بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Haqqani - As-Saff : 1
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
سَبَّحَ لِلّٰهِ : تسبیح کی ہے اللہ کے مَا فِي السَّمٰوٰتِ : ہر چیز نے جو آسمانوں میں ہے وَمَا فِي الْاَرْضِ : اور جو زمین میں ہے وَهُوَ الْعَزِيْزُ : اور وہ زبردست ہے الْحَكِيْمُ : حکمت والا ہے
آسمان و زمین کے رہنے والے اللہ کی تقدیس کر رہے ہیں اور وہ زبردست حکمت والا ہے
ترکیب : ان تقول الجملۃ بتاویل المصدر فاعل کبرمقتًا تمیز منہ عنداللہ متعلق بکبر صفًا حال من فاعل یقاتلون فی سبیلہ متعلق بہ۔ کانہم الجملۃ کذلک حال منہ و صفا بمعنی صافین قال صاحب الکشاف لم ہی لام الاضافۃ داخلۃ علی ما الاستفہامیۃ کمادخل علیھا غیرھا من حروف الجر کقولک بم وفیم و عم و مم و حذف الالف لان ماوالحرف کشیء واحد۔ تفسیر : یہ سورة بھی بالاتفاق مدینے میں نازل ہوئی ہے۔ یہ بھی اسی زمانے میں نازل ہوئی کہ جب ملک عرب میں کھلبلی مچی ہوئی تھی۔ کفار کا مسلمانوں پر ہر طرف سے نرغہ تھا اور مسلمانوں کی قلیل جماعت کو استقلال و جوانمردی سے اپنے دینی دشمنوں کا مقابلہ ضرور تھا اس لیے اس سورة میں ان باتوں کی بھی ترغیب ہے۔ خدا تعالیٰ سب سے اول اس سورة میں یہ بات ظاہر فرماتا ہے کہ ہماری مخلوق میں ہر ایک چیز ہماری قدرت ویکتائی کا نمونہ اور مظہر ہے۔ ہر شے کا حال اور بعض کا مقال اس بات کو بیان کر رہا ہے یہی ان کی تسبیح و تقدیس ہے۔ پھر اے انسان اشرف المخلوقات ! تو کس لیے جہل و غفلت و شہوات کے عمیق گڑھوں میں اوندھا پڑا ہے کس لیے اس کی تسبیح و تقدیس نہیں کرتا اور اس کے اوامر کو بجا نہیں لاتا اور کس لیے لاف زنی کرتا ہے ؟ اے مسلمانو اے پاکباز جماعت ! تمہارا صف باندھ کر ثابت قدمی سے اعدائے دین سے لڑنا بھی تسبیح و تقدیس ہے جیسا کہ آسمانوں پر فرشتے صف باندھ کر ہماری تسبیح و تقدیس کرتے ہیں اسی طرح زمین پر صف بستہ ہو کر تمہاری جاں نثاری کرنا ہے اس لیے ہم کو نہایت پسند ہے۔ مباحث : (1) کفارمشرکین حق سبحانہ کی نسبت برے برے اعتقاد رکھتے تھے اور ان پر جمے ہوئے تھے اور حضرات انبیاء (علیہم السلام) سے یک دل ہو کر مقابلہ کرتے تھے اس لیے شروع سورة میں فرمایا۔ سبح للہ مافی السمٰوات ومافی الارض کہ آسمانوں کے فرشتے اور زمین کے ایماندار خدائے پاک کی تسبیح و تقدیس کرتے ہیں اور بری باتوں اور عیوب سے اس کی ذات کو مبرا ٹھہراتے ہیں اور اسی طرح ہر چیز اس کی مخلوق میں سے بزبان حال اس کی پاکی بیان کر رہی ہے پھر ان نادانوں کے عیوب لگانے سے کیا ہوتا ہے ‘ ان کے مقابلے میں ان کی کیا مقدار اور کیا اعتبار ؟ اس کے بعد فرما دیا۔ وھوالعزیز الحکیم کہ کچھ آسمانوں اور زمین والوں کی تسبیح و تقدیس پر موقوف نہیں وہ خود بھی عزیز یعنی ہر شے پر غالب اور حکیم حکمت والا ہے۔ ان دو لفظوں میں بیشمار صفات حمیدہ کے ثبوت اور بری باتوں اور عیوب سے مبرا ہونے پر دلالت ہے اور اس طرف بھی اشارہ ہے کہ وہ غالب ہے کسی کا مقابلہ اس کی مرضی کو روک نہیں سکتا اور حکیم ہے۔ اپنی حکمت بالغہ سے دنیا میں رسولوں کو بھیجتا ہے۔ (2) کفارومشرکین جو بری باتیں ذات پاک کی نسبت بناتے تھے اس پر ان کی سبح للہ الخ میں بڑی حکمت بالغہ سے تنبیہ وتوبیخ کی گئی مگر اس کے ساتھ ان مسلمانوں پر بھی تنبیہ کرنا مناسب ہوا کہ جو بڑھ چڑھ کر باتیں بناتے تھے اور کرتے کچھ نہ تھے کیونکہ یہ تسبیح و تقدیس کرنے والوں کی شان سے بعید ہے یعنی ایسا کرنے والے اس جماعت میں داخل ہونے کے قابل نہیں۔ اس لیے اس کے بعد فرمایا۔ یا ایہا الذین آمنوالم تقولون مالاتفعلون الخ کہ اے مسلمانو ! تم کس لیے وہ باتیں کہتے ہو جو کرتے نہیں یہ بری بات ہے۔ مسلمان جو کہے اس کو کرے بھی صرف زبانی لاف زنی سے کچھ فائدہ نہیں۔ علماء کہتے ہیں یہ آیت ان لوگوں کی طرف اشارہ کر رہی ہے جو زبان سے نبی کریم ﷺ کے ساتھ اظہار محبت و جلادت کرتے تھے کہ ہم آپ پر جان فدا کریں گے مگر احد کی لڑائی میں سست پڑگئے اور ہچر مچر کرنے لگے۔ بعض کہتے ہیں ان منافقوں کی طرف اشارہ ہے کہ جو زبان سے دعویٰ ایمان و جان نثاری کا کرتے تھے مگر وقت پر کچھ بھی نہ نکلے۔ قوی تر یہی بات ہے کہ اس میں کسی کی خصوصیت نہیں جو کوئی لاف کرے اس کی نسبت ہے۔ اس آیت میں ایک سخت مؤکد حکم کی جو اس سے پچھلی آیت میں آنے والا ہے تمہید ہے کہ جو کچھ اللہ اور اس کے رسول یا رسول کے جانشینوں سے عہد کرو اس کو پورا بھی کیا کرو۔ اس آیت نے صحابہ ؓ کے دلوں میں ثبات اور بات پر قائم رہنے کا مادہ پیدا کردیا تھا اور حقیقت میں جس قوم میں یہ مادہ نہیں وہ کبھی کسی کام میں کامیاب نہ ہوگی۔ ان کی مجلسیں اور کمیٹیاں سب بچوں کا کھیل ہیں اس لیے اس کے بعد یہ فرما دیا۔ ان اللہ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ صفا کا نہم بنیان مرصوص کہ اللہ کو ان لوگوں سے محبت ہے جو اس کی راہ میں صف باندھ کر لڑتے ہیں یعنی جس طرح کفار و مشرکین خدا تعالیٰ کے احکام روکنے میں اور انبیاء (علیہم السلام) کے مغلوب کرنے میں صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں جو اللہ کے نزدیک بہت برے ہیں اسی طرح ایمانداروں کو ان کے دفع کرنے میں صف بستہ ہو کر لڑنا چاہیے۔ اس میں جہاد کی ترغیب ہے۔ صف باندھ کر لڑنے سے کیا مراد ؟ لڑائی میں صف باندھ کر عرب لڑا کرتے تھے۔ حال کے زمانے میں باقاعدہ فوجیں صف بستہ ہو کر لڑتی ہیں اس سے مخالف پر رعب بھی پڑتا ہے اور دشمن کے مغلوب کرنے میں بڑی مدد ملتی ہے کس لیے کہ صدہا آدمی بمنزلہ شخص واحد کے ہوجاتے ہیں پھر ان کے زور کا کیا کہنا۔ اتفاق عجب چیز ہے۔ اسلام نے عبادت سے لے کر دشمنوں کے مقابلے کے وقت تک جماعت اور اتفاق کی تاکید کر کے افراد متفرقہ کو جمع کردیا۔ پھر صف بھی کیسی ؟ کانہم بنیان مرصوص گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے یعنی غیرمستقل اور بھگوڑے نہ ہوں بلکہ آہنی دیوار کی طرح جم جائیں۔ کسی کے مرجانے زخمی ہوجانے سے تربھر ہو کر نہ بھاگ پڑا کریں (فراء کہتے ہیں مرصوص بالرصاص اس وقت کہتے ہیں کہ جب دیوار کے ٹکڑوں کو جوڑ کر ایک کردیا جائے۔ لیث کہتے ہیں رص کے معنی ملا دینا ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ ملا دیا جائے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ پتھر پر پتھر دھر کر چھوٹے پتھروں سے دربندی کرتے تھے اس کے بعد اینٹ اوپر رکھتے تھے ایسی دیوار کو اہل مکہ مرصوص کہتے تھے) بعض علماء کہتے ہیں کہ خاص صف بستہ ہونا بھی مراد نہیں بلکہ یہ ثبات قدمی اور باہمی اتفاق اور یکدلی کے لیے ایک تمثیل ہے یعنی ایک دل ہو کر لڑنا چاہیے۔ اس آیت نے صحابہ ؓ کا ایک ایسا باقاعدہ اور مستحکم لشکر پیدا کردیا تھا جس کے مقابلے میں اسلام و ہدایت کے روکنے والے ٹھہر نہ سکے۔ قیصر و کسریٰ کے چمکدار ہتھیار اور زرق برق کے سپاہی کچھ بھی کام نہ آئے۔ ایسے لشکر کا غالب آنا تو معجزہ تھا ہی مگر سرے سے ایسا لشکر ایسے مفلس اور خودسر ملک میں پیدا کردینا جس پر کسی خزانے سے کسی بادشاہ نے ایک کوڑی بھی صرف نہ کی ہو ایک عظیم الشان معجزہ اور کتب مقدسہ کی پیشین گوئیوں کی پوری تصدیق تھی۔ آیت کے شروع میں عزیز حکیم اسی بات کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ صف بستہ ہو کر لڑنا انسان کا اپنے جمیع قوائے روحانیہ کو ابھار کر شیطانی قوتوں اور شہوات کے لشکر کو زیروزبر کرنے کی طرف بھی اشارہ کر رہا ہے۔ اس جنگ میں بھی استقامت و استقلال شرط ہے۔ ذرا دنیاوی تحمل دیکھا اور پھسل گئے۔ خواہش نفسانی نے غلبہ کیا اور اپنے تجملات دکھائے، ڈگمگا گئے۔ ایسے لوگوں کو اس ملک باقی اور شہر قدس کی سلطنت کب نصیب ہوتی ہے۔
Top