Tafseer-e-Haqqani - As-Saff : 10
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى تِجَارَةٍ تُنْجِیْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ : اے لوگو اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے ہو هَلْ اَدُلُّكُمْ : کیا میں رہنمائی کروں تمہاری عَلٰي تِجَارَةٍ : اوپر ایک تجارت کے تُنْجِيْكُمْ : بچائے تم کو مِّنْ عَذَابٍ : عذاب سے اَلِيْمٍ : دردناک
ایمان والو ! کہو تو میں تمہیں ایک ایسی سوداگری بتاؤں جو تم کو عذاب الیم سے بچا لے۔
ترکیب : ھل ادلکم الخ الجملۃ نداء ھل الاستفھام ایجاب و اخبار معنٰی وقیل المعنی سادلکم تنجیکم الجملۃ صفۃ تجارۃ قراء الجمہور تنجیکم من الابخاء ای بالتحفیف وقریٔ بالتشدید من التنجیۃ تؤمنون تفسیر لتجارۃ وقبل استیناف کانھم قالواکیف نعمل فقال تؤمنون باللہ وھوخبرفی معنی الامرویجوزان تکون فی موضع جرعلی البدل اوفی موضع رفع علی تقدیرھی وان محذوفۃ ولماحذفت بطل عملھا وتجاھدون عطف علیٰ تؤمنون ان کنتم شرط جو ابہ محذوف فافعلوہ یغفر مجزوم اما ھوجواب شرط محذوف دل علیہ الکلام تقدیرہ ان تؤمنوایغفرلکم واماان تؤمنون بمعنی آمنوا الخبر بمعنی الامرھذاقول الزجاج والمبردداماانہ جواب لماول علیہ الاستفھام والمعنی ھل تقبلون ان دلتکم واماانہ جواب استفھام علی اللفظ ھذا قول الفراء ضعفہ بعض وصوبہ الفخر الرازی فی تفسیرہ ویدخلکم معطوف علی یغفرلکم ومساکن جمع مسکن منصوب لکونہ معطوفاً علی جنت واخریٰ منصوب علی تقدیر ویعطیکم اخریٰ ای نعمتہ اخریٰ ۔ اوعلی تقدیر تحبون المدلول علیہ تحبونہا وقال الفراء والاخفشھی معطوفۃ علی تجارۃ فھی فی محل جرای وھل ادلکم علی خصلۃ اخریٰ وقیلھی فی محل رفع ای ادلکم خصلۃ اخریٰ ۔ نصر۔ وفتح خبرمبتداً محذوف ایھی۔ وبشر معطوف علی محذوف ای قل وبشراہ وعلی تو منون بمعنی آمنوا۔ تفسیر : اگلی آیت میں تھا کہ اللہ اپنے دین کو سب دینوں پر غالب کرے گا اس میں اشارہ تھا کہ عالم بالا دنیا پر ایک آسمانی سلطنت قائم کرنے والا لشکر تیار کرنے والا ہے جس سے اس نور کو بجھانے والوں کو زیر کیا جائے۔ اس لیے ان آیات میں ایک بڑے اجر اور بیش بہا تنخواہ پر جو دنیا و آخرت کی سعادت کو شامل ہے اعلان دیتا ہے اور اس کے ضمن میں اس ضروری کام سے پہلوتہی کرنے پر عذاب الیم کا خوف بھی دلاتا ہے تاکہ بڑی مستعدی کے ساتھ ایک لشکر جرار تیار ہوجائے جو دنیا کو تمام نجاستوں سے پاک کر دے۔ یا یوں کہو انسان اس دنیا میں ناحق نہیں آیا ہے بلکہ اس عمر گراں مایہ میں کچھ حاصل کر کے ایک ابدی جہان میں جانا ہے اس بات کو خدا تعالیٰ اس پیرائے میں بیان فرماتا ہے کہ انسان تاجر ہے مگر تجارت کرنا نہیں جانتا۔ ہم اس کو تجارت سکھاتے ہیں۔ فقال یا ایہا الذین آمنوا ھل ادلکم علی تجارۃ تنجیکم من عذاب الیم کہ اے ایماندارو ! لو تم کو میں ایسی تجارت بتائوں جو تم کو دردناک عذاب سے بچائے۔ تجارت ایک شے کا دوسری شے سے معاوضہ۔ تجارت میں دو چیز ہوا کرتی ہیں ایک مال جس سے کوئی چیز خریدی جائے۔ دوسری وہ چیز جس کو خریدتا ہے اور تجارت میں نفع بھی ہوتا ہے اور نقصان بھی اور عقلا کے نزدیک وہ تجارت کہ جس میں ضرر کا احتمال بھی نہ ہو اعلیٰ درجے کی ہے اور اس پر اور بھی خوبی ہو کہ جس سے وہ چیز خریدی جائے وہ اپنی طرف سے معاوضے کی چیز کے سوا کچھ اور بھی دے۔ اس جگہ سب سے پہلے دفع مضرت کا ذکر کردیا۔ تنجیکم من عذاب الیم کہ عذاب الیم جو انسان کو اس گرانمایہ زندگی کے عبث اور بیکار گناہوں کے کاموں میں صرف کرنے سے ہوتا ہے اس سے تم کو یہ تجارت نجات دے گی۔ بڑا خسارہ انسان کے لیے آخرت میں عذاب الیم کا ہے سو اس دغدغہ سے پہلے ہی اطمینان کردیا کہ اس تجارت میں گھاٹا ہی نہیں۔ اس کے بعد تجارت کے لیے مال بیان فرماتا ہے۔ تؤمنون باللہ ورسولہ کہ اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائو۔ جب اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو برحق جانے گا اور ان کو مانے گا تو فرشتوں اور قیامت اور اس کے سب رسولوں اور کتابوں کو بھی برحق سمجھے گا اور ان کے تمام اقوال کی تصدیق کرے گا جو تکمیل قوت نظریہ کو حاوی ہے۔ شبہ : یا ایہا الذین آمنوا سے معلوم ہوا کہ آیت میں ایمانداروں سے خطاب ہے۔ پھر جو ان کو تؤمنون باللہ ورسولہ فرمایا پھر کیا وہ اللہ اور رسول پر ایمان نہ لائے تھے تو ان کو مومن کیوں کہا ؟ اور اگر لائے تھے تو پھر اس کی کیا ضرورت کہ باردگر ایمان لائیں ؟ جواب : ایمانداروں سے خطاب تھا مگر باردگر جو فرمایا کہ ایمان لاؤ تو اس سے اس پر دوام و ثبات مراد ہے یعنی اس ایمان پر ہر وقت قائم رہو۔ یہ ایک محاورے کی بات ہے کہ کسی کام کے کرنے والے کو جو کہا جاتا ہے کرتے رہو تو یہ مراد ہوتی ہے کہ خوب عمدہ طرح سے اور مضبوطی سے ہمیشہ کرو غافل نہ ہوجائو۔ ایمان ایک بڑا بیش بہا جوہر ہے اس کے چور بھی بہت ہیں اس لیے باربار تاکید ہوتی ہے کہ اپنی جیب کو دیکھتے رہو۔ ہر گھڑی اس کی تصدیق قلبی پر نظر کرلیا کرو۔ بعض مفسرین نے اس کے جواب میں یہ کہا کہ آمنوا کے لفظ سے منافقوں کو خطاب ہے۔ وہ بظاہر مومن تھے اس لیے ان کو باطن میں بھی ایمان لانے کی تاکید کی۔ یہ اس تجارتی نقد کا ایک حصہ تھا۔ مراتب جہاد کے : اب دوسرے کو بیان فرماتا ہے۔ تجاھدون فی سبیل اللہ باموالکم وانفسکم کہ اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راہ میں کوشش کرو۔ یہ جملہ تکمیل قوت عملیہ کے لیے بڑا وسیع المعنی جملہ ہے کس لیے کہ جہاد کے کئی مرتبے ہیں۔ اول مرتبہ۔ اول اپنے نفس سرکش کا مقابلہ مال سے اور جان سے۔ مال سے اس طور کہ طمع نفسانی نہیں چاہتی کہ نیک کاموں میں کچھ خرچ کرے۔ اقارب ‘ یتامٰی مسافر آفت زدے اس کے ہاتھ کو تکتے ہیں۔ نفس ہے کہ دور اندیشوں کی مہیب صورتیں دکھا دکھا کر اس کے ہاتھ کو روکے لیتا ہے۔ اب اس کو لازم ہے کہ اس نفس بد کا مقابلہ کرے یا وہ نیک اور مفید کام جو قوم یا بنی آدم کے لیے نافع اور اس کے یادگار ہوں گے ان میں دینے سے روکتا ہے یا برے کاموں میں ناچ، تماشے، رنڈی بازی، شراب خوری، جوا، تھیٹر کا تماشا، میلے ٹھیلے، ارباب نشاط کے جلسے، نمود اور تجمل کے کارخانے دوسروں کی ایذرسانی وغیرہ وغیرہ بیہودہ کاموں میں صرف کرنے کو نفس خبیث ابھارتا ہے۔ وہاں اس کو روکنا اور سخت مقابلہ کر کے شکست دینا چاہیے۔ مال سے زیادہ جان عزیز ہے اس لیے اموالکم کے بعد انفسکم کا لفظ آیا۔ جان کا جہاد اس مرتبہ میں یہ ہے کہ خواہشات نفسانیہ سے روکے اور عبادات ‘ ریاضیات اور عمدہ کاموں میں اس کو لگا دے۔ یہ نہیں کہ شتر بےمہار کی طرح جس طرف اس کا نفس خبیث لے جائے دوڑا چلا جائے۔ دوسرا مرتبہ : دوسرا مرتبہ حجاب ظلمانیہ کو اٹھا کر انوار قرب الٰہی میں مراقبہ ذکر فکر ‘ اشغال بالعبادات سے آگے قدم رکھنا اور اس رستے میں جس قدر دشمن سامنے آئیں شمشیر ہمت سے ان کو مار بھگانا اخیر مرتبہ جس کو اس جہاد کی شہادت کہتے ہیں یہ ہے کہ اپنی ہستی کو اس باقی کی ہستی میں فنا کر دے جس کے بعد اس کو حیات جاودانی اور بقائے سرمدی عطا ہوتی ہے۔ ؎ کشتگان خنجر تسلیم را ہر زماں ازغیب جانے دیگرست تیسرا مرتبہ : تیسرا مرتبہ اس تکمیل نفس کے بعد تکمیل غیر کا ہے۔ اس میں جان اور مال سے کوشش کرنا ‘ بدراہوں کو نرمی اور لینت سے راہ پر لانا ‘ ان کی ہدایت کے رستے کھولنا ‘ آخرکار جو کجرو اور بدنہاد اس راہ میں کانٹے بچھاتے ہیں ان کا جوانمردی سے مقابلہ کرنا، مال سے لشکر کے سامان تیار کرنا، جان سے لڑنا یہ جہاد شرعی ہے اس کے شہید کے بھی بڑے مرتبے ہیں وہ بھی ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ اس کے بعد اس تجارتی مال کو بیان فرماتا ہے جو ان دونوں مالوں سے خریدا گیا ہے۔ فقال یغفرلکم ذنوبکم تمہارے گناہوں کو معاف کر دے گا۔ لکم کے لفظ نے یہ بھی فائدہ دیا کہ یہ تمہارے گناہ کسی کے واسطے یا وسیلے سے نہیں بلکہ تمہارے لیے بخش دیے جائیں گے۔ رہی شفاعت نبی کریم ﷺ تو ان لوگوں کے حق میں گناہوں کے معاف کرانے کے لیے نہ ہوگی بلکہ اور زیادہ انعام و اکرام عطا کرانے کے لئے۔ دوسری بات ویدخلکم کہ تمہیں ایسی بہشتوں میں بسا دیں گے کہ جہاں نہریں جاری ہیں اور عمدہ مکانوں میں جگہ دیں گے کہ جن کے آگے دنیاوی بادشاہوں کے محل بےحقیقت ہیں۔ مال بھی دو قسم کے تھے اس کے بدلے میں چیزیں بھی دو دیں۔ اب اپنی طرف سے ایک اور تیسری چیز عطا فرماتا ہے واخری الخ مددالٰہی اور فتح جس کو ہر ایک پسند کرتا ہے ہر مرتبے کے جہاد میں فتح اور مدد غیبی ساتھ لگی ہوئی ہے۔ صحابہ کرام ؓ نے بڑے بڑے دشمنوں پر کیسی کیسی جلد فتح یابی حاصل کی۔ یہی مضمون قرآن میں ایک اور آیت میں بھی آچکا ہے۔ ان اللہ اشتری من المؤمنین انفسہم واموالہم بان لہم الجنۃ یقاتلون فی سبیل اللہ فیقتلون ویقتلون۔ اس مبارک سودے کا مژدہ اے نبی ایمانداروں کو دے دے۔
Top