Tafseer-e-Haqqani - Al-An'aam : 83
وَ تِلْكَ حُجَّتُنَاۤ اٰتَیْنٰهَاۤ اِبْرٰهِیْمَ عَلٰى قَوْمِهٖ١ؕ نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآءُ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ حَكِیْمٌ عَلِیْمٌ
وَتِلْكَ : اور یہ حُجَّتُنَآ : ہماری دلیل اٰتَيْنٰهَآ : ہم نے یہ دی اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم عَلٰي : پر قَوْمِهٖ : اس کی قوم نَرْفَعُ : ہم بلند کرتے ہیں دَرَجٰتٍ : درجے مَّنْ : جو۔ جس نَّشَآءُ : ہم چاہیں اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب حَكِيْمٌ : حکمت والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور یہ ہے ہماری دلیل جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم کے مقابلہ میں دی تھی۔ ہم جس کو چاہتے ہیں بلند مرتبہ کرتے ہیں۔ بیشک آپ کا رب حکمت والا خبردار ہے
ترکیب : تلک مبتداء حجتنا موصوف اتیناھا صفت مجموعہ خبر علی متعلق ہے محذوف سے ای حجۃ علی قومہ درجات بالا ضافۃ والتنوین اول صورت میں یہ مفعول ہے نرفع کا دوسری میں من مفعول ہے اور درجات یا ظرف ہے یا حرف جر محذوف ہے ای الیٰ درجات۔ کلا منصوب ہے ھدینا سے ومن آباء ھم معطوف ہے کلا پر ای و فضلنا کلامن ابائہم او وھدینا کلامن ابائہم۔ تفسیر : فرماتا ہے یہ حجتیں ابراہیم (علیہ السلام) کو اس کی قوم کے مقابلہ میں ہم نے دی تھیں۔ ہم جس کو چاہتے ہیں بلند مرتبہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل میں سے چودہ (14) انبیاء کا ذکر کیا اور ان کے جد امجد نوح (علیہ السلام) کا بھی ذکر کیا تاکہ یہ معلوم ہو کہ یہ خدا پرستی اور اتباع توحید کچھ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر موقوف نہیں۔ ان سے پہلے ان کے جد امجد نوح (علیہ السلام) بھی موحد و مخلص تھے اور پھر ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد بھی اس کی نسل میں سے یہ لوگ کہ جن کی بزرگی عرب و دیگر بلاد میں مشہور ہے وہ بھی موحد تھے مشرک نہ تھے۔ مع ابراہیم و نوح کے یہ اٹھارہ شخص ہیں نوح ‘ ابراہیم ‘ اسحق ‘ یعقوب ‘ دائود ‘ سلیمان ‘ ایوب ‘ موسیٰ ‘ ہارون ‘ زکریا ‘ یحییٰ ‘ عیسیٰ ‘ الیاس ‘ اسماعیل ‘ الیسع ‘ یونس ‘ لوط ‘ علیہم السلام۔ پھر فرماتا ہے کہ توحید کے سبب نہ صرف ان کو بلکہ ان کے بزرگوں اور بھائیوں اور اولاد کو برگزیدہ کیا اور ان کو راہ راست کی ہدایت کی کہ ان کا ملائِ اعلیٰ میں بھی مرتبہ بلند ہے اور دنیا میں بھی ان کی عزت و توقیر کی جاتی ہے اور ان کے طریق پر لوگ چلتے ہیں۔ (یہاں سے عصمت انبیاء ثابت ہوتی ہے) اور اس کے بعد تین چیزیں جو انہیں دونوں کی شاخ ہیں عطا کرنا فرماتا ہے۔ اول کتاب ‘ دوم حکم یعنی حکومت ‘ سوم نبوت۔ سیاست تین قسم پر ہے دنیاوی اور دینی اور روحانی دینی سیاست علمائِ دین کو ہوتی ہے جس کی طرف آتیناھم الکتاب میں اشارہ ہے کیونکہ کتاب کا دیا جانا عام ہے خواہ خاص ان پر الہام ہوا ہو یا نیابتا ان کو ملی ہو۔ جیسا کہ علماء کو ملتی ہے۔ دنیاوی سیاست کی طرف الحکم میں اور روحانی کی طرف النبوۃ میں اشارہ ہے اور کبھی یہ تینوں ایک شخص کو حاصل ہوجاتی ہیں۔ کبھی ایک ایک وصف ایک ایک میں پایا جاتا ہے۔ اس لئے ان اٹھارہ انبیاء کے ذکر یکے بعد دیگر کرنے میں انہیں اوصاف کا لحاظ کیا گیا ہے یا کچھ ان کے صبر و شکر ‘ مصیبت و راحت کا بھی لحاظ ہو۔ نوح (علیہ السلام) کا مفصل حال آگے آوے گا۔ ابراہیم (علیہ السلام) حضرت مسیح (علیہ السلام) سے تخمیناً دو ہزار برس پیشتر عراق میں پیدا ہوئے اور اہوا زیابابل اپنے وطن سے ہجرت کرکے اول اول حران میں آب سے جو آج کل بھی عراق میں اسی نام سے مشہور ہے جس میں اہل اسلام رہتے ہیں پھر یہاں سے کوچ کرکے مع اپنے بھتیجے لوط (علیہ السلام) کے ملک شام کنعان میں آئے اور شہر نابلس سے کہ جس کو پہلے سکم کہتے تھے گذر کر بیت یل یعنی یروشلم کے پاس اپنا خیمہ قائم کیا اور پھر یہاں سے عرب اور مصر میں بھی گئے۔ عرب و شام میں حضرت کی اولاد پھیلی۔ اسماعیل (علیہ السلام) سے عرب کی قومیں اور اسحاق (علیہ السلام) سے شام میں بنی اسرائیل و دیگر قبائل ہوئے شام میں حضرت کی قبر ہے۔ اسحاق (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے ہیں جو اسماعیل (علیہ السلام) سے چھوٹے تھے۔ ملک شام میں ہی پیدا ہوئے اور وہیں انتقال ہوا۔ یعقوب (علیہ السلام) اسحاق (علیہ السلام) کے بیٹے ہیں ومن ذریتہ کی ضمیر میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف کرتی ہے اور صحیح تر یہ ہے کہ نوح (علیہ السلام) کی طرف رجوع کرتی ہے کیونکہ بقول محققین مؤرخین ایوب (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ذریت میں سے نہ تھے بلکہ عرب کے رہنے والے بعض کے نزدیک ابراہیم (علیہ السلام) سے بھی پیشتر تھے دائود (علیہ السلام) سلیمان (علیہ السلام) کے باپ یہ دونوں پیغمبر حضرت یعقوب (علیہ السلام) یعنی اسرائیل کی اولاد میں سے تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کئی سو برس کے بعد شام بلکہ اور ملکوں کے بھی حاکم ہوئے ہیں۔ یوسف (علیہ السلام) حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بیٹے ہیں جو لڑکپن میں اسیر ہو کر مصر میں جا بکے اور پھر وہاں بہت کچھ اعزاز پایا اور اپنے باپ اور اس کی تمام اولاد کو مصر میں بلا لیا۔ جب سے تخمیناً چار سو برس تک بنی اسرائیل مصر میں رہے اور ہزارہا ہزارہا مرد و زن ہوگئے۔ پھر موسیٰ و ہارون ( علیہ السلام) دونوں بھائی بھی وہیں پیدا ہوئے۔ مصر کے بادشاہ فرعون کو ان کی سرکشی کا خوف ہوا تو ان کو غلام بنایا اور طرح طرح کی تکلیفیں دینی شروع کیں۔ تب موسیٰ و ہارون ( علیہ السلام) تمام قوم کو لے کر پھر اپنے باپ دادا کے وطن قدیم ملک شام میں لے جانے کے لئے مصر سے نکلے۔ قلزم اتر کرچالیس برس تک عرب کے جنگلوں میں سرگرداں رہے۔ رستہ ہی میں انتقال ہوا۔ راستہ ہی میں توریت نازل ہوئی۔ وہیں معجزات کا ظہور ہوا۔ کوہ سینا بھی اسی ملک عرب کے غربی و شمالی کنارہ میں ہے۔ زکریا (علیہ السلام) بنی اسرائیل میں دو نبی گذرے ہیں۔ ایک یحییٰ (علیہ السلام) کے والد جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے عہد سے قریب تھے۔ ایک زکریا عزیر اور حجی اور یرمیاہ (علیہم السلام) کے عہد میں تھے۔ مسیح سے تخمیناً پانچ سو برس پیشتر ‘ جنہوں نے بخت نصر کے حادثہ کے بعد دوبارہ پھر ہیکل کی تعمیر کی تھی۔ یحییٰ (علیہ السلام) زکریا (علیہ السلام) کے بیٹے ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہمعصر تھے یہ انبیاء بنی اسرائیل کے خاتم ہیں الیاس (علیہ السلام) کو ایلیا بھی کہتے ہیں۔ یہ بخت نصر کے حادثہ سے پیشتر اس عہد میں تھے جبکہ بنی اسرائیل کا بادشاہ اخزیاہ تخت نشین تھا۔ مسیح (علیہ السلام) سے تخمیناً آٹھ سو چھیانوے برس پیشتر اس بادشاہ کے عہد میں حضرت الیاس (علیہ السلام) آسمان پر زندہ چلے گئے اور ان کی جگہ ان کا شاگرد حضرت یسع نبی قائم ہوا۔ (2 سلاطین 2 باب) یونس (علیہ السلام) کو یوناہ بھی کہتے ہیں۔ یہ مسیح (علیہ السلام) سے تخمیناً آٹھ سو برس پیشتر تھے۔ ان کو شہر نینوٰی جانے کا حکم تھا۔ یہ وہاں جانے سے پہلوتہی کرکے شہر ترسیس کو بھاگنے کے لئے یافہ میں اتر گئے۔ ان کا قصہ بھی آیندہ بیان ہوگا۔ ان بزرگوں کا ذکر کرکے فرماتا ہے کہ اگر یہ شرک کرتے تو خراب ہوجاتے۔ پھر حضرت ﷺ کو تسلی دیتا ہے کہ اگر ان باتوں کو یہ موجودین نہ مانیں گے تو کچھ پروا نہیں ہم نے ان پر چلنے کے لئے اور قومیں تیار کر رکھی ہیں ( وہ آیندہ آنے والی نسلیں ہیں۔ امت محمدیہ میں سے) پھر فرماتا ہے تو ان کی اصول دین میں اور صبر و تحمل میں اے نبی پیروی کر۔ یہاں سے بعض نے جزئیات شرائع بھی مراد لئے ہیں۔ وھو ضعیف جدا۔
Top