Tafseer-e-Haqqani - Al-An'aam : 61
وَ هُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ وَ یُرْسِلُ عَلَیْكُمْ حَفَظَةً١ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَ هُمْ لَا یُفَرِّطُوْنَ
وَهُوَ : اور وہی الْقَاهِرُ : غالب فَوْقَ : پر عِبَادِهٖ : اپنے بندے وَيُرْسِلُ : اور بھیجتا ہے عَلَيْكُمْ : تم پر حَفَظَةً : نگہبان حَتّٰٓي : یہانتک کہ اِذَا : جب جَآءَ : آپ پہنچے اَحَدَكُمُ : تم میں سے ایک۔ کسی الْمَوْتُ : موت تَوَفَّتْهُ : قبضہ میں لیتے ہیں اس کو رُسُلُنَا وَهُمْ : ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) اور وہ لَا يُفَرِّطُوْنَ : نہیں کرتے کوتاہی
اور وہی اپنے بندوں پر بالادست ہے اور وہ تم پر (ملائکہ) نگبہان بھیجا کرتا ہے۔ یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت آجاتی ہے تو اس کو ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) قبض کرلیتے ہیں اور وہ کمی نہیں کرتے
ترکیب : ویرسل ممکن ہے کہ جملہ مستانفہ ہو اور یہ بھی کہ یتوفّٰکم پر معطوف ہو۔ مولٰہم الحق دونوں اللہ کی صفت ہیں۔ الحکم مبتدا لہ خبر مقدم وھو اسرع الخ جملہ لہ ضمیر سے حال بھی ہوسکتا ہے اور معطوف بھی جملہ مقدمہ پر۔ تفسیر : اس جگہ اور دوسری طرح سے اپنی قدرت اور حساب و حشر کا برحق ہونا بھی انسان کی حالت اندرونی و بیرونی سے ثابت کرتا ہے تاکہ اس بےصبرے انسان کو جو بن دیکھے خدا پر اور بن دیکھے مرنے کے بعد کے حالات پر تردد کرتا ہے یقین ہوجاوے۔ (1) وھوا لقاھر فوق عبادہ کہ اس کا اپنے بندں پر قبضہ و اقتدار ہے۔ جب انسان اپنی ابتدائِ آفرنیش کو دیکھتا ہے کہ ایک پانی کا قطرہ تھا۔ پھر رحم میں اس کے ہاتھ پائوں و دیگر اعضاء کا درست کرنا ‘ ہر چیز اس کے موقع پر لگانا ‘ قوائے عطا کرنا اور پھر کشاں کشاں اس کو باہر لانا اور ہر طرح کے کمالات جسمانی اور روحانی سے مزین کرنا اور پھر بےاختیار اس کو کشاں کشاں دوسرے عالم کی طرف منزل بمنزل لے جانا۔ جب تک اس عالم کے منازل طے کرتا تھا (اور وہ منازل اس کی حیات کے لیل و نہار ہیں) تو اس پر اس کی طرف کے نگہبان مقرر تھے یعنی ملائکہ جو اس کو بلیات سے محفوظ رکھتے تھے جیسا کہ ایک جگہ آیا ہے : 1 ؎ لہ معقبات من بین یدیہ ومن خلفہ یحفظونہ من امر اللّٰہ وما یلفظ من قول : سبحان اللہ کس لطف کے ساتھ مشرکوں کا برا طریقہ اور اس برے طریقہ پر چلنے والے کو سزا اور اپنا اس سزا پر قادر ہونا بیان کیا ہے اور اپنی ذات وصفات کے متعلق کس قدر اسرار ہیں فرمایا گیا ہے کہ جس کا مثل بیان کرنا بشر سے محال ہے۔ 12 منہ 1 ؎ ان آیات میں وجود ملائکہ پر تصریح ہے کیونکہ اعمال کا لکھنا قویٰ کا کام نہیں۔ 12 منہ الا لدیہ رقیب عتید وان علیکم لحافظین کراماً کاتبین۔ اور وہ اس کے اعمال بھی لکھتے ہیں اور اس کے قوائے بدنیہ بھی نگہبانِ الٰہی ہیں۔ (2) اور جب دوسرے عالم کی سڑک پر آیا تو حتی اذا جاء احدکم الموت توفتہ رسلنا۔ اس کے اس جسم سے تعلقات منقطع کرنے کے لئے اور اس جسم سے (کہ جس کی حفاظت گلنے سڑنے سے روح کرتی تھی اور روح کے کمالات کا جسم آلہ تھا) تعلق بستہ کو کاٹنے کے لئے ملائکہ کا آنا۔ (3) اور پھر اس کو مولیٰ حق کے پاس لے جانا اس کے قبضہ و اقتدار اور بندہ کے عجز کی پوری دلیل ہے۔ اس سفر کا اور اس میں انسان کی بےکسی اور اضطراری کا ہر شخص مقر ہے۔ آخر کوئی تو ہے جو اس کا دل چاہے یا نہ چاہے مگر اس کو جوان پھر بڈھا کرتا ہے۔ اس کے سفر کے یہی منازل ہیں کہ جس میں بےاختیار گھستا جاتا ہے۔ اگر کہو انسان کے قویٰ جب کم تھے صغر سنی تھی اور جب زیادہ ہوتے گئے ٗ جوانی شروع ہوئی اور جب کم ہونے شروع ہوئے ٗ بڑھاپا آیا اور جب کم ہوگئے یا کوئی عارضہ پیش آگیا۔ چراغ ٹھنڈا ہوگیا (اور یہی موت ہے اور یہ تمام حیوانات بلکہ نباتات میں بھی ہے) تو اس پر یہ کہا جاوے گا کہ آخر ان قویٰ میں کسی کا تصرف ہے۔ کون کم زیادہ کرتا ہے ‘ کون کمی زیادتی کے اسباب بہم پہنچاتا ہے۔ ضرور وہ اس کے جسم سے باہر اور ہے سو وہ بجز اللہ کے اور کوئی نہیں کہ جس کی طرف تمام علل و اسباب کا سلسلہ تمام ہوتا ہے۔ رد کا لفظ یہ بتلا رہا ہے کہ یہ خدا کے ہی پاس سے آیا تھا جو پھر وہیں چلا ہے۔ اس قبضہ کے بعد الا لہ الحکم گویا دلیل پر نتیجہ مرتب کردینا ہے حکم فطری اور شرعی سب اسی کو ہیں اور اسرع الحاسبین میں انسان کی اس مہلت چند روزہ کی بےثباتی کی طرف اشارہ ہے۔
Top