Tafseer-e-Haqqani - Al-An'aam : 42
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰۤى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَاَخَذْنٰهُمْ بِالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ یَتَضَرَّعُوْنَ
وَ : اور لَقَدْ اَرْسَلْنَآ : تحقیق ہم نے بھیجے (رسول) اِلٰٓى : طرف اُمَمٍ : امتیں مِّنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے فَاَخَذْنٰهُمْ : پس ہم نے انہیں پکڑا بِالْبَاْسَآءِ : سختی میں وَالضَّرَّآءِ : اور تکلیف لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَضَرَّعُوْنَ : تاکہ وہ عاجزی کریں
اور البتہ ہم نے آپ سے پہلی امتوں کی طرف بھی رسول بھیجے ہیں۔ سو ہم نے ان لوگوں کو خوف اور مرض میں مبتلا کیا کہ (کہیں) عاجزی کریں۔
ترکیب : فلولا کلمہ تخصیص ہے اذ جاء ھم ظرف ہے تضرعوا کا۔ زین جملہ معطوف ہے قست قلوبہم پر۔ ماکانوا جملہ مفعول ہے زین کا لہم اس سے متعلق ہے۔ تفسیر : پہلے ذکر تھا کہ شدائد میں کفار بتوں کو چھوڑ کر اس کی طرف رجوع کرتے ہیں پھر وہ اپنی رحمت سے ان کی مصیبت دور کردیتا ہے (غالباً مکہ یا عرب کے بت پرست ایسا کرتے تھے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کی قدرت کاملہ کے بھی قائل تھے۔ البتہ بتوں اور تھانوں اور دیگر خیالی معبودوں کو خدا کی طرف کارکن سمجھ کر پوجتے اور ان کو پکارتے تھے جیسا کہ اکثر ہندو کرتے ہیں) اب یہاں یہ بات بتاتا ہے کہ اے نبی علیک السلام ان سے بھی بڑھ کر سیاہ دل قومیں گذری ہیں کہ وہ مصیبت کے وقت بھی خدا کو پکارنا بھول گئی تھیں پھر جب ان کی یہ حالت ہوئی اور انبیاء کی تمام وعظ و نصیحت کو بالائے طاق رکھ دیا تو پھر ان پر اپنی نعمت کے دروازے کھول دیے۔ غلے اور میوے ہیں کہ خوب پیدا ہوتے ہیں۔ تجارت اور صنعت میں کامیابی ہے۔ الغرض ہر ایک قسم کی خوشی اور کامیابی دیکھی گئی۔ (جیسا کہ آج کل اہل یورپ اور ان کے ہم خیال لوگوں کو ہے) یہ اس لئے کہ سختی سے وہ خدا کی طرف رجوع نہ ہوئے۔ کاش اس راحت اور سرور میں ہی اس کی طرف رجوع کریں مگر یہ بھی نہ ہوا کیونکہ ان کے دل سیاہ ہوگئے تھے۔ وہ اس سختی اور تنگدستی کے زمانہ کو اور پھر اس راحت و سرور کے عہد کو اپنے گناہوں پر خدا کی طرف سے تنبیہ و آزمائش خیال نہیں کرتے تھے بلکہ اپنی سوئِ تدبیری اور خوش تدبیری کا نتیجہ کہتے تھے۔ ان کے محقق خدا کو وہمی چیز خیال کرنے لگے کہ صاحب ہم نے یوں کوشش کی اور یہ کیا اور یوں تدبیر کی تو یوں راحتیں ہم کو نصیب ہوئیں اور ایسا نہ کیا تھا تو تنگدستی ‘ بد اقبالی تھی۔ اس میں خدا نے کیا کردیا اور خدا کیسا جیسا کہ آج کل دہریوں کے خیالات فاسدہ ہیں (مانا کہ عالم اسباب میں بندہ کی خوش تدبیری اور بدتدبیری کو دخل ہے مگر ارضی و سماوی راحت و مصیبت میں کیا دخل ہے اور نیز خوش تدبیری اور بدتدبیری ادھر سے ہے) پس جب ان کی یہ حالت ہوئی تو ان پر خدا کی طرف سے ناگہانی بلا نازل ہوئی اور وہ قومیں ہلاک ہوگئیں۔ ایسی راحت و سرور کی حالت میں بلا آنا بھی غضب ہے۔ ولقد ارسلنا الی امم جیسا کہ بابل اور نینوا اور صمور کے لوگوں کے پاس انبیاء آئے تھے۔ فاخدناھم بالباساء الخ پھر ان پر بیماری اور قحط اور بےامنی کی بلائیں بھی نازل ہوئیں۔ لعلہم یتضرعون تاکہ عاجزی اور خدا کی طرف رجوع کریں۔ التضرع التخنفع وھوالا نقیا دو ترک التمر ولکن قست قلوبہم ان کے دل سخت ہوگئے تھے جن میں الحادو شہوت وتکبر کے سوا اور کچھ نہ تھا اس پر زین لہم الشیطان الخ شیطان نے افعالِ بد کو ان کی آنکھوں میں خوب چبھا دیا تھا کہ وہ ان کو بہت اچھا سمجھتے تھے۔ فلما نسوا پھر جب وعظ و نصیحت کو بھول گئے تو فتحنا علیہم ابواب کل شیء ان پر راحت اور سرور کے درازے کھول دیے۔ امتحان و آزمائش کے لئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے گناہ کرنے پر جب انسان کو سزا نہ ملے بلکہ راحت و کشائش پیش آوے تو اس کو قہر الٰہی سے ڈرنا چاہیے (معالم) کیونکہ یہ ایسی راحت ہے جس طرح پھانسی دینے سے پہلے اس کو ہر قسم کے کھانے پینے کی رخصت دیتے ہیں پھر قطع دابر القوم خدا نے ان کی جڑ کاٹ دی۔ سینکڑوں نشان 1 ؎ ان کے اجاڑ شہروں میں اب تک پائے جاتے ہیں۔ یہ ہلاکت کبھی زلزلہ سے ہوئی جیسا کہ کئی سو برس ہوئے کہ اٹلی میں کئی شہر اور ہزاروں آدمی غارت ہوگئے اور کبھی کسی قہار بادشاہ کے ہاتھ سے اور کبھی آسمان سے پتھر برسانے سے اور کبھی وباء اور قحط سے۔
Top