس اور اس کے بعد لوتھر وغیرہ جو عیسائیوں کے رسول اور مجتہد اور دینی بزرگ ہیں وہ توریت اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حق میں یوں کہیں اور حلال و حرام کی قید سے آزادی دیں۔ جو شریعت ہی کے اعمال پر تکیہ کرتے ہیں سو لعنت کے تحت ہیں۔ 13 مسیح نے ہمیں مول لے کر شریعت کی لعنت سے چھڑایا کہ وہ ہمارے بدلے میں لعنتی ہوا کیونکہ لکھا ہے جو کوئی (یعنی مسیح) کاٹھ پر (صلیب پر) لٹکایا گیا سو لعنتی ہے۔ 14۔ پر شریعت کو ایمان سے کچھ نسبت نہیں۔ یہ حضرت پولس کے اس خط کے فقرے ہیں جو آپ نے گلیتوں کو لکھا تھا اس کے تیسرے باب میں مذکور ہیں۔ پھر اس خط میں جو عبرانیوں کو لکھا تھا اس کے ساتویں باب میں پولس صاحب توریت کی بابت یہ فرماتے ہیں قولہ ” اگلا حکم اس لیے کہ کمزور اور بےفائدہ تھا اٹھ گیا “ یعنی توریت جو کمزور اور بےفائدہ تھی اٹھ گئی۔ وارڈ صاحب اپنی کتاب اغلطنامہ مطبوعہ 1841 ء کے صفحے 37 میں مارٹین لوتھر کا قول اس کی کتابوں سے نقل کرتا ہے۔ اور یہ مارٹین لوتھر فرقہ پر اٹسٹنٹ کا جو آج کل ہندوستان میں حکومت کر رہا ہے پیشوا اور مصلح دین اور مجتہد ہے۔ مارٹین فرماتے ہیں اپنی ایک کتاب کی تیسری جلد صفحہ 40۔ 41 میں قولہ ” ہم نہ سنیں گے اور نہ دیکھیں گے موسیٰ کو اس لیے کہ وہ صرف یہودیوں کے لیے تھا اور اس کو ہم سے کسی چیز میں علاقہ نہیں “۔ پھر دوسری کتاب میں لکھتے ہیں کہ ” ہم موسیٰ کو قبول نہ کریں گے اور نہ اس کی توریت کو اس لیے کہ وہ دشمن عیسیٰ ہے “۔ پھر لکھتے ہیں ” موسیٰ تو جلادوں کا استاد ہے “۔ پھر لکھتے ہیں ” توریت کے دس حکموں کو عیسائیوں سے کچھ علاقہ نہیں۔ ان کو دور کرنا چاہیے۔ تمام بدعات ان سے موقوف ہوجائیں گی “۔ حالانکہ ان دس حکموں میں یہ باتیں بھی ہیں۔ بت پرستی نہ کرو، ماں باپ کی تعظیم کرو، ہمسایہ کو ایذا نہ دو ، ناحق خون نہ کرو، زنا نہ کرو، جھوٹی گواہی نہ دو وغیرہ۔ پھر لوتھر فرماتے ہیں حرام و حلال کی قید سے آزاد ہوجائو۔ حرام کاری کرو، خون کرو، جس قسم کی چاہو بدکاری کرو اور خوب دلیری سے کرو اور دن میں سو بار کرو مگر صرف مسیح پر ایمان رکھو۔ تمہاری نجات ویسی ہی یقینی ہے جیسا کہ مسیح کی “۔ سب عیسائیوں کا صدہا برس سے بلکہ آنحضرت ﷺ کی بعثت سے پہلے یہی عقیدہ ہوگیا تھا اور اس لیے وہ بدکاریوں اور ہر قسم کے گناہوں کے دریا میں ڈوبے ہوئے تھے۔ دوسری بات : اس لیے حکمت الٰہیہ کا مقتضٰی ہوا کہ ان سب کو سدھارنے کے لیے ایک زبردست رسول قائم کرے اور الہام سے یہ بات کہ عیسائی ایسے ہوجائیں گے اور ان کے پاس اصلی کتابیں بھی نہ رہیں گی اور وہ مجھ کو خدا اور خدا کا بیٹا کہنے لگیں گے آپ کو معلوم کرائی گئی تھی جس لیے آپ نے یہ دوسری بات اپنی نبوت کے ثبوت میں بیان فرمائی۔ ومبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد کہ میں ایک رسول کی خوشخبری بھی دیتا ہوں کہ جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہے البتہ ایک ایسے نبی کی پیشین گوئی نبوت مسیح (علیہ السلام) کی پوری دلیل تھی اور ایسی پیشین گوئی جبکہ اس قوم سرکش نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کو قبول نہ کیا اور ایذارسانی پر کمرباندھ کر کھڑے ہوگئے ضرور تھی تاکہ ان سرکشوں کو تنبیہ کیا جائے کہ ایک ایسا نبی صاحب شوکت بھی آنے والا ہے جو تمہارے بل سیدھے کر دے گا۔ اب ہم کو اس پیشین گوئی کی بابت بحث کرنی ہے ؟ عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح (علیہ السلام) نے جس کی بابت خبر دی ہے اور اس کو فارقلیط سے تعبیر کیا ہے اس سے روح القدس کا نازل ہونا مراد ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد حواریوں پر جبکہ وہ ایک مکان میں مجتمع تھے نازل ہوا تھا۔ جس سے وہ مختلف زبانیں بولنے لگے تھے۔ روح القدس کسی خاص شکل میں دکھلائی نہیں دیا تھا بلکہ ان پر اس کا ایک ایسا اثر ہوگیا تھا جیسا کہ کسی کے سر پر شیخ سدو یا کوئی جن چڑھ کر بولتا ہے اور یہ معاملہ تھوڑی دیر تک رہا تھا اس سے مراد کوئی نبی نہیں جیسا کہ اہل اسلام سمجھتے ہیں۔ فارقلیط میں بحث : قبل اس کے کہ میں فارقلیط کی تحقیق کروں اور اس کے ساتھ جو اور بھی الفاظ ہیں جو کسی طرح روح القدس کے نازل ہونے پر دلالت نہیں کرتے اور روح القدس پر چسپاں نہیں ہوسکتے ان کو بیان کروں عیسائیوں کی دینی کتابوں پر بحث کرتا ہوں کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے بعد سے ہمارے حضرت ﷺ کی بعثت تک ان کا کیا حال تھا ؟ آیا وہ اصلی کتابیں بغیر تحریف و تبدیل کے سب کلیسائوں میں موجود تھیں یا نہیں ؟ اہل کتاب موسیٰ (علیہ السلام) کی پانچ کتابوں کو توریت کہتے ہیں اور پھر حضرت یوشع بن نون خلیفہ حضرت موسیٰ اور دیگر انبیاء (علیہم السلام) کے تصنیف کردہ کتابوں کو ملا کر عہدعتیق اور انجیل اربعہ اور حواریوں کی تاریخ اور ان کے ملفوظات و مکاشفات کو عہدجدید کہتے ہیں اور کبھی عہدعتیق کو کہ جس کو پرانا عہدنامہ یا اولڈ ٹسٹمنٹ بھی کہا کرتے ہیں سب کو توریت کہہ دیتے ہیں اور عہد جدید کو جس کو نیا عہدنامہ یا نیوٹسٹمنٹ بھی کہتے ہیں سب کو انجیل کہہ دیتے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر جو کلام الٰہی الہام ہوا تھا اب خواہ ان کو کوہ طور پر ہوا ہو یا دیگر مقامات پر اصل توریت جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے وہی ہے اور ہونا بھی چاہیے اور اس کے برحق ہونے میں کچھ بھی کلام کسی ایماندار کو نہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس توریت کو کاغذوں پر لکھوایا تھا یا لکڑی کے تختوں پر یا اور کسی چیز پر اس کا پورا پتا دریافت کرنا مشکل بات ہے۔ خواہ کسی چیز پر لکھوایا ہو مگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے صدیوں بعد تک وہ کتاب (جس کا غالباً ایک ہی نسخہ ہوگا کاغذ و کتابت کی قلت کی وجہ سے) بنی اسرائیل میں رہی کسی خاص دن میں لوگ اس کو پڑھا بھی کرتے تھے اور اس کا وعظ بھی سنتے تھے اور وہ کتاب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے صندوق شہادت میں رکھوا دی تھی۔ جیسا کہ توریت سفر استثناء کے اکتیسویں باب کے چوبیسویں جملے میں ہے۔ قولہ ” اور ایسا ہوا کہ جب موسیٰ اس شریعت کی باتوں کو کتاب میں لکھ چکا اور وہ تمام ہوئیں تو موسیٰ (علیہ السلام) نے لاویوں کو جو خداوند کے عہد کے صندوق کو اٹھاتے تھے فرمایا کہ اس شریعت کی باتوں کو لے کر خداوند اپنے خدا کے عہد کے صندوق کے ایک بغل میں رکھو تاکہ وہ تمہارے برخلاف گواہ رہے “۔ انتہٰی۔ شریعت کی کتاب توریت ہی تھی ورنہ اس کے سوا اور کوئی کتاب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے عہد میں ثابت نہیں ہوتی۔ پھر رحبعام بادشاہ یہود کے عہد میں ایک بار مصر کا بادشاہ سیسق بنی اسرائیل پر چڑھ آیا۔ وہ بیت المقدس کا تمام سامان لوٹ کرلے گیا 1 ؎ جو اس کے باپ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے تیار کیا تھا اور اسی حادثے میں وہ کتاب اور صندوق بھی غارت ہوا۔ مگر اول کتاب السلاطین کے آٹھویں باب نویں درس سے یوں ثابت ہوتا ہے کہ وہ کتاب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے عہد سے پہلے ہی حادثوں میں جاتی رہی تھی کیونکہ اس میں لکھا ہے کہ ” سلیمان نے جب وہ صندوق کھولا تو بجز دو لوحوں کے اس میں سے اور کوئی چیز نہیں نکلی “۔ اس عہد سے لے کر یوسیاہ بادشاہ کے عہد تک جو حضرت مسیح (علیہ السلام) سے تخمیناً چھ سو چوبیس برس پہلے تھا توریت کا کہیں پتا نہ تھا مگر اس کے عہد میں اٹھارویں سال خلقیاہ سردار کاہن نے دعویٰ کیا کہ میں نے خداوند کے گھر میں توریت کی کتاب پائی ہے۔ (2۔ کتاب السلاطین باب 22) اس کے بعد یوسیاہ نے تمام قوم کو جمع کر کے یہ کتاب جس میں احکام شرعی تھے سنوائے اور اسی کا نام توریت تھا۔ فرض کر کہ اس عرصہ دراز تک کوئی توریت سے واقف بھی نہ تھا صرف خلقیاہ کو کسی جگہ سے مل گئی اور اس میں کوئی کمی بھی نہ ہوئی نہ کوئی ورق کم ہوا نہ عبارتیں مٹیں مگر یہ بھی اس کے بعد بخت نصر کے حادثے میں دنیا سے معدوم ہوگئی جیسا کہ کتب تواریخ شاہد ہیں۔ پھر ستر برس کے بعد حضرت عزیر (علیہ السلام) اور دیگر انبیاء نے احکام شریعت و دستورات عبادت و بعض روایات کو اپنی یادداشت سے لکھا۔ عام اہل کتاب اسی کو توریت کہتے ہیں کہ ازسرنو اس کو لکھوایا مگر یہ نہیں ثابت ہوتا۔ بلکہ یہی کہ دینی دستورات و روایات کو یاددداشت کے موافق جمع کیا تھا مگر اس کے بعد انٹیوکس ابی فلنس سر یا کے بادشاہ نے سن عیسوی سے ایک سو ستر برس آگے یروشلم پر کئی بار چڑھائی کی۔ ایک بار اس نے چالیس ہزار یہودیوں کو قتل کیا اور تمام کتابوں کو تلاش کر کے جلا دیا اور بیت المقدس کو مسمار کر کے اس کی جگہ بت خانہ بنا دیا اور کئی کروڑ کا قیمتی اسباب لے گیا۔ مقابیس کی پہلی کتاب کے اول باب میں ہے کہ ” انٹیوکس نے یروشلم کو فتح کر کے عہد عتیق کی کتابوں کے جتنے نسخے اسے ملے پھاڑ کر جلا دیے اور حکم دیا کہ جس کے پاس کوئی کتاب عہد عتیق کی نکلے گی یا وہ شریعت کی رسم بجا لائے گا مارا جائے گا اور ہر مہینے میں یہ تحقیقات ہوتی تھی “۔ انتہٰی۔ اس حادثے میں حضرت عزیر (علیہ السلام) وغیرہ انبیاء کی تصانیف یا ان کے بعد جو شمعون صادق نے تخمیناً دو سو بانوے برس مسیح (علیہ السلام) کے پہلے یادداشت کے طور پر یا توریت کی سنی سنائی باتیں لکھیں اور اسی کو یہود توریت سمجھتے تھے وہ بھی سب کچھ اس حادثے میں تلف ہوگیا اور یہود بالکل دینی کتابوں اور احکام شریعت سے بےبہرہ ہوگئے۔ یہ عہد عتیق پر تیسرا حادثہ تھا جو بہت بڑا حادثہ تھا۔ اس کے بعد یہوداہ مقابیس نے سن عیسوی سے تخمیناً ایک سو پینسٹھ برس پہلے پھر بیت المقدس کی تعمیر شروع کی اور حضرت عزیر (علیہ السلام) کی طرح یادداشت پر عہدعتیق کی نقل جمع کی۔ پھر یہی نسخہ بنی اسرائیل میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کے عہد تک بلکہ ان کے بعد تک توریت اور کتب انبیاء سمجھا جاتا تھا اور یہ صرف ایک ہی نسخہ تھا جو بیت المقدس میں وہرا رہا کرتا تھا مگر 70 عیسوی میں روم کا شہزادہ یہودیوں کی سرکشی اور بدعہدی کی وجہ سے بڑے طیش میں آ کر شہر یروشلم پر چڑھ آیا اور محاصرے کے بعد شہر کو غارت کیا اور بیت المقدس کو بالکل مسمار کردیا اور گیارہ لاکھ یہودیوں کو قتل کیا اور بہت کو غلام بنایا اور کتابوں اور بیشمار اسباب اور بیت المقدس میں آگ لگا دی جس کا شعلہ آسمان تک بھڑک اٹھا اور اس نسخے کو اپنے ساتھ روم میں لے گیا جیسا کہ بعض اہل کتاب کا خیال ہے (مفتاح الکتاب رومن صفحہ 21۔ مطبوعہ مرزا پور 1856 ئ) پھر جب توریت کا یہ حال ہوا تو اور کتب انبیاء (علیہم السلام) زبور وغیرہ کیونکر ان حوادث میں بچ رہے ہوں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کا توریت کی تصدیق کرنا اور وعظ فرمانا اور اسی طرح حواریوں کا اس سے سند لینا اکثر تواریخ سے ثابت ہے پھر جب اصل توریت دنیا میں موجود نہ تھی تو یہ کیونکر ہوا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کسی تاریخ اور قوی روایت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے حواری کرام نے یہ شہادت دی ہو کہ یہ وہی توریت اور صحف انبیاء (علیہم السلام) ہیں اور ان میں کسی جگہ تحریف و تبدیلی نہیں ہوئی نہ کمی زیادتی اور ہرگز ہرگز وہ حضرات نہیں کہہ سکتے تھے کس لیے کہ کیا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا جنگ نامہ اور یا ہوغیب بین کی کتاب اور اسی طرح اور کتابیں جن کی تعداد پندرہ بیس کے درمیان ہے منقود ہوگئیں اور کیا آپ کو اتنی بھی خبر نہ تھی کہ کتاب استثناء کا اخیر باب اور کتاب یشوع کا اخیر باب اور دیگر مقامات کو جن میں ان چیزوں کا ذکر ہے کہ جو حضرت موسیٰ و یوشع (علیہما السلام) کے سینکڑوں برس بعد پیدا ہوئیں ہرگز ہرگز موسیٰ و یوشع ( علیہ السلام) کا کلام نہیں بلکہ بعد میں کسی اور نے ملا دیا اور اس ملانے والے نے حاشیہ و تفسیر کا بھی کوئی امتیاز نہیں رکھا اور نہ اپنا نام ظاہر کیا۔ یوں خوش اعتقادی سے چاہو حضرت عزیر (علیہ السلام) کا نام لے لو یہ اور بات ہے اسی طرح زبورات و دیگر صحف انبیاء کے مصنفین میں آج تک علمائے اہل کتاب کو اختلاف ہے پھر کیوں ان کی بابت حضرت مسیح (علیہ السلام) نے فیصلہ نہیں کردیا ؟ اور سامریوں نے اپنی توریت میں عیسیال پہاڑ کی جگہ جرزین بنا لیا اور ہر ایک دعویٰ کرتا تھا کہ توریت میں ہمارے موافق ہے۔ سامری کہتے تھے کہ جرزین پہاڑ پر حکم ہوا تھا اصلی ہیکل ہماری ہے اور یہود کہتے تھے نہیں بلکہ عیسیال پہاڑ پر بنانے کا حکم ہوا تھا وہ اصلی ہیکل ہماری ہے۔ پھر حضرت مسیح (علیہ السلام) نے (جبکہ ایک سامری عورت نے آپ سے اس کا فیصلہ پوچھا۔ یوحنا 4۔ باب 19 و 25) تو اس کا بھی کوئی فیصلہ نہ کیا اور دونوں میں سے کسی ایک کو بھی جھوٹا یا سچا نہ بتایا۔ اور ممکن ہے کہ توریت کی تحریف اور اصلی حال بھی کھول دیا ہو مگر لکھنے والوں نے نہ لکھا ہو کیونکہ آپ کی بہت سی باتیں نہیں لکھی گئیں جیسا کہ انجیل یوحنا کے 20 باب۔ 30 درس اور 21 باب ‘ 25 درس میں تصریح ہے۔ اور جبکہ حال کے روشن دماغ توریت کے طرز کلام کو دیکھ کر فوراً یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ کتاب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بہت دنوں بعد تاریخ کے طور پر کسی نے جمع کی ہے۔ چناچہ لنڈن میں ایک بشپ 1 ؎ (پادری) (1 ؎ کلنزو۔ 12) نے توریت کی بابت اپنی یہی رائے ظاہر کی جس پر وہ اس عہدہ سے معزول کیا گیا۔ پھر اس کی اپیل اس نے کی۔ پھر کیا حضرت مسیح (علیہ السلام) کو معلوم نہ ہوا ہوگا خصوصاً جبکہ یہود کی دیانت داری اور سخن پروری اور حق پوشی کا ان کو صدہا باتوں سے یقین کامل ہوگیا تھا اور عیسیال اور جرزین کے مقدمے میں ایک گروہ دوسرے پر تحریف کا الزام لگا رہا تھا۔ طیطس کے بعد روم کے بت پرستوں کی طرف سے جو سخت سخت حادثے اہل کتاب پر پڑے وہ ایسے تھے کہ ان میں جان بچانا بھی مشکل تھا پھر ایسی کتاب کہ جس کے متعدد نسخے نہ ہوں اور سامان کتابت میسر نہ آنے کے سبب تختیوں یا موٹے بدنما کاغذوں پر لکھی ہوئی ہو کہ جو کئی اونٹوں پر لادی جائے کیونکر بچ سکتی تھی ؟ اور جو بچی بھی تو یہ کیونکر یقین ہوسکتا ہے کہ اس میں سے کوئی جزو یا ورق یا حصہ کم نہیں ہوا۔ اب ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ تھا تو یہ کتابیں جو اہل کتاب کے پاس بالفعل موجود ہیں اور موسیٰ (علیہ السلام) اور دیگر انبیاء (علیہم السلام) کی بھی استشہاد کی طرف منسوب ہیں وہ کہاں سے آگئیں ؟ اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے عہد تک بھی اہل کتاب کے پاس تھیں جن کا قرآن میں متعدد جگہ ذکر ہے اور آنحضرت (علیہ السلام) نے بھی استشہاد کے طور پر ذکر کیا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح علمائِ اہل کتاب پچھلے حادثوں میں (جہاں توریت کا دنیا سے مفقود ہوجانا یقینا ثابت ہوتا ہے) یادداشت کے طور پر نام نہاد ان اصلی کتابوں کو جمع کرتے رہے۔ اسی طرح ان حادثات کے بعد کسی نے اصل توریت کے مطالب پر جو پچھلے نسخوں میں جمع تھا اور مسائلِ شریعت اور حکایات و روایات کو اپنی یادداشت سے اور کسی سے سن سنا کر یا کوئی شکستہ و برباد شدہ پہلے نسخوں کا حصہ بہم پہنچا کر جمع کیا اور اس کا نام توریت و زبور وغیرہ رکھا۔ یہ دستور اہل کتاب میں نیا نہیں۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے بعد خلقیاہ سردار کاہن نے کیا جبکہ دنیا میں کوئی بھی توریت کا واقف کار نہ رہا تھا اس کے بعد بابل کی اسیری کے بعد حضرت عزیر (علیہ السلام) وغیرہ انبیاء نے مل کر کیا اس کے تلف ہوجانے کے بعد شمعون صادق نے کیا جب اینٹوکس گروی میں یہ بھی جاتا رہا تو مقابیس کا جمع کردہ ذخیرہ طیطس گروی میں جاتا رہا تو پھر اور کسی نے جمع کرلیا ہوگا۔ توریت موجودہ میں اور اسی طرح زبور وغیرہ دیگر صحف انبیاء (علیہم السلام) میں اصل توریت وغیرہ کے الہامی مطالب بھی ہیں اور دیگر رطب و یابس روایات و حکایات بھی ہیں اس لیے جہاں تک یہ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کے موافق ہیں ٹھیک ہیں ورنہ غلط یا منسوخ۔ چناچہ نورالانوار وغیرہ کتب اصول فقہ میں علمائے اسلام نے اس کی تصریح کردی ہے اور صحیح بخاری کی ایک حدیث بھی یہی کہہ رہی ہے۔ لاتصدقوا اھل الکتاب ولاتکذبوھم (الحدیث) کہ ان کی تصدیق کرو نہ تکذیب۔ یہ وہاں ہے جہاں کتاب و سنت ساکت ہو اور چونکہ اس مجموعے میں اصل توریت کا خصوصاً احکام شریعت میں ایک بڑا حصہ تھا پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) یا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا یہود کو احکام شرعیہ کی مخالفت پر الزام دینے کے لیے ان کے زعم کے موافق اس کو استشہاد میں لانا ‘ اس کا حوالہ دینا یا اس کی تعظم کرنا اس بات کی شہادت نہیں ہوسکتی کہ ان بزرگواروں نے بلاکم وکاست اس کتاب کو اصلی اور غیرمحرف مان لیا ہے یا کسی مؤرخ کا ان کے حوالے دینے سے بھی اس بات کی شہادت نہیں ہوسکتی۔ لاتصدقوا۔ کا فقرہ جو خاتم المرسلین ﷺ کے منہ مبارک کا نکلا ہوا ہے اور اسی طرح حضرت مسیح (علیہ السلام) کا یہود کے حق میں یہ فرمانا قولہ ” پس تم نے اپنی روایت سے خدا کے حکم کو باطل کیا “ انتہٰی۔ انجیل متی 15 باب 6 درس۔ اس بات کی طرف صاف صاف اشارہ کر رہا ہے اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کا یہ قول کہ ” میں توریت کو مٹانے نہیں آیا بلکہ پورا کرنے آیا ہوں “ اس بات کی شہادت نہیں کہ وہ موجودہ کتاب کو اصلی اور غیرمحرف کہہ رہے یہ اس کے احکام کی بابت ہے کہ جن کو یہود نے ترک کردیا تھا خواہ وہ احکام کسی کتاب میں کسی نے درج کئے ہوں یا سینہ بسینہ چلے آتے ہوں۔ اس کے سوا عیسائیوں کے قدما محققین بوقت مباحثہ یہود پر یہ بھی الزام قائم کرتے تھے کہ تم نے بہت سی پیشین گوئیاں کتاب مقدس سے نکال ڈالیں۔ چناچہ جسٹن نے جو عیسائیوں کا بڑا عالم تھا طریفون سے جو ایک یہودی عالم تھا مباحثے کے وقت یہ کہا۔ اس بات کو یوسی بلیس مؤرخ اپنی کتاب چہارم کے 18 باب میں لکھتا ہے اور علاوہ اس کے صدہا مقامات میں اختلاف اور غلط ہونا جس کی تفصیل علمائِ اسلام نے کتب مناظرات میں کی ہے اس بات کی صاف دلیل ہے کہ یہ وہ توریت نہیں اگر اس میں اصلی حصہ بھی ہے تو اس کے ساتھ لوگوں کا کلام بھی اس طرح مخلوط ہوا ہے کہ امتیاز کرنا مشکل ہے۔ پھر اس کے بعد بھی جو کچھ تبدیل و تغیر اہل کتاب کی غفلت یا بددیانتی سے اس میں واقع ہوئی وہ بھی کتاب مذکور کو قابل اعتبار نہیں ہونے دیتی اور اس بات کا ذکر ابھی کسی قدر آتا ہے اس لیے سینکڑوں محققین یورپ نے اور دیگر مؤرخین نے اقرار کرلیا ہے کہ اصلی توریت جاتی رہی۔ انجیل شریف : اس کا حال تو توریت مقدس سے بھی زیادہ افسوسناک ہے۔ اس میں کوئی شبہ بھی اہل اسلام کو نہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ نے کتاب نازل کی تھی کماقال واتینٰہ الانجیل کہ ہم نے عیسیٰ کو (نہ کسی اور کو) انجیل عطا کی۔ انجیل کے حضرت مسیح (علیہ السلام) کو دیے جانے سے ان کو صرف قوت الہام و بشارات دیا جانا مراد لینا ایک بیکار توجیہ اور سست تاویل ہے۔ اب ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ کتاب کتنی بڑی تھی اور کس طرح اور کس وقت لکھی گئی تھی ؟ اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کی موجودگی میں کس کے پاس رہا کرتی تھی ؟ مگر یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے اپنے الہامات کو جمع کرایا تھا اور یہی وہ کتاب مقدس انجیل تھی جس پر اہل اسلام کو ایمان لانا ضرور ہے۔ نصاریٰ اس بات کو نہیں مانتے۔ وہ کہتے ہیں مسیح (علیہ السلام) پر کوئی خاص کتاب نازل نہیں ہوئی تھی ‘ نہ آپ نے اپنے اہتمام سے ان الہامات کو جمع کرایا تھا جس کے گم کردینے کا الزام ہم پر لگایا جاتا ہے بلکہ الہامات کو حواریوں نے ان کے بعد جمع کیا۔ حواریوں کی جمع کردہ کتابیں ہی انجیل ہیں۔ مگر پولس کے خطوط سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ضرور حضرت مسیح (علیہ السلام) کے عہد میں حضرت کی کوئی کتاب تھی پولس اس خط میں جو گلیتوں کو لکھا ہے اس کے اول باب کے 6 جملے سے 10 تک کہتا ہے۔ قولہ ” میں تعجب کرتا ہوں کہ تم اتنی جلدی اس سے جس نے تمہیں مسیح کے فضل میں ملا دیا پھر کے دوسری انجیل کی طرف مائل ہوئے سو وہ دوسری انجیل تو نہیں مگر بعض ہیں جو تم کو گھبراتے ہیں اور مسیح کی انجیل الٹ دینا چاہتے ہیں لیکن اگر ہم یا کوئی آسمان کا فرشتہ سوائے اس انجیل کے جو ہم نے سنائی دوسری انجیل تمہیں سنائے سو ملعون ہو “۔ انتہٰی۔ یہ لوگ کہ جن سے پولس خطاب کر رہا ہے دوسرے عیسائی واعظوں کے تابع ہو کر بدعات کی طرف متوجہ ہوئے تھے جن کو پولس انجیل حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیروی پر آمادہ کرتا ہے۔ اس عہد میں ان چاروں اناجیل کا جواب انجیل متی و انجیل مرقس و انجیل لوقا و انجیل یوحنا کے نام سے نامزد ہیں وجود بھی نہیں تھا کس لیے کہ یہ انجیلیں اس خط لکھنے کے بعد لکھی گئیں جیسا کہ تواریخ میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے۔ پھر بتلاؤ کہ وہ کون سی انجیل اس وقت پولس کے پاس تھی جس کو وہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی انجیل کہتا اور اس کی پابندی پر مامور کرتا ہے ؟ معلوم ہوا کہ وہی انجیل کہ جس کا ہم نے ذکر کیا اور اسی طرح انجیل مرقس کے 16 باب 15 درس میں بھی اس انجیل کا ذکر ہے قولہ ” اور اس نے کہا کہ تم تمام دنیا میں جا کے ہر ایک مخلوق کے سامنے انجیل کی منادی کرو “۔ اور یہ بھی تعجب کی بات ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس مصیبت کے سفر میں توریت لکھیں۔ حضرت یوشع (علیہ السلام) کو اس لڑائی کے وقت کتاب لکھنے کی فرصت ملے۔ اسی طرح اور اور انبیاء (علیہم السلام) کے صحیفے ان کے روبرو لکھے جائیں مگر حضرت مسیح (علیہ السلام) کو نہ فرصت ملے نہ وہ حکم الٰہی سے اس ضروری کام پر مامور ہوں ؟ پھر اگر انجیل چند بشارات وتعلیم ہی کا نام تھا اور اس نام کی کوئی کتاب نہ تھی تو حواریوں کو اپنی کتاب کا نام انجیل پر رکھنا کس نے بتا دیا اور اس کی ان کو کیوں ضرورت ہوئی اور کس لیے اس بات کی طرف ان کا دل للچایا اور ان کے بعد پھر سینکڑوں انجیلیں پیدا ہوگئیں۔ ضرور ایک کتاب اس نام کی تھی جو خاص حواریوں 1 ؎ کے پاس رہتی تھی جس پر انہوں نے بھی اپنی اپنی کتابوں کے نام تبرکاً اور اعتبار جمانے کے لیے انجیل رکھے اور بعد تک یہ دستور جاری رہا۔ مگر پولس کے عہد کے بعد سے خصوصاً جبکہ یہ چاروں انجیلیں مشہور ہوئیں اس اصلی انجیل کا نام و نشان بھی سننے میں نہ آیا۔ (1 ؎ ہارن مفسر اپنی کتاب کی چوتھی جلد میں کہتا ہے کہ ” قدیم علماء کا قول ہے کہ متی اور مرقس اور لوقا کے پاس عبرانی میں ایک صحیفہ تھا جس میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کے حالات تھے اور انہوں نے اس سے نقل کیا۔ متی نے بہت لوقا اور مرقس نے تھوڑا “۔ انتہٰی۔ فاضل نورتن نے اپنی کتاب علم الاسناد مطبوعہ شہر بوسٹن 1837 ء کے دیباچہ جلد اول میں اکھارن کا قول نقل کیا ہے کہ ” ابتدائے ملت مسیحی میں ایک کتاب تھی جائز ہے کہ یہ وہی اصل انجیل ہو “۔ ) فرقہ ابیونی کے پاس عبرانی کی ایک انجیل تھی جس کو وہ بارہ حواریوں کی انجیل کہتے تھے۔ یہ ساری باتیں ہمارے خیال کی مؤید ہیں۔ 12 منہ) اس کے مفقود ہونے کا زمانہ ان بےانتہا مصائب کا زمانہ ہے جو اول ہی صدی میں عیسائیوں پر پڑیں اور سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ دشمنان دین مسیحی نے حواریوں سے وہ نسخہ چھین کر تلف کردیا۔ اس کے بعد حواریوں نے یادداشت کے طور اس کے مضامین اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کے تاریخی واقعات کو لے کر جمع کر کے اس کا نام انجیل رکھا اور کچھ عجب نہیں کہ ہر ایک نے اپنی انجیل مروج کرنے کے لیے اس تسلی سے کہ اس کے مضامین بھی تو اس میں ہیں اصل نسخے کو طاق نسیاں میں ڈال دیا جو شدہ شدہ مفقود ہوگیا ہر چہ باشد مگر ضرور حضرت مسیح (علیہ السلام) کی عبرانی زبان میں ایک کتاب انجیل تھی جو سینکڑوں برسوں سے مفقود ہے بلکہ دوسری صدی عیسوی سے اس کا پتا نہیں۔ حفظ کا رواج نہ تھا، قلمی نسخوں کی قلت تھی اس پر ہر ایک کو اپنے اپنے پیرومرشد انجیلی کے انجیل پر تکیہ تھا کہ پس یہی تو وہ ہے بلکہ مع شے زائد اس لیے اس کے مفقود ہوجانے کی پروا نہ کی۔ اہل اسلام کے سے ان کے نہ طبائع تھے نہ حافظے کہ خدا کے کلام کو جدا محفوظ رکھتے اور پیغمبر کی احادیث و تاریخ کو جدا۔ نہ خدا کو یہ منظور تھا نہ اس کی حفاظت کے اسباب پیدا کئے۔ جس مصلحت سے اس نے اگلے انبیاء (علیہم السلام) کے صحیفوں کو مفقود ہونے دیا آنے والے خاتم المرسلین (علیہ السلام) کی کارگزاری کی وجہ سے اس کے بھی مفقود ہونے کو روا رکھا۔ تلک حکمۃ بالغۃ۔ اب جن کو عیسائی انجیل کہتے ہیں کسی قدر انہیں کا حال بیان کرتا ہوں وھوھذا۔ انجیل متی ‘ انجیل لوقا ‘ انجیل مرقس ‘ انجیل یوحنا۔ حواریوں کے اعمال یعنی تاریخ پولس کے خطوط یعقوب کا خط وغیرہ۔ ان اناجیل میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات اقوال و افعال مندرج ہیں۔ طرز تحریر کہہ رہا ہے آنکھوں دیکھے یا سنے سنائے حالات لکھتے ہیں نہ الہام کا دعویٰ ہے نہ الہامی طور ہے نہ الہام کی حاجت ان کتابوں میں واقعات کی نسبت کمی زیادتی بھی ہے اور مخالفت بھی پائی جاتی ہے۔ ان کتابوں کو عیسائی منزل من اللہ جانتے ہیں مگر لطف یہ ہے کہ نہ ان کے مصنفوں کی نبوت ثابت ہے نہ کوئی معجزہ ان سے سرزد ہونا ثابت ہوتا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ تعجب ہے کہ لوقا اور مرقس حواری نہیں اور متی اور یوحنا جو حواری ہیں تو حواریوں میں بڑے رتبے کے نہیں ان سے بڑے بڑے مقرب حواری شمعون پطرس وغیرہ تھے ان کی کوئی انجیل نہیں۔ ان کتابوں کے سوا تخمیناً ایک سو تیس اور کتابیں ہیں کہ جن میں عیسائیوں کے ہاں اختلاف ہے یا یوں کہو اختلاف تھا۔ قدماء نے ان میں بعض کو الہامی بعض کو غیرالہامی مانا اور متاخرین نے اس میں خلاف کیا اور بعض کتابوں کو الہامی تو نہیں مگر جس طرح اہل اسلام حدیث کی کتابوں کو مانتے ہیں وہ بھی ان کو اسی مرتبے میں سمجھتے ہیں۔ انہیں میں سے برنباس حواری کی انجیل ہے۔ متی نے انجیل عبرانی زبان میں لکھی تھی۔ لارڈنر نے اپنی کتاب مطبوعہ 1827 ء بمقام لنڈن کے صفحہ 574 جلد دوم میں ارجن کے تین قول نقل کئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کی انجیل عبرانی تھی۔ اور اسی طرح یوسی بیس اور جروم وغیرہ عیسائیوں کے بڑے بڑے عالم اس کے قائل ہیں۔ اور ہارن مفسر نے اپنی تفسیر جلد چہارم میں ان کے اقوال نقل کئے اور یہ بھی لکھا ہے کہ اس کی تصنیف 37 ء یا 38 ء میں ملک یہودیہ میں ہوئی۔ اور 61 ء میں پھر اس کا عبرانی سے یونانی زبان میں ترجمہ ہوا 1 ؎۔ مگر تحقیق یہی ہے کہ متی نے نہیں بلکہ کسی اور شخص نے ترجمہ کیا۔ پادری فانڈراختتام دینی مباحثہ مطبوعہ سکندرہ اکبر آباد 1855 ء کے صفحہ 37 میں کہتا ہے کہ یا حواریوں کے کسی مرید نے اس کا ترجمہ یونانی میں کیا ہے۔ انتہٰی۔ 1 ؎ پادری اسکاٹ اپنی تفسیر رومن میں انجیل متی جو عبرانی میں تھی اس کا زمانہ تصنیف 63 ء بتاتا ہے۔ 12 منہ اصل عبرانی انجیل متی کا اب کیا صدیوں سے دنیا میں نشان نہیں۔ کسی کلیسا میں نہیں اور اس کے مفقود ہونے پر تمام عیسائی متفق ہیں۔ اب اس کے مفقود ہونے کی جو وجہ خیال میں آئے وہی اصل انجیل کی سمجھ لینی چاہیے۔ اب رہا ترجمہ یونانی اول تو مترجم کا حال یقینی طور پر معلوم نہیں کہ وہ کس لیاقت اور کس دیانت کا آدمی تھا ؟ پھر یہ بھی معلوم نہیں کہ دراصل یہ اس کتاب عبرانی کا ترجمہ ہے یا اور نئی کتاب ہے ؟ اور پھر یہ بھی نہیں معلوم کہ ترجمہ صحیح ہے یا غلط اور غلط ہے تو کس قدر ؟ کیونکر یہ باتیں اصل سے مطابق کئے بغیر معلوم نہیں ہوسکتیں اور اصل کا دنیا میں نشان بھی باقی نہیں اور اس انجیل یونانی کے اول اور دوسرے باب کو عیسائیوں کے محقق ڈاکٹر ولیمس وغیرہ اور نیز عیسائیوں کا ایک فریق جس کو یونی ٹیرن کہتے ہیں الحاقی اور جعلی کہتے ہیں۔ اور خصوصاً باب اول میں جو نسب نامہ ہے مسیح (علیہ السلام) کا اس میں تو ایسی فاحش غلطیاں ہیں جن کی بابت مفسرین انجیل کو کوئی جواب بھی بن نہیں پڑتا مگر اور عیسائی اس کو بھی الہامی مانتے ہیں۔ پھر فارقلیط کی بشارت میں الحاق ہونا کون سی بڑی بات ہے۔ انجیل مرقس : مرقس کا اب تک صحیح حال بھی عیسائیوں کو معلوم نہیں کہ وہ کس ملک میں پیدا ہوا اور کس برس میں عیسائی ہوا صرف اتنی بات کہتے ہیں کہ وہ پطرس حواری کا شاگرد ہے اور اس نے پطرس وغیرہ لوگوں سے سن کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حالات لکھے اور اس کتاب کے سن تالیف بھی بخوبی معلوم نہیں۔ پادری اسکاٹ دیباچہ تفسیر رومن صفحہ 239۔ 240 میں کہتا ہے ٹھیک معلوم نہیں کہ کس وقت یہ صحیفہ لکھا گیا مگر گمان غالب ہے کہ اس کی تصنیف 56 ء اور 63 ء کے درمیان ہوئی اور بالاتفاق شہر روم میں اس نے یہ کتاب تصنیف کی اور رومیوں کے لیے لکھی تو لاطینی یعنی رومی زبان میں لکھی گئی کس لیے کہ رومی لوگوں کی زبان لاطینی ہے مگر اس اصل نسخے کا اب تک پتا نہیں ہاں اس کا ترجمہ یونانی موجود ہے۔ اب اول تو مرقس کی نبوت ثابت نہیں پھر الہام تو درکنار۔ دوم پطرس اور پولس اس کے راوی ہیں لیکن وہ اپنے شیوخ کا ذکر تک بھی نہیں کرتا اور یہ بات پوری شبہ پیدا کرنیوالی ہے۔ سوم اصل کتاب مفقود ہے ترجمے میں کلام ہے۔ انجیل لوقا : یہ بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں میں سے نہیں بلکہ پولس کا شاگرد ہے نہ اس شخص کا پورا حال دریافت ہوا کہ کہاں کا باشندہ تھا 1 ؎ اور کس کے ہاتھ پر دین میں داخل ہوا اور اس کی اصل زبان کیا تھی اور یہ انجیل اس نے کب لکھی اور کس زبان میں لکھی اور جبکہ متی اور مرقس کی انجیل تصنیف ہوچکی تھی تو پھر اس کو انہیں باتوں کے قلمبند کرنے کی کیا ضرورت پڑی تھی کیا وہ اس کے نزدیک پایہ ثبوت کو نہیں پہنچی تھیں اس کا سن تالیف بھی قیاسی طور پر 64 ء بیان ہوا ہے۔ یہ کہیں نہیں کہتا کہ میں رسول ہوں اور جو کچھ لکھتا ہے الہام سے لکھتا ہے۔ اس کی روایت بھی مقطوع ہے کیونکہ یہ اپنے شیوخ کا ذکر تک بھی نہیں کرتا۔ انجیل یوحنا : یہ یوحنا حواری کی طرف منسوب ہے اس کی تالیف کا زمانہ بھی تخمینی ہے یعنی تخمیناً سویں عیسوی میں یعنی عروج مسیح سے ستر برس بعد۔ مگر یہ بھی الہام اور رسول ہونے کا مدعی نہیں۔ اس کے طرز بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ مبالغہ بھی اس کے کلام میں ہے چناچہ اسی انجیل کے 12 باب 25 درس میں یہ ہے کہ مسیح (علیہ السلام) کے حالات میں کتابیں جو لکھی جاتیں تو دنیا میں نہ سماتیں۔ ہرگز یہ صحیح نہیں کس لیے کہ اگر کوئی حضرت مسیح (علیہ السلام) کا روزتولد سے آخر تک روزنامچہ بھی لکھتا اور فرض کرلو کہ ایک روز کے حالات ایک کتاب میں درج ہوتے تو بھی وہ سب کتابیں یروشلم میں سما سکتی تھیں۔ دنیا تو بڑی وسیع ہے اور ایک عجیب بات یہ ہے کہ دوسری صدی میں لوگوں نے انجیل یوحنا کی بابت کلام کیا کہ یہ ان کی تصنیف نہیں۔ اس وقت آرنیوس موجود تھا اور یہ پولی کا رب کا شاگرد تھا اور پولی کا رب یوحنا حواری کا۔ مگر آرنیوس نے اپنے دادا استاد کی کتاب پر شہادت نہ دی۔ معلوم ہوا کہ اس کو بھی شک تھا یا اس کے استاد نے ذکر بھی نہیں کیا تھا وگرنہ ایسے موقع پر سکوت کرنا کوئی وجہ نہیں رکھتا۔ اس کے سوا کا تلک ہر لڈ کی چوتھی جلد مطبوعہ 1833 ء صفحہ 205 میں یہ ہے۔ استاڈلن نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ انجیل یوحنا ؎ ا گو بعض پادریوں نے انطاکیہ لکھ مارا۔ 12 منہ۔ مدرسہ اسکندریہ کے کسی طالب علم کی تصنیف ہے اس میں کوئی بھی شبہ نہیں اور اسی طرح محقق برتیشنیڈر کہتا ہے کہ یوحنا کی تصنیف ہے نہ یہ انجیل ہے نہ اور رسائل بلکہ دوسری صدی عیسوی میں کسی اور شخص نے تصنیف کر کے ان کے نام سے مشہور کردیے کہ لوگوں میں اعتبار ہو۔ جب ان چاروں انجیلوں کی یہ کیفیت ہے تو اور کتابوں کا کیا ذکر ہے۔ پولس کے خطوط اور بعض دیگر رسائل جواب عہد عتیق میں شامل ہیں مدتوں عیسائیوں میں غیرمعتبر مانے گئے۔ تحریف : تحریف نے جو بعد میں ان کتابوں میں ہوئی اور بھی اعتبار کھو دیا اور عیسائیوں کے مقدس لوگوں میں خاص پہلی ہی صدی سے اس بات نے کہ جھوٹ بول کر بھی دین میں کوشش کرنا امر محمود ہے جیسا کہ پولوس کہتا ہے اور بھی کتب مقدسہ کی بےاعتباری کردی اور جبکہ یہ طوفانِ بےتمیزی موجزن تھا کہ آپ تصنیف کرنا اور رواج دینے کے لیے کسی مشہور اور معتبر آدمی کے نام سے منسوب کردینا جیسا کہ یونانیوں کا قدیم شیوہ تھا ان عیسائیوں کا بھی انہیں یونانی نسلوں کی جماعت میں داخل ہوجانے سے بائیں ہاتھ کا کرتب ہوگیا تھا اور جس وقت عیسائیوں پر مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ رہا تھا اور زمین میں ان کے لیے کوئی جگہ امن کی نہ تھی اور یہ بات روم کے بت پرست ظالم بادشاہوں اور ان کے عمال اور رعایا سب کی طرف سے صدیوں تک رہی ہے اور اس وقت جان بچانا ہی غنیمت تھا تلاش کر کر کے کتابیں جلائی جاتی تھیں اور جس کے پاس کوئی ورق بھی نکلتا تھا تو شکنجے میں کھینچ دیا جاتا تھا اس وقت اس کام کا ایسے چالاکوں کے لیے بڑا موقع تھا کہ آپ تصنیف کر کے جس حواری کے نام چاہا لگا دیا پوچھنے والا اور تحقیق کرنے والا ہی کون تھا اور جس کتاب میں جو چاہا کم زیادہ کردیا۔ درحقیقت اس طوفان کے زمانے میں کتب سابقہ کو جیسا کچھ صدمہ پہنچا بیان سے باہر ہے۔ پرانے یونانی اور سریانی زبان کے ترجمے سپٹوا جنت وغیرہ سب ہی پر تو آفت آئی اور جب امن کا زمانہ چوتھی صدی عیسوی میں آیا اور عیسائیوں کے ہوش و حواس بجا ہوئے تو اب کتب مقدسہ کی تلاش کرنے لگے اور جو کوئی کتاب بہم پہنچاتا تھا تو بڑی قدردانی سے لے جاتی تھی۔ اس میں کوئی بھی شبہ نہیں کہ ان کتابوں کے بھی (جو اس طوفان کے پہلے تھیں خواہ وہ کیسی ہی ہوں جیسا کہ پہلے معلوم ہوا) کچھ نسخے ہاتھ لگے ہوں گے کیونکہ استیصال کلی خلاف تجربہ ہے اور ان میں سے بہت مفقود بھی ہوگئی ہوں گی۔ اسلامی مصنفوں کی بہت سی کتابیں مفقود ہیں اور جو کتاب حفظ کے ذریعے سے صدہا آدمیوں کے سینے کے صندوقوں میں محفوظ نہ رکھی جائے جیسا کہ قرآن مجید اور صرف دو ایک قلمی نسخوں ہی پر اس کے وجود کی بنیاد ہو جیسا کہ کتب مقدسہ ان کا ایسے حوادث میں پورا رہ جانا سمجھ میں نہیں آسکتا۔ پھر کسی کتاب کا جو بہم پہنچی ہوگی اول و آخر ندارد۔ کسی کا اول نہیں اخیر ہے کسی کا اخیر نہیں اول ہے۔ کوئی درمیان سے کم ہے، کسی کے چند اوراق کو کیڑا چاٹ گیا۔ کسی کے کچھ اوراق پانی سے بھیگ کر باہم مل گئے اور اب جو چھڑائے گئے تو کچھ پڑھا نہیں جاتا اور کبھی کچھ پڑھا بھی جاتا ہے تو صاف نہیں۔ پھر اس نقصان کو پورا کرنے کے لیے کسی کا اول بنایا گیا کسی کا اخیر کسی کے بیچ میں سے جملے بنا کر ملائے گئے اور کہیں جو یہ معلوم نہیں ہوا کہ کس کی تصنیف ہے اس کے مطالب کی شان پر نظر کر کے ایسے ہی شخص کی طرف منسوب کردی گئی اور یہی سبب ہے کہ کتب عہد کے مؤلفوں میں علماء ِاہل کتاب کا اختلاف ہے ایک کتاب ہے، کوئی کہتا ہے یہ فلاں شخص کی تصنیف ہے، کوئی کہتا ہے دوسرے شخص کی ہے۔ اور یہی اسباب ہیں جن سے ان انجیلوں اور پرانی کتابوں کے باہم نسخوں میں اس قدر اختلاف ہے کہ جس کا ٹھکانا نہیں۔ اور ان کتابوں کی تو یوں ترمیم کی اور جو نہ ملیں اور نام یاد تھے ان کی جگہ نئی تصنیف انہیں کے ناموں سے کی گئیں، کسی نے تصنیف کر کے کسی کے، کسی نے اور دوسرے کے نام لگائیں اور پھر تو وہ بازار گرم ہوا کہ صدہا مصنف اٹھ کھڑے ہوئے۔ ایک سو کئی ایک انجیلیں نکل پڑیں اور حواریوں کے خطوط و ملفوظات کا تو کچھ شمار ہی نہ رہا۔ کسی جوانمرد نے ایک خط گھڑ کے یہ بھی اڑا دی کہ یہ آسمان سے گرا ہے، حضرت مسیح ( علیہ السلام) نے لکھ کر بھیجا ہے۔ علماء کی مجالس اس تحقیق کے لیے آمادہ ہوئی ہوں گی اور جہاں تک ہوسکا تحقیق کی مگر پھر بھی بہت جگہ پتا نہ چلا۔ اس بیان کی تصدیق کے لیے شہر نائس اور دیگر شہروں میں جو مجلسیں ہوئیں ان میں فہرست کتب مقدسہ جو پیش ہوتی رہی وہ غور کے قابل ہے کہ کسی مجلس میں کوئی کتاب، کسی مجلس میں اور دوسری معتبر ٹھہری۔ پھر دوسری مجلس نے پہلی مجلسوں کے حکم کو رد کر کے اور چند کتابیں داخل کردیں اور بعض کتاب اور بعض کے چند ابواب و فقرات پر خط کھینچ دیا۔ اور اسی لیے عیسائی مذہب کے بہت سے فرقے ہوگئے اور ان کا اصل کتب مقدسہ میں بھی اختلاف ہے۔ مانی کا فرقہ اور یونی ٹیرن وغیرہ چند ان کتابوں کو نہیں مانتے جن کو اور عیسائی مانتے ہیں اسی طرح رومن کا تلک اور پر اٹسٹنٹ فرقے میں اختلاف ہے اور بہت سے محققین تو بول اٹھے کہ صرف ظنی اور قیاسی طور پر یہ کتابیں حواریوں اور ان کے شاگردوں کی طرف منسوب کی جاتی ہیں ورنہ ثبوت یقینی کچھ بھی نہیں۔ اس بیان کی شہادت نسخوں کے اختلاف سے بھی ہوسکتی ہے۔ وارڈ اپنی کتاب غلط نامہ میں لکھتا ہے کہ ڈاکٹر مل نے جو عہدجدید کے نسخے ملائے تو تیس ہزار اختلاف پائے اور ڈاکٹر گربسیاخ نے جو اور زیادہ نسخوں کا مقابلہ کیا یعنی تین سو پچپن کا تو ڈیڑھ لاکھ اختلاف ملے اگر اور زیادہ نسخوں کا مقابلہ کیا جاتا تو اور بھی اختلافات نکلتے۔ یہ صرف انجیل کے اختلافات ہیں۔ اس بات کو پادری فنڈز نے بھی تسلیم کرلیا ہے۔ (اختتام مباحثہ دینی مطبوعہ اکبرآباد) ہم پادری مذکور کی عبارت نقل کر کے اپنے تمام بیان کی تصدیق کرائے دیتے ہیں۔ قولہ ” اگرچہ ہم لوگ قائل ہیں کہ بعض حروف و الفاظ میں تحریف وقوع میں آئی اور بعض آیات کے مقدم و مؤخر اور الحاق کا شبہ ہے تو بھی انجیل کو بےتحریف کہتے ہیں اس لحاظ سے کہ اس کا مضمون اور مطلب نہیں بدل گیا “۔ میکیلس صاحب ڈاکٹر نبٹلی صاحب کا قول اپنے عہدجدید کے دیباچہ جلداول صفحہ 263 میں نقل کرتے ہیں کہ ” جن لوگوں کے پاس صرف ایک ہی قلمی نسخہ بچا ہوا تھا جیسے رومی اور یونانی ان میں یہودی معلموں کے ایسے قصور پائے گئے ہیں اور ان کی اصلاح میں ایسے عیب ملے ہیں کہ باوجود دو پوری صدیوں کے نہایت عالم اور تیزفہم نکتہ چینوں کی محنتوں کے وہ کتابیں اب تک غلطیوں کا انبار ہیں اور اسی طرح رہیں گی “۔ انتہٰی۔ پادری صاحب کو اختیار ہے یا یوں اور کتابوں اور آیتوں کے تبدل و تغیر و الحاق پر بھی اور مصنفوں کے نام معلوم نہ ہونے پر وہ اپنی کتاب کو بلاتحریف کہیں مگر لطف یہ ہے کہ پادری فنڈر صاحب یہ بھی صفحہ 130 میں کہتے ہیں قولہ کہ ” یہ بات سچ ہے ویریوس ریڈنگ (غلطی کتابت) بہت ہیں اور ہر حال میں تمام یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ صحیح کون ہے صفحہ 131۔ پہلے یوحنا کے 5 باب کے 7‘ 8۔ آیتیں اور یوحنا کے 5 باب کی پہلی سے 11 آیت تک کو اکثر مصححین مشتبہ جانتے ہیں ان کے سوا صرف دو آیات اور ہیں جن کی صحت پر شبہ ہے یعنی یوحنا کے 5 باب کی 4 آیت اور اعمال کے 8 باب کی 27 آیت “ انتہی۔ کیا اب بھی پادری صاحب کو انجیل کی تبدیل و تحریف میں کوئی شبہ ہے اور عجیب تر یہ ہے کہ ان مشکوک اور الحاقی آیات کو اب تک انجیل میں لکھ رکھا ہے۔ خیر یہ تو جو کچھ تھا سو تھا اس کے بعد جب پوپوں کا دور دورہ ہوا اور بت پرستی اور جہالت کی گھٹا عیسائیوں پر چھائی اور 400 عیسوی کے قریب شمال کی جانب سے بہت سے بت پرست اور وحشی اور ظالم و جاہل قوموں نے قیصروں پر حملہ کیا اور جہاں ان کا غلبہ ہوا انہوں نے مدرسوں اور کتب خانوں اور علم اور دین کی کتابوں کو جلا کر نیست و نابود کردیا۔ اس پر آشوب حادثے سے شب تاریک سے زیادہ تاریکی عیسائیوں پر زمانہ دراز تک چھائی رہی اور اسی زمانہ میں آفتاب ہدایت مکہ سے جلوہ گر ہوا۔ اس حادثے کے بعد جب بدحواسی دور ہوئی تو پھر کتابوں اور علم کی درستی کی طرف التفات ہوا۔ اب خودغرضوں کو اور بھی تحریف و تبدیل کا موقع ہاتھ آیا، دیدہ و دانستہ کتاب میں کم زیادہ کرنا اہل کتاب کا قدیم دستور ہے بلکہ اپنے اغراض کے مخالف کتابوں کا جلا دینا بھی ان کا پیشہ قدیم ہے۔ چناچہ ڈاکٹر کنی کاٹ کہتا ہے کہ عہدعتیق کے عبری تمام قلمی نسخے جن کا موجود ہونا اب ہم کو معلوم ہے ایک ہزار اور ایک ہزار چار سو ستاون عیسوی کے درمیان کے لکھے ہوئے ہیں اس سے وہ یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ اس سے پیشتر کے نسخے یہودیوں نے معدوم کردیے اور بشپ والٹن اس بیان کی تصدیق کرتے ہیں۔ عیسائیوں میں جعلسازی کا بازار تو پہلی ہی صدی عیسوی سے گرم ہوگیا تھا۔ چناچہ پولس کے عہد میں جھوٹی انجیل اور جھوٹے واعظ پیدا ہوگئے تھے اور خود پولس بھی دین کے رواج دینے کے لیے جھوٹ بولنا پسند کرتا ہے (دیکھو وہ خط جو رومیوں کو لکھا تھا اس کا 3 باب) اور جب دوسری صدی میں مباحثے کے بعد ارجن کی رائے کو مان لیا گیا کہ غیرقوموں سے مباحثے کے وقت حکماء کا طور اختیار کرلینا چاہیے اس سے عیسائیوں کی راستبازی میں فرق آنے لگا اور اسی سبب سے جعلی تصانیف پیدا ہونے لگیں کیونکہ فیلسوف جب کسی کے طریقے کی پیروی کرتے تھے تو اس کے نام سے ایک کتاب تصنیف کر کے مشہور کردیتے تھے۔ یہ دستور کئی سو برس تک رہا اور رومی کلیسا میں جاری رہا جو بہت ہی خلاف حق اور قابل الزام شدید تھا۔ (تاریخ کلیسا) ۔ ہارن صاحب اپنی تفسیر کی دوسری جلد مطبوعہ لنڈن 1822 ء صفحہ 331 میں لکھتے ہیں کہ بلاشک بعض خرابیاں (تحریفات) جان بوجھ کر ان لوگوں نے کیں ہیں جو کہ دیندار مشہور تھے اور اس کے بعد انہیں تحریفات کو ترجیح دی جاتی تھی تاکہ اپنے مطلب کو قوت دیں یا اعتراض اپنے اوپر آنے نہ دیں۔ انتہٰی۔ اب میں ان پرانے نسخوں کا کہ جن پر اہل کتاب کو ناز ہے اختلاف باہمی اور ایک کی دوسری سے کمی و زیادتی چھوڑ کر جو تفصیل طلب بیان ہے اہل کتاب کی ایک تھوڑی سی خیانت بتاتا ہوں۔ وہ یہ کہ اگر آپ جب سے مطبوع ہونا شروع ہوا ہے مطبوعہ نسخے صرف انجیل کو ملا کر دیکھیں۔ پھر جرمن اور انگریزی اور فرنچ زبان کے مطبوعہ اور ان کے ساتھ اردو، فارسی، عربی کے بھی رکھ لیں۔ پھر دیکھئے کیا کچھ تفاوت نہ صرف الفاظ میں بلکہ مطالب و معانی میں آپ کو معلوم ہو وے اور قلمی نسخوں کو بھی سامنے رکھ لو تو پریشان ہوجائو۔ صرف اردو کے نئے اور پرانے چھپے ہوئے نسخوں کو ملاحظہ فرمائیے کہ پہلے لفظ فارقلیط لکھا جاتا تھا۔ جب دیکھا کہ اہل اسلام اس سے سند پکڑتے ہیں تو یہ لفظ ہی نکال ڈالا اور اس کی جگہ روح کا لفظ لکھ دیا کسی نے وہیں یعنی کر کے تفسیر بھی کردی اور اس کو متن میں شامل کردیا تاکہ کسی کو کچھ پتا نہ لگے۔ اور یہ جو آج کل پادری انجیل چھپی ہوئی اور صاف اور عمدہ کاغذ پر لکھی ہوئی جاہلوں کو دکھا کر کہا کرتے ہیں کہ ” تمام انجیل اس موافق ہیں۔ اس میں تحریف دکھائو کہاں ہے۔ اور اگر یہ محٹرف ہے تو ٹم اصلی انجیل اور غیڑمحڑف دکھائو۔ یہ خڈاونڈ عیسیٰ مسیح کا انجیل ہے “۔ محض دھوکا اور جاہلانہ گفتگو ہے۔ جب وہ اصلی انجیل اول اور دوسری صدی عیسوی میں مفقود بھی ہوگئی جس طرح کہ متی حواری کی عبرانی انجیل مفقود ہوگئی اور اب جو عبرانی انجیل متی ہے تو یہ یونانی ترجمہ کا ترجمہ ہے تو ہم کہاں سے دکھائیں۔ جو لوگ دنیا میں نہیں رہے اور عالم ہستی سے ان کا نام و نشان ہی مٹ گیا تو اب ان کو کوئی کہاں سے ملا کر دکھائے۔ پھر کیا کوئی فرضی شخص ان کے نام سے وہی ہوسکتا ہے ؟ اور خداوند کی یہ انجیل نہیں۔ یہ متی، مرقس، لوقا، یوحنا کی ہے۔ خداوند کی تو وہ انجیل تھی جس کو پولس کہتا ہے کہ میرے پاس ہے اور قطعاً وہ ان چاروں انجیلوں کے سوا تھی کس لیے کہ ان کا تو دیکھنا بھی پولس کو ثابت نہیں اور قرآن مجید میں اس انجیل کا ذکر ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی قرآن مجید میں متی، مرقس، لوقا، یوحنا کی انجیل کا ذکر تک نہیں۔ پھر یہ مسلمانوں پر کس طرح حجت ہوسکتی ہے ؟ ان سے جو مضامین نقل کرتے ہیں تو محض تمہارے قائل کرنے کو کیونکہ تم ان کو مانتے ہو ورنہ ہمیں کچھ ضرورت نہیں اور جو کوئی کوڑھ مغز مسلمان ان کو انجیل سمجھے یہ اس کی جہالت ہے جس کا وہی ذمہ دار ہے نہ اور مسلمان۔ اور ان متعدد انجیلوں کے منکر کو انجیل شریف کا منکر قرار دینا جہالت پر جہالت ہے۔ اب ہم مبشرًا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد کی تفسیر کرتے ہیں۔ ان اناجیل میں بھی کہیں اس کا نام و نشان ان دیندار عیسائیوں کے ہاتھ سے جو قصداً تحریف کیا کرتے تھے باقی رہ گیا ہے کہ نہیں ؟ انجیل یوحنا میں جانے کیونکر اس بشارت کو ان دینداروں نے باقی رہنے دیا اس انجیل میں متعدد جگہ اس بشارت کا پتا ملتا ہے۔ میں انجیل یوحنا جو عربی زبان میں ترجمہ ہو کر شہر لنڈن میں 1833 ء و 1831 ء میں چھپی ہے اس سے نقل کرتا ہوں۔ چودھویں باب کا سولہواں جملہ یہ ہے۔ قولہ “ اور میں اپنے باپ سے درخواست کروں گا اور وہ تمہیں اور فارقلیط دے گا کہ ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے (یعنی روح حق جسے دنیا حاصل نہیں کرسکتی کیونکہ نہ اسے دیکھتی ہے نہ جانتی ہے لیکن تم اسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتی ہے اور تم میں ہو ویگی “۔ (26۔ ” لیکن وہ فارقلیط (جو روح حق ہے) جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہ تمہیں سب چیزیں سکھا دے گا اور سب باتیں جو میں نے تم سے کہیں ہیں یاد دلائے گا “۔ 29۔ ” اور اب میں نے تمہیں اس کے واقع ہونے سے پیشتر کہا کہ جب وہ واقع ہو تو تم ایمان لائو “۔ 30۔ ” بعد اس کے میں تم سے بہت کلام نہ کروں گا اس لیے کہ اس جہان کا سردار آتا ہے اور مجبور ہیں اس کی کوئی بات نہیں۔ 15 باب 26 درس۔ پھر جب وہ فارقلیط جسے میں تمہارے لیے باپ کی طرف سے بھیجوں گا (یعنی روح حق جو باپ سے نکلتی ہے) آئے تو وہ میرے لیے گواہی دے گا اور تم بھی گواہی دو گے کیونکہ تم شروع سے میرے ساتھ ہو “۔ 16۔ باب 7 درس۔ ” لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تمہارے لیے میرا جانا ہی بہتر ہے کیونکہ اگر میں نہ جائوں تو فارقلیط تمہارے پاس نہ آئے پس اگر میں جائوں تو اس کو تمہارے پاس بھیج دوں گا “۔ 8۔ ” اور وہ اگر دنیا کو گناہ پر اور راستی پر اور عدالت پر سزا دے گا گناہ پر اس لیے کہ وہ مجھ پر ایمان نہیں لائے ‘ راستی پر اس لیے کہ میں باپ پاس جاتا ہوں اور تم مجھے پھر نہ دیکھو گے عدالت پر اس لیے کہ اس جہان کے سردار پر حکم کیا گیا۔ میری اور بہت باتیں ہیں کہ جن کو تم سے کہوں لیکن تم ان کی اب برداشت نہ کرسکو گے پھر جب روح حق آئے گا تو ساری سچائی کی راہ تم کو بتا دے گا کس لیے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں غیب کی خبریں دے گا اور میری بزرگی بیان کرے گا “۔ یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا کلام یوحنا حواری نقل کرتا ہے جو حضرت ( علیہ السلام) نے اپنے ساتھ یہود کی بدسلوکی اور تدبیر قتل سے خبر پا کر حواریوں سے کیا تھا۔ اس کلام میں آپ اپنا دنیا سے تشریف لے جانا ظاہر فرماتے ہیں اور حواریوں کے غمگین دلوں کو ایک آنے والے فارقلیط سے تسلی دیتے ہیں اور یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ وہ فارقلیط آ کر میری بزرگی بیان کرے گا اور جن لوگوں نے مجھے نہیں مانا اور مجھ پر موت کا حکم لگایا یعنی ان کو ملزم اور سزاوار ٹھہرائے گا اور وہ فارقلیط جہان کا سردار اور مجھ سے زیادہ بلند مرتبہ ہے اس کی کوئی بات مجھ میں نہیں۔ ہم کہتے ہیں یہ بشارت ہمارے نبی پاک کی ہے۔ آنحضرت ﷺ کے تشریف لانے کی آپ بشارت دے رہے ہیں اور آنحضرت ﷺ کا نام احمد بھی ظاہر کر رہے ہیں کس لیے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) عبرانی زبان میں کلام کرتے تھے اور عبرانی میں صاف احمد ﷺ کا لفظ ذکر کیا تھا۔ اہل کتاب کی عادت ہے کہ وہ جب کسی کلام کا ترجمہ کرنے بیٹھتے ہیں تو ناموں کا بھی ترجمہ کردیا کرتے ہیں اس کے بہت سے نظائر موجود ہیں۔ پھر جب یوحنا کے کلام کا یونانی میں ترجمہ کیا تو احمد ﷺ کا ترجمہ بھی کردیا اور یونانی زبان میں پیرکلوطوس لکھ دیا جس کے معنی ہیں احمد ﷺ یعنی بہت سراہا گیا یا بہت حمد کرنے والا۔ پھر جب یونانی سے عبرانی میں ترجمہ کیا تو اس کا معرب فارقلیط کردیا۔ عیسائی کہتے ہیں یونانی نسخوں میں پاراکلی طوس ہے جس کے معنی معین ‘ وکیل کے ہیں۔ اگر پیرکلوطوس ہو تو بیشک احمد یا محمد ﷺ کے قریب قریب اس کے معنی ہوتے ہیں۔ اول تو یہ کچھ بڑا تفاوت نہیں کس لیے کہ بعض زبانوں میں رسم الخط دیکھا جاتا ہے کہ وہ اعراب کی جگہ حروف مفردہ ہی لاتے ہیں۔ اور بعض خطوط میں سرے سے اعراب ہی نہیں جیسا کہ ہندی خط اس میں ایسے اختلاف کی بڑی گنجائش ہے۔ قدیم یونانی خط کا بھی یہی حال ہے۔ اس میں گل کو گال، گیل ہر طرح سے پڑھ سکتے ہیں۔ پھر پیر کا تلفظ پارا اور کلوکا کلا یا کلے کوئی بڑی بات اور زیادہ تفاوت نہیں۔ دوم یہ بھی تسلیم کرلیا جائے کہ یہ تفاوت تلفظ اور خط میں اعراب نہ ہونے کے سبب سے نہیں بلکہ دراصل یوں ہی ہے جیسا کہ کہتے ہیں تو بھی ہمارا مدعا ثابت ہے کس لیے کہ ہمارے حضرت ﷺ کا نام معین اور وکیل بھی ہے۔ تو بھی ایک نام سے نہیں دوسرے نام سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا بشارت دینا ثابت ہوتا ہے۔ سوم جن دینداروں نے بقول ہارن صاحب اعتراض سے بچنے کے لیے یا مخالف کا مدعا ثابت نہ ہونے دینے کی وجہ سے یا اپنا مدعا ثابت کرنے کے لیے انجیل و توریت میں بہت جگہ تحریف و تبدیل کی ہے اور عبارت کو گھٹایا یا بڑھایا ہے تو یہ ذرا سی تحریف و تبدیل ان سے کیا بعید ہے ؟ ایسی کمی و بیشی کرنے سے عیسائیوں نے فارقلیط کے آنے سے روح کا نازل ہونا مراد لے لیا اور پھر اس مطلب کو قوی کرنے کے لیے یہاں تک خیانت کی کہ متن میں یعنی کر کے روح کی تفسیر کو بھی ملا دیا۔ یہ ظاہر ہے کہ یہ یعنی تو حضرت مسیح ( علیہ السلام) کا کلام نہیں نہ یوحنا نے بڑھایا۔ یہ تو بعد میں کسی دیندار پادری صاحب نے کاریگری کی ہے مگر بڑے شرم کی بات ہے کہ عبارت میں تحریف آپ پکار رہی کہ مجھ میں تحریف ہو اور پادری صاحب ہیں کہ انکار کر رہے ہیں۔ یہ وہی مثل ہے کہ غلامی کا داغ ماتھے پر موجود مگر غلامی کا انکار۔ اگر پادری صاحبوں کے اگلے بزرگواروں کو اتنی گنجائش اس بشارت میں نہ ملی کہ وہ اس کو نزول روح پر چسپاں کرتے تھے تو بخدائے لایزال اس کو کتاب ہی میں سے نکال ڈالتے مگر ان کو یہ کیا خبر تھی کہ اس بشارت میں جو اور بھی الفاظ ہیں وہ اس کو نزول روح پر چسپاں نہیں ہونے دیں گی اور مسلمانوں کے ہاتھ میں ایک حجت الزامی آجائے گی۔ اور ایک تعجب کی بات ہے کہ ستر برس بعد یوحنا حواری کو تو یہ بشارت یاد رہی کہ اس نے اپنی کتاب میں لکھ دی مگر متی اور مرقس اور لوقا کو ان سے پہلے یاد نہ آئی ان میں سے کسی نے بھی اس کا ذکر تک نہیں کیا اور یہ کوئی ایسی چھوٹی بات نہیں تھی بلکہ اپنے سے زیادہ مرتبے والے کے آنے کی خبر تھی جس پر ایمان لانے کے لیے حضرت مسیح (علیہ السلام) نے کیسا اہتمام کیا۔ ہمارا یقین ہے کہ ضرور ذکر کیا ہوگا مگر اس وقت یا اس کے بعد یاروں نے اس کا باقی رکھنا مصلحت نہ سمجھا کس لیے کہ ان کی بشارتوں میں آنحضرت ﷺ کے ظہور کا پورا پورا پتا ہوگا تاویل کی گنجائش نہ ہوگی۔ اس کتاب میں تاویل کی گنجائش دیکھی اس کو رہنے دیا مگر کسی قدر ادھر ادھر سے تراش کر اپنے موافق کرلیا مگر تو بھی موافق نہ ہوئی۔ اور ان الحاقات اور کتابوں میں گھٹائو بڑھائو کرنے کا حال ہمارے بیان سابق سے جو کتب مقدسہ کی بابت تھا آپ کو بخوبی معلوم ہوگیا ہوگا۔ دوامر اور بھی غور طلب ہیں اول یہ کہ ہمارے حضرت ﷺ کے عہد سے پہلے تک اس فارقلیط کو عیسائی کوئی آدمی اور بڑا اولوالعزم شخص خیال کرتے تھے کہ ضرور ایک ایسا شخص جو دین عیسوی کا معین اور مددگار اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا طرفدار ظاہر ہوگا اور اس لیے دوسری صدی عیسوی میں مننس عیسائی نے جو بڑا پرہیزگار اور عالم تھا یہ دعویٰ کیا تھا کہ جس کے آنے کی حضرت مسیح ( علیہ السلام) نے خبر دی ہے اور ایشیائے کو چک میں ہزاروں عیسائی اس پر ایمان لے آئے۔ (دیکھو تاریخ کلیسا ولیم میور مطبوعہ 1848 ئ) اس کے سوا دوستہیوس، شمعون مجوسی وغیرہ چوبیس اشخاص نے آدرین قیصر کے عہد سے لے کر سن ایک ہزار چھ سو بیاسی 1682 ء کے قریب تک فارقلیط ہونے کا دعویٰ کیا۔ (تفسیر رومن اسکاٹ مطبوعہ الٰہ آباد صفحہ 186) ۔ پھر کیا ان کو انجیل یوحنا بھی معلوم نہ تھی اور پادریوں کی بھی تاویل سے واقف نہ تھے کہ فارقلیط سے روح مراد ہے نہ کہ انسان۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ جو ایک شے بقول پادریان سرے سے ہی نہیں تو اس کا ان لوگوں نے کیونکر دعویٰ کرلیا ؟ یہ بات اور ہے کہ وہ دراصل اس فارقلیط کے مصداق نہ تھے مگر اس زمانے میں یہ بات ہر ایک عیسائی جانتا تھا کہ فارقلیط کوئی انسان آنے والا ہے جیسا کہ اسلامیوں میں مہدی آخرالزمان کے آنے کی ایک ایسی مشہور خبر ہے کہ جس کو سب جانتے ہیں اس بناء پر آج تک بہت سے بوالہوسوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کردیا۔ اگر مسلمان اس کو جانتے ہی نہ ہوتے یا وہ مہدی سے مراد کسی فرشتہ کا نازل ہونا لیتے کہ وہ صحابہ ؓ کے عہد میں نازل ہوچکا تو پھر کسی کو بھی اس عہدے کی تمنا نہ ہوتی۔ لب التواریخ کا مصنف لکھتا ہے کہ ” محمد ﷺ کے معاصر یہودی اور عیسائی ایک نبی کے منتظر تھے۔ اس بات نے محمد ﷺ کو فائدہ بخشا اور آپ نے کہہ دیا وہ میں ہوں “۔ انتہٰی۔ وہ نبی حضرت عیسیٰ و یحییٰ (علیہما السلام) کے ظاہر ہونے کے بعد تک بھی انتظار کیا جاتا تھا۔ دوم بہت سے عیسائیوں نے جو آنحضرت ﷺ کے عہد میں تھے اس بات کا اقرار کیا کہ آپ کا ذکر انجیل میں ہے منجملہ ان کے حبشہ کا بادشاہ نجاشی جو انجیل و توریت کا بڑا عالم تھا منجملہ ان کے جارودبن علاء ہے جو عیسائی اور بڑا عالم تھا اپنی قوم کے ساتھ حاضر خدمت ہو کر اسلام لایا اور اقرار کیا کہ آپ کا ذکر انجیل میں ہے۔ معلوم ہوا کہ اس وقت تک یہ بشارت ان حبشی اور عربی عیسائیوں میں بدلی نہیں گئی تھی۔ اب ہم لفظ فارقلیط پر اور دیگر الفاظ پر بحث کرتے ہیں اور عیسائیوں کے شبہات کا جواب دیتے ہیں۔ بحث اول۔ فارقلیط : یہ کس زبان کا لفظ ہے۔ اس میں کئی اقوال ہیں۔ بعض کہتے ہیں زبان خالدیہ کا لفظ ہے جو بابل اور اس کے اطراف کی زبان تھی اور اسی کو کلدیہ اور کلدانی بھی کہتے ہیں مگر مجھے اس میں کلام ہے کس لیے کہ یہ بشارت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی زبان مبارک سے فرمائی تھی اور یہ مسلّم ہے کہ حضرت کی زبان عبرانی تھی جو ملک یہودیہ کی زبان ہے۔ آپ کو کلدانی زبان کا لفظ بولنے کی کیا ضرورت تھی۔ مگر یہ ممکن ہے کہ کلدانیوں کے غلبہ سے اور بنی اسرائیل کے مدت درازان میں رہنے سے اس زبان کے الفاظ بھی عبرانی میں شامل ہوگئے ہوں جیسا کہ اور زبانوں میں اختلاط ہوا اور ہوتا رہتا ہے۔ اس تقدیر پر یہ لفظ خاص حضرت ( علیہ السلام) کے منہ مبارک کا نکلا ہوا ہے پھر یونانی میں یا تو اس کا ترجمہ پیرکلوطس کیا گیا یا تغیر کر کے لایا گیا جس کے معنی احمد ﷺ کے ہیں۔ بشپ مارش اسی کے قائل تھے جو عیسائیوں میں مسلم شخص تھے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ سریانی لفظ ہے یعنی ملک سر یا یا شام کی زبان کا۔ تیسرا یہ کہ یہ عربی لفظ ہے۔ بشپ مذکور ان دونوں قولوں کو بھی مانتے ہیں مگر زبان عرب میں اس کا پتا نہیں معلوم ہوتا۔ چوتھا قول وہ ہے کہ جس کو ہم نے پہلے فاضل محقق مولانا مولوی محمد رحمت اللہ صاحب مرحوم کی کتاب اظہارالحق سے نقل کیا تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے عبرانی زبان میں پیشین گوئی کی اور آنحضرت ﷺ کا خاص نام احمد ﷺ لیا مگر جب اس کا یونانی زبان میں ترجمہ ہوا تو اس کے ہم معنی لفظ پیرکلوطوس ذکر کیا جس کا معرب فارقلیط ہوا اور یونانی زبان میں پیرکلوس ہونے کی ایک بڑی دلیل ہے کہ سینٹ جروم نے جب انجیل کا ترجمہ لاطینی زبان میں لکھنا شروع کیا تو پیرکلوس کی جگہ پاراکلوس لکھ دیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس کتاب سے نقل کیا تھا پیرکلوس تھا۔ دستی تحریروں کا غارت ہونا اس گمان کی اور بھی مدد کرتا ہے۔ اور لفظ پیرکلوس ہومر وغیرہ شعراء و فضلاء کے استعمال میں آیا ہے جس کے معنی مستودہ ہیں جو محمد ﷺ یا احمد ﷺ کا ٹھیک ہم معنی ہے۔ اس کے علاوہ ایک بڑی تائید اور بھی ہے وہ یہ کہ بعض عبرانی نسخوں میں اب تک آنحضرت ﷺ کا نام مبارک موجود ہے۔ دیکھو پادری پارکھرست صاحب کی یہ عبارت وباوحمدہ حل بگوئیم (ازحمایت الاسلام مطبوعہ بریلی 1873 ء صفحہ 81۔ 84 ترجمہ اپالوجی گاڈ فری ہیگنس صاحب مطبوعہ لنڈن 1829 ئ) ۔ واضح ہو کہ عرب میں آنحضرت ﷺ کے عہد میں عیسائیوں کا ایک فرقہ تھا جو آج کل کے پر اٹسٹنٹ فرقے اور رومن کا تلک سے بھی علیحدہ تھا وہ نسطورا کا فرقہ کہلاتا تھا ان کے پاس ان چاروں انجیلوں کے علاوہ ایک اور بھی انجیل تھی جس کو اب کے عیسائی انجیل طفولیت کہتے ہیں جو ان کی کتب الہامیہ کی فہرست سے خارج شمار ہے۔ خیر یہ جو چاہیں کہیں اس کی تحقیق یورپین عیسائیوں کو ہوئی ہوگی مگر وہ تو اسی کو اصلی اور الہامی انجیل کہا کرتے تھے۔ اس کے سوا وہ کسی انجیل کے معتقد نہ تھے۔ یہ چاروں انجیلیں تو انہوں نے آنکھ سے بھی نہیں دیکھی تھیں پھر جب انہوں نے نہیں دیکھیں تو مسلمانوں کو خصوصاً ایسی حالت میں جو ان پر طاری تھی کہاں سے مل گئی ہوں گی ؟ جو گمان کیا جائے کہ ان سے دیکھ کر آنحضرت ﷺ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے اپنے لیے پیشین گوئی بنا لی ہو۔ یہ گمان محض فاسد ہے اور بالکل بےاصل بدگمانی ہے۔ عرب کے عیسائیوں میں سے اس پیشین گوئی کے اظہار سے پہلے ایسے لوگ اسلام میں داخل ہوچکے تھے جنہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی اس پیشین گوئی کو آپ کے حق میں پورا پورا مطابق پا لیا تھا اور اس پیشین گوئی کے اظہار کے بعد ان عیسائیوں کو بھی یہ حوصلہ نہ ہوا جو کہ ابھی اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے اور اسلام کی تکذیب میں نہایت سرگرم تھے کہ وہ کہتے یہ غلط بات ہے۔ ہرگز حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے آپ کی پیشین گوئی نہیں کی۔ اگر ان کی انجیل میں آپ کے نام سے یہ پیشین گوئی نہ ہوتی یا ان کو ذرا بھی تامل کرنے کی گنجائش ملتی تو وہ بغیر غل شور مچائے کبھی چپ نہ رہتے نہ آنحضرت ﷺ اس دعوے سے پیشین گوئی کا اظہار فرماتے۔ یہ بات حیطہ ادراک سے باہر ہے۔ کوئی دانشمند بھی ایسا نہیں کرسکتا۔ عیسائیوں میں : برنباس حواری کی بھی ایک انجیل ہے۔ گو یہ عیسائی اس کو الہامی نہیں مانتے۔ یہ ان کو اختیار ہے کہ لوقا اور مرقس کی کتاب کو الہامی مانیں اور اس کی نہیں۔ اس کی کوئی کھلی ہوئی دلیل بجز گمان اور قیاس یا حسن طن کے اور کوئی بات ہم کو تو اب تک معلوم نہیں ہوئی لیکن بایں ہمہ وہ اس کو معتبر جانتے ہیں۔ اس انجیل میں صاف آنحضرت ﷺ کے نام پاک کی تصریح ہے۔ اس کے جواب میں عیسائی یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ کسی مسلمان کی تحریف ہے یا کسی ملحد نے بات بنائی۔ مگر تعجب ہے کہ مسلمان کو دنیا بھر کے نسخے کہاں سے مل گئے کہ اس نے سب میں تحریف کردی۔ جس انجیل برنباس کو دیکھئے اس میں بھی بشارت ہے اور ملحد کو پہلے سے جناب رسول اللہ ﷺ کا نام مبارک کہاں سے معلوم ہوگیا تھا جو اس نے انجیل میں داخل کردیا ؟ یہ سب جھوٹے حیلے ہیں جن کو عقل سلیم ہرگز قبول نہیں کرتی اس کے سوا اور بہت جگہ بائبل میں آنحضرت ﷺ کی پیشین گوئیاں ہیں جو بجز ذات بابرکات کے اور پر صادق نہیں آتیں پھر کیا وہ بھی کسی مسلمان نے لکھ دیں یا کسی ملحد نے داخل کردیں ؟ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پادریوں کی کتابوں میں ملحد آمیزش کردیا کرتے ہیں۔ اب ہم انجیل یوحنا کی پیشین گوئی کے اور الفاظ پر بحث کرتے ہیں جو نزول روح القدس پر کسی طرح صادق نہیں آتے۔ (1) ” میں اپنے باپ سے درخواست کروں گا اور وہ تمہیں اور فارقلیط دے گا کہ ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے “۔ اس سے مراد روح القدس نہیں ہوسکتا کس لیے کہ وہ ہمیشہ ان کے ساتھ نہیں رہا بلکہ ایک دن تھوڑی سی دیر تک۔ پھر عمر بھر وہ بات نصیب نہیں ہوئی۔ (2) روحِ حق تمہیں سب وہ باتیں جو میں نے کہیں بتا دے گا “۔ روح القدس جب حواریوں پر اترا اس نے ان کو وہ سب باتیں جو مسیح ( علیہ السلام) نے کہیں تھیں یاد نہیں دلائیں اور نہ وہ بھولے ہوئے تھے کہ یاد دلانا پڑتا بلکہ مختلف زبانیں بولنے لگے تھے۔ البتہ بھولی ہوئی باتیں توحید و عباداتِ الٰہی، ترک شہوات، دارِآخرت کی رغبت وغیرہ نبی آخرالزمان ﷺ نے یاد دلائیں۔ (3) ” میں نے واقع ہونے سے پہلے تم کو خبر کردی تاکہ جب واقع ہو تو ایمان لائو “۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ ایک ایسی چیز کے واقع ہونے کی خبر دیتے ہیں کہ جس کا انکار ان سے قریب الوقوع تھا اس لیے تاکید اور بندوبست کردیا کہ ایمان لائیں انکار نہ کریں۔ یہ روح القدس کے نازل ہونے پر صادق نہیں آتا کس لیے کہ اول تو روح القدس کا نازل ہونا حواری پہلے بھی دیکھ چکے تھے۔ دوم وہ ایک حالت سی تھی جس پر طاری ہو اس کا کوئی انکار نہیں کرسکتا ہاں خاتم المرسلین کا انکار بہت قریب القیاس تھا اور اب تک ہو رہا ہے، حیلے بہانے بنا رہے ہیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے کہنے کو بھی ٹال دیا۔ (4) ” اس جہان کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کی کوئی بات نہیں “۔ روح القدس اور باپ یعنی خدا اور بیٹا یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) یہ تینوں تو عیسائیوں کے نزدیک ایسے ایک ہیں کہ مجموعہ مرکب بنا کر خدا کہا جاتا ہے پھر روح القدس عیسیٰ اور عیسیٰ روح القدس ہیں اگر وہ جہان کے سردار ہیں تو اب بھی جو کچھ ایک میں ہے وہ دوسرے میں ہے۔ پھر یہ جملہ اس پر کس طرح صادق آسکتا ہے ؟ ہاں محمد ﷺ پر صادق آتا ہے کس لیے کہ وہ جہان کے نبی تھے اور نبی سردار ہوتا ہے۔ یہ اوصاف حضرت مسیح (علیہ السلام) میں کہاں تھے ؟ (5) ” فارقلیط آ کر میرے لیے گواہی دے گا “۔ روح القدس نے اول تو گواہی نہیں دی اور جو دی بھی تو صرف حواریوں کے سامنے جس کی کوئی بھی ضرورت نہ تھی۔ برخلاف آنحضرت ﷺ کے کہ آپ نے تمام دنیا کے سامنے عیسیٰ (علیہ السلام) کی گواہی دی یہود کو ملزم کیا۔ (6) ” میں نہ جائوں تو فارقلیط تمہارے پاس نہ آئے “۔ یہ بھی روح القدس پر صادق نہیں آتا کس لیے کہ روح القدس اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا تو اتحاد مانا جاتا ہے۔ پھر اگر نہ جائوں تو نہ آئے گا کیا معنی رکھتا ہے ؟ البتہ یہ بات آنحضرت ﷺ پر پوری صادق ہے کس لیے کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) اور آنحضرت ﷺ میں تقدم اور تاخرزمانی ہے آپ کا دور تمام نہ ہو لے تو دوسرا شروع نہ ہو۔ (7) ” روح الحق آ کر دنیا کو گناہ اور راستی اور عدالت پر سزا دے گا “۔ یہ بھی حرف آنحضرت ﷺ پر صادق آتا ہے کس لیے کہ روح نے کسی کو کچھ سزا تو کیا ملزم بھی نہیں کیا مگر آنحضرت ﷺ نے منکرین مسیح (علیہ السلام) کو خطاکار ہی ثابت نہیں کیا بلکہ انتقام بھی لیا اور اس فقرے کے لفظ یہی اشارہ کر رہے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنے کسی ذی شوکت منتقم کے آنے کی خبر دے کر حواریوں کو یہود کی جفاکاری اور ستم پروری پر تسلی دے ر ہے ہیں۔ (8) ” روحِ حق تم کو ساری سچائی کی باتیں بتا دے گا “۔ روح القدس نے کوئی بات حواریوں کو نہیں بتائی۔ ہاں آنحضرت ﷺ نے بھولے نصاریٰ کو ضرور رستہ بتایا۔ (9) ” جو سنے گا وہی کہے گا اور غیب کی خبریں بتائے گا “۔ روح القدس تو عیسائیوں کے نزدیک عین خدا یا جزوِخدا ہے پھر سننا چہ معنی ؟ ہاں محمد ﷺ نہ خدا ہیں نہ اس کے جز۔ وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے تھے۔ وماینطق عن الہویٰ آپ نے دارآخرت اور صفات کے متعلق جو غیب ہے سینکڑوں خبریں بتائیں جن کی ضرورت تھی مگر عیسائیوں کے روح القدس نے اس روز کچھ نہ بتائیں۔ باایں ہمہ جب وہ فارقلیط ﷺ اور اپنے ساتھ معجزات و آیات بینات بھی لایا کماقال اللہ تعالیٰ فلماجاء ھم بالبینٰت قالوا۔ تو ازلی گمراہوں نے بجائے اس کے کہ اس کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی وصیت کے مطابق قبول کرتے یہی کہہ دیا ھذاسحرمبین۔ کہ یہ تو کھلا ہوا سحر ہے۔ اور صاف جادو ہے۔ یہ بات عرب کے مشرکین نے بھی کہی اور عیسائی فرقے بھی ان کے ہم زبان ہوگئے۔ جہالت و وحشت میں یہ عیسائی ان مشرکین عرب سے کم نہ تھے۔ بعض مفسرین کہتے ہیں فلماجاء کی ضمیر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے پھرتی ہے کہ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان یہود کے پاس معجزات لے کر آئے تو کہنے لگے کہ یہ جادو ہے کھلا ہوا۔ مگر سباق کلام پہلے معنی کی تائید کرتا ہے۔ آیات کی تفسیر کے بعد یہ بھی کہتا ہوں کہ انجیل یوحنا سے جو ہم نے فارقلیط کی بشارت نقل کی وہ اس مقام کے مطابق تھی ورنہ اس کے سوا اب بھی جس قدر پیشین گوئیاں بائبل یعنی توریت و اناجیل وصحف انبیاء (علیہم السلام) سے آنحضرت ﷺ کے حق میں پائی جاتی ہیں اور کسی کے حق میں نہیں اس کے سوا صدہا دلائل حضرت ﷺ کی نبوت پر آفتاب سے زیادہ روشن موجود ہیں لیکن کور باطنی اور شقاوت ازلی کا کوئی علاج نہیں۔ وہ سب کی طرف سے آنکھوں پر پردہ ڈالتی ہے، کانوں میں ٹینٹیاں ٹھونس دیتی ہے، دلوں پر مہر کردیتی ہے۔ پھر ان کو ان گہری اندھیریوں کی تہوں میں سے کون نور کی طرف لاسکتا ہے۔ مرنے کے بعد یہی ظلمات جہنم بن کر ہمیشہ جلا ویں گی۔ اگر ذرا بھی انصاف ہو اور کچھ بھی فہم سلیم ہو تو کسی عیسائی کو آنحضرت ﷺ سے انکار اور عداوت کی گنجائش نہیں کس لیے کہ آپ اصل عیسوی مذہب کے سرمو مخالف نہیں نہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے منکر، نہ حواریوں کے خلاف۔ ہاں اگر خلاف ہیں تو ان ہی زیادتیوں میں جو مسیح (علیہ السلام) کے بعد لوگوں نے دین عیسوی کا جزو قرار دے لیں اور پھر اندھے مقلد بن کر ان کی تحقیقات اور سمجھنے میں کوشش کرنا ممنوع قرار دے لیا۔ روشن دماغ عیسائی آنحضرت ﷺ کو دین عیسوی کا مصلح سمجھتا ہے۔ حکایت :۔ ایک بار ایک بوڑھے پادری سے سفر میں ملاقات کا اتفاق پڑا۔ مذہبی گفتگو بھی چھڑ گئی۔ کفارہ اور الوہیت مسیح اور تثلیث پر بڑی دیر تک بحث ہوتی رہی۔ پادری صاحب نرم دل اور خدا ترس تھے آخرکار ہر بحث میں اقرار کردیا کہ یہ تینوں مسئلے حواریوں کے عہد تک نہ تھے اور نہ ان پر نجات موقوف ہے۔ اگر ہوتی تو خدا تعالیٰ ان احکام کو اگلے نبیوں اور ان کی نجات یافتہ جماعت پر ضرور ظاہر کرتا اور اسی طرح ان کا شہرہ ہوتا جیسا کہ عیسائیوں میں ہے۔ پھر میں نے کہا اب تمہارے نزدیک نجات کس اعتقاد پر موقوف ہے ؟ کہا خدا تعالیٰ اور روح القدس اور عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے پر۔ میں نے کہا ہر مسلمان ان چیزوں پر ایمان رکھتا ہے پھر فرمائیے ہماری نجات میں کیا کلام ہے ؟ اس نے کہا کچھ نہیں۔ پھر پوچھا آپ کے نزدیک ہماری نجات میں کلام ہے ؟ میں نے کہا کہ اگر بغیر مسیح ( علیہ السلام) پر ایمان لائے کسی یہود کی نجات ممکن ہے تو بغیر محمد ﷺ پر ایمان لائے آپ کی نجات ممکن ہے، اس نے سر نیچا کرلیا اور کہنے لگا ہم ضرور محمد صاحب ﷺ پر ایمان رکھتے ہیں کہ وہ بھی خدا کا نبی ہے۔ ہمارا کوئی حق نہیں کہ اس کو برا کہیں، نہ ہم کو اس کی کوئی انجیل ہدایت کرتی ہے بلکہ بغور دیکھو تو یہ دونوں مذہب ایک ہی ہیں۔ حضرت محمد ﷺ مسیح (علیہ السلام) کے مذہب کے لیے ریفارمر ہیں اور ایک زمانہ آتا ہے کہ سب عیسائی اس ریفارمر کی طرف متوجہ ہونگے۔ 1 ؎ ا ؎ انبیاء (علیہم السلام) جو خیرخواہ خلق ہیں ان کے لیے لوگوں نے جو کچھ سلوک کئے وہ ظاہر ہیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت محمد ﷺ کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا مگر جو لوگ دنیا میں ان کے نام لیوا ہیں کسی قدر حصہ ان کو بھی مل کر رہتا ہے۔ چناچہ یہ راقم الحروف مبشراً برسول یاتی من بعدی اسمہ بعد کی تفسیر لکھ رہا تھا کہ کسی نے زہر دیا اور اس کے کئی روز تک جو کچھ تکلیف اور سختی طاری رہی وہ اس وقت کے دیکھنے والوں سے دریافت کرنی چاہیے کس لیے کہ میں تو بیہوش تھا اور آج پانچواں روز ہے اب تک حالت اصلی نہیں عود کر آئی۔ للہ الحمد کہ یہ ہیچکارہ بھی اس زمرے میں داخل کیا گیا۔ 25 ربیع الاول 1312 ہجری۔ ابھی چند روز کا عرصہ گزرا کہ مولانا مولوی محمد لطیف اللہ صاحب مدظلہ کو بھی زہر دیا گیا تھا۔ 12 منہ 1 ؎ اس میں حضرت داؤد ( علیہ السلام) کی زبورات اور حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کے امثال اور غزلیں بھی شامل ہیں جو استہارات و تشبہیات سے ہیں۔ 12 منہ
Top